عقلمند خرگوش Intelligent Rabbit


4.6/5 - (36 votes)

عقلمند خرگوش(Intelligent Rabbit )

حکایاتِ رومی(Hikayat  Roomi) سے انتخاب

ایک جنگل میں تمام جنگلی جانور خونخوار شیر سے بہت پریشان رہتے تھے۔ اس سرسبز جنگل میں ہر قسم کے جانوروں نے اپنے اپنے ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ وہ جنگل میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتے تھے۔ خونخوار شیر نے تمام جانوروں کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ہر وقت ان کی گھات میں رہتا تھا۔کوئی دن ایسا نہ تھا جب وہ کسی نہ کسی جانور کو اپنا لقمہ نہ بنا لیتا۔ غرض کوئی جانور بھی اس جنگل میں اپنی جان کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ سب جانور اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ اگر اسی طرح لیل و نہار گزرتے رہے تو ہمارا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔
سب جانوروں نے مل کر ایک ترکیب سوچی اور پھر ایک دن شیر کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگے ’’جہاں پناہ! آپ ہمارے بادشاہ ہیں اور ہم رعایا۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم آپ کی آسائش اور خوراک کا خیال رکھیں، ہم ہر روز وقتِ مقررہ پر آپ کو ایک جانور مہیا کر دیا کریں گے۔ آپ کو آگے پیچھے جا کر تکلیف فرمانے کی حاجت نہیں رہے گی۔ ہماری صرف اتنی التجا ہے کہ آپ ہم سب کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنیں تا کہ ہم جنگل میں بے خوف و خطر گھوم پھر سکیں۔‘‘
 شیر نے کہا: ’’ہم ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر کچھ کھانا حلال نہیں سمجھتے۔ پہلے کوشش پھر تو کل ہمارا خاصہ ہے، حرکت میں برکت ہے۔ مجھے اللہ نے ہاتھ پاؤں دیئے ہیں میں ان سے کام لوں گا۔ میں غیر کا مارا ہوا کیوں کھاؤں؟‘‘

الغرض خونخوار شیر سے انہوں نے عہد کیا کہ اس قول و قرار میں تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ زندہ جانور وقتِ مقررہ پر آپ کے پاس پہنچ جایا کرے گا آپ خود اس کا شکار کرکے کھا لیا کریں۔ کافی بحث و تکرار کے بعد شیر نے ان کی یہ تجویز منظور کر لی۔ اس معاہدے کے بعد تمام جانور روزانہ ایک مقررہ جگہ پر اکٹھے ہوتے۔ تمام جانوروں میں قرعہ اندازی کی جاتی، جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا وہ بلا حیل و حجت شیر کی خوراک بننے کیلئے روانہ ہو جاتا۔ اس معاہدہ پر کافی عرصہ عمل درآمد ہوتا رہا۔ تمام جانور جنگل میں بے فکر ہو کر گھومتے پھرتے۔ چونکہ شیر کو باقاعدہ کھانامل رہا تھا اس لئے وہ بھی جانوروں کو ناحق تنگ نہیں کرتا تھا۔ اس معمول کی قرعہ اندازی میں ایک دن خرگوش کے نام قرعہ نکل آیا۔

جب یہ ساغر دَور خرگوش کے پاس آیا تو اس نے پکار کر کہا’’ اے دوستو! یہ ظلم وستم کب تک جاری رہے گا۔ یہ ہماری قربانیوں کا سلسلہ ختم بھی ہوگا کہ نہیں؟‘‘
 دوسرے جانوروں نے جب خرگوش کے یہ تیور دیکھے تو انہوں نے کہا: ’’ہم نے اتنے دن تک اپنا وعدہ پورا کیا۔ اب تو ہم کو رسوا نہ کر ، ورنہ شیر پھر سے شکار کرنا شروع کر دے گا۔ اس طرح پھر ہم سب کی جان ہلاکت میں پڑ جائے گی۔‘‘
خرگوش نے کہا: ’’دوستو! مجھے مہلت دو کہ شیر کے ظلم و ستم کے پنجے سے جان چھڑانے کے لئے کوئی تدبیر کروں تاکہ ہم اس مصیبت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے خوف ہو جائیں۔‘‘

