خود احتسابی (Khud Ehtesabi)
تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری
یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہمیشہ وہی پودا مضبوط اور پھلدار درخت بنتاہے جس کی بہترین نگہداشت کی جاتی ہے، اُسے مضرُجڑی بوٹیوں سے اور موسمی حالات کی تباہ کاریوں سے بچایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان بھی معاشرے میں اُسی وقت اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز ہوگا جب وہ اپنے باطن میں نفس، شیطان اور دنیا کی پیدا کردہ مضر و تباہ کن نفسانی بیماریوں یعنی حسد،لالچ، کینہ، بغض اور جھوٹ وغیرہ سے پاک ہو جائے گا۔ ’’انسان‘‘ کی تعریف میرے ہادی آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اِن خوبصورت الفاظ میں فرماتے ہیں:
آدمی سب ہیں مگر انسان خاص ہے۔ انسان وہ ہے جس کے اندر اللہ پاک کی ذات ظاہر ہوجائے۔ (سلطان العاشقین)
اصلاحِ شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنا احتساب خود کرے، اپنے باطن کو مقربِ الٰہی بنانے کے لیے ہر لمحہ اورہر سانس تگ و دو کرے۔ خود احتسابی سے ہی انسانی فطرت مثبت ہوتی ہے، سوچ تفرقاتی نظریہ سے آزاد ہوتی ہے، علم وعمل کے تضادات ختم ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر معرفت و قربِ الٰہی کی راہیں کھلتی ہیں۔ آج مسلمان کی پست حالی، رسوائی اور زوال پذیری کی اصل وجہ خود سے ناآشنائی ہی ہے۔ انسان اپنی اصلاح اور تربیت پر توجہ دینے کی بجائے اپنی تمام تر صلاحیتیں دوسروں پر نکتہ چینی اور عیب جوئی جیسے نفسانی و شیطانی کا موں میں صرف کررہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت )کے لیے کیا بھیجا ہے۔(سورۃ الحشر۔18)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے۔ وہ شخص عاجز(عقل سے محروم)ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔
رہبرِ انسانیت،مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتااور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے۔( سلطان العاشقین)
خواجہ شمس الدّین عظیمی اپنی کتاب ’’تجلیات‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
احتساب ایک ایسا عمل ہے جو تمام فاسد مادوں سے انسان کو پاک کر دیتا ہے۔ قوم میں توانائی اور زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ (تجلیات)
خود اپنی ذات سے نیک و بد اعمال کا حساب لینااور اپنے نفس سے باز پرس کرنااحتساب ہے ۔ دین اسلام میں خود احتسابی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ، اُمتِ محمدیہ پر فرض ہے کہ اس کا ہر فرد خود اپنے اندر غوروفکر کرے، اپنے باطن کو ٹٹولے اور اپنی ایسی عادات جو کہ شرعی طور پر ناپسندیدہ ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر دم مصروفِ عمل رہے۔ جب کوئی بھلائی یا نیکی کرے تو تکبر کرنے کی بجائے عاجزی کے ساتھ اللہ پاک کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے شکر بجا لائے اور جب اپنے اندر نفسانی بیماریوں کو پائے تو توبہ کی روش اختیار کرے۔ کیونکہ ابتدائی نفس کا اخلاق رذیلہ ہوتاہے۔ اسے شرک کی آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے اس کا احتساب کرنا ابدی کامیابی کا ذریعہ ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بے شک اس نے فلاح پائی جو (نفس کی برائیوں سے) پاک ہو گیا۔ (سورۃ الاعلیٰ۔14 )
سیدّناحضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں ’’حساب شروع ہونے سے پہلے خود اپنا احتساب کر لو، تم اپنا وزن کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا وزن کیا جائے اور بڑی پیشی کے لیے تیار رہو۔‘‘
