ریاکاری
تحریر: وسیم آصف۔ لاہور
ریا کے لغوی معنی ـــــ’’دکھاوے ‘‘کے ہیں۔ ریا کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی رضاکے علاوہ دکھاوے کے ارادے سے عمل کیا جائے۔ عبادات کا مقصد اللہ کو راضی کرناہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی معرفت اور قرب عطا کرے لیکن اگر عبادات سے دنیاوی فوائد حاصل کرنا مقصود ہوں تو وہ عمل خالص اللہ کیلئے نہیں رہے گا اور ریاکاری کہلائے گا۔ ریاکاری کے دو درجے ہیں:
1۔اگرعبادت سے محض مخلوق کوراضی کرنا یا دنیاوی نفع حاصل کرنا مقصود ہو تو اسے ریائے خالص کہتے ہیں۔
2۔اگردنیاوی نفع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضابھی پیش نظرہوتو اسے ریائے مخلوط کہتے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے کا ہرشخص ظاہر بینی میں دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عبادات جوکہ خالصتاً اللہ کیلئے مخصوص ہیں ان میں بھی ریاکاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ایک عام مسلمان کی ترجیح صرف مادی ضروریات اور آسائشات ہیں۔ وہ دین کے باطنی علم اور عبادات کی حقیقت کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ احکامِ الٰہی کے مطابق مال تو خرچ کرتا ہے لیکن چونکہ اُسے اللہ کی رضا کی پرواہ نہیں ہوتی اس لیے ریاکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اس میں صدقات، عطیات، خیرات اور عید الاضحی کی قربانی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں مثلاً قربانی کاجانور خریدتے وقت اللہ کی رضا کی بجائے لوگوں اور رشتہ داروں کا خیال پیشِ نظر ہو کہ اگر زیادہ جانور قربان نہ کیے گئے تو لوگ کیا کہیں گے یا پھرقربانی کے جانوروں کو اشتہار کی طرح اپنی شہرت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مالی تعاون میں جہاں شہرت کا امکان نہیں ہوتا وہاں خرچ بھی نہیں کیا جاتاالبتہ جہاں شہرت کا حصول ہو اور ہر طرف سے تعریف ہو رہی ہو، تصاویر اُتر رہی ہوں، ریکاڈنگ ہو رہی ہو، نام کا ڈنکا بجے تو ایک ریاکار کے لیے اس جگہ خرچ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات مجمع کے سامنے بڑی بڑی رقوم سے امدادکااعلان کیا جاتاہے اور بعد میں رقم نہیں بھیجی جاتی۔ یہ سب ریاکاری ہی ہے۔ قرآنِ مجید میں دکھاوے کیلئے مال خر چ کرنے کو انتہائی کمزور ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور وہ لوگ جواپنے مال کولوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پرایمان لاتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پراور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ کتنا برا ساتھی ہے۔ (سورۃ النسا۔38)
ریاکاری کے متعلق احادیث
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے:
(روزِ محشر) جب لوگ اپنے اعمال کے ساتھ حاضر ہوں گے تو ریاکاروں سے کہا جائے گا کہ ان کے پاس جاؤ جن کیلئے تم ریاکاری کیا کرتے تھے اور ان کے پاس اپنا اجرتلاش کرو۔ (المعجم الکبیر الحدیث4301)
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:
بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اللہ نے یہ وادی اُمتِ محمدیہ کے ان ریاکاروں کیلئے تیار کی ہے جو قرآنِ پاک کے حافظ، غیراللہ کے لئے صدقہ کرنے والے، اللہ کے گھر کے حاجی اور راہِ خدا میں نکلنے والے ہوں گے (لیکن ریاکاری کے باعث ان کے اعمال بے فائدہ ہوں گے اور انہیں کچھ نفع نہیں دیں گے)۔ (المعجم الکبیر)
جس نے اللہ کے ساتھ غیر اللہ کیلئے دکھلاوا کیا تحقیق وہ اللہ کے ذمہ کرم سے برَی ہوگیا۔ (المعجم الکبیر805)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیفِ مبارکہ محک الفقر کلاں میں حدیث بیان فرمائی ہے:
ریا کفر سے زیادہ برُی خصلت ہے۔
حضرت شداد بن اوسؓ نے فرمایا کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ مجھے آپ کے رُخِ انور پر ناگواری کے آثار محسوس ہوئے۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت رنج ہوا۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ کا کیا حال ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مجھے اپنی اُمت کے مشرک ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیا آپ کے بعد لوگ شرک میں مبتلا ہو جائیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’وہ سورج، چاند، بت اور پتھر کی پوجا تو یقینا نہیں کریں گے مگر اعمال میں ریا کریں گے اور ریا ہی شرک ہے۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
اقوالِ حضرت علیؓ
ریاکاری برائی کا بیج ہے۔
نیک عمل کرو مگر ریا اور شہرت کا خیال نہ کرو۔ جوشخص کسی کو دکھلانے کیلئے کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی کے سپرد کرتا ہے جس کی خاطر اس نے وہ کام کیا ہوتا ہے۔
حضرت سیدّناعلی المرتضی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ ریاکاری کی تین علامتیں ہیں:
۱۔تنہائی میں ہو تو عمل میں سستی کرے اور لوگوں کے سامنے ہو تو جوش دکھائے۔
۲۔ اس کی تعریف کی جائے توعمل میں اضافہ کردے۔
۳۔ اگر مذمت کی جائے توعمل میں کمی کر دے۔
اقوال سیدّنا غوث الاعظمؓ
ریاکار منافق دنیا کودین کے عوض اختیار کرتا ہے اور بغیر قابلیت کے صالحین کا لباس پہن کران کا سا کلام کرتاہے اور ان کا لباس پہنتاہے مگر ان جیسے اعمال نہیں کرتا اوران کی طرف اپنی نیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ نیت صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 22)
اے مسلمانو! تم اس شخص کوچھوڑ دوجو مخلوق میں مقبولیت کیلئے عمل کرتا ہے وہ تو اللہ کا دشمن اور بھاگا ہوا غلام ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا اور اس کی نعمت کا ناشکرا ہے۔ محجوب، مردوداور ملعون ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 37)
ریاکار منافق شخص اپنے عمل پر مغرور ہوتا ہے اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھتا ہے، راتوں کو شب بیداری کرتا ہے، روکھا سوکھا کھاتا ہے اور موٹا لباس پہنتا ہے۔ درحقیقت وہ ظاہر و باطن میں تاریکی میں ہے اور اپنے دل سے اللہ کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھتا۔ (الفتح الربانی۔مجلس 43)
اقوال حضرت سلطان باھوؒ
صاحبِ نفسِ امارہ ترش رو اوربدخو ہوتا ہے جس کے وجود میں ریاکاری کی بُوُ ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
بعض لوگوں کی ریاضت اور عبادت ریا پر مبنی ہوتی ہے جو سراسر خواہشاتِ نفس کی تسکین، رجوعاتِ خلق اورنام وناموس کی خاطر کی جاتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اے زاہد! ریاضتِ باطنی اختیار کر کہ ریاضتِ باطنی مرتبہ خاص کے کمال تک پہنچا تی ہے اور ریاضتِ ظاہری عوام میں شہرت و ریا سے ہمکنار کرتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
ریاکاری کے اسباب
علما کرام نے ریاکاری کے بنیادی طور پر پانچ اسباب بیان فرمائے ہیں:
1۔جہالت
2۔حبِّ جاہ
3۔مذمت سے فرار
4۔مال بٹورنے کی خواہش
5۔تعریف وشہرت کی حرص
1۔جہالت:
علما کرام کے نزدیک ریاکاری اُس شخص کے دل میں زیادہ پیدا ہوتی ہے جو جاہل ہو۔ جوجتنا جاہل ہو اتنا ہی بڑا ریاکار ہوتا ہے۔ جب اُس کو پتہ ہی نہیں کہ اللہ کے نزدیک اخلاص کی عظمت کتنی ہے، جس عمل پر وہ اِترا رہا ہے وہ عمل قبول ہوگا بھی یا نہیں۔ اُس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بتائے کہ میں کتنا عبادت گزار ہوں۔ اس لیے علما کرام نے باطنی ممنوعات کا علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے جیسا کہ احمد رضا خان ؒ فتاویٰ رضویہ جلد23 میں لکھتے ہیں:
محرماتِ باطنیہ (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً) تکبر و ریا و عجب وحد وغیرہ اور ان کے معالجات (یعنی علاج) کا علم (حاصل کرنا) بھی ہرمسلمان کے اہم فرائض میں سے ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)
2۔ حبِّ جاہ:
حبِ جاہ کا مطلب ہے کہ لوگوں میں مقام اور ان پر غلبہ چاہیے تاکہ لوگوں میں اس کی بلندی ظاہر ہو۔
میرے مرشد کریم مرکزِ فقرسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جاہ کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے لوگوں کے دل اس کے اسیر ہوں۔ (نفس کے ناسور)
اس طرح لوگوں کے دل اسیر کرنے کیلئے اپنی عبادت ان پر ظاہر کی جاتی ہیں۔
3۔مذمت سے فرار:
کچھ لوگ فطرتاً بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اپنی مذمت نہیں سن سکتے۔ اس لیے مذمت سے بچنے کیلئے ریاکاری کر جاتے ہیں۔ اپنی بابت کوئی منفی بات سننا گوارا نہیں کرتے یا یہ خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ سر انجام دے رہے ہیں وہ ہمیشہ مقبول ہی ہو۔ مذمت تو انبیا کرام اورصحابہؓ کی بھی ہوئی تھی تو پھر ہم مذمت سے پریشان کیوں ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا مخلوق کے منفی روّیے سے بچنے کی خاطر خالق کی رضا کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ لوگ ہمارے اعمال دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہماری نیتیں دیکھتا ہے۔
4۔مال بٹورنے کی خواہش:
لوگوں میں اپنے اعمال کا دکھاوا اس غرض سے کیا جائے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھ کرمال دیں یعنی دین کے ذریعے دنیا کا مال کمانے کی خواہش کرنا۔ اس میں روحانی علاج کرنے والے، تعویذ گنڈا کرنے والے اور جھوٹے پیر حضرات وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔
5۔تعریف وشہرت کی حرص:
بہت سے لوگ دوسروں سے اپنی تعریف سننے کیلئے اور مشہور ہونے کیلئے ریاکاری کر جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اللہ کی رضا کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ اس میں خوشامدی طبیعت کے لوگ، ناجائز مفادات حاصل کرنے والے اور اپنی خامیوں کوچھپانے والے گرفتار ہوجاتے ہیں۔
ریاکاری کے طریقے
ریاکاری مندرجہ ذیل طریقوں سے کی جاتی ہے:
1۔ کسی کا اپنے جسم پرتھکن یا پیلاہٹ ظاہر کرنا، پراگندہ بال اور گھٹیا ہیت کا اظہار، غم کی کثرت، غذا کی قلت اور دیگر کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنے آپ پرتوجہ نہ دینا، دنیا اور دنیا داروں سے بے رغبتی اورعبادت میں خوب کوشش کا وہم پیدا کرنے کیلئے پست آواز میں بولنااورآنکھیں بند رکھنا۔
2۔صالحین کا سا حلیہ اختیار کرنا جیسے چلتے وقت سرجھکائے رکھنا، پرُ وقار انداز میں چلنا، اونی اورکھردرا لباس پہننا اور ہر وہ صورت اپنانا کہ یہ وہم پیداہو کہ وہ علماکرامؒ، سادات اور صوفیا کرامؒ میں سے ہے حالانکہ وہ علم کی حقیقت اورباطن کی صفائی کے معاملہ میں مفلس ہو۔
3۔دورانِ گفتگو بات بات پر اپنے دینی کارنامے بیان کرنا تاکہ سننے والے اسے دین کابہت بڑا خادم تصور کریں اور اس کی عظمتوں کے قائل ہو جائیں۔
4۔حج کرنے والے کا بلا ضرورت اپناحاجی ہونا اس نیت سے ظاہر کرنا کہ لوگ اس کی تعظیم کریں۔
5۔لوگوں کے سامنے خوش اخلاقی کا اشتہار ہو اور گھروالے اس کی بداخلاقی سے بیزارہوں۔
6۔لوگوں کے سامنے خشوع وخضوع سے تمام آداب بجا لاتے ہوئے نماز پڑھے اورتنہائی ایسی کہ فرائض و واحبات پورے ہونا مشکوک ہو جائیں۔
7۔لوگوں کے سامنے سخاوت کا موقع ملے تو کسی سے پیچھے نہ رہے مگر کوئی اکیلے میں مددکیلئے درخواست کرے تو حیلے بہانے کرے۔
8۔ اگر شب بیداری کرنے یا تہجد پڑھنے کاموقع ملے تو دن میں لوگوں کے سامنے آنکھیں ملے یااُٹھنے بیٹھنے میں نقاہت ظاہر کرے کہ کسی طرح اس کی شب بیداری کا سب کو پتہ چل جائے۔
یاد رہے کہ ریاکاری کے طریقے جاننے کے بعد ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں سے بدگمان نہیں ہونا بلکہ ریاکاری کی ان صورتوں کواپنے اندر تلاش کرکے اپنی اصلاح پر توجہ دینی ہے۔
جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ریاکاری کی اس قدر آفتیں ہیں اور ریاکاری سے بچنا کس قدر دشوار ہے توعین ممکن ہے کہ شیطان وسوسہ ڈالے کہ تو سِرے سے نیک عمل ہی نہ کراس طرح ریاکاری سے بچ جائے گا۔ اس سلسلے میں علما کرام فرماتے ہیں ’’ریاکاری کے خوف سے نیک عمل چھوڑنا دانشمندی نہیں کیونکہ اس طرح ہم اخلاص اور نیکی دونوں کے اجرسے محروم ہو جائیں گے لہٰذا نیک عمل چھوڑنے کی بجائے اپنی نیت کو درست کرلیں۔ شیطان تو ہر انسا ن پر مسلط ہے اس لیے انسان کوچاہیے کہ ان شیطانی حیلوں کا علمِ دین اور نفرت و انکار سے مقابلہ کرے۔‘‘
جبکہ طالبِ مولیٰ ذکرِاللہ سے شیطانی حیلوں کا مقابلہ کرتا ہے اور بالآخر اسے شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
راہِ فقر اورریاکاری
سلسلہ سروری قادری میں اسمِ اعظم سلطان الاذکار ھوُ کا ذکر عطا کیا جاتاہے جو کہ خفی ذکر ہے۔ اس لیے اس میں ریا کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ مگر ریا کا سلسلہ تب شروع ہوتا ہے جب طالب ‘طلبِ مولیٰ کے شوق میں بڑھتا ہوا ظاہری طور پر بھی اعمال کو استقامت کے ساتھ کرتاہے۔ لوگ اس کا طرزِ عمل دیکھتے ہوئے اسے زیادہ اہمیت اور عزت دینے لگ جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ عزت اور ذلت تو محض اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔ لوگوں کے اس انداز سے نفس کوبہت لذت اور راحت ملتی ہے۔ اس وقت اگر طالب غفلت سے کام لینا شروع کر دے یا باطنی احکامات کو نظر انداز کرکے صرف عوام الناس میں شہرت اور عزت افزائی کے لیے ظاہری اعمال کو اختیار کرے گا تو ریاکاری میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس لیے اس موقع پر طالب کو اپنا محاسبہ پہلے سے زیادہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے، اعمال کے ساتھ ساتھ اپنے باطنی احوال پر بھی خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔
ریاکاری سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ باطنی اصلاح کو ظاہری اعمال پر ترجیح دی جائے۔ یاد رہے کہ ریاکاری صرف عمل شروع کرنے سے پہلے نیت کا خراب ہونا نہیں بلکہ دورانِ عمل اور عمل کے بعد دکھاوے کی خواہش بھی ریاکاری ہی ہے مثلاً کچھ طالبوں پر راہِ فقر میں اسرارِ الٰہی کھلنے لگتے ہیں، بعض سے کوئی کرامت ظاہر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بعض طالب مخلوق پریہ اسرار اورکرامتیں ظاہر کرنے کی غلطی کر جاتے ہیں۔ چونکہ عام لوگوں کے نزدیک یہ چیزیں بڑی ریاضتوں اور چِلّوں کے بعد ملتی ہیں اس لیے وہ اس طالب کوبہت بلند مرتبہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ طالب بجائے اپنی ذات کی نفی کرنے کے مزید چرچا کرتاہے کہ میں نے بڑے مشکل حالات میں کیسی محنت سے یہ چیز حاصل کی اور اس طرح ریاکاری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بعض مرید ہوتے ہی جاسوس ہیں۔ ظاہری طور پر انہوں نے مرشد سے وفاداری کا ایک لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ اُن کی اطاعت اور مجاہدہ کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے۔ چونکہ یہ سب کچھ اللہ کی رضاکیلئے نہیں ہوتا اس طرح یہ بھی ریاکاری میں ہی شمار ہوتا ہے۔ جو طالب اخلاص کو چھوڑ کر ریاکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کا باطنی سفر فوراً رُک جاتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
حدیث شریف میں ریاکاری کوچھوٹا شرک قراردیاگیاہے اورشرک کرنے والے کافقر سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ (مجتبیٰ آخر زمانی)
