اولیا اللہ کا مقام (Auliya Allah Ka Muqam)
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ سیالکوٹ
اولیا اللہ سے مراد وہ مخلص اہلِ ایمان ہیں جو اللہ پاک کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ولی کے معنی ہیں ’’خدا کا دوست، خدا کے قریب ، جذبۂ عشق رکھنے والا‘‘۔ایسا عشق جو طالب کو مطلوب کی ذات میں اس قدر محو اور مستغرق کر دیتا ہے کہ وہ اللہ پاک کی اطاعت اور رضا سے ذرّہ بھر سرتابی نہیں کرتا۔
اولیا اللہ وہ پاکیزہ اور انعام یافتہ ہستیاں ہیں جو ’’ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ کے مقام پر فائز ہیں۔علم ان کا اعزاز، عشقِ خداوندی ان کا افتخار ، محبتِ رسولؐ ان کا امتیاز، قرآن ان کی پہچان، عمل صالح ان کی زندگی کا شعار، فقر ان کی ڈھال، سادگی و درویشی ان کی زِرّہ بن کر انہیں راہِ حق پر چلتے رہنے کاحوصلہ بخشتے ہیں۔جیسا کہ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اولیا اللہ بندگانِ خدا گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان ہوتے ہیں اس لیے ان کے ارادوں کی مضبوطی میں قوتِ خداوندی کا پر تو ہوتا ہے اور ان کے عزائم کی وسعت میں شوکتِ الٰہی کے لامتناہی مظاہر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن ہستیوں کو ان کا ربّ ہمیشگی عطا کر رہا ہو، حیاتِ دوام سے نواز رہا ہو، جن کے ہر نقشِ حیات کو اہلِ ایمان کے جادۂ حق کی منزل قرار دے رہا ہو وہ وقت کی آندھیوں سے کس طور مٹ سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ خلق کی ظاہری اور باطنی اصلاح کے لیے انبیا کرامؑ تشریف لائے۔جب نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سلسلۂ نبوت ختم ہوگیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظرِ کرم سے دو گروہوں کے ذمہ یہ کام سپرد کیا گیا۔ ظاہری اصلاح کے لیے علمائے کرام مقرر ہوئے مگر باطنی اصلاح کے لیے اولیا اللہ کا گروہ منتخب ہوا۔تمام ارکانِ شریعت پر عمل اور آگہی کا کام علما کے سپرد ہوا۔ مگر ان تمام امور میں خلوص کا درس،جسکی بدولت مقبولیت کے مقام تک رسائی ممکن ہو، اولیا اللہ کے سپرد ہوا۔ ایمان کا درس عالم دین سے ملتا ہے تو اس کی حفاظت کا مقام اولیا اللہ سے ملتا ہے۔اس طرح اولیا علما کے شاگرد ہوئے لیکن دوسری طرف علما اولیا اللہ کے مرید ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بوقتِ نزع شیطان نے امام فخر الدین رازی (عالمِ دین) کے دلائل توڑ دیے مگر خواجہ نجم الدین کبریٰؒ نے جو اُن کے مرشد اور ولی اللہ تھے، سینکڑوں میل دور بیٹھے بھی اپنے مرید کی مدد کی اور امام فخر الدین رازی سے بے ساختہ کہلوایا کہ میں نے بغیر دلیل کے خدا کو مانا ہے اور اسی پر میرا ایمان ہے۔مرشد کامل ولی اللہ کی اس مدد کی وجہ سے مولانا فخرالدین رازی ایمان سلامت لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
اللہ کے دوستوں کی پہچان
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اولیا اللہ مثل دلہن کے ہیں اور دلہن تک رسائی سوائے اس کے محرم کے کوئی نہیں کر سکتا کہ ’’ولی راہ ولی می شناسد‘‘ کے مطابق ولی کو ولی ہی جانتا ہے یا وہ شخص جس کو وہ نفع پہچانا چاہے۔
شیخ ابو العباس کے مطابق خدا کا پہچاننا آسان ہے مگر ولی کا پہچاننا مشکل ہے کیونکہ خدا اپنی ذات اور صفات میں مخلوق سے ممتاز ہے اور ہر مخلوق اس پر گواہ ہے مگر ولی شکل و صورت میں اور اپنے افعال میں عام انسانوں کی طرح ہے۔(اولیا اللہ کا مقام)
حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں:
اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیز گاری میں ڈوبا ہوا ہو، جتنا تقویٰ ہوگا اتنی ہی ولایت ہو گی۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بے خوف ہیں، قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے، نہ وہ کبھی رنج و غم سے آشنا ہوں گے ، دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا۔
سیدّناعبداللہ بن مسعودؓ، سیدّنا عبداللہ بن عباسؓ اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں:
اولیا اللہ وہ ہیں جن کا چہرہ دیکھنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ یاد آ جائے۔ (اولیا اللہ کی پہچان)
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اولیا اللہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جنہیں دیکھ کر اللہ عزوجل یاد آجائے۔(السنن الکبریٰ، للنسائی، رقم۔ 11235 )
اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے قلوب اور دل تقویٰ کی کانیں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی،بے نیاز اور گمنام ہو۔(صحیح مسلم، مسند احمد)
اللہ پاک اپنے اولیا کرام سے محبت کرتاہے اور پھر اہلِ زمین کے دلوں میں بھی ان کی محبت ڈال دیتا ہے۔سیدّنا ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کوباآوازبلندیہ بتاتاہے کہ دیکھو! میں فلاں شخص کو دوست رکھتا ہوں، پس تم بھی اس سے محبت رکھو۔پس جبرائیلؑ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔پھر جبرائیلؑ آسمانی مخلوق میں ندادیتے ہیں کہ اللہ عزوجل فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)( اولیا اللہ کی پہچان)
اولیا اللہ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں یعنی ان کی دعا اللہ پاک قبول فرماتا ہے۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ قسم اٹھا کر کوئی بات کردیں تو اللہ ضرور پوری کرتا ہے۔ (بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الصلح )
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث ِ قدسی کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں ضرور اسے بچاتا ہوں۔ (بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الرقاق)
روزِ قیامت اولیا اللہ اورصالحین شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو شرفِ قبولیت بخشے گا۔
اللہ ربّ العزت نے اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لیے ان لوگوں کے متعلق بھی واضح ارشاد فرمادیا ہے جو اللہ کے دوست ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کسی بھی لحاظ سے اللہ کے ساتھ دوستی کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ قرآن ِ مجید میں فرماتاہے:
اے پیغمبرؐآپ فرمادیجیے :اے یہودیو! اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست (یعنی اولیا)ہو توموت کی آرزو کرو (کیونکہ اس کے اولیا کوتو قبر و حشر میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی)۔اگر تم (اپنے خیال میں)سچے ہو ۔(سورۃ جمعہ ۔6)
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک کے دوستوں (اولیا اللہ) کی پہچان یہ بھی ہے کہ جب انہیں جان دینے اور تمام لذتوں سے دستبردار ہو جانے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ لبیک کہتے ہوئے اس طرح دوڑتے ہیں گویا بھوکوں کو غذا کی اور پیاسوں کو پانی کی پکار سنائی دیتی ہے۔ تاہم جو جھوٹے اور اللہ کی ولایت سے محروم ہیں، وہ انکار کر دیتے ہیں اور یہ ان کے جھوٹے ہونے کی مہر ہے جو خود انہوں نے اپنے اوپر لگا دی۔
اسی کے متعلق اللہ پاک اگلی آیت میں فرماتا ہے:
اوریہ لوگ کبھی بھی اس( موت) کی تمنا کرنے والے نہیں، اُس(رسول کی تکذیب اور کفر) کے باعث جو وہ آگے بھیج چکے ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔( سورۃ جمعہ۔7)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک اولیا اللہ کا مقام
اللہ تعالیٰ کے دوست وہ مخلص اہلِ ایمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے سبب اس سے قریب ہو جاتے ہیں، چنانچہ خالقِ دو عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’خبردار! بے شک اولیا اللہ پر نہ کوئی خوف لاحق ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے ‘‘ (سورۃیونس۔62-63)
بارگاہِ الٰہی میں اولیا اللہ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس آیتِ مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے:
’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں(بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں بھی( مغفرت و شفاعت کی)، اللہ کے وعدوں میں تبدیلی نہیں آتی ہے۔یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔‘‘ (سورۃ یونس۔64 )
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی میں اللہ ربّ العزت نے اولیا اللہ کے پانچ فضائل کا ذکر کیا ہے:
۱۔ انہیں کو ئی خوف نہیں
۲۔ انہیں کوئی غم نہیں
۳۔ ان کے لیے دنیا میں خوشی ہے
۴۔ ان کے لیے آخرت میں بھی بشارت ہے
۵۔ ان کے لیے بڑی کامیابی کا مقام ہے
اولیا ئے کاملین کو اللہ پاک کے سوا کسی دنیاوی طاقت کا خوف نہیں ہوتا کیونکہ وہ اللہ پاک پر کامل یقین رکھتے ہیں اور توکل کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ نہ رزق کی کمی کا خوف ، نہ عزت کے چلے جانے کا خوف، نہ ذلت کا خوف، نہ کسی مقام و مرتبہ کے چھن جانے کا خوف کیونکہ ان تمام امور پر اللہ تعالیٰ کی ذات قادر ہے ۔ رزق لکھ دیا گیا ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی البتہ اللہ ربّ العزت تھوڑے کو بھی اپنی رحمت اور برکت سے زیادہ کر سکتا ہے اور وافر مقدار میں سے برکت اُٹھا لے تو وہ بھی ناکافی ہو جائے۔ عزت اورذلت دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت اور ایسا کرنے کے لیے اُس قادرالمطلق کو کسی سبب کی ضرورت نہیں۔
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآ ئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ (سورۃ آل عمران۔26)
ترجمہ: اورتو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
جو رضائے الٰہی کی خاطر اپنے نفس کو موتوا قبل ان تموتوا کے مصداق مرنے سے پہلے مار چکے ہوں ان کو موت کا بھی غم نہیں بلکہ موت تو وصالِ یار کا ذریعہ ہے۔
اولیا اللہ کا تصرف
تفسیر روح البیان میں اولیا اللہ کے تصرف کے بارے میں درج ہے:
اولیا کاملین درحقیقت اللہ تعالیٰ کے خلفا ہیں۔ یہی اقطابِ عالم و عمودِ سما اور اوتاد الارض ہیں۔ انہی سے زمین و آسمان کا نظام قائم ہے۔ دینِ الٰہی انہی سے آباد ہے اور تاقیامت یہ لوگ مختلف طبقات کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔ (تفسیر روح البیان)
اولیاوصالحین دنیا و آخرت میں ہر دور کی زمین کے وارث ہیں۔ (تفسیر ابنِ کثیر)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔ پھر جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا کہ یہ میرے ربّ کے فضل سے ہے۔ تاکہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔‘‘ (سورۃ النمل۔40)
اس آیت میں حضرت آصف بن برخیاکا بیان ہے جن کے پاس توریت شریف یا ابراہیمی صحائف یا لوح محفوظ کا تھوڑا سا علم تھا جس کی وجہ سے وہ ولی ہو چکے تھے۔وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے شاگرد اور وزیر بھی تھے اور علمِ باطن بھی حاصل کر چکے تھے۔ ظاہری علم یہ طاقت پیدا نہیں کرتا کہ وہ کہیں میں اس تخت کو آنکھ جھپکنے سے پہلے حاضر کروں گا اور اُسی وقت تخت اٹھا کر لے آئے اور حاضر کر دیا۔ جب حضرت سلیمانؑ نے دیکھا تو خدا کے شکر میں سجدہ ریز ہو گئے۔ اس سے ولی کی قوت،اس کی رفتار،اس کا مقام حاضر و ناظر معلوم ہو گیا کیونکہ حضرت آصف بن برخیا نے بلقیس کے مقام اور اس کے تخت کا پتہ کسی سے نہ پوچھا، نظر اٹھائی تو خود دیکھ لیا اور اور آناً فاناً وزنی تخت بغیر کسی چھکڑے یا گاڑی کے خود لا کر حاضر کر دیا۔
جب بنی اسرائیل کے ایک ولی کی طاقت کا یہ حال ہے تو حضور خاتم النبیینؐ کی امت کے اولیاکی طاقت اور کرامات کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا شکر ادا کرنا کہ اس نے میرے شاگردوں میں ایسے اولیا پیدا کیے ہیں، ثابت کرتا ہے کہ ولایت برحق ہے اور اولیا اللہ کی کرامات حق ہیں جن کا منکر گمراہ ہوتا ہے۔
نگاہِ ولایت
جیسے جسمانی بیماری کا علاج ڈاکٹر کرتے ہیں اسی طرح دل کی بیماریوں کا علاج اولیا اللہ کرتے ہیں جوا طبائے ایمان ہیں۔لوہے سے زنگ دور کرنے کے لیے صیقل کی ضرورت ہوتی ہے مگر دل کا زنگ اولیا اللہ کی نگاہِ فیض اور اُن کے کرم سے دور ہوتا ہے۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
علامہ محمد عمر دین نعیمی نے اپنی کتاب’’اولیا اللہ کا مقام‘‘ میں سیدّنا غوث الاعظمؓ کی نگاہِ فیض کا ایک واقعہ درج کیا ہے:
ایک ڈاکو جنگل میں غوث پاکؓ کے سامنے آیا تو ڈاکہ ڈالنے کی نیت سے غوث پاکؓ کا جبہ مبارک چھیننے لگا۔ غوث پاکؓ نے دعا کی کہ مولیٰ اس کا ہاتھ میرے دامن سے نہ چھوٹے، جس کے نتیجے میں اس کو وقت کا ولی بنا دیا گیا۔ غوث پاکؓ کی ایک نگاہ نے وہ کام کیااور ڈاکو کووہ مقام عطا کر دیاجو اسے ساری عمر نماز پڑھ کر، روزے رکھ کر،حج اور خیرات کر کے حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ معلوم ہوا کہ جس طرح دنیا کے سفر میں راہبر کی ضرورت ہے اسی طرح عالمِ بالا کے مسافر کو بھی رہبر طریقت کی ضرورت ہے مگر آج کل کے لوگ عقائد باطلہ میں ولی اللہ سے نفرت کے سوا کچھ نہیں کرتے لہٰذا عالمِ بالا کے سفر میں ان کا راہبر شیطان کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جو ان سب کو لے ڈوبے گا۔ (اولیا اللہ کا مقام)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت شفیق بلخیؒ اور حضرت ابو تراب بلخیؒ، حضرت بایزید بسطامیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کھانا کھانے کے وقت آپ کا ایک مرید بھی پاس تھا۔ حضرت شفیق بلخیؒ نے کہا کہ آؤ تم بھی کھانا کھاؤ۔ مگر مرید نے انکار کر دیا اور کہا میں روزہ دار ہوں۔ روزہ نہیں کھول سکتا۔پھر حضرت ابوترابؓ نے کہا آئیے ہمارے ساتھ کھانا کھائیے اور ایک سال کے روزوں کا ثواب حاصل کیجئے مرید نے تب بھی انکار کر دیا۔آخر آپ نے فرمایا کہ یہ درگاہِ خداوندی سے راندہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ چنانچہ چند دنوں بعد وہ مرید چوری کے جرم میں گرفتار ہو گیا اور دونوں ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔(خزینہ کراماتِ اولیا)
اولیا اللہ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ کن کا درجہ رکھتے ہیں۔
اولیا اللہ سے دشمنی
اللہ تعالیٰ تک رسائی حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہے اور حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام تک رسائی اولیا اللہ اور علمائے حق کے ذریعہ سے ہے ۔ سینۂ مصطفیؐ سے صحابہ کرامؓ نے فیض بلاواسطہ حاصل کیااور اُن کو نورِہدایت عطا ہوا۔ ان سے یہ فیض تابعین نے پھر تبع تابعین نے اور ان کے وسیلہ سے علمائے حق اور اولیاکرام نے حاصل کیا۔ اس لیے اولیااللہ کے سینے نورِ نبوت کے آئینے ہیں جن سے چھن چھن کر نورِ ہدایت عالم کو منور کر رہا ہے۔ اسی لیے ان کے دستِ اقدس پر بیعت کی جاتی ہے تاکہ آئینہ کے سامنے آکر نور حاصل کریں اور بے نور نہ رہیں۔ تاہم جن لوگوں کا عقیدہ اولیا اللہ پر نہیں وہ گمراہ اور بے نور ہیں۔ان کے دل آئینہ کے سامنے نہ تو ہو سکتے ہیں اور نہ ان سے روحانی اور نورانی روشنی اور ہدایت کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ خدا کے رسولؐ کے منکر ہیں اور منکر ہی ہمیشہ گمراہ ہوتا ہے۔
َجو کوئی اولیا اللہ سے دشمنی رکھے، اللہ تعالیٰ اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہے۔ سیدّناابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔‘‘(صحیح بخاری،مسلم)
عقائد باطلہ کے حامل لوگ محض عبادت کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے ایمان کو درست نہیں کرتے اس لیے وہ ہرگزنجات نہیں پاسکتے کیونکہ ایمان کے بغیر عبادت قبول نہیں۔ لہٰذا ایسے بدمذہب لوگ ایمان کی فکر کریں ورنہ ان کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی ولایت کا درجہ تو ایمان و تقویٰ کا مظہر ہے۔ اس لیے جن کے ایمان ہی درست نہ ہوں وہ نہ ولایت کا مقام پا سکتے ہیں نہ اس کے قریب ہی جا سکتے ہیں بلکہ وہ ولایت اور ولی سے ایسے دوربھاگتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
دورِ حاضر اور اولیا کرام
دینِ حق وہی ہے جس میں اولیا اللہ کا وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا چرچا خلق سے کراتا ہے کیونکہ پھل اسی شاخ کو لگتے ہیں جس کا تعلق جڑ سے قائم ہو۔یہی لوگ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منظورِنظر ہیں اس لیے صاحبِ بصیرت ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے اور قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں اس لیے دینِ حق کی خدمت ان (اولیا اللہ) کے سپرد ہے۔ ان کی کرامات قیامت تک ظاہر ہوتی رہیں گی اور مردہ دلوں کو زندگی اور اسلام کا درس دیتی رہیں گی۔ اس لیے کراماتِ اولیا بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک معجزہ ہیں جن کا ظہور قیامت تک ہوتا رہے گا۔
عالمِ اسلام کی موجودہ نوجوان نسل جدید سائنسی تعلیم سے آراستہ ہو کر قرآن و سنت پر مبنی ان عقائد و نظریات اور اعمال کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگی ہے جو بزرگوں سے ان تک روایتی انداز میں پہنچے ہیں اور انہیں اَوہام و رسوم سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں ۔آج کی جدید علوم سے تعلیم یافتہ نسل جب روحانی سلسلوں کا نام سنتی ہے تو استفسار کرنے لگتی ہے کہ یہ قادری، سہروردی اور چشتی سلسلے کیا ہیں؟ان کی افادیت اور ضرورت کیا ہے؟ مشائخ اور پیران کرام کو اپنا رہبر و رہنما کیوں مانیں؟جو کچھ مانگنا ہو براہِ راست اللہ سے کیوں نہ مانگا جائے؟ یہ وسیلہ کیونکر ضروری ہے؟
آج کا دور بے عملی اور بداعتقادی کا دور ہے۔نام نہاد توحید پرست طبقے اولیا اللہ کی عظمت کے منکر ہیں اور ان سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعت قرار دیتے ہیں۔جس کے باعث لوگ بھٹک کر اولیائے کرام اور ان کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔اور یہ بات بڑی شدت سے زور پکڑ رہی ہے کہ اولیا کو اللہ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے؟ جبکہ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ بندوں اورخدا کے درمیان اولیا اللہ کو خود اللہ ربّ العزت نے ہادی و رہبر کے طور پر چناہے۔اللہ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ان سے یاری ہی اللہ ربّ العزت کی بارگاہ کا راستہ دکھائے گی۔بقول شاعر
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
اللہ پاک نے اپنی توحیدکا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیا ؑ کو بھیجا۔ ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ مخلوقات عالم تک اپنا پیغام انبیا کی وساطت سے پہنچاتارہا ہے۔ انبیا کی ظاہری حیات کے دور میں ان کو اپنے اوربندوں کے درمیان رکھا اور اب جب کہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے توامت کی راہنمائی کے لیے اولیا اللہ کو مامور کیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ یہ اللہ پاک کی سنت ہے۔ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو قل ھو اللّٰہ احد فرماتا ہے یعنی اے میرے حبیبؐ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ ! تو خود اپنی توحید کا اعلان کیوں نہیں کرتا؟ تو خود فرما دے کہ میں ایک ہوں۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ میں بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہ راست کلام کرے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:
’’ اور ہر بشر کی( یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہ راست) کلام کرے مگریہ کہ وحی کے ذریعے(کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اوروہ اس کے اذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالم ِبشریت کے لیے خطابِ الٰہی کا واسطہ اوروسیلہ صرف نبی اوررسول ہی ہوگا)،بے شک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ۔51)
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ یہ کام اپنے منتخب بندوں سے کراتا ہے۔ جب تک نبوت کا سلسلہ جاری رہا،اللہ پاک مخلوق سے کلام کرنا چاہتاتھا تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا تھا۔سلسلۂ نبوت کے خاتمے کے بعد اولیا کرام انبیا کرام کے خلفا ہیں جو بندے اور خدا کے درمیان وسیلہ ہیں۔ دورِ حاضرکے ولیٔ کامل سلسلہ سروری قادری کے امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو امتِ مسلمہ کے لیے قرب و وصالِ الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیم ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ ، آپ کی تلقین ’’فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہ‘‘۔
آپ مدظلہ الاقدس کا عمل ’’صرف اللہ کے لیے‘‘۔ آپ مدظلہ الاقدس کا وصف ’’ تقویٰ‘‘اورآپ مدظلہ الاقدس کا باطن ’’آئینہ حق‘‘ ہے۔آپ مدظلہ الاقدس کی نورانی و روحانی صحبت سے مستفید ہو کر دیدارِ الٰہی کا شرف حاصل کرنے کے لیے ہر اتوارکو منعقد ہونے والی ’’ بزم سلطان العاشقین‘‘ میں تشریف لائیں اور ولیٔ کامل کے دست اقدس پر بیعت ہو کر تصور اسمِ اعظم اور سلطان الاذکار ھوُحاصل کریں۔
استفادہ کتب:
۱۔ تفسیر روح البیان: علامہ الشیخ اسماعیل حقی
۲۔تفسیر ابنِ کثیر: حافظ عمادالدین ابنِ کثیر
۳۔خزینہ کراماتِ اولیا: علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی
۴۔اولیا اللہ کی پہچان: ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی
۵۔اولیا اللہ کا مقام: علامہ محمد عمر الدین نعیمی
بہترین مضمون ہے
ماشاءاللہ بہت عمدہ۔
اولیا اللہ وہ پاکیزہ اور انعام یافتہ ہستیاں ہیں جو ’’ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ کے مقام پر فائز ہیں۔
اولیاء اللہ کی محبت لازم ہے-
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت تحریر اللہ تعالی ہمیں مرشد کریم کی اتباع عشق عطا فرمائے۔آمین
Bht Behtreen tehreer h …..
