امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین (آخری قسط)

جاننا چاہیے کہ نفس دو علوم کے بغیر ہرگز مسلمان نہیں ہوتا اوّل ظاہری طور پر زبان سے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کا اقرار کرنا اور دوم باطن میں قلب سے اس کی تصدیق کرنا۔ پس زبان سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کا اقرار کرنا سب ہی جانتے ہیں لیکن تصدیق کی تحقیق کس طریقے سے ہو سکتی ہے؟ اور وہ طریقہ کس توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ توفیق صدق اور اخلاص ہے۔ اگر کوئی تمام عمر ریاضت و تقویٰ میں گزارتا ہے یا تمام عمر مسائل ِ فقہ کا علم پڑھتا ہے یا تمام عمر روزہ، نماز اور نوافل ادا کرنے میں گزارتا ہے یا رات دن تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتا ہے اور ذکر، فکر اور مراقبہ کرتے کرتے جان لبوں تک آ جاتی ہے لیکن پھر بھی تصدیق بالقلب کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا سوائے دیدار سے مشرف ہونے کے۔ کیونکہ نفس کی ہر رگ میں کفر کے اکہتر ہزار شدید زنار ہیں اور یہ کافر نفس ان تمام زناروں سے ہرگز آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اللہ کے دیدار اور حضوری سے مشرف نہ ہو جائے۔ مومن مسلمان ہمیشہ مشرفِ دیدار رہتا ہے۔ بعض جانتے ہیں اور بعض نہیں جانتے۔ فقیر پہلے ہی روز علم ِ تصدیق اور علم ِ دیدار کا سبق پڑھتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ یہی فقیر حقیقی مومن و مسلمان ہیں۔ بیت:

نہ آنجا نفس قلب و روح دانی
فنا فی الذات وحدت لامکانی

ترجمہ: کیا تو جانتا ہے کہ لامکان میں نفس، قلب اور روح نہیں ہیں۔ وہ ذاتِ الٰہی میں فنا ہو کر عین وحدت ہو جاتے ہیں۔ 

علم ِ دیدار سے واقفیت افسانہ دانی اور قصہ خوانی سے ممکن نہیں بلکہ عین ذات کے ساتھ یگانگت اور آنکھوں سے اس کے عیاں دیدار میں ہے اور علم ِ الٰہی سے مراد غیب جاننا اور عین دیکھنا ہے۔ 

بے سرے بینم خدا را بی زبانم ہم سخن
معرفت توحید اینست ہم راز ہم آواز کن

ترجمہ: میں خدا کو بے سر ہو کر دیکھتا ہوں اور بغیر زبان کے اس سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ معرفت ِ توحید یہی ہے کہ اللہ کا ہم آواز اور ہم راز بنا جائے۔

علم ِ دیدار تعلیم سے نہیں بلکہ تلقین اور توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ دیدار کے وقت طالب کو حق شناس ہونا چاہیے۔ منصف وہ ہوتا ہے جو حق کو اختیار کر لے اور بدعت جو کہ باطل ہے‘ کو چھوڑ دے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ جاننا چاہیے کہ کامل مرشد اور ناقص مرشد کے مابین کس عمل، علم، حکمت، توفیق اور طریق ِ تحقیق سے فرق کیا جا سکتا ہے۔ کامل مرشد معرفت ِ توحید کا سمندر پیے ہوتا ہے اور ناقص مرشد تقلید کے باعث خود فروش ہوتا ہے۔ کامل مرشد ایک بار ہی حضوری و دیدار سے مشرف کر دیتا ہے اور اپنی توجہ سے دل کو زندہ کر دیتا ہے۔ وہ حضوری اور دیدار سے مشرف کرنے کی راہ کے علاوہ کوئی ذکر، فکر، مراقبہ اور ہاتھ سے تسبیح پھیرنا نہیں جانتا جبکہ ناقص مرشد ذکر، فکر اور مراقبہ میں مشغول کر کے طالب کو پاگل بنائے رکھتا ہے جیسے کسی خبیث شیطان نے قبضہ کیا ہو۔ ایسا ناقص مرشد شیطان کا ساتھی ہوتا ہے۔ کامل مرشد صادق طالب کو اللہ کا تصور عطا کرتا ہے۔ وہ تصور حضوری میں پہنچاتا ہے اور قرب و دیدارِ الٰہی اور معرفت ِ توحید سے مشرف کرتا ہے۔ کامل مرشد صادق طالب کو تصورِ نور عطا کرتا ہے اور اس سے غرقِ دیدار کر کے فنا فی اللہ کی حضوری میں لے جاتا ہے۔ طالب پر فرضِ عین ہے کہ وہ ضرور دیدارِ پروردگار اور حضوری سے مشرف ہو۔ طالب ِ مولیٰ کو قسم ہے کہ پہلے ہی دن مرشد سے معرفت ِ الٰہی اور لاھوت لامکان میں قرب و دیدار کی طلب کرے اور مرشد کو بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہؓ کی قسم ہے کہ طالب ِ مولیٰ کو توحید ِ الٰہی کی تلقین کرے اور انہیں حضرت بی بی رابعہ بصری ؒ اور سلطان بایزید بسطامیؒ کے مراتب عطا کرے اور طالب ولی اللہ کا خطاب پا کر ہمیشہ دنیا و آخرت میں قرب و دیدارِ الٰہی سے مشرف رہے اور اس کا وجود بقا حاصل کرلے۔ جو مرشد ان صفات کا حامل نہیں اور طالب باطن میں مرتبہ تحقیق تک پہنچانے کی قوت اور توفیق نہیں رکھتا وہ ناقص، بے مروّت، بے شرم، بے قوت اور بے حیا ہے۔ وہ ناسوت کا رہنے والا نامکمل اور خواہشاتِ نفس کا شکار ہے۔ اس ناقص مرشد سے اللہ کی طلب کرنا اور تلقین حاصل کرنا حرام ہے۔ بیت:

نامرد مرشد مینماید ذکر راہ
مرد مرشد میرساند با اِلٰہ

ترجمہ: نامرد (ناقص) مرشد ذکر کا راستہ دکھاتا ہے جبکہ مرد مرشد اللہ کے قرب میں پہنچاتا ہے۔

اس کے علاوہ مرشد خزائن ِ الٰہی کو تقسیم کرنے والا ہوتا ہے جو ہر روز ایک کروڑ خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ جو مرشد روزی پر تصرف کے یہ مراتب نہیں رکھتا وہ ابھی تک ناقص ہے۔ جو مرشد ہمیشہ مشاہدہ اور دیدارِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے اس کے تصرف میں اللہ کے بے حساب اور بے شمار خزانے ہوتے ہیں۔ انہیں اہل ِ دنیا سے التجا کرنے اور کاذب طالب مرید کو تلقین کرنے کی کیا ضرورت؟ کامل مرشد سب سے پہلے صادق طالب کو مراتب ِ غنایت عطا کرتا ہے اور اللہ کے خزانوں پر تصرف عطا کرتا ہے جس سے طالب بے جمعیت اور پریشان نہیں رہتا۔ صادق طالب اخلاص کے ساتھ ظاہر اور باطن میں مرشد کے ساتھ ایسے اتحاد کرتا ہے کہ یک وجود ہو کر جسم و جان میں یکتا ہو جاتا ہے۔ صادق طالب کو مرشد کی خدمت میں دن، مہینے اور سال شمار نہیں کرنے چاہیے بلکہ اسے مرشد کی رضامندی حاصل کرنی چاہیے۔ جو طالب مرشد کی خدمت پر مغرور ہو جاتا ہے وہ روز بروز اللہ کی معرفت سے دور ہوتا جاتا ہے اور اللہ کی معرفت اور حضورِ حق سے محروم ہو جاتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ باطن دو طرح کا ہے۔ باطن کی ایک قسم یہ ہے کہ جس میں طالب کے وہم و خیال ایک صورت اختیار کر کے اس کے سامنے آکر سوال و جواب کرتے ہیں اور احمق طالب یہ سمجھتا ہے کہ اس کے باطن کو حضوری حاصل ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہم کی وہ صورت راہزن ہے جو زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری قسم باطن کی یہ ہے طالب اللہ کے قرب اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بذریعہ وھم سوال و جواب کرتا ہے اور وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے اللہ کے قرب اور وصال سے حاصل کرتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت حضورِ حق کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ یہ اس فقیر کے مراتب ہیں جس کا وجود نور ہوتا ہے اور وہ اللہ کے قرب اور حضوری سے سوال و جواب کرتا ہے۔ اسے مراقبہ میں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اہل ِ راز میں سے ہوتا ہے اور اس کے پاس چشم ِ عیاں ہوتی ہے۔ وہ ظاہر میں لوگوں سے ہم کلام ہوتا ہے اور باطن میں لاھوت لامکان میں موجود ہوتا ہے۔ اور اگر وہ مکمل طور پر نیند میں ہو تو اپنی آنکھوں کو عالم ِ باطن میں بیدار کر کے نورِ ذات کے دیدار سے مشرف رہتا ہے۔ تصور، توفیق اور تصرف کی تحقیق سے فیض اور فضل ِ الٰہی دونوں تک خود کو پہنچا دیتا ہے۔ تصور اسم اللہ  ذات سے حضوری کے مراتب اور قبور کی ارواح سے ملاقات کی طاقت بھی اسی طرح ہے۔ یہ کامل و مکمل تصور کے مراتب ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ جاننا چاہیے کہ سوال کرنا اللہ کی معرفت اور وصال سے دور رکھتا ہے۔ اگرچہ سوال چھ سو سال کی ریاضت اور مجاہدہ کے بعد کیا جائے مگر یہ سوال اللہ کے قرب کی خاطر کیا جائے تو ٹھیک ہے۔ بیت:

مکن عاجزی بر در کس سوال
وصال تو بہتر بود از زر و مال

ترجمہ: کسی کے سامنے سوال کرنے کی خاطر عاجزی نہ دکھا۔ اللہ کے ساتھ تیرا وصال مال و دولت سے بہتر ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ (والضحیٰ۔10)
ترجمہ: اور سائل کو منع مت کرو۔
بعض کا سوال تحقیق کی غرض سے ہوتا ہے اور وہ ثواب ہے اور بعض کا سوال گناہ ہوتا ہے۔ سوال چار قسم کے ہیں۔ سوالِ نفس، سوالِ زبان، سوالِ روح، سوالِ سرّ۔ ان سوالات کی بدولت فقیر سب سے پہلے مرتبہ غنایت حاصل کرتا ہے اور پھر فقر ِ اختیاری اپناتا ہے۔ جو فقیر اللہ کے خزانوں کو سخاوت سے ظاہر و باطن میں تقسیم کرنے کی توفیق نہیں رکھتا تو اس فقیر کے مراتب قربِ الٰہی سے تحقیق نہیں کیے جا سکتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فَقْرِ الْمُکِبِّ 
ترجمہ: میں فقر ِ مکب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
جو فقیر اللہ کے خزانوں کو تقسیم کرنے کی ظاہر و باطن میں توفیق رکھتا ہے وہ باجمعیت فقیر کے مرتبہ پر ہے اور اسے اس کے قربِ الٰہی کی بنا پر تحقیق کیا جا سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔

ہر کہ از خود گم شود یابد خدا
نیست آنجا ذکر و فکر و مثل و جاہ

ترجمہ: جو خود کو فراموش کر دیتا ہے وہ اللہ کو پا لیتا ہے جہاں اللہ ہو وہاں نہ ذکر اور فکر ہے اور نہ مثال و عزت۔

بے مثل را مثل بستہ کیشود
ہر کہ بندد مثل آن کافر شود

ترجمہ: اس بے مثل ذات کو کسی کی مثل کیسے کہا جا سکتا ہے اور جو اس ذات کی کسی سے مثال دیتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کر کہ تو خود کو فراموش کر دے۔
مرشد طالب ِ مولیٰ کو پہلے ہی روز تلقین سے چار مراتب عطا کرتا ہے اوّل حضوری سے پیغام لانے کا مرتبہ، دوم صاحب ِ عیاں نظر عارف کا مرتبہ، سوم ظاہر و باطن میں خضر ؑ سے ملاقات کا مرتبہ، چہارم صاحب ِ لفظ اولی الامر کا مرتبہ۔ جو مرشد ان صفات کا حامل نہیں وہ فقر اور توحید کی معرفت سے بہت دور ہے۔ اور اس مرشد کے طالب بیل اور گدھے کی مانند ہیں۔ جو علم ِ نعم البدل کو پہچانتا ہے تو وہ فیض و فضل ِ الٰہی کے باعث ازلی فیاض کے مرتبہ پر ہے۔ عارف باللہ کو الہام یا معرفت اور قربِ الٰہی کی بدولت مکمل توحید حاصل ہوتی ہے۔ مراتب ِ نعم البدل پانچ ہیں جو ایک دوسرے سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور جس کسی کے تصرف میں نعم البدل کے پانچوں مراتب ہوں وہ زوال، سلب اور رجعت سے پاک ہوتا ہے۔ وہ عارف جسے اللہ کا قرب و وِصال حاصل ہو ان مراتب کو پہچان سکتا ہے۔ یہ مراتب نعم البدل ازل، نعم البدل ابد، نعم البدل عقبیٰ، نعم البدل فنا، نعم البدل بقا ہیں۔ جس عارف نے اپنے وجود کو ذاتِ حق تعالیٰ سے تبدیل کر لیا ہوتا ہے صرف اسی کا وجود طلسمات ہوتا ہے اور وہی طالب پر نعم البدل کے یہ پانچ خزانے کھول سکتا ہے اور صاحب ِ نعم البدل عارف کے پاس ہی اس معما کا علم ہوتا ہے اور وہی اس کا حل جانتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ (العلق۔5)
ترجمہ: انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اور اس علم الانسان کا عالم ہی اشرف اور کامل انسان ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ۔30)
ترجمہ: بے شک میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔
اور اس علم ِ لدنی ّ کو جاننے والے ہی اصل علما ہوتے ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے:
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرہ۔2,3)
ترجمہ: اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
طالب مرد پہلے ہی روز اسم ِاللہ  ذات کے ذریعے حضرت رابعہ بصریؒ اور سلطان بایزید بسطامیؒ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اللہ کے قرب اور حضوری کی طلب رکھنے کے باعث سات تصور، سات تصرف، سات توجہ، سات تفکر، سات گنا آتش ِ محبت، سات گنا گرمی ٔ نور حاصل کرتا ہے اور ستر جمعیت کے خزانے اور سات علم حاصل کرتا ہے اور ہر علم میں مزید ستر ہزار علم ہوتے ہیں۔ اسم ِاللہ  ذات کا تصور اللہ کے نور میں غرق کر کے اہل ِ قبور کی ارواح کی مجلس میں ملاقات کرواتا ہے۔ طالب کو مجاہدہ میں مشاہدۂ حق، محنت میں محبت ِ الٰہی اور ریاضت میں رازِ معبود اور سرّ اسرار اور بے حجاب دیدار اجر کے طور پر عطا ہوتے ہیں جس کے بعد طالب کا قلب زندہ اور روح فرحت یاب ہوتی ہے اور نفس رسوا ہوتا ہے اور اللہ کے خزانے حاصل کرکے ہر دکھ اور رنج سے آزاد جاتا ہے۔ طالب ایک ہفتہ میں تمام مطالب تک ایک ہی بار میں پہنچ جاتا ہے یا آخری دن اسم ِ اللہ  ذات سے حضوری کے پانچ سبق پڑھتا ہے جس کی بدولت اس سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسم ِاللہ  ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کا پہلا سبق ازل کی سیر اور اس کے نظاروں کا مشاہدہ کر کے اس کا احاطہ کر لینا ہے۔ اسم ِاللہ ذات سے حضوری کا دوسرا سبق ابد کی سیر اور اس کے نظاروں کا مشاہدہ ہے جس سے طالب خوف و رجا کے دو مقامات کے درمیان رہتا ہے اور اس کا نفس حرص، حسد، خود پسندی، تکبر اور خواہشاتِ نفس سے باز آ جاتا ہے۔ اسم ِاللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کا تیسرا سبق دنیا کی سیر اور اس کے نظاروں کا دیدار ہے جو بھی دنیا کے خزانے ہیں سب اس کے تصرف میں آجاتے ہیں اور طالب ِ مولیٰ کا دل مکمل طور پر دنیا سے سرد ہو جاتا ہے۔ اسم ِاللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کا چوتھا سبق عقبیٰ کی سیر اور جنت کی حور و قصور کا نظارہ دیکھنا ہے۔ اسم ِاللہ  ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کا پانچواں سبق یہ ہے کہ طالب وحدت کی سیر اور نظارہ کرتا ہے اور معرفت، ذوق، قربِ الٰہی اور وحدت حاصل کر تا ہے اور ناسوت کے مراتب اور تقلید کو ترک کر دیتا ہے اس کے بعد کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ، قرآن کی آیات اور ننانوے اسمائے باری تعالیٰ یا تیس حروف سے حاصل ہونے والے حضورِ حق کی برکت سے طالب ہر ایک انبیا و اولیا کی ارواح اور تمام فرشتوں سے ملاقات کرتا ہے۔ 

وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ 

تمت بالخیر


34 تبصرے “امیر الکونین | Ameer-ul-Konain

  1. بےشک میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ اقدس ( سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور سلطان باھُوؒ کے حقیقی و روحانی وارث, انسان کامل اکمل نور الہدی ) کے عطا کردہ اسم اللہ ذات مشق مرقوم وجودیہ اور خفی ذکر یاھو سے اللہ پاک اور حضرت محمد ﷺ کا دیدار (ملاقات) اور پہچان ہوتی ہے
    اس طرح انسان کا مقصد حیات حاصل ہوتا ہے
    تحریک دعوت فقر پاکستان لاہور ذندہ باد

      1. حضرت سلطان باھو رح کا انداز سب سے جدا ہے… ماشاءاللہ بہترین ترجمہ کیا گیا ہے ان کی اتنی مشکل تصنیف کا

    1. جاننا چاہیے کہ نفس دو علوم کے بغیر ہرگز مسلمان نہیں ہوتا اوّل ظاہری طور پر زبان سے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کا اقرار کرنا اور دوم باطن میں قلب سے اس کی تصدیق کرنا۔
      مزید پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک کو وزٹ کریں۔

      https://bit.ly/3lZ2DjG

  2. امیرالکونین سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی کتب میں سے اہم ترین کتاب ہے

  3. بہت اچھی کتاب ہے قسط وار سلسلہ بہت اچھا رہا۔

    1. ترجمہ: نامرد (ناقص) مرشد ذکر کا راستہ دکھاتا ہے جبکہ مرد مرشد اللہ کے قرب میں پہنچاتا ہے

  4. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #ameerulkonain

  5. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #ameerulkonain

  6. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #ameerulkonain

  7. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #ameerulkonain

  8. سلطان باھوُ کی قیمتی کتب کے اردو تراجم کا سلسلہ قابلِ ستائش ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں