صبر و استقلال | Sabar-o-Istaqlal


3.6/5 - (17 votes)

صبر و استقلال 

تحریر: فرح ناز سروری قادری (ہارون آباد)

صبر و استقلال کے لغوی معنی قیام، مضبوطی، استحکام، قرار اور مستقل مزاجی کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں صبر و استقلال سے مراد دین ِاسلام پر چلتے ہوئے صدمات، مشکلات، نقصانات، تکالیف، مزاحمتوں، مخالفتوں اور آزمائشوں کے موقع پر ثابت قدم رہنا اور نفس پر قابوپانا ہے۔

صبرو استقلال کی اہمیت قرآن کی روشنی میں

 صبر کرنے والوں کے ساتھ خدا کی مدد شامل ہوتی ہے۔ ارشادِ باری ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ  (البقرہ  ۔153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرو۔ 

یعنی نماز کو نصرتِ خداوندی کی طلب کا ذریعہ بنانا چاہیے اور صبر سے اسکے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صرف صبر کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں صابر بن کر اللہ کی محبت حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں صابر شخص کو بشارت دی ہے وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ  (البقرہ۔ 155) ’’اور صبر کرنے والوں کو بشارت دیجیے۔ ‘‘ خداکی طرف سے بشارت بہت بڑا اعزاز ہے اور یہی ذریعہ کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پورا پورا اجر دیتا ہے چنانچہ قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (الزمر۔10)
ترجمہ: بے شک صبر کرنے والوں کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔
صبر کرنا بلند مرتبہ لوگوں کی نشانی ہے۔ ہر آدمی مصیبت میں صبر نہیں کر سکتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ  (لقمان۔ 17)
ترجمہ: اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ بے شک یہ بڑے عزم کی بات ہے۔

صبر و استقلال کی اہمیت حدیث کی روشنی میں 

صبر کے ذریعے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایا ’’مومن پر جب بھی سختی یا رنج یا تکلیف آئے حتیٰ کہ اسے کانٹابھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اسکے بدلے میں اس کی کچھ خطائیں معاف کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
صبر سے حالات کا سامنا کیا جائے تو بہت سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ صبر اس راہنمائی کے لیے روشنی مہیا کرتا ہے۔ اس لیے ارشادِ نبوی ہے ’’اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ ‘‘ صبر روشنی ہے۔ اس روشنی میں زندگی گزارنا مسلمان کے لیے بہت آسان ہوجاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صبر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔‘‘
ہمیں اس خزانے سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ آج بے صبری نے ہمارے لیے بہت مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ ان مسائل کا حل صبر کرنے میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صبر کو نصف ایمان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’الصبر نصف الایمان   ترجمہ: صبر نصف ایمان ہے‘‘۔ صبرکے بغیر ایمان قائم رہنا نا ممکن ہے گویا صابر آدمی آدھا ایمان محفوظ کر لیتا ہے۔ مندرجہ بالا حدیث ِمبارکہ سے صبر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

انسان کی کامیابی کا انحصار صبر پر ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: ’’النصر مع الصبر  ترجمہ : فتح و نصرت صبر کے باعث ہے۔‘‘ صبرکی بدولت ہی فتح ونصرت انسان کو حاصل ہے جبکہ بے صبری ناکامی کا باعث بنتی ہے۔

اسوۂ رسولِ اکرمؐ سے صبر و استقلال کی چند مثالیں 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حق کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے صبر و استقلال سے ڈٹے رہے اور بڑی سے بڑی مشکلات اور تکالیف کو بھی نہایت عاجزی و انکساری اور صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
عقبہ بن ابی معیط نے نماز پڑھتے وقت اونٹ کی بھاری اوجھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت مبارک پر رکھ دی اس پر کفار قہقہے لگانے لگے۔ سیّدہ فاطمہؓ نے آکر اس کو آپ ؐ کی پشت مبارک سے اُتارا اور کافروں کے لیے بددعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بیٹی صبر سے کام لو اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے یہ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میں ہے۔‘‘

ابولہب کی بیوی ام جمیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی جس سے آپؐ کے پاؤں مبارک زخمی ہوجاتے تھے لیکن آپؐ نے کبھی اس کے لئے بددعا نہیں کی۔
کفار نے راہِ اسلام نہ چھوڑنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اور آپؐ کے خاندان کو تین سال تک شعب ِابی طالب میں محصور کئے رکھا۔ آپؐ نے اس مشکل موقع پر بے مثال صبر کا مظاہرہ کیا۔
طائف کے تبلیغی دورے کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ طائف کے شریر لڑکوں نے آپ ؐ پر پتھر برسائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نعلین مبارک خون سے تر ہو گئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے ان کو ختم کرنے کی اجازت طلب کی لیکن آپؐ نے انکار کرتے ہوئے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
ہجرت کی رات کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کے لیے گھر کا گھیراؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صبر کا عظیم مظاہرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کی مدد سے بحفاظت گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں کے سامنے حضرت یاسر ؓاور حضرت سمعیہ ؓکو اذیت ناک طریقے سے شہید کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے آلِ یاسر صبر کرو‘‘۔

ثابت قدمی یا استقامت

ثابت قدمی یا استقامت راہِ حق کی مشکلات اور آزمائشوں کو صبر اور حوصلہ سے پار کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ یہ دین و دنیا دونوں میں کامیابی کی بنیاد ہے۔ راہِ فقر میں استقامت سے اپنے سفر کو جاری رکھنا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عشق میں جواں مردی سے منزل کی جانب بڑھتے رہنا چاہیے اور مشکلاتِ راہ سے ڈرنا یا گھبرانا نہیں چاہیے۔ لوگ تو ایک مشکل سے ڈرتے ہیں جبکہ عاشق ِ حقیقی بصد خوشی بے شمار مصائب کو برداشت کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس راہ میں بے شمار خطرات ہیں اپنی کشتی عشق کی طوفانی لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 
حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
راہِ فقرمیں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس کی کیونکہ استقامت مرتبہ خاص ہے اورکرامت مرتبہ حیض و نفاس ہے۔ (عین الفقر)
راہِ فقر میں اگر کوئی ثابت قدم رہتا ہے تو وہ صاحب ِرازِ حقیقی بن جاتا ہے۔ اگر کوئی اسم ِاللہ ذات سے برگشتہ ہو جاتا ہے اور ہمت و استقامت کو چھوڑ کر دنیا اوراہل ِدنیا کی طرف مراجعت کرتا ہے تو وہ مرتبہ شہبازی فقر اورفقر سے منہ موڑتا ہے وہ گویا چیل ہے جسکی نظر مردار پر اٹکی ہوئی ہے اس لیے وہ دونوں جہانوں میں ذلیل و خوار ہے۔ اس کا دل دنیا سے سیر نہیں ہوتا۔ (محک الفقر کلاں)

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
راہِ فقر میں سب سے بڑی کرامت استقامت ہے۔ مستقل مزاجی اور استقامت سے راہِ فقر کی مشکلات اور آزمائشوں سے گزرتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچناہی سب سے بڑی کرامت ہے۔

معاشرے پرصبرواستقلال کے اثرات 

امن: صبر و استقلال کا سب سے بڑا اثر جو معاشرے پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں امن قائم ہوجاتاہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں ناخوشگوار واقعات پر اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے تو بدامنی عام ہوجائے ۔
ترقی: کسی معاشرے کو ترقی کے دوران یقینا مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات پر صبر کرکے ہی انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اگر صبرکی بجائے حواس باختگی کا مظاہرہ کیا جائے تو ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔
اتحاد: معاشرے کو شاہراہِ اتحاد پر گامزن ہونے کے لیے بعض اوقات تلخ حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ان تکلیف دہ لمحات پر صبر کے نتیجے میں اتحاد قائم رہتا ہے۔ یہی اتحاد معاشرے کے عروج میں سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔
محبت: صبر کو اختیار کرنے کے نتیجے میں انسانوں کا باہمی ٹکراؤ بہت کم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں محبت کی فضا پروان چڑھتی ہے اوریہی فضا کسی معاشرے کی ترقی کا ابتدائی زینہ ثابت ہوتی ہے۔
رضائے الٰہی: کسی معاشرے کو اللہ کی رضا اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ دین پر چلتے ہوئے جہاد وغیرہ کے مشکل موقع پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اللہ کی رضا ہی کسی معاشرے کے دنیا میں عروج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہےاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْن  (البقرہ۔3 15)بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں