مفلسی اور طمع | Muflisi or Tamma


Rate this post

مفلسی اور طمع

مراسلہ: احسن علی سروری قادری

ایک شیر کسی مست ہاتھی کے مقابلے میں زخمی ہو کر اپنی کچھار میں جا بیٹھا۔ اس قدر زخمی ہوا کہ شکار کرنے کے قابل بھی نہ رہا۔ چند دن اسی طرح ہی گزر گئے۔ جب اسے بھوک لگی تو اس نے لومڑی کو بلا کر کہا ’’کسی گدھے یا گائے کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا کر اس طرف لے آؤ  تاکہ میں آسانی سے اس کا شکار کر لوں۔‘‘

ایک غریب دھوبی کا گدھا بُرے حال میں زندگی گزار رہا تھا۔ جس کی پیٹھ زخمی اور پیٹ خالی تھا۔ وہ بے چارہ بے آب و گیاہ پہاڑیوں کے درمیان پھر رہا تھا۔ لومڑی اسے دیکھ کر اس کے قریب گئی۔ حال و احوال معلوم کرنے کے بعد لومڑی نے کہا ’’بھائی گدھے! کب تک تم اس سنگلاخ اور خشک جگہ میں مصیبتیں جھیلتے رہو گے تم کتنے کاہل اور سست ہو ورنہ قریب ہی جنگل میں ہری بھری گھاس کی فراوانی ہے۔ وہاں آکر تم چند دن رہو، ہری بھری گھاس کھانے سے تم تندرست و توانا اور صحت مند ہو جاؤ گے۔‘‘ 

گدھے نے کہا ’’اگر میں غم و الم میں مبتلا ہوں تو کوئی بات نہیں۔ جو مقدر میں لکھا ہے مل جاتا ہے۔ قضا سے عدول ممکن نہیں۔ اس کا گلہ کرنا کفر ہے جبکہ صبر کا بڑا اجر ہے کیونکہ اس سے ہی کشائش ملتی ہے۔ سب کا روزی رساں وہی ہے۔ اس کے خزانے میں کمی نہیں، کوئی بھی بھوکا نہیں مرتا۔ وہ مجھے دہی دینا ہی مفید سمجھتا ہے تو میں شہد کیوں مانگوں! جتنی نعمت زیادہ ہوگی اتنا ہی غم بڑھے گا۔ خزانے کی طرف جاؤ گے تو سانپ کاٹنے کو دوڑے گا، پھول کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو کانٹا چبھے گا۔ اس دنیا میں خوشی کے ساتھ غم لگا ہوا ہے۔‘‘

مکار لومڑی نے کہا ’’بھائی گدھے! حلال رزق کی تلاش فرض ہے۔ دنیا عالمِ اسباب ہے۔ یہاں بغیر کوشش کے رزق نہیں ملتا۔ رزق بند دروازوں اور قفلوں کے اندر ہے۔ یہ قفل تبھی کھلتے ہیں جب کوئی آدمی کسب اور کوشش کرے۔ بغیر طلب اور کوشش کے روٹی نہیں ملتی۔ بے شک قناعت ایک خزانہ ہے مگر یہ خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا۔‘‘

گدھے نے کہا ’’میں نے تو آج تک نہیں سنا کہ کوئی قناعت سے مر گیا ہو اور کوئی حریص آدمی محض اپنی کوشش سے بادشاہ بن گیا ہو۔‘‘ 

لومڑی کہنے لگی ’’اگر کوئی کنویں میں بیٹھا رہے تو اسے وہاں رزق نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘ 

گدھا نے جواب دیا ’’خدا کنویں میں بھی رزق پہنچا دیتا ہے بشرطیکہ اس کی ذات پر پورا توکل ہو۔ جس نے جان دی ہے وہ نان بھی دے گا۔ چوپائے اور درندے سب رزق کھاتے ہیں۔ وہ نہ تو کوئی کسب کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا رزق اُٹھائے پھرتے ہیں۔‘‘

لومڑی نے پھر کہا ’’بھائی گدھے! ایسا توکل کون کر سکتا ہے، یہ نادر بات ہے، نادر کے گرد پھرنا نادانی ہے۔ تو اپنی قدر پہچان اور اپنی قدر سے بڑھ کر قدم نہ رکھ تاکہ تُو کہیں منہ کے بل نہ کر پڑے۔ کوشش کر اور روزی کی تلاش کے لیے باہر نکل تجھے توکل کرنے کی طاقت حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘

گدھا کہنے لگا ’’بہن! تو کیسی اُلٹی باتیں کر رہی ہے۔ طمع میں بڑی خرابیاں ہیں جبکہ قانع آدمی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہمیشہ طمع کرنے والے ہی کی جان جاتی ہے۔ جس طرح تُو رزق پر عاشق ہے اسی طرح رزق بھی تجھ پر عاشق ہے صابروں کی طرف رزق خود اُڑ کر جاتا ہے۔‘‘

لومڑی کہنے لگی ’’بھائی! یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، یہ سب پہنچے ہوئے لوگوں کی باتیں ہیں۔ کوشش کے بغیر کامیابی محال ہے۔ غرض اسی بحث و تکرار میں لومڑی گدھے کو شیر کی کچھار کی طرف لے کر چلنے لگی۔ اللہ کا حکم ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو یہاں قریب ہی ایک وسیع سبزہ زار ہے جس میں ہر طرف چشمے اور ندیاں بہہ رہی ہیں کمر کمر تک گھاس اُگی ہوئی ہے۔ یہ سبزہ زار جانوروں کے لیے بہشت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر آپ بیابان میں ایڑیاں رگڑتے رہے تو اس کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس جنت جیسی سرسبز چراگاہیں جہاں اونٹ بھی ناپید ہو جاتا ہے جو حیوان وہاں جا پہنچے وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے۔ گدھے کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ وہ اس جنت کی رہائشی سے پوچھتا کہ تو وہاں رہ کر ایسی مردہ شکل کیوں بنی ہوئی ہے۔ تیرا جسم اتنا کیوں لاغر و نحیف ہے؟ تیری آنکھیں لطف و سرور سے مخمور کیوں نہیں۔ تو ایسے تر و تازہ چشمہ پر سے آئی ہے تو تیرے جسم پر خشکی کیوں چھائی ہوئی ہے۔ اگر تو گلزارِ جنت سے آئی ہے تو تحفہ کے لیے تیرے پاس کونسا گلدستہ ہے؟ اس گلستان کے آثار تو تیری ذات میں دکھائی نہیں دے رہے؟

بے چارہ بھوکا پیاسا گدھا کھانے کی حرص میں اس کے ساتھ چلتا رہا۔ جس کے پاس دانش و خرد نہ ہو وہ دلائل سے کیا کام لے سکتا ہے۔ لومڑی اس بے چارے کو چکمہ دے کر شیر کے پاس لائی۔ بھوک کی وجہ سے شیر کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی۔ گدھے کو آتے ہوئے دیکھ کر صبر نہ کر سکا خوشی سے اُچھلا اور گرجا۔ گدھا شیر کو دیکھ کر اُلٹے پاؤں پہاڑ کی طرف بھاگا اور ہانپتا ہانپتا اپنے محفوظ مقام پر جا پہنچا۔ شیر میں دوڑنے کی طاقت نہیں تھی وہ منہ تکتا رہ گیا۔

لومڑی نے شیر سے کہا ’’جناب! آپ نے تو بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔ گدھے کو قریب تو آنے دیا ہوتا، ذرا صبر نہ کیا۔ آپ کو معلوم نہیں کہ جلد بازی نقصان دہ ہوتی ہے۔ افسوس! آپ کے ضعف نے آپ کا وقار کھو دیا۔‘‘ شیر نے کہا ’’حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی کمزوری سے بے خبر تھا۔ بھوک اور احتیاج نے غلبہ کر کے مجھ سے میرا صبر و عقل چھین لی۔ میں نے اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ اے عقلمندوں کی سردار! پھر کوئی ترکیب کر کے اس گدھے کو یہاں لے آؤ اب وار خالی نہیں جائے گا۔‘‘ لومڑی نے کہا ’’انشا اللہ! میں پھر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہاں لے آئوں گی آخر ہے تو پھر بھی گدھا ہی۔ مگر سرکار! اب اتنی مہربانی کرنا کہ پہلے کی طرح ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ اب دعا کرنا پھر گدھے کی عقل پر غفلت طاری ہو جائے۔ گدھے نے تو توبہ کر لی ہوگی کہ اب وہ کسی کے جھانسے میں نہیں آئے گا۔ ہم بھی فنکار ہیں کسی نہ کسی طریقے سے اس کی توبہ توڑ دیں گے کیونکہ ہم عقل اور عہد کے دشمن ہیں۔ گدھے جیسے جانور کے عہد اور ان کی سوچ پر غلبہ پانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جب کوئی نقصِ عہد اور شکستِ توبہ کا مرتکب ہو جائے تو اس کی بربادی یقینی ہوتی ہے۔ اگر گدھا اپنا عہد توڑ دے گا تو اس کی عقل مسخ ہو جائے گی اور ہمارے ہتھے چڑھ جائے گا۔‘‘

مکار لومڑی معصوم سا چہرہ بنا کر دوبارہ گدھے کے پاس گئی۔ گدھا بہت غصے میں تھا۔ کہنے لگا ’’بی لومڑی! تو بہت فریبی نکلی، میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ تُو مجھے موت کے منہ میں لے گئی۔ تجھ جیسا دوست ہو تو پھر دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ جس طرح شیطان آدم ذات کا دشمن ہے اسی طرح توُ نے مجھ بے گناہ کے ساتھ کیا۔‘‘ لومڑی نے کہا ’’بھائی گدھے! میں تمہیں یہ بتانا بھول گئی تھی کہ وہاں جادو کا طلسم ہے جو شیر کی شکل میں دکھائی دیتا ہے اور یہ طلسم اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ ہر کس و ناکس چرند اس مرغزار میں نہ گھس آئے۔ اگر یہ طلسم نہ ہو تو مرغزار ایک ہی دن میں اُجڑ جائے۔‘‘ گدھے نے کہا ’’اے مکار لومڑی! میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ، میں تیری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ تو کس منہ سے دوبارہ میرے پاس آئی ہے۔ اے ظالم! توُ میرے خون کی پیاسی ہو کر بڑی بے شرمی سے کہتی ہے کہ میں مرغزار کی طرف تیری رہبر ہوں۔ خدا نے مجھے عزرائیل کے پنجے سے بچایا ہے۔ تو مجھے پھر پھنسانا چاہتی ہے۔ مان لیا کہ میں گدھا ہوں مگر بی لومڑی جان ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے۔ جو خوف مجھے لاحق ہوا ہے یہ اگر کسی لڑکے کو ہوتا تو وہ بوڑھا ہو جاتا۔ داناؤں نے سچ کہا ہے کہ بُرے یار سے سانپ بھلا۔ زہریلا سانپ تو جان ہی لیتا ہے مگر برُا دوست ساتھ ایمان بھی برباد کر دیتا ہے۔ لومڑی کہنے لگی ’’بھائی گدھے! میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں۔ تجھے یونہی وہم ہو گیا ہے۔ جہاں وہم داخل ہو جائے وہاں دوست بھی دشمن نظر آنے لگتا ہے۔ میرے محترم! وہ محض طلسم تھا جو آپ کو نظر آیا۔ حقیقت میں وہاں کوئی شیر نہیں ہے۔ اگر وہاں شیر ہوتا تو میں آپ سے بھی زیادہ کمزور ہوں تو مجھے وہ کب زندہ چھوڑتا۔ میں تیری دوست اور خیر خواہ ہوں۔ خیال اور خوف کی دنیا سے نکل آؤ۔‘‘ 

گدھے نے لومڑی کی باتوں کا جواب دینے کی بہت کوشش کی لیکن بھوک کی بیماری اس پر غالب آئی، حرص کی بیماری صبر پر غالب آ گئی۔ غریبی، مفلسی اور بے صبری میں فقر و فاقہ کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ گدھے نے دل میں سوچا فرض کرو کہ لومڑی مکر و فریب سے کام لے رہی ہے اور مجھے ہلاک کروا دے گی، جس عذابِ گرسنگی میں پھنسا ہوا ہوں اس سے تو موت بہتر ہے۔ روز روز کے مرنے سے ایک دن ہی مر جانا بہتر ہے۔ مایوسی اور حرص اندھا اور احمق بنا کر باآسانی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ گدھے نے بیوقوفی کی وجہ سے توبہ توڑ دی۔ گدھے کو اپنے خالق و مالک پر اعتماد نہ تھا کہ وہ غیب سے اس کی بھوک مٹانے کا سامان کر دے گا۔ نادان گدھا اپنے مقتل کی طرف چل پڑا۔ جونہی وہ شیر کے قریب پہنچا تو شیر پہلے ہی تیار تھا۔ وہ غرّا کر اُٹھا اور ایک ہی پنجے سے اس کا کام تمام کر دیا۔

شیر پانی پینے کے لیے چشمے پر گیا۔ عقلمندوں کی سردار کو موقع مل گیا۔ شیر کی غیر موجودگی میں لومڑی گدھے کا دل، دماغ اورجگر نکال کر ہڑپ کر گئی۔ شیر نے واپس آکر ان چیزوں کی تلاش شروع کی مگر اسے کچھ نہ ملا۔ اس نے لومڑی سے پوچھا کہ ہر جانور کا دل، دماغ اور جگر ہوتا ہے۔ گدھے کا کہاں ہے؟ لومڑی نے جواب دیا ’’اگر یہ اعضائے رئیسہ اس کے وجود میں ہوتے تو یہ بیچارہ دوبارہ موت کے منہ میں آتا۔‘‘

دل میں اگر نور نہ ہو تو وہ دل نہیں، بدن میں اگر روح نہ ہو تو وہ بت ہے بدن نہیں۔ مصباح کا نور اللہ کی عطا ہے، چمنی اور لیمپ بندوں کی مصنوعات ہیں۔ جس نے نور کو دیکھا وہ مومن بن گیا۔ جس نے لیمپ اور چمنی کو دیکھا وہ یہودی مشرک بن گیا۔ جسے پہلے آزما لیا گیا ہو اسے دوبارہ نہیں آزمانا چاہیے۔ 

درس:

حرص اور طمع آخر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں خالق و مالک کی ذات پر مکمل بھروسا رکھنا چاہیے۔ وہ اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے۔
نفس اور شیطان انسان کو بہلا پھسلا کر قناعت اور توکل کے راستے سے گمراہ کر دیتے ہیں اور انسان بالآخر ہلاک ہو جاتا ہے۔
مایوسی گناہ ہے۔

(حکایاتِ رومیؒ سے انتخاب)

 

22 تبصرے “مفلسی اور طمع | Muflisi or Tamma

  1. حرص اور طمع آخر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں خالق و مالک کی ذات پر مکمل بھروسا رکھنا چاہیے۔ وہ اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے

    1. مفلسی اور طمع انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں۔

  2. مولانا روم کی بہترین حکایات میں سے بہترین حکایت ہے

  3. جتنی نعمت زیادہ ہوگی اتنا ہی غم بڑھے گا۔ خزانے کی طرف جاؤ گے تو سانپ کاٹنے کو دوڑے گا، پھول کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو کانٹا چبھے گا۔ اس دنیا میں خوشی کے ساتھ غم لگا ہوا ہے۔

    جتنی نعمت زیادہ ہوگی اتنا ہی غم بڑھے گا۔ خزانے کی طرف جاؤ گے تو سانپ کاٹنے کو دوڑے گا، پھول کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو کانٹا چبھے گا۔ اس دنیا میں خوشی کے ساتھ غم لگا ہوا ہے۔
    مکمل مضمون پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک کو وزٹ کریں۔
    جتنی نعمت زیادہ ہوگی اتنا ہی غم بڑھے گا۔ خزانے کی طرف جاؤ گے تو سانپ کاٹنے کو دوڑے گا، پھول کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو کانٹا چبھے گا۔ اس دنیا میں خوشی کے ساتھ غم لگا ہوا ہے۔
    مکمل مضمون پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک کو وزٹ

  4. بے شک قناعت ایک خزانہ ہے مگر یہ خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں