alif | الف


2.7/5 - (3 votes)

 الف –Alif

علم

دنیا میں تمام علوم، فلسفہ اور سائنس کی بنیاد عقل وخرد پر ہے اور یہ سب عقل کے ذریعے ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام علوم کثرت کے دائرہ میں آتے ہیں اور انسانی عقل بھی صرف کثرت میں رہ کرہی کام کرسکتی ہے۔ اسکے برعکس مالکِ کل کثرت سے مبرّا ہے، وہ وحدت، احد کی صورت ہے لہٰذا اس سے متعلقہ علم یا روحانیت کی بھی وہی صورت ہے۔ کثرت کی دنیا میں مقید انسانی علم اور عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی۔

عام لوگ عارفین کی تعلیمات کو عقلی طور پر ایک حد تک ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ مشاہداتِ حق پر مبنی یہ علمِ حق مکمل طور پر عقل کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ عام طور پر جب اللہ اور دین سے متعلق کسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے عقل کا استعمال کیا جاتا ہے تو دائرہ عقل محدود ہونے کی وجہ سے اس سمجھ میں تنگ نظری کو زیادہ دخل حاصل ہوتا ہے۔ اس تنگ نظری کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہبی راہنماؤں کے ہاتھوں علمِ دین پیٹ کا دھندہ بن جاتا ہے اور اللہ کی مخلوق میں تفرقہ پیدا کر کے جھگڑے اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ دلائل اور بحث ومباحثہ سے اپنے مسلک، فرقہ، گروہ اور جماعت کو دوسرے کے مسلک، فرقہ، گروہ اور جماعت سے برتر ثابت کیا جاتا ہے اور یوں لوگ حقیقی دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

عقلی بنیاد پر حاصل کیا گیا علم انفرادی سطح پر بھی کبھی کبھی حق کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کے اندر چھپی ہوئی انانیت کو ابھارتا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور پھر یہ علم بندے اور اللہ کے درمیان بہت بڑے حجاب کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔

علم کی بے شمار اقسام ہیں لیکن بہترین علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے فانی ہے اور فانی کا علم بھی فانی ہے، بقا صرف اللہ کو ہے اور باقی کا علم حیاتِ جاودانی ہے۔ اس لیے جو علم باقی کی پہچان اور معرفت نہ کرائے وہ جہالت ہے اور جو علم باقی تک لے جائے وہی علمِ حقیقی ہے۔

عارفین نے اپنی کتب میں ہمیشہ علم کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ جہاں کہیں بھی علم کی مذمت نظر آتی ہے وہاں علمِ بے مغز مراد ہے۔ علم ایک نور ہے اور علم ہی عقل کے اوپر پڑا ہوا ایک پردہ بھی ہے۔ وہ علم جو حقیقت تک پہنچا دے وہ نور ہے اور جو حقیقت سے دور کر دے وہ علم عقل پر ایک پردہ بن جاتا ہے جس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ ہے:
اَلْعِلْمُ حِجَابُ اللّٰہِ
الْاَکْبَرِ  
 ترجمہ:علم ہی اللہ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہے۔

علمِ حصولی سے مراد وہ علم ہے جو عقل کے دائرہ کار میں رہ کر حاصل کیا جاتا ہے یعنی وہ تمام علوم جو ہم دیکھنے، سننے، سمجھنے اور سونگھنے یعنی حواسِ خمسہ کے ذریعے اپنے اردگرد سے حاصل کرتے ہیں یا وہ علم جو کسی مدرسہ، کالج، یونیورسٹی سے یاکتب پڑھ کر یا تحقیق کرکے حاصل کرتے ہیں۔

علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ سے مراد وہ علم ہے جو عشقِ حقیقی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ علمِ حق ہے جو مرشد اپنی نگاہ اور توجہ سے طالب کے قلب پر وارد کرتا ہے۔ علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ ذکر، فکر، تفکر، تدبرّ، مراقبہ، الہام، کشف اور وَھم کسی بھی ذریعے سے عطا کیا جاسکتا ہے۔ اس علم میں کتب اور پڑھنے پڑھانے کا دخل نہیں ہے۔ بس قلب میں اللہ تعالیٰ کا نور چمکتا ہے اور وہ جو اسرار چاہتا ہے کھول دیتا ہے۔ اس علم کے حصول کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ مرشد کامل سروری قادری اور ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات ہے۔

علمِ حصولی وہ علم ہے جو انسان کو بذریعہ امورِ خارجی حاصل ہو جیسے کہ اپنے غیر کا علم جبکہ علمِ حضوری وہ علم ہے جو بلا ذریعۂ خارجی حاصل ہو جیسے کہ انسان کی اپنی ذات و صفات کا علم۔

(سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ سے اقتباس)


اپنا تبصرہ بھیجیں