کلید التوحید (کلاں)
Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر18 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
طمع، حرص، حسد، تکبر، خواہشاتِ نفس حجاب کی مانند ہیں اور جو ان کو اختیار نہیں کرتے وہ بے حجاب اللہ کو دیکھتے ہیں اور بغیر کسی اعتراض کے اللہ کے کلام میں محو رہتے ہیں جیسے موتی لڑی میں پرو دئیے گئے ہوں۔ قرآن کا عمل، دعوتِ قبور کا عمل اور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری اور فنا فی اسمِ محمد کا عمل مغفرت کا ذریعہ اور شریعت کا بہترین حصہ ہیں ان کے متعلق کوئی نالائق اور خام بات نہیں کرتا کیونکہ شریعت کا مغز محض باطن ہے اور ظاہری شریعت اس کا چھلکا ہے۔ ظاہری شریعت کیا ہے اور باطنی شریعت کسے کہتے ہیں۔ ظاہری شریعت یہ ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ طَالَ لِسَانُہٗ
ترجمہ: جو اپنے ربّ کو پہچان لیتا ہے پس تحقیق اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔
پس وہ علمِ امر معروف، مسائلِ فقہ اور نص و حدیث کے ذریعے وعظ و نصیحت کرتا ہے۔ شریعت کا باطن یہ ہے جس کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
یعنی وہ ذکرِ خفی کرتا ہے (جس کے متعلق اللہ پاک نے ارشاد فرمایا):
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً (سورۃ الاعراف۔55)
ترجمہ: اپنے ربّ کو عاجزی اور خفیہ طریقے سے پکارو۔
طالب معرفتِ الٰہی، مشاہدۂ نور اور وحدانیتِ الٰہی میں غرق ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔
اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری کی بدولت وہ جس طرف بھی دیکھتا ہے اُسے اسمِ اللہ ذات کی تجلیات ہی دکھائی دیتی ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُسی طرف اللہ کا چہرہ ہے۔
اور طالب کا وجود باطنی طور پر سر سے قدم تک تجلی بن جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (سورۃ الذاریات۔21)
ترجمہ: اور (میں) تمہارے اندر ہوں کیا تم دیکھتے نہیں۔
جو کوئی سب سے پہلے شریعت کے ظاہر کی درست طور پر پیروی کرتا ہے تو شریعت کے ظاہر سے ہی شریعت کا باطن کھلتا ہے۔ شریعت کا باطن شریعت کے ظاہرسے جدا نہیں۔ شریعت کا ظاہر و باطن دونوں عارف باللہ مومن فقیر کے بال و پر یا ان کے دو قدم ہیں۔ جان لو کہ عارفین کو دلیل کے طریقے سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور دلیل کی راہ الہام سے ہوتی ہے اور الہام کا ذریعہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ فِیْ جَسَدِ بَنِیْ اٰدَمَ مُضْغَۃً وَ مُضْغَۃٌ فِیْ فَوَادٍ وَ فَوَادٌ فِیْ قَلْبٍ وَ قَلْبٌ فِیْ رُوْحٍ وَ رُوْحٌ فِیْ سِرٍّ وَ سِرٌّ فِیْ خَفِیٍّ وَ خَفَیٌّ فِیْ اَنَائٍ
ترجمہ: بنی آدم کے وجود میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو کہ فواد میں ہے اور فواد قلب میں ہے اور قلب روح میں ہے، روح سرّ میں ہے اور سرّ خفی میں ہے اور خفی انا میں ہے۔
ان انتہائی مراتب کو ایمان کی قوت کا جوہر کہتے ہیں جو کہ ایمان کے زوال کے خلاف ڈھال ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
جس کا خیر پر خاتمہ ہو اسے مبارکباد۔ جان لو کہ فقیر اسے کہتے ہیں جو ظاہری قوت کے پانچ خزانوں اور باطنی قوت کے پانچ خزانوں کا مالک ہو۔
اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ
ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں۔
دنیاوی بادشاہ بھی فقیر کا محتاج ہوتا ہے۔ اصل فقیر وہی ہوتا ہے جو ان (مذکورہ بالا) صفات کا حامل ہو۔ ظاہری قوت کے پانچ خزانے یہ ہیں اوّل قوت یہ کہ اس کے عمل میں دعوتِ اہلِ قبور ہو۔ صاحبِ دعوتِ اہلِ قبور اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے اس قدر قوت کا حامل ہو تا ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب و حضوری کی بدولت مشرق سے مغرب تک تمام عالم کو اپنے قبضہ و قید میں لے آتا ہے۔ دوم قوتِ ظاہری یہ کہ آیاتِ قرآن، اسمِ اعظم اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے عمل کو ترتیب سے جانتا اور کرتا ہے اور آیاتِ قرآن کے اس عمل کی تاثیر قیامت تک قائم رہتی ہے۔ سوم قوتِ ظاہری یہ ہے کہ اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے کل و جز فرشتے و مؤکلات جس کو بھی وہ بلائے‘ حاضر ہو جاتے ہیں اور جو چیز طلب کی جائے مثلاً علمِ کیمیا اکسیر وغیرہ غیب الغیب سے لے کر اس کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں۔ چہارم قوتِ ظاہری یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے اسماء کی تاثیر سے انبیا و اولیا ہر ایک کی مجلس میں ان کی ارواح سے مصافحہ و ملاقات کرتا ہے اور جو کچھ ان ارواح سے طلب کرتا ہے اُسے مل جاتا ہے۔ پنجم ظاہری قوت یہ کہ اسمِ اللہ ذات کی مشق کے غلبہ سے عرش سے تحت الثریٰ تک ذات و صفات کے ہر ایک طبقات کی سیر کھل جاتی ہے۔ ان ہر ایک ظاہری مراتب کو اطراف الطی کہتے ہیں اور یہ گنج اسمِ اللہ ذات، اسمِ محمد اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تاثیر سے حاصل ہوتے ہیں جو کہ توحید کی کلید ہیں۔ جب یہ کلید دل کے قفل میں لگتی ہے تو ہر مرتبہ و مشکل کو کھول دیتی ہے۔ جو شخص کلیدِکلمہ طیب کو جانتا اور اُسے ترتیب سے پڑھتا ہے تو جتنے بھی ظاہری و باطنی مراتب ہیں ان کی کوئی بھی شے اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ پانچ خزانوں اور پانچ اوقات پر پانچ طرح کا تصرف‘ تصور اور حضوری کے پانچ مراتب سے حاصل ہوتا ہے۔ جو کوئی خلوصِ نیت سے مراقبہ و تصور اسمِ اللہ ذات کرتا ہے وہ جس بھی مرتبہ، مقام اور مجلس میں ہو اور اس کا ہر بیان نفس و شیطان سے فارغ ہو جاتا ہے۔ طالبِ مولیٰ جس مقام پر جانا چاہتا ہے تفکر اور اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر شعلۂ نور کی مثل تیزی سے پہنچ جاتا ہے۔ یہ اہلِ حضور کی راہ ہے جس میں وہ بغیر ریاضت کے اسرار، بغیر چلہ کشی کے مشاہدہ، بغیر محنت کے محبت اور بغیر طلب کے طاعت (کی قوت) حاصل کر لیتے ہیں۔ طاعت کے اس سلوک کو توفیقِ الٰہی حاصل ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (سورۃ البقرہ۔152)
ترجمہ: پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔
اے ناقص و بخیل سن! یہ کاملین کی راہ ہے جو انہیں ربّ جلیل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اللہ کے وھم سے وھم، اللہ کی آگاہی سے آگاہی اور اللہ کی دلیل سے دلیل پاتے ہیں۔ یہ طریق کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اسمِ اللہ ذات کے تصور کی مشق سے تحقیق کیاجا سکتا ہے۔ جو کوئی اس میں شک کرے وہ منافق اور زندیق ہے۔ منافق اور حاسد اس ظاہری و باطنی توفیق کے پانچ خزانوں اور پانچ قوتوں سے بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ وہ ظاہر و باطن میں تصوف اور معرفت سے اندھے ہوتے ہیں۔ اپنے دل کی آنکھیں حاصل کر کیونکہ ظاہری آنکھیں تو حیوانات بھی رکھتے ہیں۔ حیوانات کو عارف شمار نہ کر۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ (سورۃ الاعراف۔179)
ترجمہ: وہ لوگ چوپایوں کی مثل ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ۔
عالم فاضل مومن و مسلمان کا ابتدائی مرتبہ عبودیت ہے اور مرشد کامل عبودیت کے ذریعے معرفتِ الٰہی اور مشاہدۂ ربوبیت کھولتا ہے۔ جو کوئی ابتدا میں علما عامل ہوتا ہے وہ انتہا میں فقیر کامل بن جاتا ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری، معرفت و قربِ حق تعالیٰ اور مندرجہ بالا تمام ادنیٰ و اعلیٰ مراتب آیاتِ قرآن و حدیث اور شریعت کی برکت، اسمِ اللہ ذات کے حاضرات اور کلید کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر کرنے والے کثیر ہیں لیکن مخلص اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں رہنے والے قلیل ہیں۔ مرشد وہ ہوتا ہے جو تمام مراتب اسمِ اللہ ذات کے تصور کی مشق اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حاضرات سے طالبِ صادق پر روزِ اوّل ہی کھول دے جبکہ ان کے لیے سالہا سال درکار ہوتے ہیں۔ ان مراتب کے حصول سے وجود پختہ ہو جاتا ہے اور اگر وہ عطا کرنا چاہے تو باطنی طور پر جامع و پوشیدہ معرفتِ الٰہی بخش دے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
یہ اہلِ توحید کے مراتب ہیں جو اہل ِ تقلید کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
فقیر کامل وہ ہے جو ظاہری و باطنی طور پر صاحبِ گنج، صاحبِ تصور اور صاحبِ تصرف ہو اور ہر قوت کا حامل ہو لیکن پھر بھی مخلوق کو تنگ نہ کرے بلکہ ان کی ملامت برداشت کرے اور ان کا بوجھ اٹھائے۔ بیت:
نفس را رسوا بکن بہر از گدا
بر دری قدمی ببر بہر از خدا
ترجمہ: گدا بن کر نفس کو رسوا کر اور اپنے آپ کو خدا کی خاطر ہر در پر لے جا۔
کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں اس کا اجر ضائع نہیں ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (سورۃ ھود۔115)
ترجمہ: پس بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَوْ لَا الْفُقَرَآئُ ہَلَکَ الْاَغْنِیَآئُ
ترجمہ: اگر فقرا نہ ہوتے تو اغنیا ہلاک ہو جاتے۔
لَوْ لَا الْفُقَرَآئُ بَرَصَ الْاَغْنِیَآئُ
ترجمہ: اگر فقرا نہ ہوتے تو اغنیا برص کے مرض میں مبتلا ہو جاتے۔
اگر فقرا نہ ہوتے تو اہلِ دنیا کے تمام آئینے تباہ ہو چکے ہوتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لِسَانُ الْفُقَرَآئِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ: فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔
ان فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے جو مستقل طور پر شریعت پر عمل پیرا اور ذکرِ حامل میں مستغرق رہتے ہیں اور ذکرِ حامل اسمِ اللہ ذات کی مشق اور فقیرِکامل کی نظر سے حاصل ہوتا ہے۔ ذکرِحامل اسے کہتے ہیں کہ اگر ذاکر ذکر کرنا ترک کر دے تو بھی ذکر جاری رہتا ہے اور بغیر فکر کے وجود میں زیادہ تیزی سے اثر انداز ہوتا ہے اور ذاکر کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے اور پھر کبھی نہیں چھوڑتا۔ ایسا ذکر قلب کی زندگی کا باعث ہے جو کبھی قلب سے سلب نہیں ہوتا اگرچہ وہ لذیذ کھانے کھائے اور بہترین لباس پہنے۔ جان لو کہ وہ ہمیشہ معرفتِ الٰہی کا جام پیتا ہے۔ دائمی ذکر اور کامل فکر سے قاضیٔ حق دو گواہ طلب کرتا ہے اوّل معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ میں استغراق‘ وہ بھی ایسا کہ اگرچہ ظاہر میں مخلوق سے ہم کلام ہو لیکن باطن میں مکمل طور پر استغراق کی حالت میں ہو۔ ذاکر کے ذکر کا دوسرا گواہ یہ ہے کہ وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو۔ جو ان صفات کا حامل نہیں اس کے لیے حبسِ دم اور جنبشِ قلب محض خواہش ِنفس کے باعث ہے اور وہ ذکر اور معرفتِ الٰہی سے بے خبر ہوتا ہے۔ ذکرِخفی قلب کی جنبش، زبان کے بولنے اور آواز سے تعلق نہیں رکھتا۔ ذکرِخفی نورِ معرفتِ الٰہی میں غرق اور اسرارِ الٰہی سے مطلع ہونا ہے کہ ذکر اسمِ اللہ کو کہتے ہیں اور اللہ کے نام کا ذکر ذاکر کو غیر ماسویٰ اللہ سے نجات دلا دیتا ہے جس کی بدولت ذاکر دائمی حضوری میں رحمتِ الٰہی سے مستفید اور منظورِ الٰہی ہوتا ہے۔ ذاکر ذکرِ اللہ کی بدولت اس صفت سے موصوف ہمیشہ اللہ سے واصل رہتا ہے اور جو ذاکر اس صفت سے موصوف نہ ہو وہ ذکر سے انانیت اور خواہشاتِ نفس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی ذاکر کے وجود میں طمع، حرص، حسد، عجب اور تکبر باقی نہیں رہتے۔ کل و جز کے تمام مقام ذاکر کے تصرف میں ہوتے ہیں اور ذاکر ہر عمل کا عامل ہوتا ہے۔ ذاکر فقیر ذکرِ قربانی و سلطانی و ذکرِ حامل کا مالک ہوتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
بیت:
حق دانم حق بینم حق گویم حق
حق در من من در حق، حق مشرب است
ترجمہ: میں حق جانتا، حق دیکھتا اور حق بولتا ہوں۔ میرے اندر حق ہے اور میں حق میں ہوں اور میرا طریقہ بھی حق ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ ج قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ ط اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّایَھِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّھْدٰی ج فَمَا لَکُمْ قف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ (سورۃ یونس۔35)
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں کہ اللہ ہی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ لائق ِ اتباع ہے اور وہ جسے خود بغیر راہنمائی کے راستہ دکھائی نہ دے۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟
جو اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے اسے حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے اور وہ باطل بدعت اور لادینیت سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اور جو ہمیشہ اسمِ اللہ ذات میں غرق رہتا ہو وہ فنا فی اللہ کی حلاوت اور جمعیت کی لذت چکھ لیتا ہے اور اس پر مراتبِ ذات کھل جاتے ہیں اور وہ مکمل طور پر طبقات کی طیر سیر سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ کوہ قاف اور عرش سے تحت الثریٰ تک کے تمام طبقات کا بوجھ اٹھانا آسان کام ہے لیکن اسمِ اللہ ذات کا بارِ گراں اٹھانا نہایت دشوار کام ہے۔ تاہم اولیا اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قوت بخشی ہوتی ہے کہ چودہ طبقات کو نظر سے ہی طے کر لیتے ہیں اور ان کے لیے چودہ طبقات کا نظارہ اسپند کے دانہ کے برابر ہاتھ کی ہتھیلی پر دیکھنا ذرا برابر بھی مشکل نہیں۔ جس وقت وہ اسمِ اللہ ذات کے تصور کے ذریعے فنا فی اللہ کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو اسمِ اللہ ذات کی گرانی کی بدولت ان کی آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے۔ یہ مراتب اِس فقیر کی والدہ کو بھی حاصل تھے۔ بلاشبہ حق تعالیٰ کے شوق کی سوزش کے باعث اُن کی آنکھوں سے خون نکلتا تھا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ (سورۃ الاحزاب۔72)
ترجمہ: بیشک ہم نے اپنی امانت آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی لیکن سب اس کا بارِ گراں اٹھانے سے خوفزدہ ہو گئے لیکن انسان نے اس (بارِ گراں) کو اٹھا لیا بے شک وہ ظالم اور نادان ہے۔
اوّل و آخر چودہ علوم کو اپنے مطالعہ اور قبضہ و تصرف میں لے آنا اور عالم فاضل بنناآسان کام ہے لیکن صاحبِ تقویٰ عالم متقی بننا اور اطاعت کی بدولت پرہیزگار بننا، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور گناہوں سے نجات حاصل کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ ذکرِ خفی کی بدولت زندہ قلب ذاکر ہونا آسان کام ہے لیکن تصور اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے ایک ہی بار میں نفس کو قتل کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ الہامِ حضور مذکور سے معرفتِ الٰہی تک پہنچنا آسان کام ہے لیکن معرفت کے لیے وجود میں وسیع حوصلہ پیدا کرنا مشکل اور دشوار ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہو کر دیدار سے مشرف ہونا اور رحمتِ الٰہی کی بدولت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جان نثار کرنا آسان کام ہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت، ولایت، خلق، تصرف، صفتِ رحیم و کریم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اطوارکو اپنانا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسا قلبِ سلیم حاصل کرنا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح تسلیم و رضا اختیار کرنا، شریعت کی پیروی کا شوق رکھنا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح ترک و توکل اختیار کرنا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فقر کو جامع طور پر پا کر اس پر استقامت اختیار کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ دنیاوی بادشاہ ہونااور مشرق تا مغرب ملک سلیمانیؑ کو ایک قدم اور ایک لمحہ میں دعوتِ اہلِ قبور، کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو اس کی کنہ سے پڑھنے کی قوت اور تصور اسمِ اللہ ذات کی حضوری کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے آنا آسان کام ہے لیکن مخلوقِ خدا پر عدل و احسان کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ مرشد ہونا اور مریدوں کو تعلیم و تلقین کرناآسان کام ہے لیکن طالبوں اور مریدوں کو بے ریاضت معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری تک پہنچانا نہایت دشوار کام ہے۔ فقرا کہتے ہیں:
اَلطَّالِبُ عِنْدَ الْمُرْشِدِ کَالْمَیِّتِ بَیْنَ یَدَیِ الْغَاسِلِ
ترجمہ: طالب کو مرشد کے پاس اس طرح ہونا چاہیے جیسے غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت۔
(جاری ہے)