معرفتِ الٰہی
محمد راشد سروری قادری
معرفت سے مراد جاننا‘ پہچاننا اور کسی شے یا ہستی کے متعلق علم حاصل کرنا ہے۔ جس طرح دنیاوی علم کا حصول دنیا میں ترقی کرنے کے لیے لازم ہے اسی طرح ذاتِ حق تعالیٰ کا علم دین اور قربِ الٰہی میں ترقی کرنے کے لیے لازم ہے۔
اس دنیا کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی پہچان ہو، جس طرح ایک تخلیق کار اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار اور پہچان چاہتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنی ہر تخلیق کے ذریعے اپنی ذات کی پہچان چاہتا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں پر غور کی دعوت یوں دیتا ہے:
ترجمہ: آسمان اور زمین کی پیدائش میں، رات دن کی گردش میں، ان کشتیوں میں، جو لوگوں کے لیے نفع بخش چیزوں کو لے کر سمندر میں چلتی ہیں اور اس (بارش کے) پانی میں جسے اللہ آسمان سے اُتارتا ہے اور پھر اس سے زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے اور (وہ زمین) جس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند ہے (ان سب میں) عقلمندوں کے لیے (اللہ تعالیٰ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 164)
اللہ اپنی ان تخلیقات کی طرف اس لیے متوجہ کرتا ہے کہ ان پر غور کر کے ان کے خالق کی ذات کے متعلق غور کیا جائے کہ جو تخلیقات اس قدر خوبصورت ہیں ان کا خالق کیسا ہوگا‘ جو تخلیقات اتنی حکمت سے بنائی گئیں ان کا خالق کتنا عظیم ہوگا۔ جس نے تخلیق یا تصویر کو دیکھ کر اس کی تعریف کی لیکن اس کے تخلیق کار یا مصور کی تعریف نہ کی‘ اس کے ہنر کو نہ پہچانا اسے صرف جاہل ہی کہا جاسکتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے خالق کو جانا، پہچانا جائے اور اس کی تعریف کی جائے۔
تجھی کو جو یاں جلوہ نما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
علمِ معرفت‘ دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پہچانا نہ جائے اس کی کامل عبادت ممکن نہیں۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ سرّالاسرار میں فرماتے ہیں:
* مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ
ترجمہ: جو اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے۔
انسان کی اپنی ہستی اس بات کی سب سے زیادہ متقاضی ہے کہ وہ اپنے خالق‘ مالک اور پروردگار کو جانے اور پہچانے۔ وہ کون اور کیسا ہے جس نے اسے اتنا خوبصورت جسم‘ اتنے محبت کرنے والے رشتے‘رزق‘ صحت اور بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس ذات کی حقیقی پہچان حاصل کر کے اس کی تعریف و تسبیح اس حد تک کرنے کی کوشش کی جائے جتنا اس کی شان کا حق ہے۔ ورنہ اس کا شکر بھی ادھورا ہے اور اس کی تسبیح بھی۔
انسانی جسم کا ہر حصہ اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی اہم کام کو سرانجام دینے کے لیے تخلیق کیا۔ آنکھ دیکھنے کے لیے‘ ناک سونگھنے کے لیے‘ پاؤں چلنے کے لیے‘ عقل سوچنے کے لیے اور اسی طرح دیگر تمام حصوں کے ذمے کوئی نہ کوئی اہم کام ہے۔ جبکہ انسانی قلب و باطن کا کام معرفتِ الٰہی کا حصول ہے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پس دل کے حصے میں حق تعالیٰ کا قرب آیا اور عقل کے حصے میں خدمت و اطاعت۔‘‘ اللہ کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرنا ناممکن ہے کیونکہ عقل صرف ان ہی چیزوں کا ادراک کر سکتی ہے جن چیزوں کے متعلق اسے معلومات مہیا کی جائیں۔ چنانچہ عقل محدود ہوتی ہے جبکہ ذاتِ حق تعالیٰ لامحدود ہے اس لیے عقل کے احاطہ و ادراک میں آہی نہیں سکتی۔ البتہ عقل کے ذریعے کائنات کی تمام اشیا پر غور وفکر کر کے ان کے خالق کے متعلق علم کے حصول میں مدد ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ’’ قل روح من امر ربی ‘‘ (ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیں کہ روح میرے ربّ کا امر ہے)۔ اس لیے روح کی رسائی بھی اس عالمِ ناسوت سے لے کر عالمِ امر تک ہے جبکہ عقل اس عالمِ ناسوت میں قید ہے۔ اس لیے روح ہی اپنے عالمِ ناسوت سے عالمِ امر کے سفر کے دوران معرفتِ الٰہی کا حصول اسی طریقے سے کرتی ہے جس طرح ایک انسان اپنے سفر کے دوران مختلف مقامات کے متعلق علم حاصل کرتا ہے۔ جو انسان گھر کی چار دیواری میں ہی قید رہے اور سفر پر نہ نکلے وہ نہ منزل پر پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سفر کے مختلف مقامات یا منزل کے متعلق کچھ معلوم کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو روح جسمِ انسانی میں قید رہے اور عالمِ ناسوت سے عالمِ امر تک اپنے ربّ یعنی اپنی منزل تک سفر ہی نہ کرے وہ نہ اللہ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ اس کے متعلق کچھ علم حاصل کر سکتی ہے۔ چنانچہ معرفتِ الٰہی کے حصول کے لیے سب سے پہلی بات جو ضروری ہے‘ وہ یہ ہے کہ روح اپنے اللہ سے ملاقات کے سفر پر نکلنے کا ارادہ اور خواہش کرے۔ پھر جب ارادہ مضبوط ہوجائے تو اس سفر کی تیاری کرے۔ تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذکرِ اللہ کا زادِ راہ ساتھ لے‘ کسی رہبر (مرشد کامل) کو رفیق بنائے، حسد‘ تکبر‘ لالچ‘ کینہ‘ عُجب اور دیگر نفسانی و روحانی بیماریوں سے نجات حاصل کر کے خود کو طاقتور بنائے‘ دنیاوی محبتوں کا بوجھ اتار پھینکے جو باطن کے اس سفر میں تکلیف کا باعث ہوگا۔ محبتِ الٰہی کے لباس سے خود کو آراستہ کرے اور پھر سفر پر نکلے۔ اس سفر کے ہر ہر مقام پر ذاتِ الٰہی کے متعلق ایک نیا، اہم اور خوبصورت انکشاف اس کا منتظر ہوگا۔ سفرِ معرفت کی لذت اسے دنیا کی ہر لذت سے بے نیاز کر دے گی۔ انسان کے معرفتِ الٰہی کی طرف متوجہ نہ ہونے کی ایک وجہ تو نفس و شیطان ہیں جو ہر وقت اس کو گھیرے رکھتے ہیں اور اس طرف مائل ہی نہیں ہونے دیتے اور دوسری وجہ انسان کی اس لذتِ معرفت سے ناآشنائی ہے۔ جس شے کی لذت انسان کو معلوم ہی نہ ہو و ہ اس کی طلب کیسے کر سکتا ہے۔ شیطان‘ انسان کو دنیاوی لذتوں کے جال میں اس طرح اُلجھا کر رکھتا ہے کہ وہ جان اور سوچ بھی نہیں پاتا کہ اس سے کہیں بڑھ کر اور بھی کوئی لذت ہے۔ اگر کوئی بندہ سخت ریاضت سے دنیا کی لذتوں سے جان چھڑا بھی لیتا ہے تو جنت کی لذتیں اسے اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں اور وہ انہی میں گِھر کر انہی کی خاطر عبادتیں کرنے لگتا ہے۔ اگر انسان کو معرفت و قربِ الٰہی کی لذت معلوم ہو جائے تو وہ کبھی اس دنیا کی گندگی اور ہوس اور جنت کی نعمتوں طلب میں مبتلا نہ ہو اور اپنے نفس کی ہر خواہش کو اس لذت کے حصول کی خاطر قربان کردے۔
دنیا و عقبیٰ کی ہر لذت کے خالق کو جاننا‘ پہچاننا‘ اس کے قریب ہونا کس قدر لذت کا باعث ہوگا یہ تو اس کے قریب ہو کر ہی پتہ چلے گا ’’جس نے چکھا نہیں اس نے جانا نہیں۔‘‘ اس قرب و معرفت میں اتنی لذت نہ ہوتی تو ہمارے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اصحابِ پاکؓ دنیا و عقبیٰ کی ہر نعمت کو کیوں ٹھکرا دیتے، کیوں سرورِ کون و مکان ہوتے ہوئے بھی آپؐ غیر آرام دہ بستر پر سونے میں سکون محسوس کرتے، کیوں حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے گھر کا تمام مال اللہ کی راہ میں قربان کر کے اپنے اور اہل و عیال کے لیے صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کو کافی سمجھ لیتے، کیوں 25 لاکھ مربع میل کے فرمانروا حضرت عمر فاروقؓ محلوں میں نرم بستر کی بجائے فرش پر سونے کو ترجیح دیتے۔ تما م اولیا و صوفیا کرام کس لذت کی کشش میں اپنا تمام گھر بار اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں۔ یقیناًاللہ کے یہ تمام پیارے بندے اللہ کے قرب و معرفت کی لذت سے اچھی طرح آشنا ہوتے ہیں۔ اسی لیے دنیا و عقبیٰ کی لذتیں ان کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتیں اور وہ انہیں بڑی آسانی سے چھوڑ دیتے ہیں۔
اُن کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہو جن کی جمال تیرا
پس معرفتِ الٰہی سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ اس کی لذت سے ناآشنائی ہے۔ اگر اس لذت کا مزا چکھ لیا جائے تو اس کی خواہش کی شدت کی وجہ سے نفس و شیطان کا مقابلہ بھی آسان ہوجاتا ہے۔ جو اس لذت سے آشنا ہے وہ پکار پکار کر دوسروں کو بھی اس کی خبر دیتا اور اس کے حصول کی ترغیب و دعوت دیتا ہے۔
* حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’جو شخص حقیقت و معرفت کی حلاوت چکھتا ہے وہ ان عبادات میں ایسا مزہ پاتا ہے کہ اگر اسی جہان میں اسے بہشت اس مزہ کے عوض ملے تو وہ معرفت کو ہی دوست رکھے‘‘۔ (کیمیائے سعادت)
* حضرت علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
’’انسان کو علم کی بدولت حیرت‘ عشق‘ ترقی در کمالات اور حیاتِ جاودانی نصیب ہو جاتی ہے اور علم سے مراد علمِ باللہ یعنی علمِ معرفت ہے۔ اس علم کی مثال پانی کی سی ہے جو دل کی مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اور اس سے گوناگوں حقائقِ اسرارِ الٰہیہ کی سبزیاں اُگ آتی ہیں۔ ‘‘ (فصوص الحکم)
* حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’معرفتِ الٰہی دل کی زندگی ہے اور حق تعالیٰ سے اعراض اس کی موت‘ اور ہر شخص کی قدروقیمت معرفتِ حق کے باعث ہی ہے کیونکہ جس کو یہ معرفت حاصل نہیں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ معرفت دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کی بنیاد ہے اور بندے کے لیے تمام اوقات و احوال میں اپنے خداوند تعالیٰ کی معرفت ہی تمام چیزوں سے اہم اور ضروری ہے۔ (کشف المحجوب)
* حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
’’معرفتِ الٰہی اصل میں ایک پُرعظمت چشمۂ فیض ہے۔ طالبانِ حق کو اگر اس چشمۂ فیض سے ایک کاسہ نصیب ہو جائے تو پھر اسے دنیا یا عقبیٰ کی کسی شے کی ضرورت نہیں۔ اس چشمۂ فیض سے حاصل ہونے والا کاسہ اپنا اثر اور لذت ابد تک قائم اور برقرار رکھتا ہے۔ اللہ کا جو بندہ معرفت کے اس چشمۂ فیض سے ایک پیالہ پی لیتا ہے وہ اس دنیا اور عقبیٰ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ جنت کی سکونت اور جنت کی نعمتیں بھی اس کے سامنے ہیچ ہوتی ہیں۔ جنت کی بشارتیں بھی اسے نہیں للچاتیں۔ ان نعمتوں سے کنارہ کش ہونے کے ساتھ ساتھ معرفت کے چشمۂ فیض سے پیالہ نوشِ جاں کرنے کے بعد وصالِ محبوب کی بجائے اپنی کمتری کے باعث دوزخ کو بھی بخوشی قبول کرلیتا ہے۔ اس کی ہمت جس قدر عالی ہوگی وہ اسی قدر زیادہ خوشی سے دوزخ قبول کرے گا تاکہ وہ اپنے خدا کے روبرو شرمندگی سے بچ سکے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں ابھی خدا سے وصال کے لائق نہیں تو تا دیر دوزخ کے المناک عذاب برداشت کرتا رہوں۔‘‘ (معالی الہمم)
حضرت جنید بغدادیؒ کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف معرفتِ حق تعالیٰ حاصل ہونے کے بعد ہی انسان میں وہ خلوص پید اہوتا ہے جہاں اس کی عبادت صرف اپنے پروردگار کے قرب و رضا کی خاطر ہوتی ہیں‘ نہ جنت کے لالچ میں‘ نہ دوزخ کے خوف سے۔ ایسا کامل خلوص صرف معرفتِ الٰہی کے حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔
اگرچہ اللہ لامحدود ہے اور اس کی ذات کے متعلق علم‘ معرفت اور اس کا قرب بھی لامحدود ہے۔ بندے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس کے متعلق تمام معلومات اور اس کی مکمل معرفت حاصل کر سکے۔ لیکن یہ اس کی معرفت کی لذت کی کشش ہی ہے جو بندے کو آگے ہی آگے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کے لیے آمادہ کرتی رہتی ہے۔
اللہ کے قرب کا ہر لمحہ‘ اس کی معرفت کا ہر مقام پہلے مقام سے کہیں زیادہ لذت کا حامل ہے اور انسان اسی کے حصول کی خاطر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اگرچہ وہ جانتا ہے کہ مکمل معرفتِ الٰہی سے وہ عاجز ہے لیکن اس کی یہی عاجزی اسے آگے اور آگے بڑھاتی رہتی ہے۔
* حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں:
یدعی العارفین معرفتہ اقر بالجھل ذالک معرفتی
ترجمہ: عارف لوگ تو اس کی معرفت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن میری معرفت یہی ہے کہ میں اپنی جہالت کا اقرار کرتا ہوں۔
یعنی کمالِ معرفت یہ ہے کہ انسان جان لے کہ معرفت کا کوئی کمال‘ کوئی حد‘ کوئی کنارہ نہیں۔ ہر مقام پر انسان خود کو اگلے مقام سے جاہل مانے اور پھر اس مقام کے لیے تگ و دو کرے۔ اس مقام پر پہنچ کر اگلے مقام کی جہالت کا اقرار کرے اور آگے بڑھنے کی تیاری کرے حتیٰ کہ اسے موت آلے۔دنیا میں تو معرفتِ الٰہی کی لذت بے مثال ہے ہی لیکن آخرت میں اس لذت کا اندازہ بھی انسان کے وہم و گمان سے باہر ہے۔ جس طرح ایک انسان جو کسی درد یا دکھ میں مبتلا ہے کسی مزیدار کھانے سے صحیح طور پر لطف اندوز نہیں ہو سکتا اسی طرح معرفت کے طالب جب تک اس دنیا کے جھنجٹوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں تب تک معرفت کی لذت سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ لیکن آخرت میں جب ان تمام دنیاوی جھنجٹوں سے مکمل فراغت اور سکون حاصل ہوگا تو دنیا میں حاصل کیے گئے علمِ معرفت اور قربِ ذاتِ حق تعالیٰ کا اصل لطف حاصل ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ علمِ معرفتِ الٰہی حاصل کر لیا جائے اور جتنا ممکن ہو قربِ الٰہی کما لیا جائے کیونکہ یہ دنیا ہی آخرت کی کھیتی ہے۔ جس قدر محنت و جدوجہد سے کھیتی یہاں بوئی جائے گی اتنا ہی رزق آخرت میں حاصل ہو گا۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو فقط اپنی معرفت و وصال کے لیے پیدا فرمایا ہے لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ دونوں جہان میں اُس چیز کی طلب کرے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی عمر لایعنی کاموں میں ضائع ہو جائے اور مرنے کے بعد اسے عمر ضائع کرنے کی ندامت اٹھانی پڑے۔ (سرّ الاسرار۔ فصل نمبر 12)
