بیعت کی اہمیت و ضرورت
تحریر: مسز انیلا ےٰسین سروری قادری۔ لاہور
بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ مرشدِ کامل کے ہاتھ پر بیعت کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیعت نہ صرف سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے بلکہ فرض بھی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہے یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہنچائیں جن کے متعلق اللہ چاہتا تھا کہ اُمت لازماً ان کی پیروی کرے، ان پر اعتراضات نہ کرے اور ان سنتوں کو حکمِ الٰہی کی تائید سمجھ کر ان کی پیروی کرے۔
قرآن و سنت میں بیعت کا ثبوت
بیعت لفظ ’’بیع‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’لین دین‘‘ کے ہیں جب دو افراد ایک دوسرے سے لین دین کے معاملات طے کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ایک فرد ایک چیز دے گا مثلاً مال روپیہ وغیرہ تو دوسرا اس کے بدلے میں کوئی سامان یا مال دینے والے کی ضرورت کی کوئی شے وغیرہ دے گا جس کا وہ طلبگار ہے اور جس کو لینے کے لیے وہ مال دے رہا ہے، اس معاملے کے عہد کو بیع کہتے ہیں۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔ پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی اولیائے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* اِنَّ الَّذِےْنَ ےُبَاےِعُوْنَکَ اِنَّمَا ےُبَاےِعُوْن اللّٰہَط ےَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَےْدِےْھِمْج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا ےَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖج وَمَنْ اَوْفیٰ بِمَا عٰھَدَ عَلَےْہُ اللّٰہَ فَسَےُؤْتِےْہِ اَجْرًا عَظِےْمًا (الفتح۔10 )
ترجمہ: ’’ بیشک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘
چونکہ بیعت اللہ سے ایک عظیم عہد ہے اور اس سے رشتہ جوڑنے کا ذریعہ بھی ہے اس لیے اللہ نے اس عہد کے نبھانے کی نہ صرف سختی سے تاکید کی ہے بلکہ اس کے توڑنے پر پُرسش کی تنبیہ بھی کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* وَاَوْ فُوْا بِالْعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْ تُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاےِمْانَ بَعْدَ تَوْکِےْدَھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَےْکُمْ کَفِےْلًا۔ (النحل۔91 )
ترجمہ: ’’اور پورا کرو اللہ کے عہد کو جب تم نے اس سے عہد کر لیا ہے اور نہ توڑو اپنی قسموں کو انہیں پختہ کرنے کے بعد حالانکہ تم نے کردیا ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر گواہ۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
* وَاَوْفُوْبِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْءُوْلًا (بنی اسرائیل۔34 )
ترجمہ: ’’ اور پورا کیا کرو اپنے عہد کو، بے شک ان وعدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔
بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
* لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِےْنَ اِذْےُبِاےِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِےْنَۃَ عَلَےْھِمْ (الفتح ۔18 )
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے تھے پس ان کے دلوں میں جو کچھ تھا (اللہ نے) جان لیا پھر ان پر تسلی نازل کی۔
قرآن کے ساتھ ساتھ کثیر متفقہ علیہ احادیث مبارکہ جو تقریباً تمام معتبر کتبِ احادیث میں روایت کی گئی ہیں، بھی بیعت کے عظیم سنتِ رسول ہونے کا ثبوت ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
* کُلُّ اُمَّتِیْ ےَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃِ اِلَّا مَنْ اَبٰی قَالُوْ مَنْ اَبٰی؟قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃِ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدَ اَبٰی کُلُّ عَمَلِِ لَےْسَ عَلٰی سُنَّتِیْ فَھُوَ مَعْصِیَّۃٌ
ترجمہ: ’’ میری ساری اُمت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کس نے انکار کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے انکار کیا ۔ جو عمل میری سنت کے مطابق نہ ہو وہ نافرمانی ہے۔‘‘
آغازِ اسلام میں جب مدینہ سے کچھ وفود مکہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو جن لوگوں نے پہلے سال دعوتِ حق کو لبیک کہا ان کی بیعت ’’بیعتِ عَقَبہ اولیٰ‘‘ کے نام سے اور دوسرے سال بیعت کرنے والوں کی بیعت ’’ بیعتِ عَقَبہ ثانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہٗ اس بیعت کے متعلق فرماتے ہیں’’ جب وہ رات آئی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وعدہ فرمایا تھا تو ہم شروع رات میں سوگئے۔ جب لوگ گہری نیند سو رہے تھے تو ہم اپنے بستروں سے اُٹھے حتیٰ کہ وادی عقبہ میں اکٹھے ہوگئے اور کوئی دوسرا آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے گفتگو فرمائی اور دعوتِ اسلام دی۔ انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور قرآنِ پاک کی تلاوت فرمائی ۔ یہ سن کر سب نے دعوت قبول کر لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کرنے کے لیے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ اپنا دستِ اقدس بڑھائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کرتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنی قوم میں سے بارہ نقیب نکالو۔ ہم نے ہر گروہ میں سے ایک ایک نقیب نکالا اور سب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کی۔‘‘ (صحیح بخاری)
اعتراضات
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیعت سنت بھی ہے اور فرض بھی۔ لیکن بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کتابِ اللہ کے ہوتے ہوئے شیخ کی کیا ضرورت ہے ۔ اندیشہ ہے کہ اس قسم کے معترضین کسی وقت یہ نہ کہہ دیں کہ قرآن کے ہوتے ہوئے پابندئ صوم و صلوٰۃ کی کیا ضرورت ہے اگر نماز روزہ کے احکام قرآنِ مجید میں موجود ہیں تو وَابْتَغُوْآ اِلَےْہِ الْوَسِےْلَۃ۔ ترجمہ: ’’ اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو‘‘ (سورۃ المائدہ۔35) اور فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِ نْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (الانبیاء ۔ 7)
ترجمہ:’’ اگر تم نہ جانتے ہو تو اہلِ ذکر سے پوچھو۔‘‘ بھی تو اسی قرآن میں درج ہیں کہ کیا قرآن کے بعض حصوں کو وہ لوگ قابلِ عمل سمجھتے ہیں اور بعض حصے صرف تلاوت کے لیے رہنے دیتے ہیں۔
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍِ (البقرہ۔ 85 )
ترجمہ: ’’ کیا تم ایمان لاتے ہو قرآن کے بعض حصوں پر اور کفر کرتے ہو ساتھ بعض کے ( یعنی قرآن کے بعض حصوں کا تم انکار کرتے ہو۔)
علما کااس پراتفاق ہے کہ قرآن کےُ جز کا منکر کل کا منکر ہے۔ حق تعالیٰ نے بلا شبہ ہماری ہدایت کے لیے قرآن نازل فرمایا مگر اس قرآن پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ ایک ہادی بھی معبوث فرمایا جو ہم میں ہمارے ساتھ مل جل کر رہا ۔ جس نے اللہ کے کلام کو ہمیں سنایا اور ہمیں سمجھایا اور ہمیں عقل و دانش کی باتیں سکھائیں اور اپنی پاکیزہ زندگی کا جیتا جاگتا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ کر اور اپنے انوارِ ہدایت کا پر تو ہم پر ڈال کر ہماری زندگیوں کو پاکیزہ بنا دیا۔
* ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ ےَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰےٰتِہٖ وَےُزَکِّےْھِمْ وَےُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ (الجمعتہ۔ 2 )
ترجمہ: ’’(اللہ) وہ ہے جس نے بھیجا اُمیوں میں انہی میں سے ایک رسول جو ان لوگوں کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔
کتاب کے ساتھ کتاب کا سکھانے والا بھی بھیجا جاتا ہے۔نسخہ کے ساتھ طبیب بھی آتا ہے بلکہ پہلے طبیب معبوث ہوتا ہے پھر اس طبیب کی وساطت سے نسخہ مرحمت ہوتا ہے پھر ’’وَےُزَکِّےْھِمْ‘‘۔۔۔ وہ طبیب جملہ ظاہری و باطنی بیماریوں کی آلائش سے اُمت کو پاک کر دیتا ہے ۔ پھر ’’وَےُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘۔۔۔ وہ طبیب اس نسخہ اور حکمت کی تعلیم دوسروں کو بھی دیتا ہے تاکہ وہ لوگ بھی اسی طرح دوسروں کی ظاہری اور باطنی بیماریاں دور کر دیا کریں اور لوگوں کی زندگیوں کو پاک بنادیا کریں۔
دوسرا اعتراض لوگ یہ بھی کرتے ہیں کہ قرآن میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کا ذکر ہے اور کسی کی بیعت کا ذکر نہیں تو کیا وہ یہ نہیں جانتے نبوت کا سلسلہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ختم ہوگیا تھا ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاک مجالس میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرواتے رہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اُمت کے دیگرافراد پر فضیلت اسی معلمِ کتاب و حکمت کی صحبتِ بافیض کی بدولت ہے۔قرآن تو جو اصحابِ رسول نہیں‘ ان کو بھی ملا اور انہوں نے قرآن کی خدمتیں بھی بڑی بڑی کیں، ترجمے کیے ، تفسیریں لکھیں، عمل کی بھی تعلیم دی مگر صحابہ کے مرتبہ کو نہ پہنچے۔ اصحابِ رسولؐ کے بعد تابعینؓ کا مرتبہ ہے کیونکہ انہیں اصحابؓ کی صحبت نصیب ہوئی پھر ان کے بعد تبع تابعینؓ کا رتبہ ہے کیونکہ انہیں تابعینؓ کا فیضانِ صحبت نصیب ہوا۔ تبع تابعینؓ کی صحبت سے اولیا کرام ؒ نے فیض پایا اور اولیا اللہ میں سب سے بلند مرتبہ محبوبِ سبحانی غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کو حاصل ہے۔ بحکمِ خدا آپؓ کا اعلان ہے :
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔
ترجمہ: میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔
اگرچہ تمام اکابرین صحابہ کرامؓ سے روحانی فیوض و برکات اور رشدو ہدایت سینہ بہ سینہ ایک عرصہ تک جاری رہا لیکن جن سلاسلِ طریقت کو حق تعالیٰ نے بقائے دوام کا درجہ عطا فرمایا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے سلاسلِ طریقت ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے جو روحانی سلاسل جاری ہوئے وہ جمع ہو کر سلسلہ نقشبندیہ کی شکل میں ظاہر ہیں اور باقی تین بڑے سلسلے یعنی سلسلہ چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے جاری ہیں۔
تمام اولیا کرامؒ اپنے اپنے ادوار میں لوگوں کو اللہ کی واحدانیت کا پیغام دیتے اور لوگوں سے ہی عہد (بیعت) لیتے۔ لیکن جب ان مقرب بندوں (اولیا کرامؒ ) نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں کی طلب خالص اللہ کی طلب سے ہٹ کر دنیا کی خواہشات اور لذات کی طلب ہے اور یہ دنیادار ان احکاماتِ الٰہیہ کی پیروی نہیں کر رہے تو یہ اولیا کرامؒ عوام کی نظر سے پوشیدہ ہو گئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایک ایسا ولیِ کامل ضرور بھیجتا ہے جو اس دور کا امام کہلاتا ہے ۔ ان اولیا اللہ کی حقیقت و اہمیت اور ان کی ذات تک رسائی صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی جن کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی ذات (یعنی فقر ِ محمدی ؐ) کو پانا ہے۔
جب اولیا کرامؒ نے نفس پرست دنیاداروں سے خود کو پوشیدہ کر لیا تو اس کے نتیجے میں جعلی ، ڈھونگیوں اور نوسرباز پیروں نے سر اٹھا لیے اور آج تک یہ دنیا دار ان جعلی پیروں کے اڈوں پر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جاتے ہیں اور اپنا مال‘ جان اور ایمان سب ضائع کرتے رہتے ہیں۔
مرشد کی ضرورت
انسان کی تخلیق کا واحد مقصد جو قرآنِ پاک میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلَّا لِےِعْبُدُوْنِ ’’ ہم نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔لہٰذا انسان کے ہر عمل، فعل و خیال کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہونا چاہیے ۔ لیکن انسان اس دنیا کی رنگینیوں ( جو کہ اس کے لیے آزمائش ہیں) میں گم ہو کر اپنی تخلیق کا مقصد بھی بھول جاتا ہے اور اپنے افعال و اعمال و خیالات کا رخ بھی اپنے ربّ سے موڑ کر دنیا یا عقبیٰ کی طرف کر لیتا ہے۔ بیشک وہ ایسا اپنے ’’بشر‘‘ہونے کی وجہ سے کرتا ہے اور جب تک اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نہ پہنچا دی جائے اسے اس امر کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے آغاز سے ہی ہدایت کے ذریعے اور وسیلے پیدا کیے ہیں اور ہدایت کا وسیلہ ہمیشہ ’’ انسان ‘‘ ہی رہا جو بظاہر دوسرے انسانوں جیسا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور گہرا ہوتا ہے اور اس مضبوط تعلق کی بنا پر وہ اللہ سے بلاواسطہ ہدایت پاتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* وَلَوْجَعَلْنٰہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلاً۔ (الانعام۔ 9 )
ترجمہ: ’’ اگر (لوگوں کی ہدایت کے لیے) ہم کسی فرشتے کو بھیجتے تو مرد ہی کی صورت بھیجتے۔‘‘
پس ہدایت کا وسیلہ اور ذریعہ ہر دور اور زمانے میں ’’مرشدانِ کاملین‘‘ ہی رہے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قبل انبیا علیہم السلام کی صورت میں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ان کے خلفا کی صورت میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ آغازِ حیات سے تو مسلسل اپنے بندوں کی ہدایت کا بندوبست کرتا رہا لیکن گزشتہ چودہ سو سال سے اس نے یہ سلسلہ بند کر رکھا ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہدایت کا واحد ذریعہ قرآنِ کریم ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
* ےُضِلُّ بِہِ کَثِےْرًا وَّےَھْدِیْ بِہٖ کَثِےْرًاط وَمَا ےُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِےْنَ (البقرہ۔26)
ترجمہ: ’’ اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہدایت پاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں جو فاسق ہیں۔‘‘
یعنی جب تک کسی مردِ کامل کی نگاہ سے باطن کا تزکیہ و تصفیہ نہ ہوگا اور اس میں سے فسق کا خاتمہ نہ ہوگا قرآن سے بھی ہدایت نہ ملے گی بلکہ گمراہی ہی ملے گی۔
’’فسق‘‘ کی اصطلاح میں تمام روحانی و باطنی بیماریاں تکبر، غرور، حرص، لالچ، عُجب، حسد اور کینہ وغیرہ شامل ہیں۔ جن کے نتیجے میں انسان راہِ شریعت سے ہٹ جاتا ہے سوائے انبیا کرام کے کوئی بھی انسان ان بیماریوں سے پاک نہیں ہے اور جس نے بھی ان بیماریوں سے نجات پائی اولیا کاملین کی صحبت سے ہی پائی۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ خود قرآنِ مجید میں حکم دیتا ہے کہ فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ( الانبیا ۔ 7 )
ترجمہ: ’’پس اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ ‘‘
اہلِ ذکر سے مراد یہی مردانِ کامل ہیں جن کے باطن اللہ کے ذکر سے پاک و شفاف ہو کر فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچ چکے ہیں اور اب وہ اسی ذکر کی قوت سے دوسروں کو روحانی پاکیزگی عطا کر کے اللہ کی راہ پر رہنمائی کرنے کے لائق بن چکے ہیں۔ قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات میں نازل ہوا اور اس کی تکمیل کے ساتھ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظاہری وصال ہوگیا۔ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِےْن کا حکم بعد کے لوگوں کے لیے زیادہ ضروری ہے اور صادقین سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آنے والے ان کے وارثین اور خلفا ہیں۔ یہی لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد ہدایت کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور انہی کو تلاش کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ اس آیت میں دے رہا ہے:
* ےٰٓاَیُّھَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاْبتَغُوْٓا اِلَےْہِ الْوَسِےْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِےْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن (سورۃ المائدہ۔35 )
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘
اس آیت کی شرح میں کتاب ’’قول الجمیل‘‘ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں ’’یہاں وسیلہ سے مراد نہ تو ایمان والے ہیں (کیونکہ ایمان داروں سے تو پہلے ہی خطاب ہورہا ہے۔ ےٰٓاَیُّھَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوا کے الفاظ سے) اور نہ ہی اعمالِ صالح (نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ عباداتِ بدنی ہیں) کیونکہ یہ تقویٰ میں شامل ہے۔ اسی طرح حج بھی مراد نہیں وہ بھی تقویٰ میں شامل ہے پس وسیلے سے مراد ارادت، بیعت اور مرشدِ طریقت ہے۔‘‘
تلاش تو صرف اس مردِ کامل کو کیا جاسکتا ہے جس کی حقیقت سے زمانہ ناواقف ہو۔ اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جوڈھونگی پیرہر جگہ بیٹھے ہیں وہ ’’وسیلہ‘‘ کہلانے یا بننے کے لائق نہیں کیونکہ انہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ تو خود اپنی اشتہار بازی کر رہے ہوتے ہیں۔ وسیلہ صرف وہی شخص بن سکتا ہے جس کا باطن تو اللہ کے ساتھ ہے لیکن بظاہر دنیا میں مشہور و معروف نہیں ہے اور اپنے مقام و مرتبے کو لوگوں میں اپنی زبان سے ظاہر نہیں کرتا۔
سورۃ فاتحہ میں ہم روزانہ پانچ بار دورانِ نماز یہ دعا مانگتے ہیں کہ ’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستہ پر چلا جن پر تونے انعام نازل کیا‘‘ لیکن کبھی ان انعام یافتہ لوگوں کو تلاش کرنے اور ان کے راستے پر چلنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ انعام یافتہ گروہ انبیا ؑ تھے جو اس دنیا سے جا چکے ہیں اور اب اس دنیا میں اللہ کے انعام یافتہ گروہ کا خاتمہ ہوچکا اور صرف غضب یافتہ گروہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ استغفراللہ! اگر ایسا ہوتا تو قیامت کب کی آچکی ہوتی۔ یہ اس انعام یافتہ گروہ کی موجودگی کی ہی برکت ہے کہ آسمان اب تک بارش برساتا ہے اور زمین اب تک اناج پیدا کر رہی ہے۔ اگر ہدایت دینے والے ہی ختم ہوگئے ہوتے تو ارواح کو جسموں میں ڈھال کر دنیا میں بھیجنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا۔ اگر یہ دنیا امتحان گاہ ہے تو یقیناًیہاں رہنما اور استاد بھی موجود ہیں۔ انعام یافتہ گروہ صرف انبیا کرامؑ پر مشتمل نہیں بلکہ اللہ خود اس انعام یافتہ گروہ کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ:
* وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِےْنَ اَنَعَمَ اللّٰہُ عَلَےْھِمْ مِّنَ النَّبِےّٖنَ وَالصِّدِّےْقِےْنَ وَالشَّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِےْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِےْقًا (النساء۔69)
ترجمہ:’’ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ قیامت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے اپنا انعام نازل کیا جو کہ انبیاؑ ، صدیقین، صالحین اور شہدا ہیں اور جو بہت اچھے رفیق ہیں۔‘‘
اس انعام یافتہ گروہ میں سے انبیا ؑ کا سلسلہ تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ختم ہوگیا لیکن صدیقین و صالحین کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ واضح ہو کہ قرآن میں دیا گیا اللہ کا ہر حکم سچے مسلمانوں کے لیے فرض کا ہی درجہ رکھتا ہے یوں بیعت کا حکم فرائضِ دین میں ہی شامل ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
* اَلرَّفِےْقُ ثُمَّ الطَّرِےْقُ
ترجمہ: پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو۔
* لَا دِےْنَ لِمَنْ لاَّشَےْخَ لَہٗ
ترجمہ: اس شخص کا دین ہی نہیں جس کا شیخ (مرشد) نہیں۔
* اَلشَّےْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَنَبِیٍّ فِیْ اُمَّتِہٖ
ترجمہ: شیخ (مرشد کامل) اپنی قوم (مریدوں) میں ایسے ہوتا ہے جیسا کہ ایک نبی اپنی اُمت میں۔
اولیائے کاملین جو روحانی پاکیزگی کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں انہوں نے بھی قرآن و سنت کے انہی احکامات کی پیروی کی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ولی بھی کسی نہ کسی کامل مرشد کا بیعت اور صحبت یافتہ ہوتا ہے۔ اگر سیّدنا غوث الاعظمؓ کو روحانی منازل طے کرنے کے لیے حضرت ابوسعید مبارک مخزومیؒ کی بیعت اور صحبت کی ضرورت تھی تو ہم جیسے عام اور ناقص مسلمان خودبخود روحانی طور پر اتنے طاقتور کیسے ہوسکتے ہیں کہ اللہ سے تعلق قائم کرسکیں۔ یا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ہمیں اللہ سے تعلق قائم کرنے کی ضرورت اور خواہش ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر اس بات کو ماننا ضروری ہے کہ ہم اس لائق نہیں کہ بغیر کسی وسیلے کے اللہ تک پہنچ سکیں۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں :
* اے اللہ کے بندو! تم حکمت کے گھر میں ہو لہٰذا وسیلہ کی ضرورت ہے۔ تم اپنے معبود سے ایسا طبیب (مرشد) طلب کرو جو تمہارے دلوں کی بیماریوں کا علاج کرے۔ تم ایسا معالج طلب کرو جو تمہیں دوا دے، ایسا رہنما تلاش کرو جو تمہاری رہنمائی کرے اور تمہارے ہاتھ پکڑ لے۔ تم اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مؤدب بندوں اور اس کے قرب کے دربانوں اور اس کے دروازہ کے نگہبان کی نزدیکی حاصل کرو۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* وصالِ حق تعالیٰ مرشدِ کامل اکمل کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے قرب و وصال کی راہ چونکہ شریعت کے دروازہ سے ہو کر گزرتی ہے اس لیے شریعت کے دروازے کے دونوں طرف شیطان اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت طالبِ اللہ کی گھات لگا کر بیٹھا ہے۔ اوّل تو وہ کسی آدم زاد کو شریعت کے دروازے تک ہی نہیں آنے دیتا۔ اگر کوئی باہمت آدمی شریعت (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے تو شیطانی گروہ اسے شریعت کی چوکھٹ پر روک رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے شریعت کی ظاہری زیب و زینت کے نظاروں میں محو رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ شریعت کی روح تک کسی کو نہیں پہنچنے دیتا اور اگر کوئی خوش قسمت طالبِ مولیٰ ہمت کر کے آگے بڑھتا ہے تو شیطان پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اسے روکنے یا گمراہ کرنے کے جتن کرتا ہے۔ طالبِ اللہ جب شریعت کے دروازے سے گزر کر باطن کی نگری میں داخل ہوتا ہے تو رجوعاتِ خلق(خلقت اس کی طرف اپنی دنیاوی مشکلات کے خاتمہ کیلئے رجوع کرتی ہے) کے نہایت وسیع و دشوار گزار جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر طالبِ اللہ کو اگر کسی مرشد کامل اکمل کی رفاقت اور راہبری حاصل نہ ہو تو وہ رجوعاتِ خلق کے جنگل میں بھٹک کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ جس طرح شریعت کا علم استاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اسی طرح باطنی علم کا حصول مرشدِ کامل کی رفاقت کے بغیر نا ممکن ہے۔ کیونکہ مرشد کی تلقین اور نگاہ ہی ایسی کیمیا ہے جو طالب کے وجود کی کثافت دور کر کے اسے روشن ضمیری کے قابل بناتی ہے۔(عین الفقر)
حضرت ابو حامد امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ :
* ’’ صوفیا کرام کی جماعت (مرشد کامل کی بیعت) میں داخل ہونا فرضِ عین ہے کیونکہ انبیا ؑ کے علاوہ کوئی بھی شخص قلبی امراض اور عیوب سے خالی نہیں۔ ‘‘
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
* صحبت پیرِ رومؒ سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف
* حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ
اللہ کرے تجھے تیرے مقام سے آشنا
انتخابِ شیخ
بیعت کی حیثیتِ سنت، فرض و واجب تسلیم کر لینے کے بعد بھی اگر لوگ بیعت سے کتراتے ہیں تو اس کی وجہ فراڈ اور دھوکے باز جعلی پیر ہیں۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے جس انسان کی جیسی نیت ہوگی وہ اسی کا ثمر پائے گا یعنی اگر اس کی طلب فریبی دنیا ہوگی تو اسے فریبی پیر ہی ملیں گے ، اگر انسان کی طلب جنت اورا س کی نعمتیں ہیں تو اسے ایسے پیر ہی ملیں گے جو چِلّے، ورد و وظائف اور لمبی ریاضتیں کروا کر اسے تھکا دیں گے، کیونکہ طلبِ جنت کو پورا کرنے کے لیے انہی کی ضرورت ہے۔ لیکن جو طلبِ مولیٰ لے کر نکلے گا اس کا حامی و ناصر اللہ خود ہوگاجیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ جو لوگ ہماری طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں ہم خود انہیں اپنی طرف آنے کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت۔69 )
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* ’’ میں نے لوگوں سے سنا ہے کہ آج کل مرشدِ کامل نایاب ہیں اور ہر طرف جعلی،فریبی، دھوکہ باز مرشد کا روپ دھارے بیٹھے ہیں۔ بھائی اگر تم دنیا اور عقبیٰ کے لیے جاؤ گے تو انہی لوگوں کے ہتھے چڑھو گے ۔ طالبِ صادق جو صدق سے اللہ تعالیٰ کے قرب کا خواہاں ہو وہ کبھی بھی جعلسازوں کے ہتھے نہیں چڑھتا کیونکہ اسکا نگہبان وہ (اللہ) ہوتا ہے جس کی تلاش میں وہ نکلا ہوتا ہے۔ پہلے اپنی طلب کو دیکھ اور درست کر پھر مرشد کی تلاش کر تجھے منزل مل جائے گی۔جب اللہ تعالیٰ کی طلب رکھنے والے ہی نہیں رہے اس کی پہچان اور تلاش میں نکلنے والے ہی نہیں رہے تو مرشد کامل اکمل نے بھی ان دنیاداروں سے اپنے آپ کو چھپا لیا۔ میں پھر کہتا ہوں صدقِ دل اور خلوصِ نیت اور دل سے تعصب کی عینک اتار کر تلاش کر تجھے اپنی منزل مل جائے گی۔‘‘ (شمس الفقرا)
جب ایک شیخ اوصافِ ِ مشیخت سے متصف ہے تو انتخاب کنندہ کو صرف حسبِ ذیل امور پر نگاہ ڈال لینا کافی ہے:
* ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو اور یہ دیکھے کہ جتنی دیر وہاں بیٹھا کم از کم اتنی دیر دنیا کے خطرات اور وسوسے اس کے دل میں آئے یانہیں اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق دل میں ذوق و شوق بھی پیدا ہوا؟ ان کے پاس سے اٹھ جانے کے بعد خواہ قلب کی حالت دوبارہ ویسی ہی ہوگئی ہو جو معمولاً تھی مگر جتنی دیر بھی وہاں رہا اس کے جسم میں خفیف سابھی تغیر محسوس کیا۔
* ان بزرگ کے مریدین یا بعض مریدین کی حالت میں بیعت سے پہلے کی نسبت کوئی تغیر ہوا یا نہیں۔
* جتنی دیر ان بزرگ کی خدمت میں بیٹھا انکی زبان سے بعض الفاظ ایسے بھی نکلے یا نہیں جو اس کے حسبِ حال ہوں یا جن سے اس کو ہدایت یا تسکین ہوئی ہو یا اس کی کوئی اُلجھن رفع ہوئی ہو یا کوئی مسئلہ حل ہوا ہو۔ اگر ان تینوں امور میں اس کو اچھی رائے قائم کرنے کا موقع مل گیا ہو تو وہ شخص آنکھ بند کر کے ان بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرلے۔
تجدیدِ بیعت یا دوبارہ بیعت
مرشدینِ ناقص کی بھرمار کی وجہ سے بہت سے لوگ مرشدِ کامل کی تلاش اور جستجو کرنے میں تحقیق نہیں کرتے اور کسی بھی دستیاب مرشد کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں خواہ وہ ناقص ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا جلد ہی ناقص مرشد سے جان چھڑا کر کامل مرشد کی طرف رجوع کرنا چاہیے تجدید بیعت مندرجہ ذیل صورتوں میں لازم ہوجاتی ہے:
۱۔ بیعت ہونے کے بعد اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مرشد ناقص ہے یا جو باتیں کامل مرشد میں ہونی چاہیے وہ اس میں نہیں ہیں مثلاً وہ شریعت کا پابند نہیں یا وصول الی اللہ کی راہ نہیں جانتا تو ایسے مرشد سے بیعت واقع ہی نہیں ہوئی۔ لہٰذا بیعت توڑنے کی بھی ضرورت نہیں اور دوبارہ سے مرشد کامل کو تلاش کرنا چاہیے اور بیعت کر لینی چاہیے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کے لیے بیعت کی گئی لیکن نہ باطنی حالت بدلی نہ روحانی منازل طے ہوئیں، اس سے ثابت ہوگیا کہ مرشد کامل نہیں ہے۔ آج کل موروثی سجادہ نشین یا گدی نشین بھی اسی زمرے میں آنے والے ناقص مرشد ہیں جو اس سجادہ نشینی یا گدی نشینی کے ذریعے پیسہ جمع کرتے ہیں یا سیاست چمکاتے ہیں ۔ کم علم مسلمان بھی اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کی بیعت کرتے چلے جاتے ہیں ۔ باپ جس پیر کا مرید تھا، بیٹا اس پیر کے بیٹے کا مرید،اس کا بیٹا اس کے بیٹے کا مرید یوں پیڑی در پیڑی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہ سلسلہ روحانیت نہیں شیطانیت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دادا یا پردادا میں سے کوئی روحانیت کا حامل ہو لیکن واضح رہے روحانیت و ولایت موروثی جائیداد نہیں جو یوں خاندان میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جائے‘ یہ تو اللہ سے تعلق کی راہ ہے ۔اس میں تو وہی کامیاب ہوتا ہے جو انفرادی کوشش کرتا ہے اور ہر فرد اپنی استعداد کے مطابق اس کے لائق بنتا ہے کہ اسے باپ دادا کی روحانیت ملتی ہے اگر کسی نے اپنے باپ دادا کے کہنے میں آکر خاندانی روایت کے مطابق ناقص پیر کی بیعت کی تو یہ بیعت واقع نہ ہوئی لہٰذا بیعت توڑے بغیر روحانی منازل طے کرنے کے لیے کامل مرشد کی طرف رجوع کر لینا چاہیے۔
۳۔ مرشد کا وصال ہوگیا ہے اور مرید کا سلوک کا سفر آدھا رہ گیا ہے اور مرید میں اتنی اہلیت بھی پیدا نہ ہوسکی کہ وہ اپنے مرشد کے مزار سے فیض حاصل کر سکے تو اس کے لیے تجدیدِ بیعت نہ صرف جائز ہے بلکہ فرض ہے۔
۴۔ اگر بچپن میں والدین یا کسی اور کے کہنے پر بیعت کر لی تو اسے ’’بیعتِ تبرک ‘‘ کہتے ہیں۔ عاقل اور بالغ ہونے پر اگر وہ شخص خود کو کسی دوسرے مرشدکی طرف مائل پاتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ دوبارہ بیعت کرے۔
۵۔ جب مرشد مسلسل اور متواتر کسی مرید کی طرف توجہ نہ کرے اور مرید کی باطنی تربیت نہ کرے اور مسلسل مرید کی طرف بے التفاتی برتی جائے تو مرید دوسرے شیخ ( جو مرشدِ کامل اکمل ہو) کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔ اور اس مرشدِ کامل اکمل کے لیے جائز ہے کہ اسے بیعت کرے۔
۶۔ اگر مرشد لاپتہ ہو جائے اور مرید عرصہ دراز تک مرشد سے ظاہری اور باطنی رابطہ نہ کر سکے اور نہ ہی مرید کو معلوم ہو کہ مرشد کہاں ہے تو اس صورت میں دوبارہ بیعت کی جاسکتی ہے۔
۷۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں مرشدِ کامل اکمل وہی ہے جو طالب کو ذکر کے لیے سلطان الاذکار ’’ھُو‘‘ اورتصور کے لیے اسمِ d ذات عطا فرمائے اور اس کے وجود کو پاک کرنے کے لیے مشقِ مرقو مِ وجودیہ عطا فرمائے۔ جو مرشد یہ سب نہیں کر سکتا وہ مرشد لائقِ ارشاد مرشد نہیں ہے اور اس کی بیعت ختم کر کے اس صاحبِ تصور اسمِ d ذات مرشد کامل کی بیعت کی جاسکتی ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہو۔
دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت پیار فرماتا ہے اس لیے وہ اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنا منتخب مقرب بندہ بھیجتا ہے جو کہ فقر ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر عمل پیر اہوتا ہے۔
فقر کے متعلق سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
* اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَاْلفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: ’’ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے یہ مقرب بندے اپنی نگاہِ کامل سے طالبِ مولیٰ کا تزکےۂ نفس اور تصفۂ قلب فرماتے ہیں۔ لیکن ان تک صرف وہی لوگ رسائی پا سکتے ہیں جن کی طلب صرف اللہ تعالیٰ کو پانے کی ہوتی ہے۔ یہی مقرب انسان، انسانِ کامل مرشدِ کامل اکمل کہلاتے ہیں انہی کی بیعت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرض اور پیارے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے موجودہ دور کے انسانِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن سروری قادری مدظلہ الاقدس اس دور کے انسانِ کامل ہیں اور مرشدِ کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کے مرتبے پر فائز ہیں۔ وہ بلاشبہ قدمِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت ہونے والے طالبانِ مولیٰ کو نہ صرف ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات اور مشقِ مرقومِ وجودیہ کا سبق عطا فرماتے ہیں بلکہ اپنی نگاہِ کامل سے طالبوں کا تزکےۂ نفس اور تصفۂ قلب بھی فرماتے ہیں اور طالبانِ مولیٰ کو مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری بھی عطا فرماتے ہیں ۔
سروری قادری مرشد کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’ سروری قادری مرشد مجمل و جامع ہوتا ہے وہ ظاہروباطن میں ایسی کتاب ہوتا ہے جو طالبِ مولیٰ کے لیے کتبُ الاکتاب کا درجہ رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے طالب اس شان سے فنا فی اللہ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی حجاب باقی نہیں رہتا ۔ اس کتاب (سروری قادری مرشد) کو جو طالب صدق، اخلاص، اعتقاد و پاکیزگی کے ساتھ پڑھتا ہے وہ جلد ہی اپنی مراد کو پہنچتا ہے۔ (کلید التوحید)
آپ مدظلہ الاقدس صاحبِ مسمّٰی فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی رہنمائی اور مہربانی سے بہت سے طالبانِ مولیٰ قرب و دیدارِ الٰہی کی منزل تک پہنچ چکے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ صاحبِ مسمّٰی سروری قادری مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ صاحبِ مسمّٰی فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ ہوتا ہے۔امانتِ الٰہیہ، خلافتِ الٰہیہ کا حامل اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور یہی مرشدِ کامل اکمل نورالہدیٰ ہے۔ ان کے مریدین کو اسمِ اللہ ذات سے تصورِ شیخ حاصل ہوتا ہے۔
’’ عارف باللہ، فنا فی اللہ فقیر اسے کہتے ہیں جو فنا فی الرسول ہو، فنا فی فقر ہو اور فنا فی ’’ھُو‘‘ ہو۔ (عین الفقر)
فرمان سلطان العاشقین
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن سروری قادری مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’ مادیت کے اس دور میں مختلف علوم و مشاغل کی بجائے مرشدِ کامل اکمل، صاحبِ باطن کی تلاش از حد ضروری ہے، جو اپنی نگاہِ کاملہ اور باطنی تصرف سے قلب کی حالت کو ظلمت سے نور میں بدل دے کیونکہ یہی اصلاح کا طریقہ کار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ پڑھ کر سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!