کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں)  | Kaleed ul Tauheed Kalan 

قسط نمبر22                                                                            مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جان لو کہ دنیا آخرت کی کھیتی تب ہوگی اگر اس میں ہر دم اللہ کی عبادت اور ذکرِ الٰہی کیا جائے نہ کہ سونا و چاندی اور دولتِ دنیا آخرت کی کھیتی ہیں جو فخرِ فرعون، متاعِ شیطان اور بت ہیں۔
وَ عَنْ اَہْلِ الرِّیَاضَۃِ قَالَ الدُّنْیَا مِنْ خَمْرِ الشَّیْطٰنِ مَنْ سَکَرَ مِنْھَا لَا یُفْقِ اَبَدًا اَلْقَانِعُ غَنِیٌّ وَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ مَّعَہٗ حَبَّۃً وَالْحَرِیْصُ فَقِیْرٌ وَ اِنْ مَلَکَ الدُّنْیَا 
ترجمہ: کسی اہلِ ریاضت کا فرمان ہے کہ دنیا شیطانی شراب ہے جو اس میں مست ہوا وہ کبھی ہوش میں نہ آیا۔ قانع آدمی غنی ہوتا ہے اگرچہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو جبکہ حریص محتاج ہوتا ہے خواہ ساری دنیا اس کی ملکیت ہو۔

مصنف کہتا ہے کہ کامل فقیر وہ ہے جو سب سے پہلے تمام متاعِ دنیا کو اپنے ہاتھ میں لے آئے اور پھر اپنا دل اس قدر غنی کرے کہ سب کچھ خرچ کر دے اور پھر بھی اس کے دل میں کوئی افسوس باقی نہ رہے۔ یعنی دنیا کو اپنے پاس لے آئے پھر اس کو ترک کر دے۔ دنیا کا گلہ کرنے والا فقیر دو حکمتوں اور دو حال سے خالی نہیں ہوتا یا وہ طالبِ دنیا فقیر ہوتا ہے اور دنیا اس کے گھر نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ دنیا میں آزردہ رہتا ہے اور اس کی زبان ملامت اور گلہ کرتی ہے یا پھر وہ طالبِ مولیٰ فقیر ہوتا ہے جو دن رات پاکی کے ساتھ اللہ کے قرب میں بندگی میں گزارتا ہے اسے دنیا کی گندگی سے بوُ آتی ہے اور دنیا اُسے پلید، ناپاک، مردار، گندی اور کریہہ نظرآتی ہے اس لیے وہ زبان سے دنیا کا گلہ کرتا ہے۔ بیت:

دنیا ز بہر خدمتی مردان خدا
اہل دنیا طالب شیطان ہوا

ترجمہ: دنیا مردانِ خدا کی خدمت کے لیے ہے لیکن اہلِ دنیا شیطان اور خواہشاتِ نفس کے طالب ہیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَوْ لَا الْفُقَرَآئُ لَھَلَکَ الْاَغْنِیَآئُ 
ترجمہ: اگر فقرا نہ ہوتے تو اغنیا ہلاک ہو چکے ہوتے۔

اہلِ دنیا پر لازم ہے کہ فقیر سے التجا کریں البتہ فقیر کے لیے کسی اہلِ دنیا کے سامنے التجا کرنا گناہ ہے لیکن اللہ کی رضا کے لیے التجا کرنے میں حرج نہیں۔ جو فقیر دن رات اہلِ دنیا کا مصاحب بن کر ان کے ساتھ کھاتا پیتا ہو وہ اہلِ دنیا سے بھی بدتر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا تَاکُلُوْا طَعَامَ الْغَنِیِّ الظَّالِمِ وَ طَعَامَ الْمَلُوْکِ الْمُبْدِعِ فَاِنَّ طَعَامَہٗ لَمَعْجُوْنَۃُ بِدَمِّ الْمَسَاکِیْنِ 
ترجمہ: ظالم غنی اور اہلِ بدعت حکمرانوں کا کھانا مت کھائو کیونکہ ان کا کھانا مساکین کے خون میں ڈوبا ہوتا ہے۔

سب سے پہلے لقمۂ حلال تلاش کرنا چاہیے بعد میں فقر، معرفتِ الٰہی اور وصال کی راہ پر قدم رکھنا چاہیے کیونکہ جب تک نفس کو فقر و فاقہ کی لذت دنیا کے ذائقہ و مزے سے بہتر نہیں لگتی تب تک معرفتِ الٰہی کی راہ اُس پر نہیں کھلتی۔ تاہم فقیر تمام ظاہری و باطنی غیبی خزانوں پر تصرف اور طاقت رکھتا ہے لیکن وہ دنیا میں سے ایک پیسہ بھی اپنے نفس کے لیے جائز نہیں سمجھتا۔ اے ناقص و خام! یہ امام الوقت عارفین کے مراتب ہیں۔ بیت:

تا نیابی ز نفس فانی تو
کے رسی بہ لامکانی تو

ترجمہ: جب تک تو نفس سے فنا نہیں حاصل کر لیتا تب تک تو لامکان میں کیسے پہنچے گا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَیْلَۃُ الْفَاقَۃِ مِعْرَاجُ الْفُقَرَآئِ 
ترجمہ: فقیر کے لیے فاقہ کی رات معراج ہوتی ہے۔

بیت:

چوں معدہ بود خالی از طعام
درآں وقت معراج باشد تمام

ترجمہ: جب معدہ کھانے سے خالی ہوتا ہے تب معراج مکمل ہوتی ہے۔

مصنف قدس سرہٗ فرماتا ہے کہ مرشد کامل اور طالب کامل کا کھانا مجاہدہ اور ان کی نیند مشاہدہ ہوتی ہے جو ایک لمحہ میں تجلیاتِ ذات کے مشاہدات اور ہزاروں مقامات کو علیحدہ علیحدہ دیکھتے ہیں۔ مرشد کامل مکمل ابتدا میں طالبِ کامل کو تصور اسمِ اللہ ذات سے معرفت اور وصالِ الٰہی کے مراتب عطا کرتا ہے درمیان میں ان احوال کا نظارہ عطا کرتا ہے اور انتہا میں لازوال مراتب عطا کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ درج ذیل فرمانِ حق تعالیٰ پر عمل کرے:
وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ (سورۃ ھود۔113)
ترجمہ: اور ظالموں سے میل جول نہ رکھو ورنہ (دوزخ کی) آگ تمہیں آ چھوئے گی۔

یہ مراتب ولایتِ قلب کے حامل فقیر کے ہیں جو مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے  مرتبہ پر ہو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَوْتُ غَنِیْمَۃٌ وَالْمَعْصِیَّۃُ مُصِیْبَۃٌ وَ الْفَقْرُ رَاحَۃٌ وَ الْغَنَآئُ عَقُوْبَۃٌ 
ترجمہ: موت غنیمت ہے، گناہ مصیبت ہے، فقر راحت ہے اور غنایت سزا ہے۔

بیت:

باھوؒ! ما را ز مرگ پیغام خوش تر است
شادی ازاں پیغام کہ وصلش تمام شد

ترجمہ: اے باھوؒ!موت ہمارے لیے خوشی کی خبر ہے کہ یہ کامل وصال کا پیغام دیتی ہے۔

جان لو کہ دل ایک نور کے گھر کی مثل ہے جو ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور اور حضوری میں رہتا ہے۔ دل کے اس نوری گھر میں معرفت کے سات خزانے ہیں اوّل خزانہ ایمان، دوم خزانہ علم، سوم خزانہ تصدیق، چہارم خزانہ توفیق، پنجم خزانہ محبت، ششم خزانہ فقر، ہفتم خزانہ معرفتِ توحیدِ الٰہی۔ اور اس گھر کے گرد اِن سات خزانوں کی حفاظت کے لیے سات قلعے ہوتے ہیں اور ہر قلعے میں نورِ الٰہی کے ستر ہزار لشکر ہیں جو ہر امر پر غالب ہوتے ہیں۔ یہ سات قلعے سات روز میں دل کے گرد تیار ہوتے ہیں جس سے زندگی اور موت میں شیطانی خطرات، نفسانی خواہشات، وسوسہ و وہمات اور حادثاتِ دنیا کے لشکروں سے دنیا و آخرت میں اللہ کی امان مل جاتی ہے۔ یہ اہلِ مشاہدۂ حضور، فقر فنا فی اللہ اور عارف باللہ کے مراتب ہیں۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سات قلعے سات طرح کے تصور سے ایک ہفتہ کی محنت سے تیار ہوتے ہیں اوّل قلعہ تصور اسمِ اللہ ذات سے تیار ہوتا ہے، دوم قلعہ تصور اسمِ لِلّٰہ  سے، سوم قلعہ تصور اسمِ لَہٗ سے، چہارم قلعہ تصور اسمِ  ھُو سے، پنجم قلعہ تصور اسمِ محمد سے، ششم قلعہ تصور اسمِ فقر سے اور ہفتم قلعہ تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے تیار ہوتا ہے۔ ذاکرِ قلبی وہ ہے جو ان سات قلعوں کے اندر موجود ولایتِ قلب تک پہنچ جائے اور وہاں موجود سات خزانوں کو بغیر کسی تکلیف و ریاضت کے اپنے تصرف میں لے آئے۔ ایسے شخص کو صاحبِ ولایتِ قلب کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَآئِ
ترجمہ: ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے۔

پس مقام تین ہیں اوّل مقامِ خوف جو کہ مقامِ نفس ہے۔ جو اس مقام پر پہنچ جاتا ہے وہ گناہوں سے استغفار کرتا ہے اور رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا پکارتا ہے۔ جب وہ مقامِ رجا پر آتا ہے تو طاعت و بندگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے روح حلاوت پاتی ہے کیونکہ رجا روزِ ازل سے مقامِ روح ہے۔ مقامِ نفس اور روح کے درمیان مقامِ قلب ہے۔ جو شخص مقامِ قلب کی طرف متوجہ ہو کر اس میں غرق ہو جائے تو اس کا وجود قلب میں ڈھل جاتا ہے اور  ہفت اندام نور کے سات لباس اوڑھ لیتے ہیں اور خوف و رجا دونوں اس کے مدنظر رہتے ہیں اور وہ اولیا اللہ کے مراتب پر پہنچ جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ج (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اولیا اللہ انہیں کہتے ہیں جو سر سے قدم تک اللہ کی رحمت میں لپٹے ہوئے ہوں۔ ایمان، صدق و تصدیق، یقین اور ذکرِ اللہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  ان چاروں کا مجموعہ ایمان اور رحمت کی بنیاد ہے جو صرف اہلِ ایمان کو نصیب ہے جن کی عاقبت اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے۔ بیت

ہر کہ با ایمان رود صد گنج برد
ہر کہ بے ایمان رود مفلس بمرد

ترجمہ: جو (اس دنیا سے) باایمان گیا وہ اپنے ساتھ سینکڑوں خزانے لے کر گیا اور جو بے ایمان گیا وہ مفلسی کی موت مرا۔

جا ن لو کہ سلک سلوک کیا ہے؟ مجاہدہ اور مشاہدہ کسے کہتے ہیں اور ریاضتِ راز کسے کہتے ہیں۔ قرب، وصال، محبت، طلب، جمعیت، معرفت اور فنا فی اللہ بقا باللہ (کے مراتب) کیا چیز ہیں؟ یہ سب راہِ فقر کا فیض ہیں اور اسی راہ سے نعمت، عظمت، عزت، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا شرف، ہر طرح کا علم اور اٹھارہ ہزار عالم ایک ہی بار میں کھل جاتے ہیں اور طالب تمام مطالب پا لیتا ہے۔ پھر وہ جس وقت چاہتا ہے نورِ وحدانیت میں غرق ہو جاتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے دیدار اور مجلسِ محمدی کی حضوری سے مشرف ہو جاتا ہے اور اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ یہ راہِ نورِ حضور اولیا اللہ یا انبیا یا شہدا کی قبور سے حاصل ہونے والے فیض سے کھلتی ہے۔ طالب جب بھی ہر ایک ارواح سے ملاقات کرتا ہے اسے ظاہر و باطن میں جمعیت حاصل ہوتی ہے۔ تمام مندرجہ بالا مراتبِ معرفت، وحدانیت، غرقِ نور، مجلسِ محمدی کی حضوری اور اہلِ قبور کی ارواح سے ملاقات وغیرہ مرشد کامل تصور اسمِ اللہ ذات، تصور اسمِ  محمدؐ اور تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ، تصور ننانوے اسمائے باری تعالیٰ، اسمِ اعظم کی برکت اور ہر ایک آیت کے تصور، تجلیات اور مشاہدات سے ایک ہی لمحے میں عطا کر دیتا ہے۔

معلوم ہوا کہ کسی کا مرتبہ بھی تمام پیغمبروں کے مرتبہ سے بلند نہیں لیکن وہ سب بھی فقر کے خواہشمند اور محتاج تھے اور اللہ سے فقر ہی طلب کرتے رہے بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو تمام موجودات کا خلاصہ ہیں‘ وہ بھی فقر طلب کرتے رہے۔ وہ مرشد ناقص و ناتمام ہے جو مرتبہ فقر پر نہ پہنچا ہو اگرچہ ریاضت کرتا ہو لیکن فقر اور اس کے اسرار سے بے خبر ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیشہ حالتِ کشف میں ہوتا ہے لیکن فقر کے انکشافات سے بے خبر ہوتا ہے۔ اگرچہ مجاہدہ کرتا ہے لیکن مشاہدئہ فقر سے بے خبر ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ دعوت پڑھتا ہے لیکن فقر کی زندگی سے بے خبر ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ صاحبِ کرامت ہوتا ہے لیکن فقر کے کرم سے بے خبر رہتا ہے۔ مصنف فرماتا ہے کہ مرتبہ فقر حاصل کرنا بہت ہی مشکل اور محال ہے کیونکہ مراتبِ فقر قرب اور وصال سے بہت آگے ہیں۔ یہ غرق فنا فی اللہ ہو کر نور میں ڈھل کر نور ہو جانے کا مرتبہ ہے۔ فقر ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور اور مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری میں ہوتا ہے۔ مراتبِ فقر پر صرف وہی پہنچتا ہے جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود اپنی مجلس کی حضوری میں تعلیم و تلقین فرماتے ہیں اور دستِ بیعت فرما کر ارشاد اور ہدایت سے نوازتے ہیں۔ مرتبہ فقر پر پہنچنا آسان کام نہیں ہے۔ فقر میں معرفت اور اسرارِ پروردگار کے عظیم مشاہدات ہیں۔ مجھے ان احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو مقامِ فضیحت (ذلت و رسوائی) پر ہوتے ہیں لیکن دعویٰ کرتے ہیں فقر کے فیض اور نصیحت کا۔ جان لو کہ فقر کے تین حروف ہیں ف، ق، ر۔ حرف ’ف‘ سے فنائے نفس، حرف ’ق‘ سے قوتِ روح اور حرف ’ر‘ سے رحیم دل حاصل ہوتا ہے۔ یا پھر حرف ’ف‘ سے فخر، حرف ’ق‘ سے قرب اور حرف ’ر‘ سے رحمت حاصل ہوتی ہے۔ جو فقر کے اس عظیم راستے پر چلے لیکن پھر فقر سے منہ موڑ کر ملعون دنیا کے قرب کی طرف رجوع کر لے اس کے لیے حرف ’ف‘ سے فضیحت، حرف ’ق‘ سے قہر ِ خدا اور حرف ’ر‘ سے ردّ ہوتا ہے۔ جان لو کہ فقر پر ثابت قدم وہی رہتا ہے جس کی نظر میں (اللہ کے) غیبی خزانے دنیاوی بادشاہ کے خزانوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ وہ باطن میں صاحبِ معرفت و وِصال ہوتا ہے لیکن ظاہر میں دنیا کے مال و دولت کی خاطر اہلِ دنیا سے عرض اور سوال کرتا ہے۔ یہ اس فقیر کے مراتب ہیں جو بظاہر مفلس جبکہ باطن میں غنی اور مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری میں رہتا ہے۔ 

ابیات:

باھوؒ می شناسد فقر را بایک نظر
چوں بانظر زرگر شناسد سیم و زر

ترجمہ: باھوؒ فقر کو ایک ہی نظر میں یوں پہچان لیتا ہے جیسے سنار سونا و چاندی کو دیکھنے سے جانچ لیتا ہے۔

ایں گدایان کے رسند در فقر راہ
ہم نشستن اہل دنیا سر ہوا

ترجمہ: یہ گدا فقر کی راہ پر کیسے چل سکتے ہیں جو خواہشاتِ نفس کا شکار دنیاداروں کے ساتھ رہتے ہیں۔

البتہ یہ یقین ہے کہ فقیر سچائی کی راہ پر ہوتا ہے اگرچہ راہِ فقیر مخلوق کی نظر میں گناہ ہوتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ سورۃ الکہف میں بیان ہوا ہے جب (خضرؑ نے) کشتی میں سوراخ کر دیا اور ٹوٹی ہوئی دیوار کو دوبارہ تعمیر کر دیا اور بچے کو قتل کر دیا۔ بعض لوگ عوام کی نظر میں اہلِ اللہ اور واصل باللہ ہوتے ہیں جبکہ باطن میں وہ صاحبِ ہوس اور خدا سے جدا ہوتے ہیں۔ بیت:

از سیہ کاران امید توبہ جرم دیگر است
جامہ خود را ہماں بہتر نہ شوید گلخنی

ترجمہ: سیاہ کاروں سے توبہ کی امید رکھنا ایک اور جرم ہے کیونکہ دھوبی اپنا لباس کبھی بھی بہتر طور پر نہیں دھوتا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ الْھَوٰی وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الْمَغْفِرَۃِ 
ترجمہ: وہ شخص احمق ہے جو خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ سے مغفرت کی توقع رکھتا ہے۔

یہ یقین ہے کہ فرض، واجب، سنت اور مستحب کے علاوہ دیگر کثیر علوم حاصل کرنا آدمی پر فرضِ عین نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، گناہوں سے آزادی حاصل کرنا اور حرص، حسد، تکبر اور طمع سے نجات حاصل کرنا فرضِ عین ہے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ بظاہر عالم فاضل ہوتے ہیں اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں لیکن باطن میں فتنۂ نفس و فضیحت میں مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ کی معرفت اور اسرار سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ سب فتنۂ نفس میں مبتلا اور دنیا کے طالب ہوتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (سورۃ البقرہ۔44)
ترجمہ: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔
وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَھُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ (سورۃ الکہف۔35)
ترجمہ: اور وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور (تکبر کرتے ہوئے) اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔

وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔ (سورۃ النازعات۔40-41)
ترجمہ: اور جس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا پس بیشک اس کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔

نفسِ امارہ دنیا سے اس طرح یگانہ ہے جس طرح سانس جان سے اور شیطان ان دونوں کے درمیان اس طرح ہے جیسے دل وجود میں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا مَنَامٌ وَ عَیْشُھَا فِیْہِ اِحْتِلَامٌ 
ترجمہ: دنیا نیند (کی مثل) ہے اور اس میں عیش احتلام (کی مثل) ہے۔
اَلدُّنْیَا یَاکُلُ الْاِیْمَانَ کَمَا تَاکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ 
ترجمہ: دنیا ایمان کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ 

اَلدُّنْیَا ظِلٌ زَائِلٌ   
ترجمہ: دنیا زائل ہونے والا سایہ ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یَابَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔  (سورۃ یس۔60)
ترجمہ: اے بنی آدم! شیطان کی پیروی مت کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
دانا اور آگاہ ہو جاؤ  کہ تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے دل سے تمام گناہوں اور حبِ دنیا کی سیاہی کو نکالا جا سکتا ہے۔ بیت:

بر  زبان   لَاحَوْلَ  بر  دل  لَآ اِلٰہَ 
دل شود پُر نور ذکر از الٰہ

ترجمہ: زبان پر لاحول اور دل میں لَآ اِلٰہَ  کا ذکر ہو تو دل اس ذکرِ معبود سے پرُنور ہو جاتا ہے۔

تصور اسمِ اللہ ذات سے راہِ حضوری کھلتی ہے اور عاقبت پرُحضور ہو جاتی ہے اور نورِ توحید میں غرق فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے جس سے باطن معمور ہو جاتا ہے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو تا ہے اور طالب ناشائستہ اعمال اور غیر سے خلاصی پا لیتا ہے۔ ابیات:

ذات حاصل میشود از ذکر ذات
از صفاتی میبرآید شد نجات

ترجمہ: ذکرِ ذات یعنی اسمِ اللہ ذات سے ہی اللہ کی ذات حاصل ہوتی ہے اور طالب صفاتی مراتب و مقامات سے نکل کر نجات حاصل کر لیتا ہے۔ 

وصف اول را بخوان از گناہ
تا ترا حاصل شود وحدت الٰہ

ترجمہ: اس لیے ان صفاتی مراتب و مقامات کو گناہ خیال کر تاکہ تجھے وحدتِ حق تعالیٰ حاصل ہو جائے۔

 (جاری ہے)

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں