حضورِ قلب
تحریر: ناصر مجید سروری قادری۔ اسلام آباد
حقیقتِ قلب
اصطلاحِ فقر میں قلب سے مراد ایک ایسی وسیع و عریض مملکت ہے جس کی دسترس سے ازل سے لیکر ابد تک کوئی بھی چیز باہر نہیں ہے اور قلب ایک لطیف شے ہے نہ کہ یہ گوشت پوست کا دل ہے۔ اس کا اندازہ اس حدیثِ قدسی سے لگایا جاسکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
* قَلْبُ الْمُؤْمِنْ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ:مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ لا محدود ہے اس طرح اس کے عرش یعنی قلبِ مومن کی بھی کوئی حد نہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ھُو
وچے بیڑے وچے جھیڑے، وچے ونجھ موہانے ھُو
چوداں طبق دلے دے اندر، تنبو وانگن تانے ھُو
جو دل دا محرم ہووے باھُوؒ ، سوئی ربّ پچھانے ھُو
مفہوم: دل (قلب)تو سمندروں اور دریاؤں سے بھی زیادہ گہرا ہے کیونکہ چودہ طبق، تمام عوالم (عالمِ ھاھویت ،عالمِ یاھوت ،عالمِ لاھوت، عالمِ جبروت،عالمِ ملکوت اور عالمِ ناسوت) دل کے اندر سمائے ہوئے ہیں اور انسانی قلب ہی اللہ کا گھر ہے لیکن یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ان تمام حقیقتوں کی پہچان کوئی مرشد کامل ہی کرا سکتا ہے اور جو مرشد کے دل کا محرم ہوتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا اور رازِ حقیقی تک پہنچ سکتا ہے۔
گویا انسان اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور مرشد کامل کی رہنمائی اور مہربانی سے ہی قلب کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات جلوہ گر ہے ۔
اللہ کا گھر ہے لیکن یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ان تمام حقیقتوں کی پہچان کوئی مرشد کامل ہی کرا سکتا ہے اور جو مرشد کے دل کا محرم ہوتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا اور رازِ حقیقی تک پہنچ سکتا ہے۔
گویا انسان اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور مرشد کامل کی رہنمائی اور مہربانی سے ہی قلب کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات جلوہ گر ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
* وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَےْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِےْدِ (سورہ ق۔16)
ترجمہ: اور میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں فرماتا ہے کہ میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں نہ کہ شہ رگ میں موجود ہوں اور شہ رگ سے قریب ترین جو مقام ہے وہ قلب ہے وہیں اللہ تعالیٰ جلوہ گر ہے۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے فرمایا:
* اللہ تعالیٰ نیقلب کی زمین کو اپنی معرفت و علم کی قرار گاہ بنایا ہے اللہ تعالیٰ دن اور رات میں تین سو ساٹھ مرتبہ اس کی طرف نگاہِ کرم ڈالتا ہے اگر وہ قلب کو قرار عطا نہ کرتا تو یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور پھٹ جاتا۔جب قلب درست ہو جاتا ہے تو قربِ الٰہی میں قرار پکڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ مخلوق کو نفع پہنچانے کیلئے اس کے درمیان حکمت و دانش کی نہریں جاری فرما دیتا ہے۔(الفتح الربانی۔ ملفوضاتِ غوثیہ)
ایک دوسری جگہ آپؓ فرماتے ہیں :
* جب قلب درست ہوجاتا ہے تو ایسا درخت بن جاتا ہے جس میں شاخیں، پتے اور پھل سب کچھ ہوتے ہیں اس میں مخلوق (انس و جن) اور فرشتوں کیلئے نفع ہوتا ہے۔ جب قلب کیلئے صحت نہ ہو تو وہ حیوانوں کا سا قلب ہے کہ محض صورت ہے بلا معنی اور خالی برتن ہے کہ جس میں کوئی چیز نہیں۔ بغیر پھل کے درخت، بغیر پرندے کا پنجرہ، بغیر مکین کا مکان ایسے خزانہ کی طرح ہے جس میں بہت سے درہم و دینار وجواہر جمع کئے گئے ہوں اور کوئی خرچ کرنے والا نہ ہو۔ ایسا جسم جس میں روح نہ ہو مثل ان اجسام کے ہے جو مسخ ہوکر پتھر بن گئے ہوں پس ایسے قلب صورت بلا معنی ہیں جو قلب اللہ تعالیٰ سے اعراض کرنیوالا اور اس کے ساتھ کفر کرنیوالا ہو، مسخ کیا گیا ہو اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے دل کو پتھر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے :
ترجمہ: ’’پھر اس کے بعد تمہارے قلب سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی مثل ہیں یا پھر ان سے بھی زیادہ۔‘‘ (البقرہ) (الفتح الربانی مجلس۔ 61 )
حضورِ قلب
جس قلب کو حضوری نصیب ہو جاتی ہے اس پر پھر کبھی بھی نفسانی خواہشات اور شیطانی خطرات کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ اس کے قلب کا محافظ اللہ پاک کے توصل سے مرشدکامل اکمل کی ذات ہوتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* ’’حضورِ قلب یہ ہے کہ دل خطراتِ شیطانی سے محفوظ ہو کہ ہر وقت ذکرِ اللہ کے نور اور تجلیات سے معمور رہے ایساصاحبِ قلب آدمی ہمیشہ باطن میں انبیا و اولیا سے ملاقات کرتا رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ اپنی حضورِ قلب کی کیفیت اور دیدارِ الٰہی کی حالت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
* ’’ میں نے اپنے قلب میں قبلہ دیکھا اور حق (اللہ تعالیٰ )کا دیدار کیا اور پھر خدا کے سامنے سر بسجود ہوگیا۔‘‘ (عقلِ بیدار)
میرے مرشد کریم مجددِ زماں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف لطیف ’شمس الفقرا‘ جو کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تمام تر 140 کتب کا انسائیکلوپیڈیا ہے، میں فرماتے ہیں:
* ’’ حضورِ قلب اسمِ اللہ ذات کے دائمی ذکر اور تصور سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ جب تک نفس نہیں مرتا تو قلب زندہ نہیں ہوتا اور جب تک قلب زندہ نہ ہو حضورِ قلب ممکن نہیں ہے۔ کثرتِ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ طالب کو دائمی حضورِ قلب حاصل ہو جاتا ہے اور پھر یہ حالت ہو جاتی ہے کہ:
فَاَےْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (البقرہ۔115)
ترجمہ:پس تم جس طرف بھی دیکھو گے اللہ کا چہرہ پاؤ گے۔
جب اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور ذریعے اور مرشد کی مہربانی سے طالبِ مولیٰ کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے تو طالب اپنے قلب میں نقش اسمِ اللہ ذات بالکل اسی طرح دیکھ لیتا ہے جیسے ظاہری آنکھوں سے اسمِ اللہ ذات کے نقش کو دیکھتا ہے بلکہ اس سے بھی واضح‘ اور پھر قلب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کر لیتا ہے اور مرشد کی مہربانی سے ہی اسے حضورِ قلب حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہے سوئے یا جاگے، آنکھیں بند کر ے یا کھولے اس کی حضور ی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ نیند تو نیند پھر موت کے آجانے سے بھی حضور ی کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹتا اور اسے دائمی حضوری حاصل ہوجاتی ہے۔ حضوری حاصل کرنیوالا قلب پھر کبھی نہیں مرتا اور نہ ہی وہ صاحبِ قلب انسان کبھی مرتا ہے۔
جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارکہ ہے :
* اِنَّ اَولِےَآءَ اللّٰہِ لَا ےَمُوْتُوْنَ بَلْ ےَنْتَقِلُوْنَ مِنَ الدَّارِ اِلَی الدَّارِ
ترجمہ: بے شک اولیا کرام (فقرا کاملین) مرتے نہیں بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
غلط فہمی کا ازالہ
اکثر لوگ صرف ظاہری عبادات (پنجگانہ نماز باجماعت، ماہِ رمضان کے روزے، حج بیت اللہ، کلمہ اقرار باللسان اور زکوٰۃ) کی ادائیگی کو ہی حضورِ قلب سمجھتے ہیں اور نہ صرف ان عبادات پر اتراتے اور اپنے آپ کو پارسا سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہماری عبادات تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہی مقبول ہیں لیکن دراصل حضورِ قلب تو وہ ہے جو پچھلے صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے ایسے لوگوں کیلئے ایک نصیحت ہے کہ جیسے ہر چیز کی جانچ اور وزن کے لیے ایک ترازو یا کسوٹی ہوتی ہے اسی طرح عبادات کو پرکھنے اور ان کاوزن اللہ کی بارگاہ میں دیکھنے کیلئے جو کسوٹی اور ترازو ہے اسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
* لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلَبْ
ترجمہ: حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اس لیے نماز کی منظوری اور قبولیت کے لئے حضورِ قلب ضروری ہے اور اس کے بغیرقبولیت نا ممکن ہے اور حضورِ قلب مرشد کامل اکمل کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
جس طرح نماز کے ظاہری عمل کے ساتھ ساتھ حضورِ قلب بھی بے حد ضروری ہے اسی طرح جب تک ظاہری کلمہ (اقرار باللسان) کے ساتھ باطنی کلمہ (تصدیق بالقلب) نہ ہو تو ایمان مکمل نہیں ہوتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں
زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا، دِل دا پڑھدا کوئی ھُو
جتھے کلمہ دِل دا پڑھیء، اُوتھے ملے زبان ناں ڈھوئی ھُو
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھُو
ایہہ کلمہ مینوں پیر پڑھایا بَاھُوؒ ، میں سدا سوہاگن ہوئی ھُو
مفہوم: ’’زبانی کلمہ تو ہر کوئی پڑھ لیتا ہے لیکن قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ تو کوئی کوئی پڑھتا ہے۔ جب عاشق کلمہ کی کنہ اور حقیقت کو اپنے اندر پا لیتے ہیں تو وہاں زبان ہلانے کی ضرورت نہیں رہتی بس دیدار ہی رہ جاتا ہے۔ یہ کلمہ تو صرف عاشقِ ذات ہی پڑھتے ہیں۔ زبانی باتیں بنانے والے اس کلمہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مجھے تصدیقِ قلب کے ساتھ کلمہ تو میرے مرشد نے پڑھایا ہے اور میں دونوں جہانوں میں خوش بخت ہو گیا ہوں۔‘‘
اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کے فرق کو واضح کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے:
ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرامؓ میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ کچھ اعرابی لوگ آئے (جونئے نئے مسلمان ہوئے تھے) انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کی ’’آقاؐ ہم بھی مومن ہیں اس لئے ہم پر بھی عنایت فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسرے مومنین پر فرما رہے ہیں‘‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوگیا:
ترجمہ: ’’یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں (یعنی مومن ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں کہ تم ایمان والے نہیں ہو (یعنی تم نے ابھی اقرار باللسان کیا ہے اور زبانی کلمہ پڑھا ہے) بلکہ یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا (یعنی تم ابھی تصدیق بالقلب کے مرتبہ پر نہیں پہنچے)۔ (سورۃ الحجرات)
حضورئ قلب کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
باجھ حضوری نہیں منظوری، توڑے پڑھن بانگ صلاتاں ھُو
روزے نفل نماز گزارن، توڑے جاگن ساریاں راتاں ھُو
باجھوں قلب حضور نہ ہووے، توڑے کڈھن سَے زکوتاں ھُو
باجھ فنا ربّ حاصل ناہیں باھُوؒ ، ناں تاثیر جماعتاں ھُو
ترجمہ:’’ نماز،روزے ،نوافل، زکوٰۃ، تہجد اور دیگر عبادات حضورِ قلب کے بغیر مقبول اور منظور نہیں ہوتیں اپنی ہستی کو فنا کئے بغیر نہ تو اللہ تعالیٰ کا قرب و وِصال نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی نماز باجماعت اور عبادات میں حضورِ قلب حاصل ہوتا ہے۔‘‘
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’حضورِ قلب کے بغیر تمام عبادات ریاکاری کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر تجھے معلوم ہے تو حضورِ قلب کیلئے کیوں کوشش نہیں کرتا ؟کیوں ریاکارانہ عبادات میں مصروف رہتا ہے پہلے حضورِ قلب تک جانے والاراستہ تلاش کر تاکہ تیری عبادت مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہو۔‘‘ (شمس الفقرا)
اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام ارکانِ اسلام و دیگر عبادات و نیک اعمال کی ادائیگی کا مقصد فقط اللہ کی ذات پاک کا قرب و وصال ہے نہ کہ ثواب کمانا۔ تو ان تمام عبادات میں صدق و اخلاص اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کیلئے حضورِ قلب ہونا بے حد ضروری ہے اور حضورِ قلب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ مرشد کامل اکمل ہے کیونکہ مرشد کی رہنمائی و راہبری کے بغیر حضورِ قلب حاصل ہونا ناممکن ہے اور مرشد بھی وہ جو جامع نور الہدیٰ ہواور کامل و اکمل کے مرتبہ پر فائز ہو۔ جس طرح اللہ کی ذات واحد ہے اسی طرح مرشد جامع نورالہدیٰ بھی ہر دور میں صرف ایک ہی ہوتا ہے۔اس دور کے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ مرشد اور انسانِ کامل میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جن کے دامن سے وابستگی اور آپ مدظلہ الاقدس سے دستِ بیعت اور اسم g ذات کا ذکروتصور حاصل کئے بغیر کوئی بھی دیدارِ الٰہی اور حضورِ قلب تک نہیں پہنچ سکتا اور یہی کسوٹی ہے لہٰذا جو کوئی بھی دیدارِ الٰہی اور حضورِ قلب کا خواہش مند ہے اسے دعوت ہے کہ وہ تحریک دعوتِ فقر میں شمولیت اختیار کرے تاکہ اپنے مقصدِ حیات تک باآسانی پہنچ سکے ۔