شکر گزاری
تحریر : محمد یوسف اکبر سروری قادری۔لاہور
شکر کا مفہوم
شکرکے لغوی معنی ہیں نعمت دینے والے منعم کی نعمت کا اقرار کرنا اور کسی بھی عطا، عنایت و نوازش پراس کا احسان ماننا۔
اصطلاحی معنوں میں اللہ جلّ شانہٗ کی بے پایاں شفقت، رحمت، ربوبیت، رزاقیت، صفاتِ رحم و کرم، لطف و بخشش اور دیگر عطاؤں اور احسانات کے بدلے میں دل سے اٹھنے والی کیفیات وجذبات کا نام شکر ہے۔
انسان جب شعوری طور پر اپنے نفس اور قدرت کی آفاقی قوتوں کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے اپناوجودِ خاکی، اپنی حیات اور اس کا ارتقا قدرت کا کرشمہ نظر آتا ہے۔ جب وہ غور و فکرکرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات اسی کی خدمت میں کمربستہ ہیں تاکہ اس کی زندگی سہل اور مستحکم بنائی جا سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے فرمایا ہے کہ میں نے ساری کائنات تیرے لیے پیدا فرمائی ہے لیکن تجھے اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ چنانچہ تمام اسباب فراہم کرنے والے اللہ کے احسانوں کو پہچاننا اور تہہ دل سے اس کا شکر ادا کرنا تشکر کہلاتا ہے۔ اللہ کے شکر کا ابتدائی مفہوم یہی ہے۔ پھر جوں جوں اللہ کی معرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے توں توں اس تشکر کی گہرائی اور صورتوں میں نکھار آتا چلا جاتا ہے۔
شکر گزار کون ہیں؟
شکر کرنا انبیا و رسل اور اللہ کے مقرب و مومن بندوں کامقام ہے۔ اللہ کی مخلوق سے شکر گزار لوگ اللہ کے مقرب بندے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تعدادکم ہے ۔ فرمان ربّ العالمین ہے:
وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ (سور ہ سبا۔13)
ترجمہ:اور میرے بندوں میں شکر گزارکم ہی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ سَیَجْزِیَ اللّٰہُ الشَّاکِرِیْنَ(سورہ آل عمران۔144)
ترجمہ: اور اللہ عنقریب شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا۔
ارشادِ ربّ العالمین ہے:
وَ مَنْ یَّشْکُرْفَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (سورہ لقمان۔12)
ترجمہ:اور جو شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو بے شک اللہ بے نیاز اور تعریف کا مستحق ہے۔
علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب مدارج السالکین میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرا ذکر کرنے والے میری مجلس کے حقدار ہیں۔ میرا شکر کرنے والے میری طرف سے زیادہ خیر کے مستحق ہیں۔ میرے اطاعت گزار ہی میرے ہاں عزت والے ہیں۔ نافرمان لوگوں کو بھی میں کبھی اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر گناہگار توبہ کر لیں تو میں ان کا حبیب ہوں اور اگر توبہ نہ کریں تو میں ان کا طبیب ہوں۔ میں انہیں مصائب سے دوچار کرتا ہوں تاکہ مصائب کے ذریعے پاک صاف کر دوں۔ لہٰذا اللہ کاشکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا اور اس کی عنایات پر شکر ادا کرو، وہ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔ اللہ کا شکر بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
پس ہمیں چاہیے کہ اللہ کے شکر سے زبانوں کو تر رکھیں۔
شکر کی مختلف صورتیں
اللہ کی شکر گزاری کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اپنی انفرادی حیثیت سے اللہ کا شکر ادا کرنا کچھ اور ہے اور اپنی مجموعی و اجتماعی حیثیت سے شکر ادا کرنا کچھ اور ہے۔
انفرادی شکر:
انفرادی شکر کرنے کے بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کے ساتھ انفرادی معاملہ فرماتا ہے اور اسے انفرادی حیثیت میں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تاکہ اسے شکر کے ذریعے آزما سکے۔ انفرادی طور پر شکر کرنے کے درج ذیل مواقع یا وجو ہات ہو سکتی ہیں مثلاً شفیق اور دین دار ماں باپ کا سایہ سر پر موجود ہونا، اولاد میں کثرت یا حسب ِمنشا اولاد پر اللہ کا شکر گزار ہونا، جائیداد، کاروبار اور مال مویشی کی فراوانی پر اللہ کا شکر ادا کرنا، اعلیٰ معیارِ زندگی، صحت مند زندگی، صحت مند اعضا اور اعضا کی سلامتی، بیماری سے حفاظت یا بیماری سے صحت یابی، جسمانی معذوری سے مبرا ہونا، تعلیم میں اضافہ، اچھا حافظہ وعقل اور فہم و فراست، غیر معمولی صلاحیتیں، ظاہری عزت و وقار، کسی مصیبت ،بیماری یا وبا سے نجات پانے پر اللہ کا شکر گزار ہونا، گناہوں سے توبہ اور نیکی کرنے پر شکر کا اظہار کرنا اور جسمانی، روحانی، نفسیاتی یا دیگر تکالیف سے محفوظ رہنے پر اللہ کا شکر گزار بندہ بننا وغیرہ۔
حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بندۂ مومن کا بھی عجب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ ملکہ کسی کو حاصل نہیں سوائے بندۂ مومن کے کہ اگر کوئی تکلیف بھی پہنچی اور اس نے اللہ کا شکر ادا کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے۔ (صحیح مسلم)
شکر ہر شخص پر واجب اور ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی نعمتوں کے تذکرہ سے بھی لوگوں کو شکر کی یاد دہانی کروائی ہے تاکہ لوگ اس ذاتِ حقیقی سے غافل نہ ہو جائیں کیونکہ کچھ نعمتوں کا تو انسان کو ادراک ہوتا ہے لیکن اکثر نعمتوں کا تو انسان کو ادراک ہی نہیں مثلاً انسانی وجود میں اس کے اندرونی اعضا خودکار طریقے سے ہر وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں اور انسان کو ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
انفرادی شکر کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ کی اطاعت و بندگی کی توفیق حاصل ہونا بھی اللہ کی خاص عنایت ہے کیونکہ اللہ ہر کسی کو اپنی اطاعت و بندگی اور ذکر کی توفیق عطا نہیں فرماتا۔ اس لیے عبادات اور بندگی پر تکبر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس مالک ِ حقیقی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے اپنی ذات سے غافل رہنے والوں میں سے نہیں بنایا۔
اس کے علاوہ اگر کسی کو اللہ پاک اپنے دین کی سربلندی اور خدمت کے لیے چن لے تو یہ بھی اللہ کی خاص عنایات میں سے ہے کیونکہ وہ ہر کسی کو اس کارِ خیر کے لیے منتخب نہیں فرماتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہ دکھا دیتا ہے۔ (الشوریٰ۔13)
اسی طرح اللہ پاک جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے خود سے گمراہ کر دیتا ہے۔ پس اللہ کی راہ یعنی صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق حاصل ہونا بھی اللہ کی جانب سے ہے پس اس عطا و عنایت پر اللہ کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اجتماعی شکر :
شکر کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں اجتماعی شکر کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر بے حساب رحمت، شفقت، عطا اور بخشش ہے جو اس نے انسان پر کی ہے۔ صفاتِ رحم و کرم اور شفقت و مہربانی اللہ تعالیٰ کا انسان کے ساتھ انتہائی نرمی، درگزر اور بخشش کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو پیدا کیا، ان کے تقاضے پورے کیے اور اپنی رحمت اور لطف و کرم نوازی کا اظہار کرتے ہوئے ان تقاضوں کوانتہائی خوبصورتی کے ساتھ پورا کیا۔اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر محبت و شفقت نچھاور کرتا ہے اور مخلوق کی ہر بات سنتا اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے۔ نیکوکاروں کی قدر دانی کرتا ہے اور اپنی حکمت اور بے تحاشا نوازشات کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہی نہیں بلکہ جب کوئی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو اللہ اس کے لیے سلامتی کی راہیں پیدا کرتا ہے اور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور مشکلات کے وقت میں اس کی مشکل کشائی کرتا ہے اور اس کا مددگار اور معاون بن جاتا ہے اور مایوسیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ بس یہی لطف و کرم اور عطا اللہ تعالیٰ کا پہلا تعارف اور پہچان ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکنے، احسان مند ہونے اور سجدہ شکر بجا لانے پر مجبور کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتلا دیا ہے کہ تمام نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں تاہم اللہ کا حق ادا کرنے کے لیے اسی کی عبادت اور شکر بجا لانا بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ سے مزید نعمتوں اور انعام و اکرام کی چاہت رکھنا بھی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ (النحل۔ 53)
ترجمہ: اور تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اجتماعی شکر کی دوسری وجہ اللہ کی صفت ِربوبیت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر کے ان سے غافل نہیں ہو گیا بلکہ وہ تو ہر لمحہ نگہبان و محا فظ ہے، ہمدرد و غم گسار ہے۔ ہر عمل کو ملاحظہ فرما رہا ہے اور دن رات اپنے بندوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ سانس لینے کے لیے آکسیجن، حرارت کے لیے سورج کی روشنی، نشوونما کے لیے سازگار ماحول، کھانے کے لیے بہترین غذائیں اور ذائقہ کی تسکین کے لیے مختلف انواع و اقسام کے میوہ جات اور پھل و سبزیاں اور مادی ضروریات کی نمود و تکمیل کے لیے سہولتیں فراہم کر رہا ہے اور یہی اس کی ربوبیت اور رزاقیت کا اظہار ہے۔ وہ ماں کے پیٹ میں بچے کو ساز گار ماحول اور رزق فراہم کرتا ہے۔ پیدائش کے بعد ماں کی گود میں اس کی نشوونما کا بندوبست کرتا ہے اور دنیا کے ماحول کو اس کے لیے سازگار بنا دیتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ط ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ۔ (فاطر۔3)
ترجمہ: اے لوگو! تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرُوْا نَعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقُکُمْ بِہٖٓ لا اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (المائدہ۔7)
ترجمہ: اور اللہ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کے عہد کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم سے (پختہ طریقے سے) لیا تھا جبکہ تم نے کہا تھا کہ ہم نے (اللہ کے حکم کو) سنا اور ہم نے (اس کی) اطاعت کی اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ سینوں کے (پوشیدہ) رازوں کو خوب جانتا ہے۔
عطائے فقر۔۔شکر کی بہترین صورت:
اجتماعی شکر گزاری کی سب سے اہم اور بہترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں صرف انسان کو اپنی معرفت کے لیے منتخب فرمایا۔ دیگر تمام مخلوقات بھی اللہ کی حمد و ثناء اور پاکی بیان کر رہی ہیں لیکن انسان کی عبادت و بندگی اس بنا پر افضل و برتر ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت رکھی کہ اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کر کے اسے دیکھ کر اس کی بندگی کا حق ادا کرے۔ اگر وہ اللہ کی معرفت و عرفان حاصل نہیں کرتا تو وہ اشرف المخلوقات کے درجہ پر نہیں پہنچا بلکہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح ایک عام مخلوق ہے۔ تاہم معرفت ِ الٰہی حاصل کرنا اور اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنا ہی انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہے۔ دیگر تمام امور ثانوی اہمیت کے حامل ہیں۔ بس اللہ کی اس عطا پر کہ اس نے ہمیں اپنی معرفت کے لیے منتخب فرمایا‘ اللہ کا احسانِ عظیم ہے اور اس کی شکرگزاری کے طور پر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قلب و باطن کو نورِ حق سے منور کریں۔ عرفانِ الٰہی سے اپنی چشم ِ باطن کو روشن کریں۔
ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہونا ہی فخر کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اس سے بڑھ کر سعادت کی بات ہی کوئی نہیں کہ وہ محبوبِ ربّ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں سے ہے۔ ہر نبی نے جس بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی ہونے کی دعا کی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورثہ فقر ہے جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فخر فرمایا۔ حدیث ِ نبویؐ ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُ بِہٖ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔ پس اسی کی بدولت میں تمام انبیا اور رسولوں پر فخر کرتا ہوں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فقر کی یہ امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے توسط سے سلسلہ در سلسلہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے ہوتی ہوئی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچی اور موجودہ دور میں اس امانت ِ فقر کے حامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔
پس امانت ِ فقر کا حامل انسان فقیر ِ کامل ہوتا ہے کیونکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ورثہ فقر کا حامل ہوتا ہے جس کی صحبت میسر آ جانے سے بڑی اور عظیم نعمت کوئی اور نہیں۔ کیونکہ صاحب ِ فقر کی عظیم و پاک صحبت سے ہی نفوس کو تزکیہ اور قلوب کو تصفیہ کی دولت نصیب ہوتی ہے جو مادہ پرستی کے اس دور میں کسی نعمت سے کم نہیں اور اگر طالب استقامت (جو کہ نعمت سے کم نہیں) کے ساتھ فقیر ِ کامل کے دامن سے وابستہ رہے تو معرفت ِ الٰہی کے حصول کے بعد قربِ حق میں بتدریج ترقی نصیب ہوتی ہے اور جسے مالک ِ کائنات کا قرب و معرفت میسر آ جائے وہ جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے۔
ایسی ہی مقدس اور نایاب ہستیوں کی برکت سے یہ دنیا قائم ہے۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ان عظیم ہستیوں کے متعلق فرماتے ہیں:
وہ شہروں میں بسنے والوں پر کوتوال مقرر ہیں۔ ان کی وجہ سے خلق ِ خدا سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ انہی کے طفیل اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور انہی کے سبب زمین قسم قسم کی اجناس اور پھل پیدا کرتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 12)
دوسری بڑی نعمت جو فقیر ِ کامل کی بارگاہ سے حاصل ہوتی ہے وہ ہے اسم ِ اللہ ذات۔ جس کے ذکر و تصور کی مشق سے باطن کے دو انتہائی مقامات تک رسائی حاصل ہوتی ہے ایک مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور دوسرا لقائے الٰہی۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے اسم ِ اللہ ذات کا فیض جو پہلے خواص تک محدود تھا اسے دنیا بھر میں عام فرما دیا ہے اور گلی گلی شہر شہر میں تحریک دعوتِ فقر کے جھنڈے تلے اسم ِ اللہ ذات کی دعوت دی جا رہی ہے تاکہ مسلمان طالبانِ مولیٰ بن کر اللہ کی معرفت سے اپنے قلب و باطن کو روشن کریں۔
پس طالبانِ مولیٰ اور امت ِ محمدیہ کے لیے عطائے فقر کا شکر ادا کرنا واجب ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے محبوبین کے طفیل میسر آ رہی ہے۔ اس نعمت کے شکرانہ کے طور پر طالب ِ مولیٰ اپنی جان مال غرض ہر شے بھی قربان کر دے تو اس نعمت کا شکر ادا نہ کر سکے۔
شرائط شکر
شکر ادا کرنے کے لیے انسان کو درج ذیل امور کا خاص خیال رکھنا چاہیے یعنی
شکر کے لیے منعم یعنی اللہ سے محبت کی جائے
اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے
اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کی جائے
طہارت کو خود پر لازم کیا جائے
اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہا جائے
زبان کو ثنائے الٰہی میں مشغول رکھا جائے
ایمان کی سلامتی اور ایمان پر استقامت طلب کی جائے
گناہوں سے توبہ و استغفارکثرت سے کی جائے
ممنوعات سے دور ر ہا جائے
انبیا و اولیا و صلحاکا ادب و احترام کیا جائے
احکامِ خداوندی کی بجا آوری کی حتی الامکان کوشش کی جائے
اللہ کی تمام نعمتوں کا حق الیقین سے اقرارکیا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کی یہ محض اللہ کا فضل ہے
اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤکیا جائے
کثرت سے ذکر ِ الٰہی میں مشغول رہا جائے کیونکہ کثرتِ ذکرسے انسان بلند مقام اور مرتبے تک پہنچ جاتا ہے اور بھلائی محض شکر گزاروں کے لیے ہی ہے۔
کفرانِ نعمت
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کرنا یا ان کا شکر ادا نہ کرنا یا ان کا غلط استعمال کرنا کفرانِ نعمت ہے۔ حق ِ بندگی تو یہی ہے کہ ہر نعمت و عطا چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی‘ اس کا شکر ادا کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت و اضافہ فرما دے ورنہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت سے محروم کر دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ۔ (ابراہیم۔7)
ترجمہ: اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) اضافہ کروں گا۔
پس شکر کی بہترین صورت یہ ہے کہ زبان سے شکر ادا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت کا صحیح استعمال بھی کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا غلط استعمال کفرانِ نعمت کہلائے گا۔
نعمتوں کی سب سے بڑی ناشکری قرآن و سنت اور احکامِ الٰہی سے انکار ہے۔ دین ِ اسلام کا انکار کرنے کی صورت میں کسی بھی نعمت ِخداوندی کا شکرسود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اقتدار اور سلطنت سے نوازا ہے تو شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اختیاراتِ اقتدار و سلطنت کااستعمال صحیح کیا جائے، کسی پر ظلم نہ کیا جائے، طاقت کا بے جا استعمال نہ کیا جائے بلکہ مخلوقِ خدا کی بھلائی اور فلاح کے لیے وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَ ھُوَ فِیالْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورہ المائدہ۔5)
ترجمہ:اور جو ایمان (لانے) سے انکار کردے تو اس کا سارا عمل برباد ہو گیا۔اور وہ آخرت میں (بھی) خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ نعمت عطا کرنے والے کا کم از کم یہ حق ہے کہ اس کی نعمت کو معصیت کے راستے میں استعمال نہ کیا جائے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت و طاقت، دولت و ثروت، عدل اور اختیارات کا استعمال درست طریقے سے کیا جائے تاکہ رضائے الٰہی اور اللہ کا شکر بجا لانے کا سبب بنے۔ اللہ کی ان نعمتوں کا اس کے بندوں پر غلط استعمال نہ صرف اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے بلکہ اس کی ناراضگی کا سبب بھی ہے۔ کفرانِ نعمت اور موجب ِزوالِ نعمت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے اللہ ربّ العزت کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔
حاصل تحریر
آج د نیا جن حالات سے دوچار ہے یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور ان نعمتوں کا معصیت کے راستے میں استعمال کرنے کے سبب سے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ تعالیٰ سے دوری اور معرفت ِ حق سے محرومی ہے۔ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقی معرفت حاصل نہیں کریں گے تب تک نہ حق بندگی درست طور پر ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا درست استعمال اور شکر ادا کر سکتے ہیں۔ پس ضرورت اسی امر کی ہے کہ اللہ کی معرفت حاصل کی جائے اسی لیے تمام طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ سلسلہ سروری قادری میں شامل ہوں اور امانت ِ فقر کے حامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہو کر فقر کی نعمت ِ عظیم حاصل کریں اور پھر کائنات کی اس عظیم نعمت کے حاصل ہونے پر ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کریں۔
جاں دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
(مرزا غالبؔ)