یاد رکھیں! خود احتسابی کرنے والا شخص ہی اپنی شخصیت کو رضائے الٰہی کے مطابق سنوارنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ ایسا شخص ہمہ وقت اپنی ذات کی خامیاں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دور کرنے کی کوشش میں مجاہدات کرتارہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا بڑی خوش بختی اور سعادت کی بات ہے۔ اس طرح خود احتسابی کا عمل گناہوں سے بچنے، توبہ کی توفیق ملنے، قلب کو غیر ماسویٰ اللہ سے پاک کرنے اور قربِ الٰہی کا سبب بنتا ہے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بایزید بسطامیؒ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا ’’مجھے اسمِ اعظم بتا دیں، میں نے سنا ہے جس کے پاس اسمِ اعظم ہوتا ہے مشرق سے مغرب تک اس کا ہی تصرف ہوتا ہے۔‘‘ غور طلب بات ہے کہ وہ اسمِ اعظم کیا ہے؟ آپؒ نے فرمایا: ’’اسمِ اعظم کی کوئی مخصوص حد نہیں،بیشک اپنے قلب کو اللہ کی وحدانیت کے لیے ہر شے سے خالی کردیناہی اسمِ اعظم ہے۔ جب تم یہ کام کر لو گے تو جس اسم کے ورد سے تم چاہومشرق و مغرب کی سیر کرسکتے ہو‘‘۔ یعنی جب اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالی کر لیا جائے تو پھر ہر اسم ہی اسمِ اعظم ہو جاتا ہے۔ (قلبی حیات و ممات)
انسانی قلب اپنے اندر تجلیاتِ انوارِ ذات کومنکشف کرنے کا آلہ بھی ہے اور شیطانی آلائشوں کی آماجگاہ بھی۔ یہ نفسانی و شیطانی آلائشوں کی آماجگاہ اسی وقت بنتاہے جب انسان ذکرِالٰہی اور اطاعتِ الٰہی سے منہ موڑ کر اپنے نفس کی حالت سے لاپروا اور بے فکر ہو جاتا ہے۔ انسان کی یہی لاپرواہی و غفلت ابلیس کا ہتھیارہوتی ہے جسے وہ استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ابتدا میں تو ابلیس ایسے غافل انسان کو حیلہ سازی اور سہل پسندی کی طرف راغب کرتاہے اورجب انسان مکمل طور پر اس کے قابو میں آجاتا ہے تو اسے گمراہی کی روش اختیار کرنے پر آمادہ کرلیتا ہے۔ یوں پھر ایک کے بعددوسری، دوسری کے بعد تیسری اور پھرپے درپے اللہ پاک کی نافرمانیوں کانہ تھمنے والاسلسلہ جاری ہو جاتاہے۔ ابلیس کیسے انسانی قلب کو اپنے حصار میں لیتا ہے اس کے متعلق میرے ہادی رہبر ِ انسانیت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فقر و تصوف پر اپنی نایاب تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
قلب میں دو دروازے ہیں، ایک اوپر ایک نیچے۔ اوپر کا دروازہ جسم سے متصل ہے اور نیچے کا روح سے۔ خناّس (شیطان) ان دو دروازوں کے اردگردمکڑی کا جالاسا بن کر رہتا ہے اور وساوس کو اژدھے کو صورت دِل میں پھونکتا رہتا ہے۔ خنّاس کی صورت اژدھے کی مانند ہوتی ہے، اس کی دم پر زہریلے کانٹے ہوتے ہیں جس سے وہ دِل کو مسموم کرتا رہتا ہے اور دِل میں سیاہی پیدا کرتا ہے۔ (شمس الفقرا)
حضرت ابو سعید الخرازؒ فرماتے ہیں:
آگاہ ہو جاؤ ! دِل کا معاملہ انفرادی طور پر سرّ کی تجدید ہے یعنی اس حال کو بہتر کرنا جو اسے میسر ہے، اور یہ دل کا ہمہ وقت اس کی حفاظت کرتے ہوئے صدقِ دل کے ساتھ وقت اور حال کی طرف توجہ کیے بغیر اس کیفیت کو ملاحظہ کرتے رہنا ہے (تاکہ تجدید کا یہ عمل جاری رہے)۔ (قلبی حیات و ممات)
یعنی قلب کے معاملات میں ہمہ وقت تجدید اور بہتری ضروری ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک وقت یا حال میں بھلائی اختیار کرنے کے بعد یہ سوچ کر قلب کی حالت سے غفلت برتی جائے کہ اب میرا باطن مکمل درست ہو گیا ہے اور مجھے احتساب کی ضرورت نہیں ہے۔ مومن کی تو یہ صفت ہے کہ وہ ہرلمحہ اپنے نفس، سوچ اور عمل کا احتساب کرتا رہتا ہے اور ہر حال میں اللہ پاک کی بارگاہ میں عجز و انکسار سے رجوع کرتا رہتا ہے اور کبھی اس کی رحمت سے مایوس و ناامید نہیں ہوتا۔ خود احتسابی سے حاصل ہونے والے ثمرات میں سب سے اہم ثمر یہ ہے کہ انسان کو اپنے نفس کی پہچان نصیب ہوجاتی ہے۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(جس نے اپنے) نفس کو خواہشاتِ نفس کی پیروی سے روکا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔ (سورۃ النازعات۔ 41,42)
حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا’’روزِ قیامت حساب صرف اس شخص کے لیے سہل ہو گا جس نے دنیا میں اپنے نفس کا احتساب کیا ہو گا۔‘‘ (سنن ترمذی)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
ربّ اور بندے کے درمیان نفس حجاب ہے۔
جو انسان نفس کے نت نئے فتنوں کو قابو میں لاتا ہے وہی ’’وصالِ الٰہی‘‘ کی منزل تک پہنچتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
مولانا جلال الدّین رومیؒ فرماتے ہیں:
یاد رکھو! اپنے نفس کی حقیقت کا علم انسان کو خدا کی معرفت تک پہنچاتا ہے۔
اصلاحِ باطن کی بنیاد سوچ، نفس اور عمل تینوں کا درجہ بدرجہ احتساب ہے اور ان عناصر کا احتساب ہی فردِ واحد کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ سوچ نفس کو اُبھارتی ہے اور نفس،عمل کا مرتکب ہوتاہے۔ سوچ ہی وہ معلم ہے جو نفس کو ہر طرح کے عمل کی ترغیب دیتی ہے۔ چونکہ ابتدا سوچ سے ہوتی ہے اس لیے اس کا احتساب اوّلین فرض ہے ۔ میرے ہادی شانِ فقر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔ (سلطان العاشقین)
موجودہ دور میں خود احتسابی کی طرف توجہ نہ ہونے کی اصل وجہ دینِ حنیف کی ظاہری صورت کوقبول کرلینا اور باطن کو فراموش کردینا ہے۔ انسان کی اصل بدنصیبی بھی یہی ہے کہ وہ اپنی ذات میں غوروفکر نہیں کرتاجیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ہم تو شہ رگ سے بھی قریب ہیں لیکن تم غور نہیں کرتے ۔(سورۃ قٓ۔16)
مسلمانوں کی بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کی کامیابی کا معیار صرف قرآن و حدیث کا ظاہری علم حاصل کرنا اور جنت و حوروں کے حصول کو سمجھ لیا ہے۔ ان امور کے حصول کے لیے وہ علمائے ظاہر کی طرف رجوع کر لیتے ہیں جو خود بھی حقیقت کی کنہہ سے بے خبر ہیں۔اپنے باطن کی درستی،روح کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی کو سمجھنے اور پانے کے لیے کسی مردِ مومن، مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ ہی اپنے باطن کو سنوارنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیں ! ظاہری عبادات سے ثواب تو ملتا ہے لیکن عرفانِ نفس، مجلسِ محمدیؐ کی حضوری اور قرب و دیدارِ حق تعالیٰ کی نعمت مرشد کامل اکمل کی صحبت و دیدار کے بغیر ہرگزحاصل نہیں ہو سکتی۔ علمائے ظاہرکا مسئلہ یہ ہے کہ محبوبینِ الٰہی اور فقرائے کاملین کی صحبت سے مستفید ہو کرنہ توخود اپنا تزکیۂ نفس کروانا ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس لیے قرآن و حدیث و فقہ کے حافظ ہونے اور گھنٹوں تقاریر کرنے کے باوجودنہ تو اپنے پیروکاروں کے باطن کو صاف کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں قلبی و روحانی سکون عطا کر سکتے ہیں، اُلٹا ان کو باطنی طور پر اندھا کرکے جنت اور حور و قصور کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔اور اللہ کی رضا کیا ہے ؟ انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ اس فکر تک آنے ہی نہیں دیتے ۔اس کے برعکس فقرائے کاملین متوکل الی اللہ ہوتے ہیں، وہ دین کے ظاہر و باطن کی کنہہ سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنے مریدین کی بھی اسی طرز پر تربیت فرماتے ہیں۔
مرشد کامل اکمل اپنے مریدین کو اللہ پر توکل کرنا، اللہ سے محبت کرنا، ہر عمل صرف اُسی ذاتِ اقدس کی رضا کے لیے سنتِ رسول کریمؐ کے مطابق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور اپنے مرید کو باطن کے اندھیروں سے نکال کر اس کی سوچ کو نئی جدّت عطا کرتا ہے۔ اس لیے مرشد کامل اکمل اور علمائے ظاہر کے پیروکاروں میں بھی فرق ہوتا ہے کہ مرشدکامل اکمل کا مرید ہر لمحہ خود احتسابی میں مبتلا رہتا ہے اور اپنی زندگی کو ایک لمحہ بھی احکامِ الٰہی کی اطاعت کے بغیر گزارنا محال سمجھتا ہے اور اس کے ظاہر وباطن میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
علمائے ظاہر کے پیروکاراپنے قلب کی نگہبانی میں تسلسل نہیں رکھ پاتے۔ وہ فرض عبادات کی ادائیگی کے دوران تو قلبی یکسوئی اور عاجزی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ حالت وقتی ہوتی ہے اور دنیاوی معاملات کی ادائیگی میں نفسانی بیماریوں کی آلودگی کی وجہ سے دوبارہ حصولِ دنیا کے لیے احکاماتِ الٰہی کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی پر اعتراض کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ انسان کی توجہ اپنے باطن کی طرف مبذول کروانا اور باطنی اصلاح کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ کیونکہ باطن (روح) ہی حقیقت ہے، اسی نے سزا و جزا پانی ہے، اسی نے دیدارو قربِ الٰہی سے مشرف ہونا ہے اور جب تک اس کی درست جگہ سے اصلاح نہ ہوگی تو یہ انوارِ حق کی تجلیات کو کیسے اپنے اندر جذب کرے گا! ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
جو اس(دنیا) میں (حق) سے اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہِ(نجات)سے بھٹکا رہے گا۔(سورۃ بنی اسرائیل۔72)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفسانی اور مادہ پرست دور میں درست سمت میں خود احتسابی یا احتسابِ نفس کیسے ممکن ہے؟
یاد رکھیں!درست خود احتسابی یہ نہیں کہ مسلمان اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتوں کو اپنا ظاہر سنوارنے میں صرف کر دے اور باطن کے معاملے میں غافل رہے۔ اصل میں تو وہی قربِ الٰہی پاتا ہے جس کا باطن مرشد کامل اکمل کی صحبت میں تمام تر آلائشِ نفسانی و مادی (حبّ دنیا و مال، حسد، کینہ، بغض، تکبر اور لالچ وغیرہ ) سے منزّہ و مبرّہ ہو گیا ہو اور وہ ذاتِ واحد کی جانب رجوع کرے۔ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ آخرت میں انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ دنیا میں جدوجہد کرتا ہے۔ جو اخلاصِ نیت سے حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر حق تعالیٰ خود ہی اس کا نگہبان ہوتا ہے اور وہ اسے ضروربالضرور اپنے مقرب و محبوبین مرشدانِ کاملین کی بارگاہ تک پہنچا دیتا ہے یہی اُمت کے ناخدا ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ (سورۃ المائدہ۔35)
رسول کریمؐ نے فرمایا:
اہلِ تصوف کی دعا کے متمنّی رہو ، بے شک اللہ کی ان پر نظر ہوتی ہے اور وہ ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔
مزید فرمایا:
جو چاہتا ہے کہ اللہ کا ہم مجلس ہو تو اسے چاہیے کہ اہلِ تصوف کی مجلس اختیار کرے۔ (محکم الفقرا)
دورِ حاضرکے صاحبِ مسمیّ مرشد کامل اکمل، شہنشاہِ فقر، مجددِدین، آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ پرُ انوار ہے۔آپ مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے سلسلہ سروری قادری، جو کہ مختلف مشائخ کرام سے ہوتا ہوا سلسلہ در سلسلہ سیدّنا غوث الاعظمؓ تک اور پھر متعدد پاکیزہ نفوس سے ہوتا ہوا بابِ فقر امام المتقین سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور پھر آقائے دوجہاں، رحمتِ خدا، نورِھوُ جناب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملتا ہے، کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سنتِ رسولؐ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بحکمِ اللہ و رسولؐ مخلوقِ خدا کی ظاہری و باطنی تربیت آقاپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال و اطوار کے مطابق فرماتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے ایمان والو!تم کثرت سے اسمِ اللہ کا ذکر کیا کرو۔(سورۃ الاحزاب۔41 )
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
ہر چیز کے لیے صیقل(صفائی کرنے والی چیز) ہے اور دِل کی صیقل اسمِ اللہ ذات کا ذکر ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس روئے زمین پر وہ واحد ہستی ہیں جو احتسابِ نفس اور اصلاحِ باطن کے لیے اپنے مریدین کو بیعت کے پہلے روز ہی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا فرما کر قربِ الٰہی کی راہ پر گامزن فرما دیتے ہیں۔ اس مادہ پرستی کے دور میں، جہاں انسانی جدوجہد صرف حصولِ ظاہر تک محدود ہے، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل کے فیض اور ذکر وتصور اسم اللہ ذات کی برکت سے ہزاروں متلاشیانِ حق کے قلوب کو نہ صرف عشقِ حقیقی سے مالا مال فرمارہے ہیں بلکہ ان کا تزکیہ نفس کرنے کے بعدانہیں مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری اور دیدارِ الٰہی کے روحانی مراتب تک پہنچارہے ہیں۔مردہ قلوب کو حیاتِ نوبخشنااور ان کا تعلق اللہ پاک سے استوار کرناسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی شانِ فقر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عوام الناس کو دعوتِ خاص ہے کہ وہ دنیوی و اُخروی کامیابی اور نورِ بصیرت کے حصول کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے درست خود احتسابی کی روش اختیار کریں۔
استفادہ کتب:
سلطان العاشقین ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
محکم الفقرا تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
قلبی حیات و ممات تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک :
The Path of Self-Accountability | Khud Ehtsabi خود احتسابی| Personal Transformation | سوچ کا احتساب
نوٹ: اس مضمون کو English میں پڑھنے کے لیے وزٹ فرمائیں۔
جو چاہتا ہے کہ اللہ کا ہم مجلس ہو تو اسے چاہیے کہ اہلِ تصوف کی مجلس اختیار کرے۔ (محکم الفقرا)
Very beautiful ❤️ and informative article
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے۔ وہ شخص عاجز(عقل سے محروم)ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔
Interesting
آدمی سب ہیں مگر انسان خاص ہے۔ انسان وہ ہے جس کے اندر اللہ پاک کی ذات ظاہر ہوجائے۔ (سلطان العاشقین)
دین اسلام میں خود احتسابی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے
’انسان‘‘ کی تعریف میرے ہادی آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اِن خوبصورت الفاظ میں فرماتے ہیں:
آدمی سب ہیں مگر انسان خاص ہے۔ انسان وہ ہے جس کے اندر اللہ پاک کی ذات ظاہر ہوجائے۔ (سلطان العاشقین)
خود احتسابی بہت ضروری ہے
دین اسلام میں خود احتسابی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے
اصلاحِ شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنا احتساب خود کرے، اپنے باطن کو مقربِ الٰہی بنانے کے لیے ہر لمحہ اورہر سانس تگ و دو کرے۔
رہبرِ انسانیت،مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتااور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے
Great
عوام الناس کو دعوتِ خاص ہے کہ وہ دنیوی و اُخروی کامیابی اور نورِ بصیرت کے حصول کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے درست خود احتسابی کی روش اختیار کریں۔
رہبرِ انسانیت،مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتااور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے۔
عوام الناس کو دعوتِ خاص ہے کہ وہ دنیوی و اُخروی کامیابی اور نورِ بصیرت کے حصول کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے درست خود احتسابی کی روش اختیار کریں۔
بہترین مضمون ہے
Behtareen ❤️
Amazing
مدظلہ الاقدس اِن خوبصورت الفاظ میں فرماتے ہیں:
آدمی سب ہیں مگر انسان خاص ہے۔ انسان وہ ہے جس کے اندر اللہ پاک کی ذات ظاہر ہوجائے۔ (سلطان العاشقین)
رہبرِ انسانیت،مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتااور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے۔( سلطان العاشقین)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
ربّ اور بندے کے درمیان نفس حجاب ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا’’روزِ قیامت حساب صرف اس شخص کے لیے سہل ہو گا جس نے دنیا میں اپنے نفس کا احتساب کیا ہو گا۔‘‘ (سنن ترمذی)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(جس نے اپنے) نفس کو خواہشاتِ نفس کی پیروی سے روکا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔ (سورۃ النازعات۔ 41,42)
Interesting article
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے۔ وہ شخص عاجز(عقل سے محروم)ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