نقطہ نظر
ڈاکٹر وسیم اکرم
ترجمان تحریک دعوتِ فقر (رجسٹرڈ) پاکستان (برائے امورِ داخلہ)
دین ِاسلام کا حسن یہ ہے کہ نہ صرف سال کے آغاز میں بلکہ اس کے اختتام میں بھی عشق، وفا اور قربانی کا درس دیا جاتا ہے۔ یعنی سال کا آغاز محرم الحرام میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی یاد دلاتا ہے توسال کا اختتام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی۔ وفا اور قربانی ہی دین اسلام اور فقر محمدیؐ کی اساس ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
’’قربِ الٰہی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان اپنا گھر بار راہِ خدا میں قربان نہیں کر دیتا اور تکالیف و مصائب میں مرشد کے ساتھ وفا میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی۔‘‘
انبیا کرامؑ، اصحابِ رسولؐ اور فقرا کاملین کی بیشمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر وفا و عشق کی تاریخ رقم کی۔ حضرت ابراہیم ؑکو اگر سعادت مند بیٹے کی قربانی سے آزمایا گیا تو حضرت اسمٰعیل ؑ نے بھی راہِ حق میں جان کی قربانی سے انکار نہ کر کے مثال قائم کی۔ وفا و قربانی کی اس روایت کو امام حسینؓ نے اپنی آل اولاد اور اپنی قربانی پیش کر کے کمال عطا کیا۔ان ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کے صبرکے کیا کہنے جنہوں نے اپنے شوہروں، بیٹوں، باپوں اور بھائیوں کو راہِ حق میں قربان ہوتے دیکھ کر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آج اگر اسلام زندہ ہے تو امام حسینؓ کی اسی قربانی کی بدولت۔ آج اگر ہمارے ایمان محفوظ ہیں تو صبر و وفا کی اسی مثال کی بدولت جنہوں نے حق کا عَلم بلند کرنے کے لیے پائے استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہ آنے دی اور نہ ہی کوئی رشتہ و تعلق ان کے عزم اور ارادہ کو متزلزل کر سکا۔ بلاشبہ تسلیم و رضا، عشق ِ حقیقی، وفا و قربانی اور استقامت کی اس سے بہترین مثال کہیں موجود نہیں اور نہ ہوگی۔ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیل ؑ
اصحابِ رسولؐ کی سیرت مبارک کا بغور مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر وہ کونسا جذبہ تھا جس کی بدولت انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور راہِ حق میں اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کر دیا۔ جائیدادیں چھوڑ دیں، عہدوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، قبیلہ والوں اور عزیز و اقارب کی مخالفتیں مول لیں، بے شمار تکالیف اور مصائب برداشت کیے، گھر سے بے گھر ہو گئے، ہجرت کی اور راہِ حق میں ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ جن کو محض پڑھ کر ہی روح کانپ جائے۔ ہجرت کے بعد بھی آزمائشوں اور تکالیف کا سلسلہ کم یا ختم نہیں ہوا بلکہ حق و باطل کی جنگوں میں اصحاب اور صحابیات نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اخلاص، عشق اوروفا و قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ وہ عظیم صحابہ جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی ’’ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑیں‘‘ ایسے اصحاب کسی دوسرے نبی و پیغمبر کو عطا نہ ہوئے کہ جنگ میں بھائی بھائی اور باپ بیٹا مد مقابل ہیں مگر عشق ِ رسولؐ میں سرشار ان عظیم ہستیوں کے ہاتھ نہ کانپے۔ انہی اصحاب کی مثال دیتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ستاروں کی مانند ہیں جن کی پیروی اور جن کے نقش ِ قدم پر چلنے سے ہی کامیابی نصیب ہوگی۔بلاشبہ وہ جذبہ فقر محمدیؐ تھاجس نے عرب کے بدو اور اونٹ چرانے والے سادہ سے افراد کو عرش کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور رہتی دینا تک راہِ حق میں کامیابی کے لئے مشعل ِ راہ بنا دیا۔
14 اگست 1947ء (27 رمضان المبارک) کو معرضِ وجود میں آنے والی پاک سرزمین بھی بے شمار قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ انہی مبارک ساعتوں میں سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ہوئی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ پاکستان ہی فقر ِ محمدیؐ کا مرکز ہوگا اور یہیں سے دنیا بھر میں فقر محمدیؐ کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے گا جو کہ دین اسلام کی اصل روح ہے۔ مگر افسوس اس قوم پر جو اپنے بزرگوں کی ان قربانیوں کو بھول گئے جو انہوں نے راہِ حق میں دیں اور نہ صرف اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائے بلکہ اپنے ایمان کی مضبوطی اور عشق ِ حقیقی کا بھی ثبوت دیا۔ تاہم آج کے مسلمان نفسانی خواہشات کی تکمیل کی خاطر نہ صرف اس وطن عزیز کے قیام کا مقصد بھول گئے بلکہ اپنی آخرت اور دائمی منزل کو بھی فراموش کر دیا اور یہ تک بھلا دیا کہ اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا بلکہ اپنے اصلی وطن واپس بھی لوٹنا ہے۔
وہ جو فقر کا مرکز و محور تھے، جنہوں نے دنیا بھر کو فقر سے روشناس کروانا تھا مگر آج خود ہی اس حقیقت سے انجان ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ابھی بھی اپنے بندوں کو فراموش نہیں کیا بلکہ وہ تو ہمیشہ کی طرح ہر دور میں نفس و شیطان کے چنگل سے آزادی اور گمراہی سے بچانے کے لیے اپنے خاص بندے بھیجتا رہتا ہے جو نائب ِرسولؐ کے منصب پر فائز عین قدمِ محمدؐپر ہوتے ہیں۔ اللہ کے یہ منتخب اور خاص الخاص بندے فقرا کاملین ہیں جو حقیقت ِ محمدیہ کامظہر اور مرشد کامل اکمل ہوتے ہیں۔ یہی فقرا کاملین انبیا و صحابہ کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے تکالیف ،پریشانیوں اور رکاوٹوں کے باوجود دین کے احیا کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
آج کے دور میں فیض ِ فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کا سہرا سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ کے روحانی وارث اور امانت ِ فقر امانت ِ الٰہیہ کے حامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے سر پر ہے جنہوں نے مسند ِتلقین و ارشاد سنبھالتے ہی اس عظیم الشان مقصد یعنی ترویج ِ فقر کے لئے عملی اقدامات کیے اور انتہائی کٹھن اور دشوار حالات اور بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود اسم ِاعظم کا فیض پوری دنیا میں عام فرما دیا۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا یومِ ولادت بھی اسی مبارک مہینے میں ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس 19 اگست کو اس جہانِ رنگ و بو میں جلوہ گر ہوئے اور اس بابرکت دن کومریدین یا محبین سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نہایت عقیدت اور جوش و جذبے سے مناتے ہیں اور آپ مدظلہ الاقدس کی فقر کے فروغ کے لئے بے مثال کاوشوں اور انتھک محنت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس نہ صرف تحریک دعوتِ فقر (رجسٹرڈ) پاکستان کے بانی اور سرپرست ِاعلیٰ ہیں بلکہ تعلیماتِ فقر کے حقیقی ترجمان بھی ہیں۔ بحیثیت مرشد کامل آپ مدظلہ الاقدس نے تاحال لاکھوں لوگوں کو فیض ِ فقر سے سرفرازفرمایا بلکہ اپنی نگاہِ کامل کی تاثیر سے ان کے نفوس کا تزکیہ کر کے قلوب کو عشق ِ حقیقی سے سرشار فرمایا۔ یہ فیض ِ فقر صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تحریک دعوتِ فقر بین الاقوامی سطح پر بھی عوام الناس کو دعوتِ حق دے رہی ہے۔آئیے ! آپ بھی تحریک دعوتِ فقر کے پرچم تلے راہِ حق کے مسافر بن کر دین و دنیا کی کامیابیاں اپنے نام کریں۔