معرفتِ الٰہی کی حقیقت کیا ہے؟ جس ذات کا احاطہ و ادراک ممکن نہیں اسے کیسے پہچانا جائے؟ اگر انسان اس کی کامل معرفت سے عاجز ہے تو اس کی معرفت کے حصول کی کوشش کیوں اور کیسے کرے؟ ان سوالوں کے جواب صوفیا کرام نے خود حصولِ معرفت کے بعد ان الفاظ میں دیئے ہیں: حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’معرفت کے متعلق سب سے بہترین اور بزرگ جملہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہے ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے لیے اپنی معرفت میں کوئی راہ نہیں رکھی سوائے معرفت سے اعترافِ عجز کے‘‘۔ کچھ لوگ اس کلمہ کے سمجھنے میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی معرفت سے عاجز ہونا گویا معرفت کا معدوم ہونا ہے حالانکہ یہ محال ہے کیونکہ عجز کسی چیز کے موجود ہونے کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ کسی چیز کے معدوم ہونے کی حالت میں تو عجز کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
اس قول سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندے پر معرفت کی راہ صرف اس کے اعترافِ عجز کی بنا پر کھولی ہے۔ معرفت کی راہ پر چلتے ہوئے جب بندہ آگے بڑھتا ہے تبھی جان پاتا ہے کہ اس ذات کی مکمل معرفت ممکن نہیں۔ یہ اعتراف معرفت کے کافی حد تک حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔ جب تک انسان معرفت حاصل نہ کر لے تب تک وہ یہ بات جان کیسے سکتا ہے کہ اس لامحدود ذات کی معرفت کی کوئی حد نہیں۔ ویسے بھی اگر ایک بندہ ذاتِ حق تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل کر لے تو اس کے سفرِ معرفت کا اختتام ہو جائے اور آگے بڑھنے کو کچھ باقی نہ رہے۔ معرفت کی کاملیت آخری سانس تک آگے بڑھتے رہنے میں ہے۔ بلکہ زندہ روح موت کے بعد بھی معرفت میں ترقی کرتی رہتی ہے۔ معرفت کا یہ مسلسل جاری سلسلہ اس ذات کے لامحدود ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اگر معرفتِ الٰہی ممکن نہ ہوتی یا انسان اس کے حصول سے عاجز ہوتا تو قرآن میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی تخلیقات اور انسان کی اپنی ہی ذات میں غور کرنے اور اس میں اپنی نشانیوں کی موجودگی کا اشارہ نہ دیتا۔ قرآن میں امر بالمعروف کا حکم بھی بار بار نہ دیا جاتا۔
عجز بھی کسی شے کی موجودگی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے مثلاً ایک نابینا دیکھنے سے اس لیے عاجز ہے کیونکہ بصارت ایک صفت ہے جو موجود ہے لیکن وہ اس سے محروم ہے۔ اگر بصارت کوئی شے ہی نہ ہوتی اور کوئی مخلوق بھی دیکھنے کی اہلیت نہ رکھتی تو کوئی نابینا بھی نہ کہلاتا۔ بہت سے لوگ بینا ہوتے ہیں بصارت کی موجودگی کی وجہ سے‘ اس لیے بصارت کی غیر موجودگی کسی ایک شخص کو نابینا بنا دیتی ہے۔ چنانچہ معرفتِ الٰہی ممکن اور انسانی قلب کی موجود صفت ہے۔ نابینا تو اس کے متعلق کچھ جانتا نہیں اس لیے اس سے عاجز ہے اور بینا کو دکھائی دیتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں‘ اس کی انتہا تک پہنچنا ممکن نہیں اس لیے وہ بھی خود کو اس کے حصول سے عاجز سمجھتا ہے۔
اگر عقل اللہ کی معرفت سے عاجز ہے تو قلب اللہ کی معرفت کس طرح حاصل کرتا ہے؟ معرفتِ حق تعالیٰ‘ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل ہے جو عبد کی طلب‘ جستجو اور محبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی ذات ازخود بندے کو عطا کرتی ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو مجھے طلب کرتا ہے مجھے پا لیتا ہے، جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتا ہے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو مجھ سے عشق کرتا ہے میں اُسے مار ڈالتا ہوں، جسے میں مار ڈالتا ہوں اُس کی دیت میرے ذمے ہو جاتی ہے اور اس کی دیت میں خود ہوں۔‘‘ اس حدیثِ قدسی میں معرفتِ حق تعالیٰ کے تمام مراتب بیان کر دیئے گئے ہیں جن کی ابتدا معرفت و قربِ حق تعالیٰ کی طلب سے ہوتی ہے۔ جس دل میں قرب و معرفتِ حق تعالیٰ کی طلب ہی نہ ہو بے شک وہ اس لائق ہی نہیں کہ اسے اللہ کا علم اور قرب عطا کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جس قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو اللہ اس کی حالت نہیں بدلتا۔‘‘ یعنی جو شخص اپنی حالتِ جہل کو حالتِ معرفت میں تبدیل ہی نہ کرنا چاہتا ہو اللہ بھی اسے اپنی پہچان عطا نہیں کرتا اور جو اللہ کی طلب کرتا ہے اللہ اس کے لیے خود راستے کھولتا ہے جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں اللہ فرماتا ہے ’’اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں خود دکھا دیتے ہیں۔‘‘ چنانچہ طلبِ معرفت ہی معرفت کی ابتدا ہے۔ جب اللہ اپنے طالب پر اپنی راہیں کھول دیتا ہے تو طالب کی رسائی اس کی بارگاہ تک ہوجاتی ہے یعنی طالب اس دنیا میں اس ذات تک رسائی حاصل کرتا ہے جو دنیا میں اللہ کی مظہر ہے یعنی وہ فقیرِ کامل جس پر فقر مکمل ہو چکا ہے اوراِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ترجمہ ’’جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے‘‘ کے مطابق اس کی ذات میں سوائے حق تعالیٰ کے کچھ موجود نہیں ہوتا۔ جب طالب اس فقیرِ کامل کی ذات میں ذاتِ حق تعالیٰ کی تحقیق کر لیتا ہے تو اس ذات کی عظمت‘ قدر‘ لازوال حسنِ ازلی اور بے مثال اوصاف کی بنا پر اس سے محبت کرنے لگتا ہے کہ وہ ذات ہے ہی محبت و عبادت کے لائق۔ جیسے جیسے یہ محبت بڑھتی ہے قرب بھی بڑھتا ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ’’جو میری طرف ایک قدم آتا ہے میں اس کی طرف دس قدم آتا ہوں، جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔‘‘ اس قرب کے بڑھنے سے معرفت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ شانِ حق تعالیٰ کی معرفت محبت کو عشق میں تبدیل کر دیتی ہے۔ عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر شے کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ معرفتِ حق تعالیٰ‘ اس کے قرب اور عشق کی لذت‘ دنیا و نفس کی لذتوں اور ان کی خواہشات کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ طالب کی ذات میں بشری اوصاف فنا ہونے لگتے ہیں۔ بشری اوصاف سے مراد نفس و دنیا کی طلب کا رحجان ہے جو بشر کے خمیر میں گندھا ہے۔ صرف اللہ کی طلب میں قوت ہے کہ وہ اس طلبِ دنیا کے بشری و صف کو فنا کر دے۔ چونکہ بشر صفاتِ الٰہیہ اور صفاتِ بشری کا مجموعہ ہے اس لیے بشری اوصاف کے فنا ہوتے ہی اس میں صفاتِ الٰہیہ اجاگر ہونے لگتی ہیں اور وہ اپنی ہی ذات میں صفاتِ الٰہیہ کو تحقیق کرتے ہوئے معرفتِ الٰہی میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ’’ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ‘‘ ترجمہ: جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کی اس نے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کی۔ ہر صفت خود اس کی ذات میں اجاگر ہو کر اسے اس صفتِ الٰہی کی معرفت عطا کرتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیثِ قدسی میں ’’مار ڈالنے‘‘ سے مراد بشری اوصاف کا فنا ہونا ہے اور اس مار ڈالنے کی دیت میں اللہ کا خود اپنی ذات کو اپنے طالب کو عطا کرنے سے مراد اپنی صفات کو اس میں اجاگر کرنا اور بالآخر اس انتہا تک پہنچنا ہے جہاں طالب کی ذات میں تمام بشری اوصاف فنا ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ مکمل طور پر جلوہ گر ہو جائے۔ یہ طالبِ مولیٰ وہ فقیرِ کامل ہے جو دنیا میں اللہ کی پہچان اور اللہ کی معرفت کا سبب‘ ذریعہ اور دلیل ہے۔ اس فقیرِ کامل کی معرفت یعنی حقیقت کی پہچان‘ اللہ کی معرفت ہے۔ اس کی ذات میں اجاگر صفاتِ الٰہیہ کی معرفت سے اللہ کے اسما و صفات کی معرفت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اِنِّیْ مِرَّآۃُ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ: بے شک میں رحمن کا آئینہ ہوں۔
* مَنْ رَأْنِیْ فَقَدْ رَایَٔ الْحَقْ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق کو دیکھا۔
جب آپ کے توسط سے ذاتِ حق تعالیٰ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں اجاگر ہوئی تو فرمایا ’’جس کا میں مولا اس کا علیؓ مولا‘‘ اور فرمایا ’’علیؓکے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ ‘‘
حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ معرفتِ الٰہی کے عبد میں ظاہر ہونے کے تین مراتب بیان کرتے ہیں:
* اللہ کی تین معرفتیں ہیں۔ پہلی معرفت مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ (جس نے اپنی معرفت حاصل کی اس نے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کی) ہے۔ دوسری معرفت الوہیت ہے جس میں تُو جمالِ ذات کو صفات سے شناخت کرتا ہے۔ یہ معرفت‘ معرفتِ ربّ کے بعد ہوتی ہے جو معرفتِ نفس کے ساتھ مقید ہے اور تیسری معرفت ذوقِ الٰہیہ ہے جو وجودِ عبد میں سرایت کرتا ہے۔ پھر وہ اس ذوقِ الٰہی کی معرفت سے حق میں ہو کر غیب سے شہادت میں نزول کرتا ہے یعنی ربوبیت کے آثار اسی کے جسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر اس کی زبان تکوین ہو جاتی ہے (کہ جس چیز کے لیے کہتا ہے ’ہوجا‘ وہ ہو جاتی ہے) اور اس کے پاؤں چلنے لگتے ہیں اور اس کی آنکھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی اور اس کے کان ہر کلام کرنے والے کا کلام سننے لگتے ہیں۔ انہی معنوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا:
* حتیٰ کون سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ
ترجمہ: ’’حتیٰ کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ ‘‘
پس حق ہی اس کا ظاہر ہو جاتا ہے اور وہ ہی اس کا باطن۔ اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ نزولِ ربّ سے مراد اس کے آثار و صفات کا ظہور ہے جو ربوبیت کے متقضیات سے ہے اور سماءِ دنیا سے مراد جسمِ ولی کا ظاہر ہے۔ (انسانِ کامل)
ایسے فقیرِ کامل کے متعلق حضرت سخی سلطان باھُوؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں ’’اگر آنہا را خدا خوانی بجا و اگر بندۂ خدا دانی روا۔‘‘ ترجمہ: اگر تُو انہیں خدا کہے تو بجا اور اگر بندۂ خدا جانے تو روا۔
یعنی یہ فقیرِ کامل عبودیت و ربوبیت کا جامع ہے اور اپنی اس جامعیت کی بنا پر بندوں کے لیے معرفتِ حق تعالیٰ کا ذریعہ ہے۔ اگر ذاتِ حق تعالیٰ اپنے مظہر کی صورت میں ظاہر نہ ہو تو اس کی معرفت ناممکن ہو، اور کسی بشر کے لیے اس ذات کو پہچاننا ممکن نہ رہے کیونکہ وہ غیرمخلوق ہے اس کی مثال کسی شے سے دی ہی نہیں جاسکتی۔ جیسا کہ وہ خود اپنے متعلق فرماتا ہے:
* لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ
ترجمہ: اس کی مثل کوئی شے نہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ذاتِ حق تعالیٰ کے متعلق فرماتے ہیں:
* از کمالِ عبرتِ ماہیتِ ذاتِ پاکش ہزاراں ہزار و بے شمار قوافلِ عقل سنگسار‘ سبحان اللہ! از اجسامِ عناصرِ خاکی بہزار مظہر ظہورِ آثارِ جمال و جلالِ قدرتہائے کاملہ آئینہ باصفا ساختہ، تماشائے روئے زیبا می فرماید۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: اس ذاتِ پاک کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے انتہائی سوچ بچار کرتے عقل کے ہزاروں ہزار اور بے شمار قافلے سنگسار ہو گئے۔ سبحان اللہ! خاکی اجسام کے روپ میں اپنی قدرتِ کاملہ کے جمال و جلال کی نشانیوں کے اظہار کے لیے ہزاروں جلوؤں کو آئینۂ باصفا بنا کر خود ہی اپنے حسن کا نظارہ فرما رہا ہے۔
یعنی اگر ذاتِ حق تعالیٰ خاکی اجسام کو باصفا آئینہ بنا کر ان میں جلوہ گر نہ ہو تو اس کی ماہیت کو سمجھنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کے مظہر‘ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا بھی لازم ہے اور ان پر ایمان لائے بغیر اللہ پر ایمان نامکمل اور بے فائدہ ہے۔ جب اللہ کے مظہر پر ایمان نہیں تو اللہ پر ایمان کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ جن صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات میں ذاتِ حق تعالیٰ کو تحقیق کر لیا یعنی آپ ؐ کی حقیقت کی معرفت حاصل کرلی انہیں آپؐ سے عشق ہو گیا۔ جس کی معرفت جتنی اعلیٰ‘ اس کا عشق اتنا ہی اعلیٰ‘ اور ایمان کی بنیاد عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں آپ ؐ نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کی جان ‘ مال اور اولاد سے زیادہ عزیز نہیں ہو جاتا۔‘‘ چنانچہ ایمان کی بنیاد عشق اور عشق کی بنیاد معرفت۔ معرفت اس کامل انسان کی‘ جو ہر دور میں موجود ظاہر اور معرفتِ حق تعالیٰ کا سبب و دلیل ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ’’اور آیا تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک نور اور برہان (دلیل)۔‘‘ اس کامل انسان کی معرفت اللہ کی معرفت ہے اس لیے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد دا دیدار ہے باھُوؒ ، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھُو
مزید فرماتے ہیں:
جے توں چاہیں وحدت ربّ دی،مل مرشد دیاں تلیاںھُو
مرشد لطفوں کرے نظارہ، گُل تھیون سب کلیاں ھُو
یعنی اے طالب! اگر تُو معرفتِ حق تعالیٰ کا طالب ہے تو مرشد کی اطاعت، اتباع اور غلامی کر۔ جب مرشد نگاہِ کرم کرے گا تو تیری آرزو یعنی معرفت و قربِ حق تعالیٰ حاصل ہو جائے گی۔
چونکہ زیادہ تر لوگ اور عوام اپنے ہی جیسے وجود میں ذاتِ حق تعالیٰ کو تحقیق کرنے سے عاجز رہتے ہیں اور ان کے لیے اس حقیقت کا یقین و ادراک انتہائی مشکل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے مظہر انسانِ کامل کے توسط سے اپنی ذات کی معرفت صرف انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اللہ کا لطف و عنایت ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور وہ فضلِ الٰہی اور اپنی طلب کے مطابق معرفتِ حق تعالیٰ سے فیض یاب ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (الحدید۔21)
ترجمہ: یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘ جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل والا ہے۔
معرفتِ حق تعالیٰ کی استعداد‘ صلاحیت اور طلب ازل سے ہی اللہ تعالیٰ کے طالبوں میں موجود تھی۔ اللہ نے اس استعداد کو اپنے لطف و کرم سے مزید بڑھایا اور اس نعمتِ معرفت کو ان کا مقدر کر دیا۔ البتہ دنیا میں اپنے عشق اور طلب کے مطابق کوشش کرنے والوں کے لیے بھی اللہ کا لطف و احسان کسی طور کم نہیں بلکہ ان کی مدد وہ خود فرماتا ہے اور اپنی طرف ان کے راستے کھولتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’فقر(ذاتِ حق تعالیٰ) ایک تو ازلی نصیبہ ہے اور کچھ لوگوں کو اللہ پاک جذبۂ محبت و عشق کی بدولت اپنے فضل و کرم سے عطا کرتا ہے۔‘‘ (نور الہدیٰ کلاں)
سیّدنا غوث الاعظمؓ ’’فتوح الغیب‘‘ میں ایک مومن کے مراتب بیان کرتے ہیں کہ اللہ کس طرح اپنے ایک بندے کو اپنی معرفت کی طرف بلاتا ہے اور پھر اپنے فضل و کرم سے اسے معرفت کے انتہائی مراتب تک پہنچاتا ہے جہاں وہ اپنی ذات میں ذاتِ الٰہی کی تحقیق کرتا ہے اور اپنے تمام عوامل کی نسبت حق تعالیٰ سے کرتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
* ’’جب بندہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس سے چھٹکارا پانے کے لیے پہلے وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے‘ اگر اس طرح نجات نہیں پاتا تو دوسروں مثلاً بادشاہوں‘ حکام اور دنیاداروں سے مدد طلب کرتا ہے اور اگر بیمار ہو تو دکھ درد سے بچنے کی خاطر معالجوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر یہ بھی اس کو نجات نہ دلاسکیں تو وہ اپنے ربّ ذوالجلال کے حضور میں گڑگڑا کر دعا کرتا ہے۔ الغرض جب تک وہ خود اپنی مشکل سے نجات پاسکتا ہے اس وقت تک دوسرے لوگوں سے مدد طلب نہیں کرتا اور جب تک مخلوق سے اس کے مقصد کی تکمیل ہوتی رہے وہ اپنے خالق کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ جب خالق بھی اس کو نجات نہ دے تب وہ اس کے در پر دائم پڑا ہوا آہ و زاری کرتا رہتا ہے اور سدا اسی سے اُمیدِ رحمت باندھے ہوئے خوف و رجا کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ جب اس پر بھی خدائے بزرگ و برتر اُس کی دعا کو قبولیت نہیں بخشتا تو وہ تمام ظاہری اسباب سے ناتا توڑ بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اس پر قضا و قدر کا عمل جاری ہوجاتا ہے جو اسے تمام اسباب و علائق سے بے نیاز کر دیتا ہے۔اس کے بعد وہ خود مٹ جاتا ہے اور روح باقی رہ جاتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے‘ اسے فاعلِ حقیقی کا ہی عمل سمجھتا ہے اور اس طرح وہ توحیدِ کامل کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ الغرض وہ یہ یقین کر لیتا ہے کہ فاعلِ حقیقی صرف ذاتِ حق تعالیٰ ہے اور ہر حرکت و سکون اسی کی مشیئت کے تابع ہے۔ خیر و شر‘ نفع و نقصان اور جودوسخا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح تنگی و فراخی‘ موت و حیات‘ عزت و ذلت اور غربت و ثروت اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ ایسی صورت میں بندہ خود کو دستِ قضا و قدر میں اس طرح جملہ اختیاراتِ بشری سے عاری پاتا ہے جیسے دایہ کے ہاتھوں میں شیر خوار بچہ، غسال کے ہاتھوں میں میت اور چوگان سوار کے سامنے گیند‘ بالکل اسی طرح بندہ اپنے طور پر کوئی حرکت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی دوسری چیز کو حرکت میں لاسکتا ہے۔ بلکہ اُسے تو خود ایک حالت سے دوسری حالت‘ ایک صفت سے دوسری صفت اور ایک وضع سے دوسری وضع میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ وہ تو اپنے مالکِ حقیقی کے حکم کا تابع اور اپنے آپ سے بے خبر ہوتا ہے اور اُس کو دیکھتا ہے تو اسی کی نگاہِ قدرت سے اور جو کچھ بھی سنتا یا جانتا ہے وہ اسی کا کلام اور علم ہوتا ہے۔ وہ اس کی نعمت سے سرفراز‘ اس کی قربت سے سعادت مند‘ اس کی نزدیکی سے آراستہ و مشرف‘ اس کے وعدے پر شاداں‘ اس سے مطمئن‘ اس کی گفتگو سے مانوس اور غیر کی باتوں سے بیزار ہوتا ہے۔ وہ اس کے ذکر کا طالب‘ اس کی پناہ کا چاہنے والا‘ اس سے استحکام پانے والا‘ اس پر توکل کرنے والا‘ اس کے نورِ معرفت سے ہدایت یافتہ‘ اس کے جامۂ نور میں ملبوس‘ اس کے عجیب و غریب علوم کا جاننے والا اور اس کی قدرت کے اسرار و رموز سے باخبر ہوتا ہے۔ بندہ ذاتِ حق ہی سے سنتا اور یاد رکھتا ہے‘ یہاں تک کہ اپنے ربّ کی ان عطا کردہ نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہے اور شکر بجالاتے ہوئے دعا میں مشغول رہتا ہے۔ ‘‘ (فتوح الغیب)
اس مقام پر وہ ان آیات کی حقیقت و معرفت سے مکمل طور پر آگاہ ہوجاتا ہے کہ:
* وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ (الذٰریات۔ 21)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم دیکھتے نہیں۔
* وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(سورۃقٓ۔ 16)
ترجمہ: اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔
* وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ (الانفال۔24)
ترجمہ: اور جان لو! بے شک اللہ انسان کے جسم اور قلب کے درمیان حائل ہوتا ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اس مقام کے متعلق فرماتے ہیں ’’عارف اپنے مولیٰ سے مل کر معرفت حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے وجود کو وجودِ باری تعالیٰ کے قرب کے دریا میں جاکر گم کر دیتا ہے۔ اسی طرح عارف اپنا وجود باری تعالیٰ کے قرب کے بعد معدوم کر دیتا ہے۔ عارف کی ذات و وجود میں فنائیت اسے عظمت بخش دیتی ہے۔ ‘‘
پس معرفتِ الٰہی حاصل کرنے والا اللہ کے سوا ہر وجود کی نفی کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی ذات کا بھی انکار کر دیتا ہے اوریوں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ نہیں کوئی معبود (اور موجود) سوائے اللہ تعالیٰ کے‘‘ کا تصدیق بالقلب سے اقرار کر کے اپنے ایمان کو درست و مکمل کر لیتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’پس اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی تعریف اور معرفت سے شناسا کیا تاکہ اُس کو اسی کے ذریعہ پہچانیں۔ ایسی پہچان نہیں جو کسی سبب اور آلے کے واسطے سے ہو بلکہ ایسی پہچان جس میں خود بندے کا وجود عارضی ہو تاکہ عارف کو انانیت اور غرور ہر اعتبار سے ایک خیانت نظر آئے۔ یہاں تک کہ اس (اللہ) کا ذکر اس طرح ہو کہ اس میں نسیان نہ ہو اور معاملہ ایسا ہو کہ اس میں کوتاہی نہ ہو۔ یعنی معرفت واقعی اور یقینی ہو صرف زبانی نہ ہو۔‘‘ (کشف المحجوب)
* حضرت بایزید ؒ فرماتے ہیں:
اَنْ تصرف اَنّ حرکات الخلق وسکنا تھم باللّٰہ
ترجمہ: ’’معرفت یہ ہے کہ تُو جان لے کہ مخلوق کی حرکات اور ان کا سکون سب حق تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔‘‘
یعنی اس کی اجازت کے بغیر کسی کو اس کی مِلک میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں‘ کوئی بھی ذات اُس کی وجہ سے ذات ہے اور اثر اسی کی بدولت اثر‘ صفت اسی کی وجہ سے صفت‘ متحرک اسی کے حکم سے متحرک اور ساکن اسی کی مرضی سے ساکن ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی جسم میں طاقت پیدا نہ کرے اور اس کے دل میں ارادہ نہ رکھے تو بندہ کوئی فعل بھی نہیں کر سکتا اور بندے کا فعل پھر بھی مجازی ہے اور فعلِ حقیقی خداتعالیٰ کے لیے ہی ہے۔‘‘
* حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں:
’’معرفت کی حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ لطیف انوار کے ساتھ دلوں پر اپنا جلوہ طلوع فرمائے۔‘‘
جب تک اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو اپنے نور سے آراستہ نہ کر دے یعنی حقیقی معرفت کی نعمت سے نہ نواز دے، نہ شرکی صفات مغلوب ہو سکتی ہیں نہ صفاتِ الٰہیہ اجاگر ہوں گی۔ صفاتِ الٰہیہ اجاگر نہ ہوں تو قرب و رضائے الٰہی کا حصول ممکن نہیں۔
* حضرت علامہ ابنِ عربی ؒ فرماتے ہیں:
’’سلسلہ تکوین میں جس قدر حق تعالیٰ سے قرب ہوگا اسی قدر خیر و افضلیت ہوگی اور جس قدر بُعد ہو گا اتنا ہی شر بڑھے گا۔ یعنی خیر اور افضلیت کی بنیاد معرفتِ حق تعالیٰ پر ہے۔‘‘ (فصوص الحکم)
صفائے قلب‘ معرفت کے حصول کے لیے لازم ہے اور معرفت کے نتیجے میں صفائے قلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ دونوں ایک دوسرے میں ترقی کا باعث ہیں۔ صفائے قلب کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر پاک ربّ کی معرفت کا آغاز ہوتا ہے۔ قلب کو آئینہ کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اس میں جلوۂ ربی کے انعکاس کے لیے اس کا ہر کدورت و زنگار سے پاک ہونا ضروری ہے۔ معرفت کی ابتدا میں جب قلب شفاف ہو کر نورِ ربی کا انعکاس کرتا ہے تو صفاتِ الٰہی انسان سے ظاہر ہوتی ہیں اور انسان اپنی صفات کے ذریعے اپنے ربّ کی صفات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس معرفت و قرب سے قلب اور شفاف ہوتا ہے‘ جِلا پاتا ہے‘ یہاں تک کہ شفافیت کی انتہا یعنی لطافت تک پہنچ جاتا ہے یہاں ذاتِ حق تعالیٰ اس سے ظاہر ہوتی ہے اور معرفتِ ذات کے مقام پر پہنچتا ہے۔
ذکرِ اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل کے بغیر صفائے قلب ممکن نہیں اور صفائے قلب کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں اور معرفتِ الٰہی کے بغیر روحانی زندگی‘ حقیقی نیکی اور مقصدِ حیات کی تکمیل ممکن نہیں جس کے لیے اللہ نے اس دنیا اور انسان کی تخلیق کی۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
* فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانتا نہیں وہ اس کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت آئینۂ دل کو حجاباتِ نفس کی کدورت سے پاک کر کے اس کے اندر مقامِ سرّ میں مخفی خزانے کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’میں ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو‘ پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔‘‘ لہٰذا یہ حقیقت تو کھل کر سامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو محض اپنی معرفت و پہچان کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (سرّ الاسرار۔ مقدمہ)