اولیا اللہ کا رتبہ اور مقام بہت بلند ہے
دینِ حق وہی ہے جس میں اولیا اللہ کا وجود ہے
Was very interesting👍🏻
فقر و تصوف کی تعلیمات سے بھرپور 🌷
اولیا اللہ بندگانِ خدا گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان ہوتے ہیں
شیخ ابو العباس کے مطابق خدا کا پہچاننا آسان ہے مگر ولی کا پہچاننا مشکل ہے کیونکہ خدا اپنی ذات اور صفات میں مخلوق سے ممتاز ہے اور ہر مخلوق اس پر گواہ ہے مگر ولی شکل و صورت میں اور اپنے افعال میں عام انسانوں کی طرح ہے۔(اولیا اللہ کا مقام)
اللّٰہ پاک ہمیں استقامت عطا فرمائے
بہترین مضمون ہے
شیخ ابو العباس کے مطابق خدا کا پہچاننا آسان ہے مگر ولی کا پہچاننا مشکل ہے کیونکہ خدا اپنی ذات اور صفات میں مخلوق سے ممتاز ہے اور ہر مخلوق اس پر گواہ ہے مگر ولی شکل و صورت میں اور اپنے افعال میں عام انسانوں کی طرح ہے۔(اولیا اللہ کا مقام)
حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں:
اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیز گاری میں ڈوبا ہوا ہو، جتنا تقویٰ ہوگا اتنی ہی ولایت ہو گی۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بے خوف ہیں، قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے، نہ وہ کبھی رنج و غم سے آشنا ہوں گے ، دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا۔
روزِ قیامت اولیا اللہ اورصالحین شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو شرفِ قبولیت بخشے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی،بے نیاز اور گمنام ہو۔(صحیح مسلم، مسند احمد)
عمدہ آرٹیکل لکھا ہوا ہے
Behtreen
اولیا اللہ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ کن کا درجہ رکھتے ہیں
دورِ حاضرکے ولیٔ کامل سلسلہ سروری قادری کے امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو امتِ مسلمہ کے لیے قرب و وصالِ الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیم ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘ ، آپ کی تلقین ’’فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہ‘‘۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین ❤️
اولیا اللہ بندگانِ خدا گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان ہوتے ہیں اس لیے ان کے ارادوں کی مضبوطی میں قوتِ خداوندی کا پر تو ہوتا ہے اور ان کے عزائم کی وسعت میں شوکتِ الٰہی کے لامتناہی مظاہر پوشیدہ ہوتے ہیں۔
بہترین
اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے قلوب اور دل تقویٰ کی کانیں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی،بے نیاز اور گمنام ہو۔(صحیح مسلم، مسند احمد)
دینِ حق وہی ہے جس میں اولیا اللہ کا وجود ہے💯
بہترین آرٹیکل
سیدّناعبداللہ بن مسعودؓ، سیدّنا عبداللہ بن عباسؓ اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں:
اولیا اللہ وہ ہیں جن کا چہرہ دیکھنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ یاد آ جائے۔ (اولیا اللہ کی پہچان)
شیخ ابو العباس کے مطابق خدا کا پہچاننا آسان ہے مگر ولی کا پہچاننا مشکل ہے کیونکہ خدا اپنی ذات اور صفات میں مخلوق سے ممتاز ہے اور ہر مخلوق اس پر گواہ ہے مگر ولی شکل و صورت میں اور اپنے افعال میں عام انسانوں کی طرح ہے۔(اولیا اللہ کا مقام)
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں ❤❤🌷
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم❤
Great
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں