عاجزی و انکساری–Aajzi o Inkisari

Spread the love

2.8/5 - (6 votes)

عاجزی و انکساری

تحریر:ارم عامر سروری قادری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

* اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانْ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِمْشَاجٍ (الدھر۔2)

ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطقے سے پیدا فرمایا۔
انسان جس کی تخلیق ایک نطفے سے کی گئی اور جسے آخر کار اس دنیا سے جانا ہے اور اس کے اختیار اور بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اپنی بھوک پیاس، نیند، خوشی، غم، یاداشت، بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں اس لئے اسے چاہیے کہ اپنی اصلی حیثیت او ر اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے خواہ اس دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام و مرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے، خالقِ کون و مکان اللہ عزّوجل کے سامنے اسکی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ صاحبِ عقل انسان تواضع اور عاجزی کاطور طریقہ اختیار کرتا ہے۔اور یہی طور طریقہ اسکو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فرعونیت ،قارونیت اور نمرودیت والی راہ اپنائی بسا اوقات اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں ایسا ذلیل و خوار کیا ہے کہ اس کا نام بطور تعریف نہیں بطور مذمت لیا جاتا ہے۔ لہٰذا عقل و فہم کا تقاضا یہ ہے کہ اس دنیا میں اونچی پرواز کے لیے انسان جیتے جی پیوندِ زمین ہو جائے اور عاجزی و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے اور پھر دیکھئے کہ اللہ ربّ العزت اس کو کس طرح عزت و عظمت سے نوازتا ہے اور اُسے دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اس کے فضل وکرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے عاجزی اختیار کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے سرفرازی سے نہ نوازا ہو۔‘‘ نیز فرمایا ’’کوئی بھی ایسا شخص نہیں جسے دو فرشتوں نے لگام سے تھام نہ رکھا ہو جب وہ عاجزی کرتا ہے تو فرشتے عرض گزار ہوتے ہیں الٰہی اس نے تواضع اورانکساری کو اپنا لیا ہے اسے سربلندی مرحمت فرما تو اس کی لگام کو اوپر کی طرف اٹھا لیا جاتا ہے یعنی اسے سربلندی عطا کی جاتی ہے اور اگر وہ تکبر و غرور سے کام لیتا ہے تو اسے سرنگوں اور ذلیل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
خوش بخت ہے وہ انسان‘ جو عاجزی کرتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جاہ و مال کی دولت سے نواز رکھا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال ودولت سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے جو اس نے حلال کمایا ہوتا ہے اور حرام اور گناہ سے کنارہ کش رہتا ہے۔بے سہاروں پر ترس کھاتا ہے، علما کرام اور صاحبانِ علم و دانش سے روابط رکھتا ہے۔

عاجزی اور انکساری کیا ہے؟
دل سے اپنے آپ کو کمتر و حقیر سمجھنا اور قول و فعل سے ان کا اظہار کرنا تواضع اور انکساری ہے جو ایک محمود صفت ہے۔ تواضع و ضع سے ماخوذ ہے جس کے معنی عاجز ہونا، خاکسار ہونا وغیرہ کے ہیں۔ عاجزی یہ ہے کہ ہر ممکن طور پر اپنی فضیلت و برتری کو چھپایا جائے، افضل ہو کر خود کو معمولی ظاہر کیا جائے، اعلیٰ ہو کر خود کو ادنیٰ ظاہر کیا جائے، عالم ہو کر خود کو طالبِ علم بنایا جائے، نیک و پار سا اور متقی و پرہیزگار ہو کر خود کو گنہگار ظاہر کیا جائے، فرمانبردار ہو کر بھی خود کو سیاہ کار بتایا جائے اور اپنی چال ڈھال میں عاجزی پیدا کی جائے۔
عاجزی یہ ہے کہ انسان دوسروں کے اندر کوئی ایک برائی دیکھے تو اسے اپنی دس یاد آجائیں۔ (الغزالی)
دنیا و آخرت میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو تکبر کے تاج کو پھینک کر عاجزی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور وہ اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں ۔
اللہ کی قربت کا بہترین راستہ عاجزی ہے۔ ایک میٹھا بول خیرات سے بہتر ہے۔ درخت اپنے پھل سے اور انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جانا ہے۔ خدا کے سامنے عاجزی و انکساری کی علامت یہ ہے کہ انسان اسکے فرامین تسلیم کرے، اسکی اطاعت بجا لائے اور اسکی عظمت کے سامنے انتہائی خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔ اس پر یہ کیفیت اس حد تک طاری ہو کہ اسے جو کچھ حاصل ہے اس سب کو خدا کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اس کی مخلوقات میں سے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے اور اسکا شکر گزار رہے اورخدا کی مرضی کے سامنے اپنی کسی بھی طرح کی مرضی چلانے سے پرہیز کرے۔خدا کے سامنے عاجزی و انکساری ایمان و معرفت کی کنجی اور درگاہِ حق و قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اسکے برعکس اللہ کے سامنے تکبر اور گھمنڈ اس سے سرکشی اور بغاوت کا موجب اور ہر قسم کی بدبختی اور گمراہی کا سبب ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تُزکُّّوْٓا اَنْفُسَکُمْط ھُوَ اعلَمُ بِمَنِ اتَّقَی۔( النجم۔ 32)
ترجمہ: بس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مت بتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل ) پرہیز گار کون ہے۔
* اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (الاعراف۔ 55)
ترجمہ: اپنے پروردگار کو عاجزی سے اور چپکے سے پکارا کرو بے شک! وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
* وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِےْنَ ےَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ (الفرقان ۔ 63:25 )
ترجمہ: ’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پرآہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام باعثِ تخلیقِ کائنات اور کائنات کے مالک اور مختارِ کُل ہیں اور لِیْ مَعَ اللّٰہِ ( ایک حدیث مبارکہ ہے لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا ےَسْعُنِیْ فِیْہٖ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌ مُّرْسَلٌ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایسا وقت بھی جس میں مجھے نہ کوئی مقرب فرشتہ اور نہ نبی مرسل پہنچ سکتا ہے۔) کا مقام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حاصل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
* بندہ معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
* جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نوازا، عاجزی کی نعمت عطا کی، صورت و سیرت کو عمدہ بنایا، ظاہر اً بھی اچھا رکھا تو وہ بے ننگ و نام نہیں رہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے خاص بندوں میں داخل فرمائے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
* اگر کوئی شخص پیدائش کے دن سے لے کر بڑھا پے میں مرنے تک اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے سجدہ کی حالت میں پڑا رہے تو قیامت کے دن وہ اپنے اس عمل کو بھی حقیر سمجھے گا۔(معجم الکبیر الطبرانی 303 ، وحسنہ الالبانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو باری تعالیٰ نے جلیل المنصب بنایا سیّد المرسلین، خاتم النبیین اور رحمتہ اللعالمین بنایا مگر ان سارے رفیع المرتبت اعزازات کے باوجود آپ زندگی کے جملہ معاملات میں متواضع اور منکسر المزاج رہے ،تکبر اور غرور کا دور تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی تعلق و ناتا نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ متواضع تھے یہی وجہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ آپ نبی بادشاہ ہونا پسند کرتے ہیں یا نبی بندہ ہونا ،تو آپ نے نبی بندہ ہونا پسند کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اسی تواضع وانکساری کی بنا پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولادِ آدم کی سرداری آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا فرمائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی قیامت کے دن وہ پہلے شخص ہونگے جو اللہ تعالیٰ کے حضور لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں عاجزی اور انکساری اس قدر زیادہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے سب کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں:
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عصا مبارک کا سہار الیے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا عجمیوں کی طرح نہ کھڑے ہوا کرو اس لیے کہ وہ یونہی ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ بیا ن کی میں تو ایک بندہ ہوں میں اسی طرح کھاتا ہوں جیسے تو عام آدمی کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جیسے کوئی عام آدمی بیٹھتا ہے۔ ( سنن ابی داؤد،5 / 398 )(سنن ابنِ ماجہ،1661/2 )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اپنی ذات کے لئے کھڑے ہونے کے عمل سے اپنی صفت تواضع اور خُلقِ عاجزی و انکساری کی بنا پر منع کر دیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اسی عمل کو دوسرے افراد کے لیے اختیار کرنے کا حکم دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک قبیلے کاسردار آتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مجلس میں موجود تمام صحابہؓ کو حکم دیتے کہ سب کھڑے ہوکر اپنے سردار کا استقبال اور احترام بجا لاؤ۔
ارشادِ نبوی ہے:
بزرگی پرہیز گاری کا نام ہے اور عزت انکساری کا اور یقین بے نیازی کا نام ہے۔
چار چیزیں اللہ تعالیٰ صرف اسکو دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے۔
1 ۔ خاموشی‘ یہ عبادت کی ابتدا ہے۔
2 ۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ
3 ۔ انکساری
4 ۔ دنیا سے بے رغبتی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اگر جھک جانے یعنی (عاجزی اختیار کرنے سے) تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا۔ (مسلم حدیث۔ 784)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے ’’کرم‘ تقویٰ میں اور شرف وبزرگی عاجزی میں اور تو نگری یقینِ کامل میں ہے۔‘‘
اُم المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :
* لوگ عبادات میں سے افضل ترین عبادت کا تو خیال ہی نہیں رکھتے جسے عاجزی یا تواضع کہا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابنِ مبارک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* عاجزی اورانکساری کا تقاضا یہ ہے کہ جسے تم اپنے سے حقیر تر سمجھتے ہو تو اپنے آپ کو اس سے بھی کم تر سمجھو تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ تمہیں دنیوی مراتب کی پرواہ تک نہیں اور جو مرتبے میں تم سے بڑھ کر ہو توتم اس سے بھی اپنے آپ کو بالا تر سمجھوتاکہ اسے پتہ چلے کہ دنیوی جاہ و حشمت کی تمہاری نگاہوں میں کوئی قدروقیمت نہیں۔
جس نے ربّ کے سامنے جھکنا سیکھ لیا وہی علم والا ہے کیونکہ علم کی پہچان عاجزی ہے اور جاہل کی پہچان تکبر ہے۔
عاجزی اور انکساری راہِ فقر میں طالبِ مولیٰ کا ہتھیار ہے اس کے مقابلے میں شیطان کا ہتھیار تکبر اور فخر وغرور ہے جس سے وہ طالبِ مولیٰ کو گمراہ کرتا ہے۔
مولا نا رومؒ فرماتے ہیں ’’ اس راہ میں نیچے جھکنا ترقی کرنا ہے۔‘‘ (مثنوی)
’’ خود کو بُرا کہہ کر دوسرے کو ڈنگ مت مار۔‘‘(مثنوی)
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں:
* گمراہ اور فاسق لوگوں میں بیٹھو گے تو گناہوں پر دلیر ہو جاؤ گے، بچوں میں بیٹھو گے تو غیر سنجیدگی سیکھو گے، بادشاہوں، امرا اور سرداروں میں بیٹھو گے تو تکبر سیکھو گے تم فقرا میں بیٹھا کرو عاجزی سیکھو گے۔ (حضرت مجدد الف ثانیؒ )
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:
* اگر مردِ خدا کو ایک روٹی ملے تو وہ آدمی فقیر کو دے ڈالتا ہے اگر حریص کو ایک ملک کی بادشاہت بھی مل جائے تو وہ دوسرا پانے کے خیال میں رہتا ہے۔ (شیخ سعدیؒ )
عاجزی اور انکساری راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات و خطرات میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے۔ ہر ولی نے عاجز اور حلیم بننے کی تعلیم دی ہے۔ بلکہ خود کو حقیر اور کم تر بنا کر پیش بھی کیا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر کہ آمد در انا در نار شد
خاکی آدم لائق دیدار شد
ترجمہ:جو(شیطان) خود پرستی انا اور تکبر میں گرفتار ہو ا وہ نارِجہنم کا شکار ہوگیا لیکن آدمِ خاکی(جو انا سے محفوظ رہا گناہ کرنے کے بعد عاجزی سے معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک گیا) سزا وارِ دیدار ہوگیا۔
سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں کہ وصالِ الٰہی عاجزی و انکساری سے حاصل ہوتا ہے۔ الٰہی! تیرا راز ہرصاحبِ راز (مرشد کامل) کے سینے میں جلوہ گر ہے، تیری رحمت کا دروازہ ہر ایک لیے کھلا ہے جو تیری بارگاہ میں ’’عاجزی‘‘ سے آتا ہے وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ اے طالب! خود پرستی چھوڑ کر (عاجزی وانکساری اختیار کر)غرقِ نور ہو جاتا کہ تجھے ایسی حضوری نصیب ہو کہ وصل کی حاجت ہی نہ رہے۔ (کلید التوحید کلاں)
سو ہزار تنہاں توں صدقے، جیہڑے منہ نہ بولن پھکا ھُو
لکھ ہزار تنہاں توں صدقے، جیہڑے گل کریندے ہکا ھُو
لکھ کروڑ تنہاں توں صدقے، جیہڑے نفس رکھیندے جھکا ھُو
نیل پدم تنہاں صدقے، جیہڑے ہووَن سونا سداوں سکا ھُو
اس بیت میں آپؒ فرماتے ہیں :
میں ہزار باران طالبوں کے صدقے جاؤں جو راہِ فقر میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر اور شکر کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں اور لاکھوں بار ان کے قربان جاؤں جو وعدے کے پکے ہیں اور جو بات ایک بار کہہ دیتے ہیں اس پر ثابت قدم رہتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں بار ان لوگوں پرواری اور صدقے جاؤں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں اور اربوں بار ان کے قربان جاؤں جو سونے کی طرح ہوتے ہیں اور ہر وقت دیدارِ حق تعالیٰ میں غرق رہتے ہیں لیکن عاجزی و انکساری کی وجہ سے عوام میں سکہ یعنی معمولی آدمی کی طرح رہتے ہیں اور اپنی بڑائی ظاہر نہیں کرتے ۔
آپؒ اپنے مرتبے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میں کوجھی میرا دلبر سوہنا، میں کیونکر اس نوں بھانواں ھُو
ویہڑے اساڈے وڑدا ناہیں، پئی لکھ وسیلے پانواں ھُو
نہ میں سوہنی نہ دولت پلے، میں کیونکہ یار منانواں ھُو
ایہہ دکھ ہمیشاں رہسی باھُوؒ ، روندی نہ مر جانواں ھُو
مفہوم:میں تو سیاہ کار، گناہگار ہوں اور نہ ہی میرے پاس ایمان، اعمال، اخلاص اور عشق کی دولت ہے میرے دل کے اندر تو خواہشاتِ نفس و دنیا کا بسیرا ہے انہی وجوہات کی بنا پر میرا مرشد جو کہ کامل اکمل اورحسین ہے‘ میری طرف نگاہ نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے اپنی عادات کو ترک نہ کیا اور مرشد کی رضا اور منشا کے مطابق اپنی زندگی کو نہ بدلا تو نامراد ہی رہوں گا۔
آپؒ فرماتے ہیں:
* میں ایک صاحبِ وصال غرق فنا فی اللہ عارف ہوں میں نے یہ لازوال مرتبہ اپنی ہستی کو مٹا کر حاصل کیا ہے۔(کلید التوحید کلاں)
* جب میرا وجود نام وناموس کے احساس سے پاک ہوگیا تو اسمِ اللہ ذات نے لے جا کر مجھے وحدتِ الٰہی میں غرق کر دیا۔ (کلید التوحید کلاں)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اپنی طرف عاجزی وانکساری کے ذریعہ راستہ کھولا۔ عاجزی و انکساری راہِ فقر میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی وانکساری سے آنے والا کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔
* اللہ کی بارگاہ میں جو جتنا عجز اختیار کرتا ہے وہ اتنا ہی محبوب ہوتا ہے۔
دیدارِ الٰہی، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مراتب عاجزی و انکساری سے حاصل ہوتے ہیں۔
* عاجزی و انکساری اسمِ اللہ ذات کے تصور سے حاصل ہوتی ہے ظاہری عبادات سے نفس موٹا ہو کر تکبر، انانیت اور ریاکاری اختیار کرتا ہے۔(سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ۔ حیات و تعلیمات)
شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
* ’’ اہلِ اللہ عجز سے معرفت حاصل کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہ پاک ہے جس نے اپنی معرفت کا راستہ سوائے عجز کے اورکوئی نہیں ٹھہرایا ‘‘۔ (فتوحاتِ مکیہ جلد دوم باب ہفتم)
فقراکا ملین کو زبان مبارک ’’کُن‘‘ کی زبان ہوتی ہے اور یہ زبان لوحِ محفوظ پر تحریر شدہ ازلی نوشتہ تقدیر کو بھی بد ل سکتی ہے۔ عملی زندگی میں یہ لوگ کس قدر حلیم ہوتے ہیں کہ خود کو دنیا کے عام انسان کی سطح سے بھی نیچے لے آتے ہیں ۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ بھی اس ترغیب سے حلیم بن جائیں اور عاجزی انکساری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنا لیں۔
بقول شاعر:
مٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی میں عاجز و انکساری پیدا کریں آپ دیکھیں گے کہ ایک زمانہ آپ کے لیے جھک جائے گا۔ اپنی ذات میں لچک پیدا کریں تکبر کسی طور پر ہم سب کو زیب نہیں دیتا۔ انسانیت کی معراج عاجزی ہے۔
دعا ہے کہ اے ربّ کریم تو ہمیں تکبر جیسے موذی مرض سے بچا کر عجزوانکساری کی دولت سے بہرہ مند فرما۔ آمین


Spread the love

عاجزی و انکساری–Aajzi o Inkisari” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں