حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat
قسط 11 سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
جنگ ِ جمل
۱۔ جنگِ جمل کی تیاری:
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت حضرت عائشہؓ مکہ میں حج کا فریضہ سر انجام دینے تشریف لائی ہوئی تھیں۔ مدینہ سے کچھ لوگ مکہ پہنچے اور انہوں نے شہادتِ عثمانؓ کی خبر دی۔ ان لوگوں میں زیادہ تعداد بنواُمیہ کی تھی۔ طبریؒ لکھتے ہیں:
بنو اُمیہ بھاگ کر مکہ پہنچ گئے۔ (طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 45)
حضرت عائشہؓ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق دھوکہ دیا گیا۔ آپؓ سے جھوٹ بولا گیا کہ حضرت علیؓ بھی(نعوذباللہ) قتلِ عثمانؓ میں شریک ہیں۔ مزید یہ بتایا گیا کہ اب خلافت کا اصل کنٹرول باغیوں کے پاس ہے۔ مروان بن حکم بھی حضرت عائشہؓ سے آ ملا۔ اس کے متعلق پیام شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
مروان بن حکم جسے حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ مدینہ سے نکال دیا تھا، بھی حضرت عائشہؓ سے آ ملااور لوگوں کو بدلہ لینے پر ابھارنے لگا۔ (علیؓ اور ان کی خلافت ، ص 105-106)
تاریخِ طبریؒ میں لکھا ہے:
بنو اُمیہ نے حجاز میں خلافتِ علیؓ سے اختلاف کیا اور مخالفت میں سر اٹھانے شروع کیے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 48)
تاریخ طبری میں لکھا ہے:
حضرت عائشہؓ کے ساتھ مروان اور تمام بنو اُمیہ بھی شامل تھے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 54)
حضرت عائشہؓ سے بہت سے جھوٹ بولے گئے تا کہ ان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے خلاف ابھارا جائے۔ اس سلسلے میں ان کو کامیابی بھی ملی۔ پیام شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
بعض لوگوں نے مکہ کے عوام اور حضرت عائشہؓ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت علیؓ کی(نعوذباللہ) پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علیؓ سے دل برداشتہ تھے یا جذبات کی رو میں بہہ رہے تھے۔ (علیؓ اور ان کی خلافت ، ص 103-104)
میرے مرشدکریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
چشمِ زمانہ گواہ ہے ان فیض یافتگان بزمِ رسالت نے اپنی مرضی سے جنگ نہیں کی۔ انہیں جدال و قتال کی بھٹی میں دغابازی اور فریب کاری سے جھونک دیا گیا۔ (خلفائے راشدین)
حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ بھی مکہ آ گئے اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ ملاقات کی اور مدینہ کے حالات سے آگاہ کیا۔ اس سے قبل حضرت عائشہ صدیقہؓ مدینہ جانے کا قصد کر چکی تھیں مگر مدینہ کے حالات جاننے کے بعد اپنا ارادہ بدل لیا۔
حضرت عائشہؓ نے اس موقع پر تقریر فرمائی :
واللہ عثمانؓ مظلوم شہید کیے گئے، میں ان کے خون کا بدلہ لوں گی۔ (تاریخ ابنِ خلدون، حصہ اول، جلد دوم، ص 382)
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے لوگوں میں خطبہ دیا اور انہیں خونِ عثمانؓ کے مطالبہ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے پر ابھارا اور اس فتویٰ کا بھی ذکر کیا جو آپؓ نے ان لوگوں کے متعلق دیا تھا جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو حرمت والے شہر اور حرمت والے مہینے میں شہید کر دیا تھا اور جوارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھی لحاظ نہ کیااور لوگوں کا خون بہایا۔ ان کے اموال لوٹے۔ پس لوگوں نے آپؓ کی بات کو قبول کیا اور جس کام میں آپؓ نے مصلحت جانی اس میں اطاعت کے لیے تیار ہو گئے اور کہا کہ آپؓ جہاں تشریف لے جائیں گی ہم آپؓ کے ساتھ ہوں گے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، حصہ ہفتم، جلد چہارم، ص 231)
بصرہ روانگی:
جب سب لوگ تیار ہو گئے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ کدھر جائیں۔ مختلف آ را آئیں۔ بعض نے مدینہ جانے کا کہا لیکن کسی نے کہا کہ مدینہ پر پہلے ہی باغی حاوی ہیں اور ہماری تعداد کم ہے اس لیے بہتر ہے کہ مدینہ کا ارادہ ترک کیا جائے ورنہ ہماری یہ کوشش سرے سے ہی ناکام ہو جائے گی اور ہم قصاصِ عثمانؓ میں کامیاب نہ ہو پائیں گے۔ چند افراد نے رائے دی کہ شام چلنا چاہیے وہاں حضرت معاویہؓ کی ہمراہی میں قصاص لینا آسان ہو گا۔ کسی نے کہا کہ حضرت معاویہؓ خود ہی باغیوں کو کافی ہیں اس لیے بہتر ہے بصرہ جاناچاہیے اور مزید لوگ اکٹھے کرنے چاہئیں۔ اس طرح زیادہ لوگ قصاص کے لیے جمع ہو جائیں گے۔ بصرہ میں حضرت علیؓ کے مخالفین کی تعداد کافی زیادہ ہے لہٰذا ہمیں وہاں کامیابی کی قوی امیدہے۔ اس کے متعلق ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
بعض نے شام جانے کی رائے دی۔ ابنِ عامر بولے شام میں معاویہؓ ہیں وہ بلوائیوں کی روک تھام کے لیے کافی ہیں، بصرہ کی طرف چلو میری بات وہاں بنی ہوئی ہے اور لوگوں کا رحجان حضرت طلحہؓ کی طرف ہے۔ حاضرین بولے یہی مناسب ہے کیونکہ جس قدر ہماری ہمراہی ہے وہ ان لوگوں کا حملہ برداشت نہ کر سکیں گے جو مدینہ میں ہیں۔ جب ہم بصرہ پر قبضہ کر لیں گے تو اہلِ بصرہ کو بھی قصاصِ عثمانؓ پر آمادہ و تیار کر لیں گے جیسا کہ اہلِ مکہ کو آمادہ کیا ہے۔ اس وقت بآسانی قاتلینِ عثمانؓ سے ہم لڑ سکیں گے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ (تاریخ ابنِ خلدون، حصہ اول، جلد دوم، ص 382)
طبریؒ لکھتے ہیں:
جب تمام مشورے طے پا چکے اور کوچ کے علاوہ کسی قسم کا مشورہ باقی نہ رہا تو جماعت نے یہ سوال اٹھایا کہ کوچ کس طرح کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ ہمارے پاس مال موجود نہیں ہے جس سے ہم لوگوں کو تیار کر سکیں۔
یعلیٰ بن امیہ بولے میرے پاس چھ لاکھ درہم اور چھ سو اونٹ ہیں آپ لوگ ان اونٹوں پر سوار ہو جائیے۔
ابنِ عامر نے بھی یہی کہا کہ میرے پاس اتنا مال موجود ہے تم لوگ تیاری کرو۔
اس کے بعد منادی نے اعلان کیا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ اور طلحہؓ و زبیرؓ بصرہ جا رہے ہیں۔ جو شخص اسلام کی عزت کا طلبگار ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ان قاتلین سے قتال کر کے حضرت عثمانؓ کا قصاص لیا جائے تو وہ ساتھ چلے۔ جس کے پاس سواری یا سامانِ جنگ یا کھانے کا خرچہ موجود نہ ہو تو یہ سب چیزیں موجود ہیں وہ ہم سے لے لے۔ (تاریخ طبری، حصہ سوم، جلد دوم، ص 49)
اس سفر میں باقی امہات المومنین حضرت عائشہؓ سے جدا ہو گئیں۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
دیگر امہات المومنین حضرت عائشہؓ کے ہمراہ ذاتِ عرق تک آئیں اور اس مقام سے رو کر رخصت ہوئیں۔ (تاریخ ابنِ خلدون، حصہ اوّل، جلد دوم، ص 383)
میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
جب حضرت عائشہ صدیقہؓ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئیں تو دیگر امہات المومنین ذاتِ عرق تک ان کے ہمراہ گئیں اور اس مقام سے رو رو کر ان کو الوداع کہا۔ (خلفائے راشدین)
جب یہ قافلہ چلا تو راستے میں ایک چشمہ کے پاس پہنچا۔ یہ بہت اہم واقعہ ہے کیونکہ یہ واقعہ بہت حد تک یہ تعین کرتا ہے کہ دونوں فریقین میں سے کون حق کے زیادہ قریب ہے۔ اسے ہر مؤرخ نے بیان کیا بس بیان کرنے کا انداز مختلف ہے۔ طبری لکھتے ہیں:
عرفی کہتا ہے کہ میں اونٹ پر سوار جا رہا تھا کہ میرے سامنے ایک سوار آیا اور مجھ سے سوال کیا کہ اے اونٹ والے کیا تو اپنا اونٹ بیچنا چاہتا ہے؟
عرفی: ہاں!