باطن کی اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ کسی ایسے صاحبِ نظر کی صحبت اختیار کی جائے جو اپنی نگاہِ کامل اور اپنی پاکیزہ صحبت کی بدولت روحانی تقویت عطا کرے اور طالب کے وجود سے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ دورِ حاضر میں اگر کوئی ایسی ہستی موجود ہے تو وہ بلاشبہ مرکزِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بابرکت ہستی ہے جو مخلوقِ خدا کو نفس، دنیا اور شیطان کے چنگل سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے پر گامزن کر رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس بات کا عزم کئے ہوئے ہیں کہ بھٹکی ہوئی امت کو دین کی حقیقی روح یعنی فقرِمحمدی سے روشناس کرایا جائے اور تمام امت کو فقر کے جھنڈے تلے اکٹھا کیا جائے۔ اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات کی حقیقت ہر خاص و عام تک پہنچ جائے تاکہ کوئی شخص اس لازوال نعمت سے محروم نہ رہے۔ ہر شخص کو سلطان الاذکار ھوُ، تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ کے ذریعے تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کے سفر پر گامزن کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی قرب یعنی معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے عظیم روحانی مراتب تک رسائی ممکن ہو۔ آئیے ! آج ہی مصمم ارادہ کریں کہ ہم ریاکاری جیسی خطرناک باطنی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ضرور صاحبِ مسمیّ مرشد کامل اکمل کی صحبت اختیار کریں گے۔
استفادہ کتب :
کلیدالتوحید کلاں تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
محک الفقرا کلاں ایضاً
حیات وتعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
نفس کے ناسور ایضاً
اقوال علیؓ کاانسائیکلوپیڈیا از یوسف مثالی
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ریاکاری اور دیگر تمام نفسانی برائیوں سے پاک فرمائے۔ آمین۔
اچھا مضمون ہے
بہت سے لوگ دوسروں سے اپنی تعریف سننے کیلئے اور مشہور ہونے کیلئے ریاکاری کر جاتے ہیں.
اللہ پاک ہم سب کو اس بیماری سے محفوظ رکھے
آمین!
طالبِ مولیٰ ذکرِاللہ سے شیطانی حیلوں کا مقابلہ کرتا ہے اور بالآخر اسے شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے
مرشد کے قرب میں آ کر انسان سب گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے. شرط یہ ہے کہ مرشد کی اطاعت اور کہا مانے.
اللہ پاک سب کو ریا کاری جیسی باطنی بیماری سے بچائے۔آمین
MaShaAllah
اللہ پاک ہم سب کو ریاکاری سے بچائے آمین
ریاکاری کس قدر خاموشی سے تمام اعمال کو ضائع کر دیتی ہے اور بندے کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔
ریاکاری اعمال کو ضائع کر دیتی ہے
Really nice article
👍
حدیث شریف میں ریاکاری کوچھوٹا شرک قراردیاگیاہے
اور وہ لوگ جواپنے مال کولوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پرایمان لاتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پراور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ کتنا برا ساتھی ہے۔ (سورۃ النسا۔38)
ریاکاری اور اس کے حل کے بارے میں بہترین مضون ہے
حضرت علیؓ
ریاکاری برائی کا بیج ہے۔
بے شک!
باطن کی اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ کسی ایسے صاحبِ نظر کی صحبت اختیار کی جائے جو اپنی نگاہِ کامل اور اپنی پاکیزہ صحبت کی بدولت روحانی تقویت عطا کرے اور طالب کے وجود سے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ دورِ حاضر میں اگر کوئی ایسی ہستی موجود ہے تو وہ بلاشبہ مرکزِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بابرکت ہستی ہے جو مخلوقِ خدا کو نفس، دنیا اور شیطان کے چنگل سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے پر گامزن کر رہے ہیں
Allah hame riyakari se bachaye!!