شیطانی وسوسہ
مراسلہ: حسن رضا (لاہور)
ایک نیاز مند صوفی کثرت سے ذکر ِالٰہی کرتا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک دن اس پُرخلوص ذکر سے اس کے لب شیریں ہو گئے۔ شیطان نے اسے وسوسے میں مبتلا کر دیا کہ تو بے فائدہ ذکر کی کثرت کر رہا ہے۔ تو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے جبکہ اللہ کی طرف سے تجھے ایک مرتبہ بھی لبیک کی آواز نہیں آئی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی جواب ملتا ہے۔ پھر یک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے کا کیا فائدہ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکرِالٰہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں۔
شیطان کی ان پُرفریب باتوں میں آکر اس صوفی نے ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ اسی حالت میں شکستہ دل اور افسردہ ہو کر سو گیا۔ آنکھ سو گئی اور قسمت جاگ گئی۔ عالمِ خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ذکرِالٰہی سے غفلت کیوں کی؟ اے نیک بخت! تُو نے ذکر ِحق کیوں چھوڑ دیا، آخر تو اس ذکرِپاک سے پشیمان کیوں ہو گیا ہے؟ اس نے کہا کہ بارگاہِ الٰہی سے کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔ اس سے میرے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول نہیں ہو رہا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تمہارے لیے اللہ عزوجل نے پیغام بھیجا ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونا اور تمہارا پہلی مرتبہ اللہ کہنا قبول ہوتا ہے تب ہی تو تجھے دوسری بار اللہ کہنے کی توفیق ملتی ہے۔ تمہارے دل میں یہ جو سوز و گداز ہے اور میری چاہت، محبت اور تڑپ ہے یہی تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی ہے۔ اے بندے! میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف جذب و کشش کا ہی عکس ہیں۔ اے بندے! تیرا خوف اور میری ذات سے تیرا عشق میرا ہی انعام ہے۔ میری ہی مہربانی و محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر بار یااللہ کی پکار میں میرا لبیک شامل ہوتا ہے۔ تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی یہی ہے کہ تمہیں ذکرِحق میں مشغول کر دیا ہے۔
جان جاہل زیں دعا جز دور نیست
زانکہ یاربّ گفتش دستور نیست
ایک جاہل اور غافل ذکر ِحق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔
اللہ عزوجل کے ذکر کا اجر خود اس ذکر میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتا ہے جس سے وہ خوش ہوتا ہے اور یہی اس کی قبولیت کی دلیل ہے۔
درس:
نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے۔
شیطان ہر دَم اسی کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے باز آجائے اس لیے وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔
(حکایاتِ مولانا رومؒ سے انتخاب)