سوار: اس کی کیا قیمت ہے؟
عرفی: ایک ہزار درہم۔
سوار: کیا تو پاگل ہے۔ کہیں اونٹ بھی ایک ہزار میں بکتا ہے۔
عرفی: ہاں میرا یہ اونٹ خاص اونٹ ہے۔
سوار: اس میں ایسی کیا خوبی ہے؟
عرفی: میں نے اس پر سوار ہو کر جب بھی کسی کا پیچھا کیا تو میں نے اسے پکڑ لیا لیکن مجھے کوئی نہیں پکڑ سکا۔ اور جب بھی میں اس پر سوار ہو کر بھاگا تو پیچھا کرنے والا مجھے پا نہ سکا۔
سوار: تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم یہ اونٹ کس کے لیے خریدنا چاہتے ہیں؟ اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے تو تم کبھی اتنی قیمت طلب نہ کرو۔
عرفی: آخر آپ کس کے لیے یہ اونٹ خریدنا چاہتے ہیں؟
سوار: آپ کی والدہ محترمہ کے لیے۔
عرفی: میں تو اپنی والدہ کو اپنے گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔ ان کا تو سفر کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
سوار: (نہیں بلکہ )اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کے لیے (خریدنا ہے)۔
عرفی: پھر آپ یہ اونٹ لے جائیے اور اب اس کی کوئی قیمت نہیں۔
سوار: میں بلاقیمت نہیں لیتا۔ تم میرے ساتھ قیام گاہ تک چلو میں تمہیں ایک مہریہ اونٹنی بھی دوں گا اور کچھ درہم بھی دوں گا۔
عرفی کا بیان ہے کہ میں اس سوار کے ساتھ گیا ان لوگوں نے مجھے ایک مہری اونٹنی دی اور چار سو یا چھ سو درہم دیے۔
اس کے بعد سوار نے مجھ سے سوال کیا کہ اے عرفی بھائی کیا تم راستہ سے واقف ہو؟
عرفی: ہاں میں ان لوگوں سے ہوں جو دوسروں کو تلاش کر لیتے ہیں۔
سوار: توتم ہمارے ساتھ چلو۔
عرفی کا بیان ہے کہ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ راہ میں جس وادی اور چشمہ سے ہمارا گزر ہوتا تو یہ مجھ سے اس مقام کا نام دریافت کرتے۔
چلتے چلتے ہم حواب کے چشمے پر پہنچے تو وہاں کتے ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگے۔ لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ کون سا چشمہ ہے۔
عرفی: یہ چشمہ حواب ہے۔
عرفی کہتا ہے کہ میرا یہ جواب سن کر حضرت عائشہؓ زور سے چیخیں اور اپنے اونٹ کے بازو پر چابک مار کر اسے ہنکایا اور پھر فرمایا: خدا کی قسم حواب کے کتوں والی میں ہی ہوں۔ اے لوگو مجھے واپس لے چلو۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 57-58)
ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
رفتہ رفتہ چشمہ حواب پر پہنچے اور پھر کتوں نے بھونکنا شروع کیا۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ چشمہ حواب ہے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ نے سنتے ہی ارشاد فرمایا: مجھ کو لوٹاؤ! لوٹاؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا جبکہ آپؐ کے پاس آپؐ کی ازواج بیٹھی ہوئی تھیں کہ’’کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ تم میں سے کس کو دیکھ کر حواب کے کتے بھونکیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر آپؓ نے اونٹ کی گردن پر ہاتھ پھیر کر بٹھا دیا اور نیچے اتر آئیں۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اول، ص 383)
احادیث اور تاریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ واپس جاناچاہتی تھیں لیکن انہیں واپس نہ جانے دیا گیا۔ جیسا کہ حدیث ہے:
قیس سے مروی ہے کہ جب سیدّہ عائشہ رضی اللہ عنہا(مدینہ منورہ سے بصرہ جاتے ہوئے) بنی عامر کے پانیوں تک پہنچیں تو کتے بھونکنے لگے، انہوں نے کہا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حواب کے پانی کا مقام ہے۔ انہوں نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ میں واپس لوٹ جاؤں۔ لیکن ان کے بعض ہم سفروں نے کہا:اب آپؓ واپس نہ جائیں بلکہ آگے بڑھیں، ممکن ہے کہ مسلمان آپؓ کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مابین صلح کر ادے گا۔انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک روز ہم سے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کی اس وقت کیا حالت ہوگی،جب اس پرحواب کے کتے بھونکیں گے۔ (احمد 24758)
جب سیدّہ عائشہؓ حواب کے مقام پر آئیں توکتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں اور کہا میں تو سمجھتی ہوں کہ مجھے واپس لوٹ جانا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں فرمایا تھا: تم میں سے وہ کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے۔ (السلسلۃ الصحیحہ 3544)
اس کی شرح میں امام البانی یہ حدیث لکھتے ہیں:
سیدّنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیویوں سے فرمایا ’’کاش مجھے پتا چل جاتا تم میں سے کون ہے جو ایسے اونٹ پر سوار ہو گی جس کے چہرے کے بال بہت زیادہ ہوں گے، وہ نکلے گی اور اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے ، اس کے دائیں اور بائیں جانب لوگوں کی کثیر تعداد کو قتل کر دیا جائے گا، وہ خود بال بال بچ جائے گی۔‘‘
امام البانی رقمطراز ہیں:خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے متن میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
طاؤس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ازواجِ مطہرات سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جس پر کتا بھونکے گا۔ (کنزالعمال 31580 )
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ازواج سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جس پر حواب کے مقام پر کتے بھونکیں گے؟ جب حضرت عائشہؓ کا بنی عامر کے بعض چشموں پر گزر ہوا تو رات کے وقت کتے ان پر بھونکے۔ حضرت عائشہؓ نے اس جگہ کے متعلق دریافت فرمایا تو ان سے کہا گیا کہ یہ چشمہ حواب ہے تو وہاں رُک گئیں اور فرمایا کہ میرے خیال میں واپس جانا چاہیے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں سے ایک کا کیا حال ہو گا جس پر چشمہ حواب کے کتے بھونکیں گے۔ ان سے کہا گیا اے اُمّ المومنین آپؓ تو لوگوں کے درمیان صلح کے لیے جا رہی ہیں۔ (کنزالعمال31567 )
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
جنگِ جمل کے سفر کے دوران حضرت عائشہؓ رات کو بنی عامر کی آبادی میں پہنچیں تو کتے بھونکے۔ پوچھا یہ کونسی آبادی ہے؟ معلوم ہوا یہ ’’حواب‘‘ہے(تو آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشین گوئی کہ تم میں سے کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے، یاد آ گئی) تو واپس جانے کا قصد کیاتو ہمسفروں نے کہا لوٹیئے نہیں بلکہ ہمارے ساتھ تشریف لے چلئے۔ (تاریخ ابن کثیر ، جلد 3، حصہ ششم، ص 514)
اس طرح حضرت عائشہؓ کو ان کی رضا کے خلاف لے جایا گیا۔
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ تاریخ طبری، مصنف:علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۳۔ تاریخ ابنِ خلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمٰن ابنِ خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۴۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۵۔علیؓ اور ان کی خلافت، مصنف:پیام شاہجہانپوری، اشاعت 1956
This is very informative article ❤️
Very beautiful ❤️ and informative article
Authentic article
بہت خوب
اگلے حصے کا انتظار ہے ۔
I feel very sad to know how such great Sahabas were treated
Behtareen ❤️
I love reading this article
بہت اچّھا لکھا ہے
بہت اچھا مضمون ہے
❤️❤️❤️❤️❤️👍👍👍
Informative article
بہت خوب
بہترین سلسلہ وار تحریر
Behtreen article ha
بہت بہترین مضمون ۔ اس کے اگلے حصے کا انتظار رہے گا
👌🏻