اسلام کی بہادر خواتین Islam ki bahadur khawateen


4.8/5 - (93 votes)

اسلام کی بہادر خواتین (Islam ki bahadur khawateen)

تحریر:  امامہ رشید سروری قادری۔ لاہور

اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی بہادر اور جرأت مند خواتین گزری ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ اسلام کی بقا کے لیے لڑتے ہوئے گزار دی۔ ان خواتین نے اپنا سب کچھ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے قربان کر دیا اور کسی بھی لمحہ اپنی جان دینے سے گریز نہ کیا۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر ان مایہ ناز خواتین میں سے چند ایک کا ذکر پیشِ خدمت ہے۔

حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب

حضرت صفیہؓ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے داداحضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی اور آپؐ کی پھوپھی تھیں۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہالہ بنت وہب تھا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ حضرت آمنہؓ بنت ِوہب کی خالہ زاد بہن تھیں۔ نیز حضرت صفیہؓ سیدّ الشہداحضرت حمزہ ؓکی حقیقی بہن تھیں اور آپؓ عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت زبیرؓ ابن العوام کی والدہ تھیں۔ 
آپؓ بہت بہادر اور شیر دل خاتون تھیں۔ غزوۂ خندق کے موقع پر   کفار کے دس ہزار جنگجوؤں کا مشترکہ لشکر مدینے کو تخت و تاراج کرنے کے لیے آندھی و طوفان کی طرح قریب آتاجا رہا تھا۔ شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودنے کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ آپؓ کو مسلمان خواتین اور بچوں کی حفاظت کی فکر تھی۔ اُس زمانے میں انصار کے قلعوں میں سب سے مضبوط اور محفوظ قلعہ، شاعر ِرسول، حضرت حسان بن ثابتؓ کاقلعہ ’’فارع‘‘ تھا جو بنوقریظہ کی یہودی آبادی سے متصل تھا۔ چونکہ بنو قریظہ سے امن کا معاہدہ تھا لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام خواتین اور بچوں کو حضرت حسانؓ کے قلعے میں منتقل فرما دیا اور خود صحابہ کرامؓ کے ساتھ مدینے سے باہر تشریف لے گئے۔ ابنِ ہشام کے مطابق مدینہ کے تقریباً تمام مسلمان مرد اس غزوہ میں مصروف تھے۔ کفار کی فوج خندق کے باہر سے مدینے کا محاصرہ کرچکی تھی کہ اچانک بنو قریظہ نے حضورِانورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے معاہدہ توڑ کر کفارِ مکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی مدینے کے اندر موجود یہودیوں نے قلعہ پر حملے کی منصوبہ بندی کرلی۔ اُنہوں نے حملے سے قبل ایک جاسوس قلعے کے معائنہ کے لیے بھیجا۔ یہ شخص اندر کی سن گن لینے اور فوجی طاقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ حضرت صفیہؓ کی اُس پر نظرپڑ گئی۔ وہ صاحبِ فراست خاتون تھیں۔ اس یہودی کی پراسرار حرکات و سکنات سے اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص ضرور کوئی جاسوس ہے۔ حضرت صفیہؓ فوری طور پر قلعے کے نگران حضرت حسانؓ کے پاس پہنچیں اور اُنہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ اُس شخص کو قتل کردیں۔ حضرت حسانؓ عمررسیدہ تھے، لہٰذا اُنہوں نے کہا ’’اگر میں اس یہودی سے لڑنے کے قابل ہوتا تو اِس وقت یہاں بیٹھنے کی بجائے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں مصروف نہ ہوتا؟‘‘ حضرت صفیہؓ کی عمر بھی اُس وقت 58سال تھی، لیکن صحت مند تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے جب حضرت حسانؓ کا جواب سنا توخود ہی کمر کس لی۔ قریب ہی ایک ڈنڈا پڑا ہوا نظر آگیا۔ میں اُسے مضبوطی سے پکڑ کر دروازے کی جانب گئی۔ ابھی میں نے دروازہ ہلکا سا کھولا ہی تھا کہ اُس شخص نے اندر گھسنے کی کوشش کی اور یہی وہ وقت تھا جب میں نے ڈنڈے کی تابڑ توڑ ضربوں سے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ پھر حضرت حسانؓ کے پاس گئی اور اُن سے کہا کہ میں نے اُس یہودی کا کام تمام کردیا ہے۔ اب آپؓ جاکر اُس کے ہتھیار اور دیگر سامان اُتار لیں، وہ مرد ہے وگرنہ میں خود اُتار لیتی۔‘‘ حضرت حسانؓ بولے ’’مگر مجھے تو اُس کے ہتھیاروں اور سامان کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں ’’میرا خدشہ صحیح تھا۔ اپنے ایک ساتھی کی موت کے بعد یہودیوں کو یقین ہوگیا کہ قلعے کے اندر بھی مسلمان فوجی موجودہیں۔ چنانچہ پھر اُنہیں حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔‘‘ 

ابنِ اثیرتحریرکرتے ہیں ’’حضرت صفیہؓ پہلی مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اسلام دشمن کا سرَ قلم کیا جس کی بنا پر مسلمان خواتین محفوظ رہیں۔‘‘ مسلمان خواتین کے لیے رہتی دنیا تک جرأت و بہادری اور صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال بننے والی اس عظیم مجاہدہ نے 20ہجری میں 73سال کی عمر میں امیرالمومنین سیدّنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور جنت البقیع میں سپردِ خاک کی گئیں۔

حضرت اسماءؓ بنت یزید

حضرت اسماءؓبنت یزید بن السکن ایک انصاری خاتون تھیں۔ ان کے والد کا نام یزیدبن السکن تھا۔ ان کے شوہرحضرت ابو سعیدؓ انصاری تھے۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہٗ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے علم حاصل کرنے میں وقت صرف کیا۔ حضرت اسماءؓ نے بیعتِ رضوان میں شرکت کی اور نبی کریم ؐسے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ 

آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محافل میں مستقل طور پر شریک ہوتی تھیں اور سوالات کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ سوال پوچھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ دین کو سمجھنے میں بھی ایک اہم مقام رکھتی تھیں، فصاحت و بلاغت، ذہانت اور عقلمندی کی اعلیٰ صفات کی حامل دانا خاتون تھیں اور انہیں ’’خطیبۃ النساء‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔آپؓ عورتوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اکثر عورتوں کے سوالات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ حضرت اسماء ؓحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں:
’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ میں آپؐ کے پاس بہت سی خواتین کی نمائندگی کرنے آئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے بھیجا ہے۔ ہم عورتوں کو بھی آپؐ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ہم نے بھی آپؐ کی تعلیمات، آپؐ کی سنت اور آپؐ کی پیروی کرنے کا عہد کیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم عورتیں اپنے گھروں میں پردے کے پیچھے رہتی ہیں، ہم اپنے شوہروں کی خدمت کرتی ہیں، ان کے گھروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور ان کے مال و اسباب کی حفاظت کرتی ہیں۔ جبکہ مرد ہم سے اس لحاظ سے افضل ہیں کہ وہ نمازِ جمعہ اور نمازِ جنازہ میں شرکت کرتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں۔ مردوں کوجہاد میں حصہ لینے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ کیا ہم عورتوں کو بھی اس ثواب میں سے کچھ حصہ ملے گا جو ان مردوں کو دیا جاتا ہے؟‘‘

یہ سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا ـ’’دیکھو اس عورت نے اپنے دین کے بارے میں کتنا اچھا سوال کیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا:

’’سنو اور پھر عورتوں کو بتاؤ: اگر عورتیں اپنے شوہروں کی خدمت کریں، انہیں خوش رکھیں، ہمیشہ ان کی خوشنودی حاصل کریں اور ان کی اطاعت کریں تو عورتوں کو بھی مردوں کے اعمال کے برابر اجر ملے گا۔‘‘

 حضرت اسماءؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جواب کے بعد خوشی خوشی چلی گئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو کچھ سنا تھا وہ باقی خواتین کو بتایا۔ یہ بشارت سن کر سب خواتین بہت خوش ہوئیں۔ تب سے وہ گھر کے کام کو عبادت سمجھنے لگیں کہ ان پر بوجھ نہیں بلکہ ثواب ہے۔

بہت سی دوسری خواتین صحابیاتؓ کی طرح حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں، آپؐ کی خدمت کرتی تھیں اور جب بھی ممکن ہوتا تھا آپؐ کے لیے کچھ کھانے کا انتظام کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اسماءؓ کے گھر میں مغرب کی نماز پڑھی۔ آپؐ کے ساتھ 40 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ حضرت اسماءؓ نے تھوڑا سا سالن اور روٹی کے چند ٹکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پیش کئے۔ سب نے اس کھانے میں سے کھایا پھر بھی ختم نہ ہوا۔ کھانے کے بعد آپؐ نے پانی کے برتن میں پانی پیا اور چلے گئے۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ جب میرے خاندان کے لوگ بیمار ہوتے تو ہم وہ پانی پیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے برتن میں چھوڑا تھا اور وہ تندرست ہوجاتے اور اس کی بدولت ہی ہمارا رزق بڑھ گیا۔ (طبقات ابن ِ سعد۔244/8)

حضرت اسماءؓ جہاد کی بھی خواہش مند تھیں اور اپنی ذہانت اور بہادری کے ساتھ کئی مواقع پر مسلم فوج میں شامل ہوئیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ کے دور میں بازنطینیوں کے ساتھ جنگِ یرموک میں زخمیوں کی دیکھ بھال اور مجاہدوں کو پانی پلانے کے لیے حصہ لیا۔ جب دشمنوں کا حملہ خواتین کے خیموں کی طرف ہوا تو حضرت اسماءؓ اپنے خیمے کا کھمبہ پکڑ کر میدانِ جنگ میں چلی گئیں اور نو بازنطینی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

حضرت اسماءؓ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت سی احادیث روایت کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی جو انہوں نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی تھیں۔

حضرت برکہؓ بنتِ ثعلبہ (اُمِّ ایمن)

 حضرت برکہؓ حبشہ کی خاتون تھیں۔ وہ حبشی ثعلبہ بن عمرو کی بیٹی تھیں لیکن آپؓ اپنی کنیت ’’اُمِّ ایمن‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور و معروف ہیں۔ اُمِّ ایمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پدر بزرگوار حضرت عبداللہؓ بن عبدالمطلب کی خادمہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکی وفات کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک ماں کی طرح بخوبی نبھائی۔ 

حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُمِّ ایمن کو آزاد کر دیا اور ان کی شادی حضرت عبید بن زیدسے کر دی۔ اس شادی سے ان کا بیٹا ایمن پیدا ہوا اوراس طرح وہ ’’اُمّ ایمن‘‘ (ایمن کی ماں) کے نام سے مشہور ہوئیں۔ حضرت محمدؐکے اعلانِ نبوت کے بعد اُمّ ایمن بھی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھیں، اور ان کے بعد ان کے خاندان نے بھی آپؐ کی پیروی کی۔حضرت عبید بن زیدجنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے جب کہ ایمن جنگ حنین میں شہید ہوئے۔حضرت عبید کی شہادت کے بعدنبی کریمؐ نے اُمّ ایمن کا عقد حضرت زیدؓ بن حارث سے کروا دیا۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسامہ تھا۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فوج کا سربراہ مقرر کیا اور بازنطینی سلطنت میں اسامہؓ بن زید نے کامیاب مہم کی قیادت کی۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو آپؐ نے حضرت اُمّ ایمن کو اپنے گھر کے کچھ خاص امور کی دیکھ بھال کے لیے مکہ میں چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اُمّ ایمن خود ہی مدینہ ہجرت کر گئیں۔ حضرت اُمّ ایمنؓ نے صحرائی اور پہاڑی علاقوں کا مشکل اور طویل سفرپیدل طے کیا۔ گرمی کی شدت اور ریت کے طوفان نے راستے کو دھندلا کر رکھا تھا لیکن اُمّ ایمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے گہری محبت اور لگاؤ کی وجہ سے ثابت قدم رہیں۔ جب وہ مدینہ منورہ پہنچیں تو ان کے پاؤں میں زخم اور سوجن تھی اور چہرہ ریت اور مٹی سے اَٹا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں دیکھ کر کہا:
’’یا اُمّ ایمن! یا امّی! (اے اُمّ ایمن! اے میری ماں!) بے شک آپؓ کے لیے جنت میں جگہ ہے۔‘‘

مدینہ میں بھی اُمّ ایمنؓ نے مسلمانوں کے معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کافروں کے حملوں سے بچانے کے لیے آپؐ کی ہر طرح سے حفاظت کی۔ انہوں نے مختلف جنگوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ دیا۔

غزوۂ احد میں وہ مسلمان سپاہیوں کے لیے پانی لاتی تھیں اور زخمیوں کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔ جنگ کے دوران جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شہید ہونے کی افواہ پھیلی تو بہت سے مسلمان میدانِ جنگ سے بھاگ گئے جبکہ اُمّ ایمنؓ اپنی جگہ پر کھڑی رہیں۔ انہوں نے بھاگتے ہوئے سپاہیوں پر مٹی ڈالی، انہیں ایک تکلا پیش کیا  اور کہا ’’مجھے اپنی تلوار دو اور تم تکلا گھماؤ۔‘‘ وہ کچھ دوسری مسلمان عورتوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے میدانِ جنگ میں پہنچیں اور دشمن کے ایک سپاہی کے تیر سے زخمی ہو گئیں۔ اُمّ ایمن نے غزوۂ خیبر اور حنین میں بھی آپؐ کی ہر لحاظ سے حفاظت کی۔

نبی اکرمؐ کو اُمّ ایمنؓ سے بہت محبت تھی اور انہیں ماں کا درجہ دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثر ان کی عیادت کرتے اور ان سے پوچھتے ’’یا امیّ! آپ خیریت سے ہیں؟‘‘ اور وہ جواب دیتی تھیں ’’میں خیریت سے ہوں یارسول اللہ! جب تک اسلام ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ صدیق اور حضرت عمرؓ ان کی عیادت کے لیے آتے، جس طرح نبی کریمؐ ان کی عیادت کرتے تھے۔  

حضرت اُمّ ایمنؓ اس لحاظ سے منفرد تھیں کہ وہ واحد خاتون تھیں جو پیدائش سے لے کر وفات تک پوری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریب رہیں۔ ان کی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر کی بے لوث خدمت میں گزری۔ حضرت برکہؓ نہایت شریف النفس، حلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے گہری عقیدت رکھتی تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دینِ اسلام سے ان کی عقیدت مضبوط اور غیر متزلزل تھی۔ آپ ؓکا انتقال سیدّنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں ہوا۔

حضرت اُمّ عمارہ نسیبہؓ بنتِ کعب

آپؓ کا نام نسیبہ بنت کعب تھا اور اُمِ عمارہ کنیت تھی۔ آپؓ کا تعلق مدینہ کے قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تھا اور آپؓ مدینہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحا بیہ ہونے کے ناتے ان سے بہت سی خوبیاں منسوب تھیں۔ انہوں نے جنگ ِاُحد میں بھرپور حصہ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر لمحہ حفاظت فرمائی۔ جنگ کے آغاز میں وہ پیاسے جنگجوؤں کے لیے پانی لا رہی تھیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ جب لڑائی مسلمانوں کے حق میں ہو رہی تھی تو تیر اندازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی، میدان چھوڑ کرچلے گئے اور اس فتح کو شکست میں بدل دیا۔ جب حضرت نسیبہؓ کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جان کو خطرہ ہے تو اپنی تلوار اور کمان ہاتھ میں لیے حرکت میں آگئیں اور اس چھوٹے سے گروہ میں شمولیت اختیار کر لی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے تھے اور آپ ؐ کو کافروں کے تیروں سے بچا رہے تھے۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس خطرہ آیا تو حضرت نسیبہؓ آپؐ کی حفاظت کے لیے وہاں موجودہوتی تھیں۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت کے لیے کئی زخم اور تیر بھی برداشت کیے۔ ان کی بہادری کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں جہاں بھی مڑا، بائیں یا دائیں، میں نے اُمّ عمارہ ؓکو میرے لیے لڑتے دیکھا۔ وہ میری حفاظت کے لیے ڈھال بنی رہیں۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد 461/8)

حضرت نسیبہؓ بہت سی جنگوں خیبر، فتح مکہ میں شامل ہوئیں اور بھرپور طاقت اور بہادری کے ساتھ دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرتی رہیں۔ اس عظیم خاتون کا انتقال13 ہجری میں ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

حضرت خولہؓ بنت ازور

حضرت خولہؓ بنت ازور بنو سعدکے نام سے معروف عرب قبیلے کے ایک طاقتور سردار کی بیٹی تھیں۔ ان کا خاندان اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے پہلاتھا۔ حضرت خولہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بہادر صحابیہ تھیں۔ بہت سی خواتین کی طرح حضرت خولہؓ بنت ازور بھی اسلام کی بہادر جنگجوؤں کی فہرست میں شامل ہیں۔ 

حضرت خولہؓ حضرت ضرارؓ بن ازور کی بہن تھیں جو ساتویں صدی میں مسلمانوں کی فوج کے سپاہی اور کمانڈر تھے۔حضرت ضرارؓ اپنے وقت کے ایک بڑے ہنرمند جنگجو تھے اور انہوں نے حضرت خولہؓ کو وہ سب کچھ سکھایا جو وہ لڑائی کے بارے میں جانتے تھے۔ نیزہ بازی، تلوار زنی وغیرہ۔ اس طرح حضرت خولہؓ بھی ایک جنگجو بن گئیں۔ وہ اپنے بھائی ضرار سے پیار کرتی تھیں۔ حضرت خولہ ؓاور ان کے بھائی ہر جگہ اکٹھے جاتے تھے، خواہ بازار ہو یا میدانِ جنگ۔ حضرت خولہؓ ایک شاعرہ اور نرس بھی تھیں اور اپنے ان عظیم فنون میں باکمال تھیں۔

 میدانِ جنگ میں حضرت خولہؓ کی صلاحیتیں اپنے بھائی کے ساتھ جابجا نظر آئیں۔ 636 عیسوی میں بازنطینی فوج کے خلاف دمشق کے محاصرے میں جنگِ یرموک ہوئی۔ اس لڑائی میں حضرت خولہؓ نے زخمی فوجیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے مسلم افواج کا ساتھ دیا تھا۔ اس جنگ کے سربراہ حضرت خالدؓ بن ولید تھے۔ حضرت ضرارؓ مسلم فوج کے ایک دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ جنگ کے دوران حضرت ضرارؓنے اپنا نیزہ کھو دیا، گھوڑے سے گرے اور بازنطینی فوج نے انہیں قیدی بنا لیا۔ اس موقع پرحضرت خولہؓ نے ایک جنگجو کی زرہ پہنی، اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپا، اپنی کمر کو سبز شال میں لپیٹا اور اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر سرپٹ دوڑتی ہوئی رومن صفوں میں سے گزر گئیں۔ جس نے بھی انہیں روکنے کی کوشش کی اس کے خلاف اپنی تلوار کو مہارت سے استعمال کیا اور بے شمار بازنطینی فوجیوں کو مار ڈالا۔ وہاں موجود مسلم فوج کے ایک فوجی شورابیل ابنِ حسنہ نے کہا ’’یہ جنگجو خالد بن ولید کی طرح لڑتاہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ خالد نہیں ہے۔‘‘