دوسرے جانوروں نے کہا: اے گدھے ہماری بات مان جاتو اپنی قدر پہچان، ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘، یہ کام تمہارے بس کا نہیں۔ خرگوش نے کہا: ’’خدا چیونٹی سے ہاتھی مروا سکتا ہے، ذرا صبر سے کام لو اور دیکھو کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔‘‘
وہ کہنے لگا دوستو! مجھے خدا نے الہام کیاہے، مجھ جیسے ایک کمزور کے ذہن میں ایک مضبوط رائے آگئی ہے۔ جانوروں نے اس سے پوچھا تمہارے ذہن میں کونسی بات آئی ہے؟ ہمیں بھی اس سے آگاہ کر… مشورہ کر لینا عقلمندی ہے۔ اس سے مزید روشن پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ خرگوش نے کہا! راز برسرِعام کھولنا بے وقوفی ہے کیونکہ اس سے جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس نے کہا! ہر راز کہنے کے لائق نہیں ہوتا۔ مولانا رومؒ  فرماتے ہیں:
ان تین چیزوں کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی چاہیے ذہاب (سفر) ذہب ( سونا یعنی مال دولت ) اور مذہب (منزل) یہاں مذہب سے مراد منزل لی گئی ہے اس سے یہاں دین مراد لینا مناسب نہیں (کیونکہ ان تینوں چیزوں کے دشمن اور مخالف بہت ہوتے ہیں)۔
( خرگوش گھر بیٹھا رہا) اور وقتِ مقررہ سے تقریباً ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوا۔ شیر کو جب وقت مقررہ پر خوراک نہ ملی تو اس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ بار بار زمین پر پنجے مارتا اور کہتا کہ افسوس میں ان کمینوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ نا اہل حکمران جب موقع محل کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو پھر اپنی اس بے وقوفی کے سبب پریشانی اُٹھاتا ہے۔ شیر غصے کی حالت میں گرج رہا تھا۔ اس نے دور سے خرگوش کو تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جب وہ قریب آیا تو شیر نے غرّا کر کہا: اے کمینے نابکار! تو نے اتنی دیر کیوں لگا دی؟ خرگوش نے دست بستہ عرض کیا کہ اے بادشاہ سلامت! اگر جان کی امان پاؤں تو دیر سے آنے کی وجہ بیان کروں؟ اے جنگل کے بادشاہ تم پر ہم سب جانور قربان۔۔۔ آج میں اور میرا ایک بھائی خوانِ شاہی کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک اور شیر نے ہمیں آگھیرا۔ اس نے ہم دونوں کو لقمہ تر بنانا چاہا۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم اپنے شہنشاہ کی طرف جارہے ہیں اور ہمیں وقت پر پہنچناہے۔ اس نے کہا ’’بادشاہ میں ہوں تمہیں اور کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے میرے ساتھی کو، جو مجھ سے زیادہ خوبرو اور صحت مند تھا،پکڑ لیا اور میں بڑی مشکل سے جان بچا کر ادھر بھاگ آیا۔ میں نے اس سے کہا تو مجھے چھوڑ دے تا کہ میں اپنے بادشاہ کی زیارت کر لوں اور اسے تیرے متعلق آگاہ کر دوں۔ اے بادشاہ سلامت! آئندہ اس شیر کی وجہ سے راستہ بند ہو گیاہے اگر تو معمول کے مطابق روزی چاہتا ہے تو پہلے ہمارا یہ راستہ صاف کرو۔ خرگوش کی یہ باتیں سن کر شیر کا خون کھول اُٹھا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا:
’’وہ کون ہے جس نے میری عملداری میں قدم رکھا اور میرا شکار چھین لیا؟ میں جب تک اس کاکام تمام نہ کرلوں، کھانا حرام سمجھوں گا۔ اے خرگوش میرے ساتھ چل اور مجھے اس نابکار کا پتہ دے۔‘‘

خرگوش رہبر کی طرح اس کے آگے آیا تا کہ اسے اپنے جال کی طرف لے کر چلے۔ خرگوش کے مکر کا جال شیر کا پھندا تھا۔ عجیب خرگوش تھا کہ شیر کو اُچک لے گیا۔ دشمن اگر تجھ سے دوستانہ بات کرے تو جال سمجھ اگرچہ وہ تیرے حق میں بہتر ہی کہہ رہا ہو۔ اگر وہ تجھے ٹکڑا دے تو توُاسے زہر سمجھ اور اگر تجھ پر وہ مہربانی کرے تو قہر سمجھ۔۔۔ خرگوش بڑے حوصلے اور اعتماد کے ساتھ شیر کے آگے آگے چل رہا تھا۔ ایک شکستہ کنویں کے قریب وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔

شیر نے للکار کر کہا: آگے بڑھ پیچھے قدم کیوں ہٹاتا ہے۔
 خرگوش نے کہا: سرکار! میرے ہاتھ پیر جواب دے گئے ہیں۔ میری روح کانپ رہی ہے اور دل دھڑک رہا ہے کیونکہ وہ ظالم شیر اِسی کنویں میں رہتا ہے اور میرے ساتھی کو پکڑ کر اسی کنویں میں لے گیا ہے۔ اس خوف سے مجھے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ حضور ! اگر آپ مجھے اپنی بغل میں اٹھا لیں تو پھر میں آگے بڑھ سکتا ہوں۔
شیر نے خرگوش کو بغل میں لے لیا۔ اس طرح وہ دونوں کنویں کے قریب پہنچے۔ شیر نے خرگوش کو اپنی بغل میں لئے کنویں میں جھانکا تو اسے اپنا اور خرگوش کا عکس پانی میں دکھائی دیا۔ اس نے سمجھا کہ واقعی کوئی شیر خرگوش کو پکڑے کھڑا ہے۔ ’’ جب قضا آتی ہے تو عقل پر پر دہ پڑ جاتا ہے۔‘‘
شیر نے غضبناک ہو کر آؤ دیکھا نہ تاؤ خرگوش کو وہیں چھوڑا اور خود کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ کنواں بہت گہرا تھا۔ خرگوش نے جب یقین کر لیا کہ اب اسکا باہر نکلنا محال ہے اور اب یہ کنویں کے اندر ہی مرجائے گا تو فرطِ مسرت سے قلابازیاں کھاتا ہوا جنگل کی طرف بھاگا اور جا کر اپنی قوم کو اس ظالم کی ہلاکت کی خوشخبری سنائی اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس ظالم کے ظلم و ستم سے نجات دے دی ہے۔
دنیا کے تمام شیروں کا سر جھک گیا جب قضا و قدر نے اصحابِ کہف کے کتے کو غلبہ دیا۔ تمام جانوروں نے خرگوش کو اس کی عقل مندی پر داد دی۔
جانوروں نے کہا تو آسمانی فرشتہ ہے یا پری یا تو پھر نر شیروں کا ملک الموت ہے، تجھے یہ تدبیر کیسے سوجھی؟تو نے اس ظالم کو کیسے ہلاک کیا۔۔۔؟؟ 
خرگوش کہنے لگا: اے دوستو! یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوا ہے ورنہ میری کیا طاقت تھی کہ اس ظالم سے عہدہ برآ ہوتا۔ تعریف اور شکر کے لائق وہی پاک ذات ہے جس نے مجھ کو عقل ، حوصلہ اور سمجھ عطا کی۔
مولانا رومؒ فر ماتے ہیں:

اے شہاں کشتیم ما خصم بروں
ماند خصمے زاں تبرد اندروں

ترجمہ: اے ساتھیو! ہم نے باہر کا دشمن مارڈالا لیکن اس سے زیادہ بدترین دشمن ہمارے اندر بیٹھا ہے اب اس کی فکر کرو۔ باطن کے شیر کو قابو کرنا خرگوش جیسے جانور کا کام نہیں۔

درس حیات

 صفیں پچھاڑنے والا شیر بننا تو آسان ہے لیکن حقیقی شیر تو وہ ہے جو اپنے نفسِ امارہ کو قابو کرے اور اسے شکست دے۔
(’’حکایاتِ رومیؒ‘‘ سے انتخاب)

 
 

22 تبصرے “عقلمند خرگوش Intelligent Rabbit

  1. صفیں پچھاڑنے والا شیر بننا تو آسان ہے لیکن حقیقی شیر تو وہ ہے جو اپنے نفسِ امارہ کو قابو کرے اور اسے شکست دے۔
    (’’حکایاتِ رومیؒ‘‘ سے انتخاب)

  2. صفیں پچھاڑنے والا شیر بننا تو آسان ہے لیکن حقیقی شیر تو وہ ہے جو اپنے نفسِ امارہ کو قابو کرے اور اسے شکست دے۔
    (’’حکایاتِ رومیؒ‘‘ سے انتخاب)

  3. دنیا کے تمام شیروں کا سر جھک گیا جب قضا و قدر نے اصحابِ کہف کے کتے کو غلبہ دیا۔ تمام جانوروں نے خرگوش کو اس کی عقل مندی پر داد دی۔

  4. دنیا کے تمام شیروں کا سر جھک گیا جب قضا و قدر نے اصحابِ کہف کے کتے کو غلبہ دیا

  5. اللہ پاک ہمیں نفس کی چالبازیوں سے محفوظ رکھے

  6. حقیقی شیر تو وہ ہے جو اپنے نفسِ امارہ کو قابو کرے اور اسے شکست دے۔

  7. دشمن اگر تجھ سے دوستانہ بات کرے تو جال سمجھ اگرچہ وہ تیرے حق میں بہتر ہی کہہ رہا ہو۔ اگر وہ تجھے ٹکڑا دے تو توُاسے زہر سمجھ اور اگر تجھ پر وہ مہربانی کرے تو قہر سمجھ۔۔۔

  8. اے شہاں کشتیم ما خصم بروں
    ماند خصمے زاں تبرد اندروں

اپنا تبصرہ بھیجیں