انفاق فی سبیل اللہ Infaq Fi Sabilillah
تحریر: مقدس یونس سروری قادری
اِنفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ اور فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں‘ ہے۔ شرع کی رو سے انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ ہے۔
قرآن نے الگ الگ انداز میں لوگوں سے انفاق کرنے کے لیے کہا ہے۔کہیں اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے توکہیں پر قرآن نے ان لوگوں کے بارے میں بیان کیا ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتے، کہیں پر قرآن نے صرف مال جمع کرتے رہنے اور خرچ نہ کرنے کے انجام سے ڈرایا ہے تو کہیں یہ بتایا ہے کہ کس چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ کیسے خرچ کرنا ہے اورپھر یہ بھی بیان کیا کہ خرچ کرنے کے بعد کون سے کام نہیں کرنے چاہئیں تاکہ ہمارا نیک کام نیکی میں شمار ہو نہ کہ گناہ بن جائے۔
قرآنِ حکیم ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں صراحت کے ساتھ یہ حکم دیتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
انفقوا مما رزقکم اللّٰہ (سورہ یسٰ۔ 47)
ترجمہ: تم اس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرو جو تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے۔
یَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ (البقرہ ۔ 254)
ترجمہ: اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ (البقرہ۔ 267)
ترجمہ: اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔
وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِج وَاَحْسِنُوْا ج اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُحْسِنِیْنَ۔ (البقرہ۔ 195)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِِرَّ حَتّٰی تَنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ۔ (آلِ عمران۔ 92)
ترجمہ: تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَاعَاھَدُوْا(البقرہ۔ 177)
ترجمہ:اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرو، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور جب کوئی وعدہ کرو تو اپنا وعدہ پورا کرو۔
مندرجہ بالا تمام آیاتِ قرآنی اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کیا جائے تاکہ اللہ کی رضا کے حصول کے ساتھ ساتھ رِزق میں برکت اور خوش حالی نصیب ہوسکے۔
اسوۂ محمدیؐ کی روشنی میں انفاق فی سبیل اللہ کا کمال نمونہ یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے کیونکہ احادیثِ مبارکہ اور کتبِ سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِنفاق فی سبیل اللہ کو اپنی زندگی میں ایسا مقام دیا کہ اپنا سب کچھ مستحقین اور غربا و سائلین میں تقسیم فرمادیتے۔یہاں تک کہ دوسروں کی حاجات پوری کرنے کی خاطر اپنی ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزار دی۔ اگر اپنے پاس ایک لقمہ بھی ہوا اور کسی کو کبھی حاجت مند پایا تو وہی لقمہ اسے دے دیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِنفاق فی سبیل اللہ کی جو عظیم مثال پیش کی اس کی نظیر پوری دنیائے انسانیت میں ابد الآباد تک نہیں مل سکتی۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی بیشتر مقامات پر اِنفاق فی سبیل اللہ کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا‘‘ اور فرمایا ’’اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے اللہ نے کتنا خرچ کیا (لوگوں کو دیا) لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔‘‘ (بخاری۔ 7411)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مزید روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اسے (اس کے عمل کے مطابق) جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا، (اُسے کہا جائے گا:) اے اللہ کے بندے! ادھر آؤ اور (یہاں سے) داخل ہو جاؤ۔‘‘ (بخاری۔3186)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
رشک تو صرف دو آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کا علم عطا کیا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازااور وہ اسے رات دن (راہِ خدا میں) خرچ کرتا رہا۔‘‘ (بخاری۔ 5025)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے ایک اور روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
کسی آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کے خرچ کا وہ ذمہ دار ہے اس کا خرچ ضائع کر دے (یعنی روک لے)۔ (ابوداؤد۔ 1692)
حضرت ابو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر مسلمان کے لیے صدقہ ضروری ہے۔‘‘ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اگر کوئی شخص اِس کی استطاعت نہ رکھے تو؟ آپؐ نے فرمایا ’’اپنے ہاتھوں سے کام کرے، جس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو یا ایسا نہ کر سکے تو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ضرورت مند اور محتاج کی مدد کرے۔‘‘ لوگ عرض گزار ہوئے ’’اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اسے چاہیے کہ خیر کا حکم کرے یا فرمایا کہ نیکی کا حکم دے۔‘‘ لوگوں نے پھر عرض کیا’’اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’وہ برائی سے رُکا رہے کیونکہ یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ 1445)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہؓ! کسی بھی محتاج اور ضرورت مند کو مایوس نہ کر خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ دو۔ اے عائشہؓ! مساکین سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کرو، بے شک (اس کے صلہ میں)اللہ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازے گا۔ (ترمذی۔ 2352)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جو مومن کسی دوسرے مومن کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کے پھل کھانے کے لیے دے گا۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مہر لگائی ہوئی شرابِ طہور پلائے گا، اور جو مومن کسی برہنہ مومن کو لباس پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔ (ابو داود۔1682)
انفاق کی اقسام
انفاق کی دو اقسام ہیں:
1) انفاق واجبہ
2) انفاق نافلہ
انفاقِ واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جن کا ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر بطورِ فرض لازم ہے مثلاً زکوٰۃ، صدقہ فطر، عشر وغیرہ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرے وہ نفلی صدقہ میں شمار ہو گا۔ اسے انفاقِ نافلہ کہتے ہیں۔ پس جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا آخرت میں اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے۔
اسلام میں اِنفاق کی اہمیت اور ترکِ اِنفاق پر وعید
اسلام میں اِنفاق کو نیکی کی تصدیق اور ترکِ اِنفاق یعنی بخل کو نیکی کی تکذیب قرار دیا گیا ہے۔ اس کی شہادت قرآنی آیات سے پیش کرتے ہیں جن میں ’نیکی‘ کی تصدیق اور تکذیب دونوں صورتوں کا موازنہ کیا گیا ہے:
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی۔ وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی۔ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنْیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی۔(الیل، 5-10)
ترجمہ: پس جس نے(اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اس نے(اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی۔ تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا۔ اور اس نے(یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے۔
گویا قرآنِ حکیم نے واضح الفاظ میں انفاق کو نیکی کی تصدیق اور بخل کو نیکی کی تکذیب قرار دے دیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ جو شخص بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اس کے لیے اس کی منزل اور نصب العین کا حصول نہایت آسان کر دیا جائے گا اور اس کے برعکس جو شخص ترکِ انفاق یعنی بخل اور ارتکازِ دولت کے راستے پر گامزن ہو گا اس کے لیے منزلِ حق کا حصول دشوار کر دیا جائے گا اور وہ عذابِ الٰہی کا مستحق ٹھہرے گا۔
اصل میں انسان سوچتا ہے کہ شاید اس کا جمع کیا ہوا مال اس کو مستقبل میں کسی مشکل وقت میں کام آئے گا۔ انسان کا سب سے مشکل وقت موت کا وقت ہوتا ہے جب جمع کیا ہوا مال کسی کام نہیں آتا۔
ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَالُہٗٓ اِذَا تَرَدّٰی۔ (الیل۔ 11)
ترجمہ: اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گاجب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنے اور بخل پر اللہ تعالیٰ نے سخت وعید فرمائی ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (آلِ عمران۔ 180)
ترجمہ: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں سے دینے میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے، اسے ہرگز اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برُا ہے۔ عنقریب وہ مال جس میں انہوں نے بخل کیا تھا (اور راہِ خدا میں خرچ نہیں کیا تھا) قیامت کے دن اُن کے گلے میں طوق ہو گا۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا۔ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَکْتُمُوْنَ مَا اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًامُّہِیْنًا۔(النسا۔36,37)
ترجمہ: بے شک اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی اترانے والا اور بڑائی مارنے والا، جو خود بھی بخل کرے اور دوسروں کو بھی بخل کا سبق دے۔ اور اللہ نے جو اسے اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپائے اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔لا یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُہُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْ قُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ (التوبہ۔ 34,35)
ترجمہ: اور وہ جو جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سنا دو درد ناک عذاب کی، جس دن وہ (سونا اور چاندی) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں، پھر اس سے داغی جائیں گی ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں۔ یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لیے جوڑ رکھا تھا اب مزہ چکھو اپنے جوڑے ہوئے خزانے کا۔
اِنفاق تزکیۂ مال اور تزکیۂ نفس کا باعث
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رضائے الٰہی کے نصب العین کا محرک ’تزکیہ‘ ہے اور تزکیہ دو طرح کا ہوتاہے: تزکیۂ مال اور تزکیۂ نفس۔ اِنفاق تزکیۂ مال اور تزکیۂ نفس دونوں کا باعث بنتا ہے ۔قرآنِ حکیم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تزکیہ کی دونوں صورتیں ’انفاق‘ پر منحصر ہیں اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ عملِ انفاق سے حاصل ہونے والا تزکیۂ مال بلاشک و شبہ ’تزکیۂ نفس‘ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ عملِ اِنفاق تزکیۂ نفس کی یقینی صورت ہے یعنی تزکیۂ نفس کے لیے اِنفاق فی سبیل اللہ ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی۔ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی۔ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیٓ۔ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی۔ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔(الیل، 92: 17-21)
ترجمہ: اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا جو اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے۔ اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لیے (مال خرچ کر رہا ہے)۔ اور عنقریب وہ (اللہ کی عطا سے اور اللہ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا۔
البتہ یہ تزکیۂ مال اور تزکیۂ نفس صرف تبھی حاصل ہو گا جب اللہ کی راہ میں مال خلوصِ نیت سے صرف اور صرف رضا و قربِ الٰہی کی خاطر خرچ کیا جائے نہ کہ دکھاوے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے۔ اور نہ ہی انفاقِ واجبہ کی ادائیگی بوجھ یا مجبوری سمجھ کر کی جائے بلکہ شوق اور خوشی سے ان فرائض کو ادا کیا جائے تو ہی ان کے حقیقی ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔
انفاق کے اصل حقدار
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتْ لِلْفُقَرَآئِ (التوبہ۔60)
ترجمہ: بے شک صدقات فقرا کے لیے ہیں۔
یہ بات واضح رہے کہ یہاں فقرا سے مراد وہ گداگر یا بھکاری نہیں جو لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ فی زمانہ بھیک مانگنا(گداگری) ایک پیشے کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو محنت سے جان چھڑاناچاہتے ہیں۔یہ پیشہ وَر بھکاری مختلف اَخلاقی بیماریوں مثلاً جھوٹ، لالچ، بے صبری اور بے حیائی میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اکثر تو چوری، دھوکہ دہی اور دیگر جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ انہیں مال دینا ان کے جرائم کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ان گداگر بھکاریوں کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (نسائی۔ 2586)
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتاہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے۔‘‘ (مسند احمد۔ 3514)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ مانگنے سے بچنے (کی فضیلت) اور سوال کرنے (کی مذمت) بیان کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔‘‘ (ابو داؤد۔ 1648)
سورۃ التوبہ کی آیت جس کا حوالہ دیا گیاہے،میں فقرا سے مراد صاحبِ فقر فقیر ہیں جو فقر کے اعلیٰ ترین مقام اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہی اللہ ہے) پر فائز ہوں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقرا کے متعلق فرمایا ’’میری امت کے بہترین لوگ فقرا ہیں‘‘۔
ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی فقرا اور مساکین کی محبت ہے اور ان کے لیے کوئی گناہ نہیں کہ یہ روزِ قیامت اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے فرمایا:
’’اے ابوذرؓ! فقرا وہ ہیں جن کا ہنسنا عبادت، جن کا مزاح تسبیح اور جن کی نیند صدقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف ایک دن میں تین سو مرتبہ دیکھتا ہے۔ جو کسی فقیر کے پاس ستر قدم چل کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ستر مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے اور جنہوں نے ان فقرا کو مصیبت میں کھانا کھلایا تو وہ کھانا قیامت کے دن ان کی دولت (اجروثواب) میں نور کی مانند ہوگا۔
حضرت سلطان باھوؒ فقرا کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
فقیر وہ ہے جو طمع نہ کرے، اگر کوئی کچھ دے تو منع نہ کرے اور اگر کچھ ملے تو جمع نہ کرے۔فقیر کے لیے علم ِ ملاقات اوردوسروں کے لیے علمِ کرامات ہے۔ کرامات سے مراد مقامِ ناسوت ہے جبکہ ملاقات مقامِ لاھوت ہے۔کرامات لوگوں کو اپنی بازیگری کا تماشا دکھاناہے جبکہ ملاقات حضرت محمدؐ کی اطاعت اورحضوری سے مشرف ہونا ہے۔ نیز ملاقات سے مراد مقامِ ربوبیت پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور واحدانیت میں غرق ہونا ہے جو فنا فی اللہ بقا باللہ عارف باللہ فقیر کا شرف ہے۔ (عین الفقر)
موجودہ دور کے فقیر مالک الملکی، انسانِ کامل ،مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔فقرِ محمدیؐ کے مشن کو آگے بڑھانے اور لوگوں کو اسمِ اللہ ذات کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور راہِ فقر کی دعوت دینے کے لیے آپ مد ظلہ الاقدس نے 23 اکتوبر 2009ء کو تحریک دعوتِ فقر کا قیام عمل میں لا کر اس تاریک دور میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقیقی ورثۂ فقر کی نعمت عام کی ہے۔
دین کی خدمت میں جس طرح ہماری ظاہری صلاحیت، قابلیت، علم، فہم ، قوت وطاقت اوروقت کا استعمال ہوناباعثِ سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے ،اُسی طرح ہمارے مال کا بھی دین کے کاموں میں لگنا اور استعمال ہونا پروردگار کی عظیم نعمت ہے اور ہر مسلمان کواس کی تمنا رکھنی چاہیے۔اللہ کی راہ میں مال کو خرچ کرنا دراصل اپنے آخرت کے خزانوں کو بھرلینا ہے ۔
جائز حاجات اور ضروری چیزوں کی تکمیل کے ساتھ اپنے پیسے کو دین کی نشر واشاعت میں لگانے کی فکرکرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اللہ ربّ العزت اپنے دین کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے کسی کا محتاج نہیں، وہ جس سے چاہے اپنے دین کا کا م لے سکتا ہے ،وہ صنم خانوں سے کعبہ کے پاسبان کو پیداکر سکتا ہے۔یہ تو بندہ کے لیے مقامِ سعادت ہے کہ اللہ اس سے اپنے دین کا کوئی کام لے لے۔
عطیات،زکوٰۃ، صدقات اور تحریک دعوتِ فقر
تحریک دعوتِ فقر کا اصول ہے کہ اس میں عام لوگوں سے چندہ وصول نہیں کیا جاتا۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے وہ خود بخود ہی نام و نمود کی خواہش سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اب عوام الناس سے عطیات اور زکوٰۃ کے حصول کے لیے درخواست کی جا رہی ہے جو آپ اپنے دل کے مطمئن ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ادا کریں کیونکہ دل کے اطمینان کے بعد اللہ کی رضا کے لیے کیا جانے والا کام ہی اعلیٰ مراتب کا حامل ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھیے کہ تحریک دعوتِ فقر کے کسی شعبہ میں اعانت کرنا ’’صدقہ جاریہ‘‘ ہے یعنی آپ کسی بھی شعبہ میں جب عطیات دیں گے تو آپ کو اس وقت تک اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک وہ چیز اس فانی دنیا میں موجود رہے گی۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:
تعمیر مسجد و خانقاہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں مساجد کو آباد کرنے اور تعمیر کرنے والوں کے لیے بے شمار بشارتیں اور انعامات کی نوید سنائی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی ایک چیل کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے (یعنی کوئی مسجد کی تعمیر میں اگر اتنا بھی حصہ ڈالے) تو اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘ (ابنِ ماجہ۔738)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘ ( ترمذی۔318-319)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مساجد کو اللہ کا گھر اور جنت کا باغ قرار دیا اور ان کی تعمیر کو صدقہ جاریہ فرمایا۔ صحابہ کرامؓ میں سے جو صحابی مسجد کی تعمیر میں جس قدر دلچسپی لیتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔
مسجد کو تعمیر کرنے کا مقصد عبادات کے ساتھ ساتھ اسے آباد کرنا بھی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہیں وہ مسجد کے کھونٹے ہیں، فرشتے ان کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ کسی کام کو جائیں تو فرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں۔‘‘ (مستدرک حاکم۔3507)
مساجد تعمیر کرنا اور پھر انہیں آباد کرنا اللہ کے حکم کے عین مطابق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتِ عظیم ہے۔ مو جودہ دور کے انسانِ کامل و مرشد کامل اکمل اور بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس چونکہ عین قدمِ محمدؐ پر اور فقیرِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہیں اس لیے آپ مدظلہ الاقدس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دینِ اسلام کی مزید سر بلندی اور امت کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور آپس میں جوڑنے کی خاطر مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا۔اس مقصد کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں قرب و جوار میں کوئی بھی وسیع و عریض جامع مسجد موجود نہ تھی جو مرکزِ دین و فقر کا نمونہ بن سکے۔
مسجد زہراؓ کا سنگِ بنیاد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور مسجدکی تعمیر کا کام پورے زور و شور سے دن رات جاری و ساری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے پنجتن پاک بالخصوص سیدّہ کائنات حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے والہانہ محبت کے باعث اس مسجد کا نام’’ مسجدِزہراؓ‘‘ رکھا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے درمیان وہ مقام ہے جو انگوٹھی میں نگینہ کا ہے کہ ان سب پاک ہستیوں کا آپؓ سے بلاواسطہ تعلق ہے اور آپ رضی اللہ عنہا ان ہستیوں کو جوڑنے والی ہیں۔ اسی نسبت سے آپ مدظلہ الاقدس نے سیدّہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پاک و مقدس اسمِ گرامی پر اس مسجد کا نام مسجدِ زہراؓ رکھا۔ یہ دینِ اسلام کا ایسا مرکز و محور ہوگا جو تمام امتِ مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لے گا اور یہ مسجد نہ صرف موجودہ دور بلکہ آنے والے ادوار کے لیے ایک شاہکار اور نمونہ ہوگی۔ انشاء اللہ
مسجدِ زہراؓ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ خانقاہ سلطان العاشقین کی توسیع، شعبہ جات اور انتظامی دفاترکی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ خانقاہ سلطان العاشقین میں مریدین و عقیدتمندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے زائرین کے قیام و طعام کے لیے مستقل بنیادوں پر بہترین حل کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین کے جنوب میں وسیع و عریض ہال کمرے تعمیر کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔
اپریل 2023ء میں اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا گیا جس کے تحت دفاتر اور ہال کمروں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد تحریک دعوتِ فقر کے شعبہ جات اور انتظامی دفاتر خانقاہ سلطان العاشقین سے فعال ہو جائیںگے۔ محافل میں شرکت کے لیے ملکی و غیر ملکی زائرین کے قیام و طعام کا بہترین انتظام موجود ہوگا۔
دل کھول کر اپنے عطیات اس نیک اور عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کو دیں۔ آپ کا دیا ہوا ایک ایک روپیہ خالصتاً مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا اور جب تک مسجدِ زہرؓا قائم و آباد رہے گی اس کی تعمیر میں جانی و مالی تعاون کرنے والوں کو بھی اس کا اجر ملتا رہے گا۔
سلطان الفقر پبلیکیشنز
بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے فقر اور دینِ حق کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اگست2006ء میں سلطان الفقر پبلیکیشنز اوراس کے ماتحت ماہنامہ سلطان الفقرلاہور کا اجرا کیا۔ اس شعبہ کے زیر اہتمام تاحال فقر و تصوف پر ایک سو (100)سے زائد اردو اور انگریزی کتب شائع ہو چکی ہیں۔
ہوشربا مہنگائی کے باوجود سلطان الفقرپبلیکیشنز کی کتب آج بھی معیاری کاغذ پر بہترین پرنٹنگ کے ساتھ قارئین کے لیے انتہائی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں کیونکہ اس کارِ خیر کا واحد مقصد لوگوں کو فقر ِ محمدیؐ سے روشناس کرانا ہے نہ کہ منافع کمانا، اسی لیے ان کتب کاہدیہ لاگت کے اخراجات بھی بمشکل پورے کرپاتا ہے۔
ماہنامہ سلطان الفقر لاہور بھی مسلسل اور کامیاب اشاعت کے سولہ سال مکمل کر چکا ہے۔دنیا بھر میں فقر کا واحد ترجمان ’’ماہنامہ سلطان الفقر لاہور‘‘ آرٹ پیپر پر 4کلر میں پرنٹ کیا جاتا ہے جس کی قیمت اور سالانہ چندہ لاگت سے بھی کم رکھا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ ’’جہاد بالقلم‘‘ ہے کیونکہ قلم کے ذریعے دینِ حق کو عام کیا جا رہا ہے۔اس رسالہ کی کثیر تعداد لائبریریوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ریسرچ سینٹرز اور غریب و مفلس لوگوں کو اعزازی طور پر بھیجی جاتی ہے۔ اس میں بھی آپ کا تعاون صدقہ جاریہ ہے۔
مرکزی دفتر اور خانقاہ سلطان العاشقین کے اخراجات
خانقاہ سلطان العاشقین میں ہر وقت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ مقیم رہتے ہیں جو ہمہ وقت دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملک بھر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لہٰذا مرکزی دفتر اور خانقاہ شریف میں لنگر ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔
اس کے علاوہ ہر اتوار کو منعقد ہونے والی محفل میں ملک بھر سے آنے والے مہمانوں کے لیے خصوصی لنگر تیار کیا جاتا ہے۔ محافل میلادِ مصطفیؐ، عرس پاک اور دیگر سالانہ تقریبات پر بھی وسیع اخراجات ہوتے ہیں۔ ان اخراجات میں امداد کا بھی بہت بڑا ثواب ہے۔
تحریک دعوتِ فقر کے دیگرشعبہ جات
دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں تک دعوتِ اسم اللہ ذات پہنچانے کے لیے شعبہ ویب سائٹ ڈویلپمنٹ نے اردو اور انگریزی میں دیدہ زیب ویب سائٹس تیار کی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر کتب ورسائل اور دیگر تعلیماتِ فقر فراہم کی گئی ہیں۔ ان ویب سائٹس کی ہمہ وقت نگرانی اور انہیں اَپڈیٹ رکھنے کے لیے ادارہ کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس شعبہ میں آپ کا مالی تعاون دینِ اسلام کو دنیا بھر میں عام کرنے میں مددگار ہوگا۔
اس کے علاوہ ویب پروموشن، سوشل میڈیا، اطلاعات و نشریات، رابطہ کمیٹی، سائبر سیکورٹی، دعوت و تبلیغ اور دیگر شعبہ جات دن رات تعلیماتِ فقر کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہیں جن پر لاکھوں روپے ماہانہ رقم خرچ ہو رہی ہے۔ آپ ان شعبہ جات میں بھی تعاون کر سکتے ہیں۔ آپ کے اس اقدام سے فقرِ محمدیؐ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلے گا اور لوگ دین کی طرف راغب ہوں گے اور اس سب کا اجر آپ کو بھی ملے گا۔مضمون کی طوالت کے باعث تحریک دعوتِ فقرکے چند شعبہ جات کا مختصر تعارف پیش کیاگیاہے۔ شعبہ جات کے متعلق تفصیلی مطالعہ کے لیے تحریک دعوتِ فقر کی آفیشل ویب سائٹس ضرور وزٹ کریں۔
آپ اپنے عطیات ، صدقات اور زکوٰۃ اتوار کے دن براہِ راست سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں پیش کر سکتے ہیں۔جو لوگ کسی بیماری ، لاچاری یا مجبوری کے باعث سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں از خود حاضر ہونے سے قاصر ہیں، وہ اپنے عطیات تحریک کے مختص کردہ اکاؤنٹس میں بھیج سکتے ہیں۔ بین الاقوامی مریدین و عقیدتمندوں کے لیے بھی عطیات بھیجنے کی سہولت میسر ہے۔
جاز کیش اکاؤنٹ/ ایزی پیسہ
نعیم عباس ملک03214507000 ناصر حمید 03214254906
راست آئی ڈی: نعیم عباس ملک03214507000
بنک اکاؤنٹ نمبر
SILKBANK: Naeem Abbas Malik/ Nasir Hameed
IBAN: PK26SAUD0000812008909477
Swift Code: SAUDPKKA
ویسٹرن یونین / منی گرام
مغیث افضل (Moghees Afzal)
CNIC: 35202-2915149-3
Phone #: 0092-300-4737607
PayPal
وحید حسن(Waheed Hassan)
waheed.hassan@outlook.com
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ (آمین)
استفادہ:
زکوٰۃ اور صدقات (فضائل و مسائل): ڈاکٹر طاہر القادری
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Infaq Fi Sabilillah |Allah ki Raah mein Maal Kharach Karna | انفاق فی سبیل اللہ | Urdu/Hindi Podcast
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘ ( ترمذی۔318-319)
ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی فقرا اور مساکین کی محبت ہے اور ان کے لیے کوئی گناہ نہیں کہ یہ روزِ قیامت اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔
Very nice blog
بہت پیارا مضمون ہے
Very beautiful ❤️ and informative article
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ (آمین)
انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ (آمین)
خانقاہ سلطان العاشقین میں ہر وقت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ مقیم رہتے ہیں جو ہمہ وقت دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملک بھر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لہٰذا مرکزی دفتر اور خانقاہ شریف میں لنگر ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔
مسجد زہراؓ کا سنگِ بنیاد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور مسجدکی تعمیر کا کام پورے زور و شور سے دن رات جاری و ساری ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
Behtreen mazmoon
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ (آمین)
اِنفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ اور فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں‘ ہے۔ شرع کی رو سے انفاق فی سبیل اللہ کا معنی ’اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ ہے۔
قرآن نے الگ الگ انداز میں لوگوں سے انفاق کرنے کے لیے کہا ہے۔کہیں اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے توکہیں پر قرآن نے ان لوگوں کے بارے میں بیان کیا ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتے، کہیں پر قرآن نے صرف مال جمع کرتے رہنے اور خرچ نہ کرنے کے انجام سے ڈرایا ہے تو کہیں یہ بتایا ہے کہ کس چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ کیسے خرچ کرنا ہے…
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتاہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے۔‘‘ (مسند احمد۔ 3514)
خانقاہ سلطان العاشقین میں ہر وقت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ مقیم رہتے ہیں جو ہمہ وقت دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملک بھر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لہٰذا مرکزی دفتر اور خانقاہ شریف میں لنگر ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
رشک تو صرف دو آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کا علم عطا کیا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازااور وہ اسے رات دن (راہِ خدا میں) خرچ کرتا رہا۔‘‘ (بخاری۔ 5025)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی ایک چیل کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے (یعنی کوئی مسجد کی تعمیر میں اگر اتنا بھی حصہ ڈالے) تو اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘ (ابنِ ماجہ۔738)
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
انسان سوچتا ہے کہ شاید اس کا جمع کیا ہوا مال اس کو مستقبل میں کسی مشکل وقت میں کام آئے گا۔ انسان کا سب سے مشکل وقت موت کا وقت ہوتا ہے جب جمع کیا ہوا مال کسی کام نہیں آتا۔