رافع بن عمیرہ الطائی اس واقعہ کو دیکھنے والے جنگجوؤں میں سے ایک تھا۔ اس نے بتایا کہ کس طرح حضرت خولہؓ سپاہی دشمن کی صفوں کو منتشر کر کے ان کے درمیان غائب ہو جاتیں، تھوڑی دیر بعد ان کے اپنے نیزے سے خون ٹپکتا ہواظاہر ہوتا۔ وہ پھر سے مڑتیں اور بغیر کسی خوف کے اس عمل کو کئی بار دہراتیں۔ پوری مسلم فوج ان کے لیے پریشان تھی اور ان کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی۔ رافع اور وہاں موجود دوسرے جنگجوؤں نے سوچا کہ وہ حضرت خالدؓ ہیں لیکن اچانک حضرت خالدؓکئی سپاہیوں کے ساتھ نمودار ہوئے۔ رافع نے حضرت خالدؓسے پوچھا ’’وہ سپاہی کون ہے؟ خدا کی قسم! اسے اپنی حفاظت کا کوئی خیال نہیں ہے۔‘‘ حضرت خالدؓنے جواب دیا’’ وہ اس شخص کو نہیں جانتے۔‘‘ جب بہت سے رومی سپاہی ان کا پیچھا کرتے ہوئے آ رہے تھے تو وہ مڑیں اور ایک ہی وار میں بہت سے رومیوں کا سر قلم کر دیا۔ رومی بالآخر جنگ ہار گئے اور فرار ہو گئے۔ بہت سے لوگ میدانِ جنگ میں ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔ حضرت خالدؓنے حضرت خولہؓ کی بہادری کی تعریف کی اور انہیں پردہ ہٹانے کو کہالیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہاں سے جانے کی کوشش کی لیکن حضرت خالدؓ کے بار بار اصرار کرنے پرانہوں نے جواب دیا:
’’میں خولہؓ بنت ازور ہوں۔ ضرار بن ازور کی بہن۔ میں فوج میں  خواتین کے ساتھ تھی، جب مجھے معلوم ہوا کہ دشمن نے میرے بھائی کو پکڑ لیا ہے تو مجھے وہ کرنا پڑا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘‘

تب حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو فرار ہونے والی رومی فوج کا پیچھا کرنے کا حکم دیا اور حضرت خولہؓ اس دستے کی قیادت کر رہی تھیں اور وہ فرار ہونے والے رومی فوجیوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو قیدیوں کو اپنے ہیڈکوارٹر لے جارہے تھے۔ ایک اور لڑائی ہوئی، رومی فوجی مارے گئے اور حضرت خولہؓ نے اپنے بھائی کی جان بچا لی۔

اجنادین کی جنگ میں حضرت خولہؓ کا نیزہ ٹوٹ گیا۔ ان کی گھوڑی ماری گئی او رانہوں نے خود کو قیدی پایا۔ لیکن حضرت خولہ ؓیہ جان کر حیران رہ گئیں کہ رومیوں نے عورتوں کے کیمپ پر حملہ کیا اور ان میں سے کئی ایک کو پکڑ لیا۔ رومیوں کے قائد نے قیدیوں کو اپنے کمانڈروں کے حوالے کر دیا اور حضرت خولہؓ کو اپنے خیمے میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔حضرت خولہؓ غصے میں تھیں اور فیصلہ کیا کہ ذلت میں جینے سے زیادہ عزت کی موت مرنا بہتر ہے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اس کے باوجود حضرت خولہؓ عورتوں کے درمیان کھڑی ہوئیں اور انہیں اپنی آزادی اور عزت کے لیے لڑنے یا مرنے کی دعوت دی۔ خواتین ان کے منصوبے پر پرُجوش تھیں۔ انہوں نے خیموں کے کھمبے اور کھونٹے لیے اور اپنے اردگرد تنگ دائرہ بنا کر رومی محافظوں پر حملہ کیا۔ حضرت خولہؓ نے حملے کی قیادت کی۔ الواقدی کے مطابق انہوں نے 30 رومن فوجیوں کو مار ڈالا۔ 

انہیں تاریخ کی عظیم ترین بہادر خاتون جنگجو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اردن نے’’تاریخ میں عرب خواتین‘‘ کے حصے کے طور پر ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ حال ہی میں جدید دور کی عراقی فوج میں خدمات سر انجام دینے والی خواتین سپاہیوں کے ایک یونٹ کو حضرت خولہؓ کے اعزاز میں خولہؓ بنت الازور یونٹ کا نام دیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں خواتین کے لیے پہلا ملٹری کالج خولہ ؓبنت الازور ٹریننگ کالج بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔

 تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی دینی، دعوتی وتبلیغی جدوجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا اُسی طرح عورتوں کو بھی بنایا۔آپؐ کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں جس طرح خدا پرستی کا مثالی جذبہ مردوں میں پیدا ہوا اُسی طرح خواتین میں بھی انقلابی روح بیدار ہوئی۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے صحابہ کرام ؓنے تربیت پائی اس طرح صحابیا تؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض،صحبت اور ان کی مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوکر دیگر خواتین کے لیے نجومِ ہدایت بن گئیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی(جوکہ قدمِ محمد پرہیں) خواتین کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں جس طرح مردوں کی تربیت کرتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

آج کی لبرل اور آزاد خیال خواتین کو اسلام کی ان بہادر خواتین کی سوانحِ حیات کا نہ صرف مطالعہ کرنا چاہئے بلکہ ان کی پاکیزہ سیرت کو اپنی زندگیوں میں نافذ بھی کرنا چاہیے۔ جہاں تک ان خواتین کا یہ گلہ ہے کہ اسلام انہیں آزاد اور خود مختار طریقے سے جینے کا حق نہیں دیتا تو یہ بات سراسر غلط ہے۔ خواتین کو جو عزت، مقام و مرتبہ اور حقوق، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دین ِ اسلام کی صورت میں عطا کیے ہیں دنیا کا کوئی بھی مذہب اور معاشرہ اس کی برابری کرنے سے قاصر ہے۔

مجددِ دین، امام الوقت اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے مرد غالب معاشرے میں خواتین کے حقوق کوعین اُسی طرح اہمیت دیتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت کو تعظیم و مرتبہ دینے کا حکم فرمایا۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ آج کی مضبوط اور خود مختار عورت ہی کل کے روشن مستقبل کو جنم دے سکتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو بھی اسی بات کی ہدایت کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں خواتین کے حقوق کا ادب و احترام کریں کیونکہ یہ نہ صرف سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے بلکہ حکمِ خداوندی بھی ہے۔

آپ مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ اور نورانی صحبت کی تاثیر سے نہ صرف مرد مستفید ہوتے ہیں بلکہ ہزاروں خواتین نے بھی آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کروایا اور انہیں معرفتِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری حاصل ہوئی۔ فقر کے پیغام کو عام کرنے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے مریدین کی ظاہری و باطنی راہنمائی فرمائی۔ ان مریدین میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ہر ہفتے منعقد ہونے والی ’’بزمِ سلطان العاشقین ‘‘ اور دیگر سالانہ اجتماعات پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہدایات کے مطابق خواتین کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کیے جاتے ہیں تاکہ خواتین بھی باپردہ طریقے سے ہفتہ وار اور سالانہ محافل میں بھرپور شرکت کرسکیں۔ اس کے علاوہ آپ مدظلہ الاقدس کے زیر سرپرستی تحریک دعوتِ فقر کے ہر شعبہ میں خواتین کو نمائندگی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی و باطنی تربیت کی بدولت آج خواتین کی کثیر تعداد تحریک دعوتِ فقرکے شعبہ سوشل میڈیا، شعبہ پبلیکیشنز، شارٹ ویڈیوونگ اورشعبہ ویب سائٹس سمیت دیگر شعبہ جات میں اپنی قابلیت کا لوہا منوارہی ہیں اوران ذرائع کے توسط سے گھر بیٹھے فقرکے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا رہی ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا : تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۲۔سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۳۔ خواتینِ اسلام کی بہادری: تصنیف سیّد سلیمان ندوی
۴۔ فروغ اسلام میں خواتین کا کردار: تصنیف مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

’’اسلام کی بہادر خواتین‘‘   بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Mahnama Sultan-ul-Faqr Lahore | Islam ki Bahadur Khawatin | Urdu/Hindi | Sultan-ul-Ashiqeen

 

39 تبصرے “اسلام کی بہادر خواتین Islam ki bahadur khawateen

  1. آپ مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے

  2. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے۔

  3. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  4. ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

  5. تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی دینی، دعوتی وتبلیغی جدوجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا اُسی طرح عورتوں کو بھی بنایا۔

  6. اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی بہادر اور جرأت مند خواتین گزری ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ اسلام کی بقا کے لیے لڑتے ہوئے گزار دی۔ ان خواتین نے اپنا سب کچھ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے قربان کر دیا اور کسی بھی لمحہ اپنی جان دینے سے گریز نہ کیا۔

  7. ’’اسلام کی بہادر خواتین‘‘
    بہت اچھی تحریرہے
    Well done

  8. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ اور نورانی صحبت کی تاثیر سے نہ صرف مرد مستفید ہوتے ہیں بلکہ ہزاروں خواتین نے بھی آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کروایا اور انہیں معرفتِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری حاصل ہوئی۔

  9. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  10. تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا

  11. اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی بہادر اور جرأت مند خواتین گزری ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ اسلام کی بقا کے لیے لڑتے ہوئے گزار دی۔ ا

  12. بے شک اسلام کی بہادر خواتین کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

  13. تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔

  14. آپ مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے

  15. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  16. تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا

  17. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  18. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  19. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  20. ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

  21. ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

  22. ’’حضرت صفیہؓ پہلی مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اسلام دشمن کا سرَ قلم کیا جس کی بنا پر مسلمان خواتین محفوظ رہیں۔‘‘

  23. تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے کیونکہ ان بہادر خواتین نے اپنی پوری زندگی اور تمام تر جان و مال دینِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔

  24. بہت ہی اچھا مضمون ہے پہلی دفعہ ایسا مضمون پڑھنے کو ملا جس میں اسلام میں خواتین کے کردار کے متعلق لکھا اس طرح کے مضامین سے خواتین کے اندر اسلام کی خدمت کے لیے جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے

  25. یا اللّٰه ہمیں ایسا بنا دے کہ تجھے پسند آجائیں
    آمین

  26. ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ❤️

  27. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  28. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی و باطنی تربیت کی بدولت آج خواتین کی کثیر تعداد تحریک دعوتِ فقرکے شعبہ سوشل میڈیا، شعبہ پبلیکیشنز، شارٹ ویڈیوونگ اورشعبہ ویب سائٹس سمیت دیگر شعبہ جات میں اپنی قابلیت کا لوہا منوارہی ہیں اوران ذرائع کے توسط سے گھر بیٹھے فقرکے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا رہی ہیں۔

  29. مجددِ دین، امام الوقت اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے مرد غالب معاشرے میں خواتین کے حقوق کوعین اُسی طرح اہمیت دیتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت کو تعظیم و مرتبہ دینے کا حکم فرمایا۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ آج کی مضبوط اور خود مختار عورت ہی کل کے روشن مستقبل کو جنم دے سکتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو بھی اسی بات کی ہدایت کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں خواتین کے حقوق کا ادب و احترام کریں کیونکہ یہ نہ صرف سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے بلکہ حکمِ خداوندی بھی ہے۔

  30. آپ مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے۔

  31. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی(جوکہ قدمِ محمد پرہیں) خواتین کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں جس طرح مردوں کی تربیت کرتے ہیں۔

  32. آپ مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
    ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

  33. آپ مدظلہ الاقدس نے دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو خواتین کے لیے بھی عام کر دیاہے اور ان کو طالبِ دنیا و عقبیٰ سے طالبِ مولیٰ بنا دیا ہے

  34. اسلام میں خواتین کے کردار کو نہایت احسن انداز میں بیان کیا ہے

  35. ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد ‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

اپنا تبصرہ بھیجیں