قبلہ ٔ حقیقی | Qibla e Haqiqi


Rate this post

قبلہ ٔ حقیقی

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ سیالکوٹ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ  (سورۃ آل عمران۔96)
ترجمہ: بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر روئے زمین پر تعمیر ہوا وہ بیت اللہ ہی تھاکیونکہ ’’بیت اللہ‘‘ کواللہ تعالیٰ کے حکم سے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے ہجرت فرما کر حبرون (Hebron) کے مقام پر قیام فرمایا اور آپ علیہ السلام کی وفات کے چالیس سال بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے ’’بیت ایل‘‘ پر ایک مذبح تعمیر کیا جس کے کھنڈروں پر صدیوں بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی عمارت اٹھائی۔ یوں بیت المقدس کی بنیاد پڑی۔

پیغمبروں کی سرزمین

بیت المقدس سے مراد وہ مبارک گھر یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ بیت المقدس کو القدس بھی کہتے ہیں۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہِ صیہون ہے جس پر مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ(  قبۃ سے مراد ہے گنبد اور الصخرہ سے مراد ہے چٹان۔ یہ مسجد اقصیٰ کے قریب موجود ایک تاریخی چٹان کے اوپر سنہری گنبد کا نام ہے۔) واقع ہیں۔ مذہبی اور اسلامی اعتبار سے مسجد اقصیٰ کو بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی یہ ہی ہے ،مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300کلومیٹر ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین کی عقیدت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی پیغمبرانِ اسلام تشریف لاچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی پیدائش اور تبلیغ کا مرکززیادہ تر بیت المقدس ہی رہاہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مقام سب سے زیادہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہٖ وسلم جب جبرائیل ِ امین علیہ السلام کے ہمراہ معراج پر تشریف لے جانے کے لیے مختلف مقاماتِ مقدسہ سے ہوتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے تو وہاں آپؐ کے استقبال کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جمع تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآ لہٖ وسلم نے تمام انبیا علیہم السلام سے مصافحہ کیااور نماز میں سب انبیا کرام کی امامت فرمائی۔ حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت یحییٰ ؑ اورحضرت موسیٰؑ سمیت اور بہت سے پیغمبرانِ اسلام نے اسی سرزمین پر تبلیغ کا کام شروع کیا۔ یہی وجہ ہے بیت المقدس کو پیغمبروں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے۔

بیت المقدس کی فضیلت

مسلمانوں کے لئے اب بیت المقدس کی حیثیت اور فضیلت یہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا سابق قبلہ ہے جس طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے اسی طرح مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)  میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے، مسجد حرام کی نسبت مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں ایک چوتھائی ثواب ملتا ہے۔
 ایک روایت میں ہے مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصیٰ میں ڈھائی سو نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
 حدیث ِ مبارکہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ عبادت کی نیت سے کسی مسجد کا سفر کرنا درست نہیں ہے سوائے تین مساجد کے، مسجد حرام ، مسجد نبویؐ ، اور مسجد اقصیٰ، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمانی اور مذہبی ہے۔( بحوالہ کتاب: تاریخ بیت المقدس، ممتاز لیاقت)
خانہ کعبہ ‘بیت المقدس سے چالیس سال پہلے تعمیر ہوا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ِ مبارکہ ہے:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہٗ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب دیا چالیس سال کا فاصلہ ہے۔  (بخاری: ۱/۷۸۴، ۷۷۴)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’بیت اللہ‘‘ کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنایا گیا؟ 

تحویل ِ قبلہ 

قبلہ تبدیل ہونے کو تحویل ِ قبلہ کہتے ہیں۔ جب تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ میں رہے خانہ کعبہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے رہے مگر ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہوا کہ آپ اپنی نمازوں میں ’’بیت المقدس‘‘ کو اپنا قبلہ بنائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل کی تمنا یہی تھی کہ کعبہ ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ مدینہ منورہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ شریف تھا اور اہل ِ کتاب جن کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ لیکن ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسلمانوں کی چھوٹی سی آزاد اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔ مشرکین کے مقابلے میں یہودیت و نصرانیت کو ترجیح تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی۔ بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا گویا یہودیت و نصرانیت کی قیادت و سیادت قبول کرنے کے مترادف تھا اور یہودیوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ مسلمان قبلہ کے معاملے میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین کے معاملے میں ہماری مخالفت کرتے ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چاہتے تھے کہ ہمارا قبلہ کعبہ ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بار بار بارگاہِ الٰہی میں التجا کرتے رہے۔ ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: ’’میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہودیوں کے قبلہ سے پھیر دے،کسی اور طرف میرا رخ کر دے۔‘‘ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ’’میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کی طرح اس کا ایک بندہ ہوں۔ یہ بات میرے بس سے باہر ہے میں تو صرف حکم کا پابند ہوں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اور اسی سے ہی درخواست کیجئے۔‘‘ پس رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ اس امید پر کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے اس بارے میں کیا حکم لاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’(اے حبیب !) ہم بار بار آپ کے رخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔ پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے  چہرے اس کی طرف پھیر لو اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویل ِ قبلہ کاحکم) ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔‘‘ (سورہ البقرہ۔144)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت بشر بن   براء رضی اللہ عنہ کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے وہاں نمازِ ظہر کا وقت ہوگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے،ابھی دو رکعتیں ہی پڑھی تھیں کہ تیسری رکعت میں وحی کے ذریعے تحویل ِ قبلہ کا حکم نازل ہو گیا۔ اورتمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتدا میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔ 

تحویل ِ قبلہ میں پوشیدہ مصلحت

قبلہ کا تبدیل ہونا بہت سے لوگوں پر شاق تھا، لیکن جن لوگوں کی اللہ نے ہدایت فرمائی (ان پر شاق نہیں تھا)، تو اللہ تعالیٰ اس سے ان لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسی عبادت چاہتا ہے جس میں انسان کی ذاتی خواہشات شامل نہ ہوں اور آزمائش کرنا چاہتا تھا کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت کرکے کون صحیح معنوں میں اس کی اطاعت کرتا ہے۔
اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلُ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط  وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ط وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ   (البقرۃ۔ 143)
ترجمہ: اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسولؐ کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (اور معرفت) سے نوازا، اور اس کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔

درج بالا آیت سے معلوم ہوا کہ دورانِ نماز قبلہ تبدیل فرما کر اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کی اطاعت کو پرکھا کہ کون میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ پھر جاتا ہے اور کون اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے، خانہ کعبہ کی موجودگی میں بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی یہی علت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی ہے۔
تحویل قبلہ سے یہودیوں کو بڑی سخت تکلیف پہنچی جب تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے تو یہودی بہت خوش تھے اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بھی ہمارے ہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرتے ہیں مگر جب قبلہ بدل گیا تو یہودی اس قدر برہم اور ناراض ہو گئے کہ وہ یہ طعنہ دینے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) چونکہ ہر بات میں ہم لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے محض ہماری مخالفت میں قبلہ بدل دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کا گروہ بھی طرح طرح کی نکتہ چینی اور قسم قسم کے اعتراضات کرنے لگا تو ان دونوں گروہوں کی زبان بندی کے لئے خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی۔
’’نادان لوگ ضرور کہیں گے کہ انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان سے کہو مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں، جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔‘‘(سورہ البقرہ۔142)
تحویل ِ قبلہ کی حکمت بتا دی گئی ہے کہ منافقین جو محض نمائشی مسلمان بن کر نمازیں پڑھا کرتے تھے وہ قبلہ کے بدلتے ہی بدل گئے اور اسلام سے منحرف ہو گئے۔ اس طرح ظاہر ہو گیا کہ کون صادق الایمان ہے اور کون منافق اور کون رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنے والا ہے اور کون دین سے پھر جانے والا۔تحویل ِ قبلہ کی حکمتوں میں مسلمانوں کی آزمائش تھی کیونکہ جو حقیقی فرمانِ خدا کے تابع تھے انہوں نے کسی تعصب و کراہت کے بغیر اس تبدیلی کو قبول کر لیالیکن جو خالص ایمان نہیں رکھتے تھے اور مقامِ تسلیم تک نہیں پہنچے تھے انہوں نے یہودیوں کے ہم صدا ہو کر بہانہ بازی اور چوں و چرا کا آغاز کردیا اور اس حکم کی اطاعت ان کے لیے نہایت دشوار ہوئی۔
دوسری طرف صحابہ کرامؓ نے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ادا کر دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو کعبہ کے بھی کعبہ ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کراذان دینے لگے تو پوچھا رخ کدھر کروں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہمارے چہرے کی طرف۔
واقعہ ’’تحویل ِ کعبہ‘‘ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے سبق ہیں کہ اپنے پیر ومرشد کے ہر حکم کو دل وجان سے قبول کیا جائے نہ کہ مشرکین و منافقین کی طرح ٹوہ میں رہا جائے کہ فلاں حکم کیوں ملا اور اس کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ مرشد کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

 مرشد مینوں حج مکّے دا، رحمت دا دروازہ ھُو
کراں طواف دوالے قبلے، نِت ہووے حج تازہ ھُو

اسی طرح مولانا رومؒ فرماتے ہیں ’’ہزار کتب کے اوراق آگ میں جلا دے اور دل کا رخ دلبر کی جانب کر لے۔‘‘

میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
  طالب ِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہونا چاہیے جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسطرح طالب ِمولیٰ کا رخ ہمیشہ مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔

 جیسا کہ صحابہ کرامؓ نے تحویل ِ قبلہ کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رخِ انور کی طرف اپنا رخ پھیر کر عظیم مثال قائم کی۔ تحویل ِقبلہ کا اصل مقصود تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ جو صادق و عاشق طالبانِ مولیٰ کے لیے آزمائش تھی۔ تحویل ِقبلہ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے بھی درس ہے کہ کون اپنے ہادی و مرشد کی حکم کی تعمیل بجا لاتا ہے اور کون بہانے بناتا ہے۔ ایک سچا عاشق اپنے ہادی و مرشد کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے اور اُن کے ہر حکم کو مان کر تسلیم ورضا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں صادق و عاشق طالبانِ مولیٰ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
ابیات باھُوؒ کامل از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
تاریخ بیت المقدس،ممتاز لیاقت 

 
  

42 تبصرے “قبلہ ٔ حقیقی | Qibla e Haqiqi

    1. جنہوں نے قبلہ کو پہچان لیا اور اس کی معرفت حاصل کر لی وہی دراصل فلاح والے ہیں

      1. بےشک میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ اقدس ( سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور سلطان باھُوؒ کے حقیقی و روحانی وارث, انسان کامل اکمل نور الہدی ) کے عطا کردہ اسم اللہ ذات مشق مرقوم وجودیہ اور خفی ذکر یاھو سے اللہ پاک اور حضرت محمد ﷺ کا دیدار (ملاقات) اور پہچان ہوتی ہے
        اس طرح انسان کا مقصد حیات حاصل ہوتا ہے
        تحریک دعوت فقر پاکستان لاہور ذندہ باد

  1. اس article میں ہر پہلو کو بہت اچھے سے واضع کیا ہے۔👏🏻

  2. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #qibla #haqiqi

  3. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #qibla #haqiqi

  4. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #qibla #haqiqi

  5. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #qibla #haqiqi

  6. اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر روئے زمین پر تعمیر ہوا وہ بیت اللہ ہی تھاکیونکہ ’’بیت اللہ‘‘ کواللہ تعالیٰ کے حکم سے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ مزید پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک کو وزٹ کریں۔

    https://bit.ly/33VhOEs

  7. تحریک دعوتِ فقر دنیا کی پہلی روحانی جماعت ہے جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی فقر کی تعلیمات پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں