غفلت شیطان کا ہتھیار
تحریر: انیلا یٰسین سروری قادری (لاہور)
دین کا معاملہ ہو یا دنیاوی معاملات‘ کوئی بھی انسان اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے کوشش نہیں کرتا بلکہ غفلت اور کاہلی میں مبتلا رہتا ہے ۔ عام الفاظ میں غفلت لاپرواہی کو کہتے ہیں۔
انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور غفلت میں مبتلا رہتا ہے اسے غافل کہتے ہیں اور انسان کی ناکامی کا سبب یہی ہے کہ اس نے غفلت اور جہالت و نادانی کے باعث راہِ حق سے منہ موڑ رکھا ہے اور خود کو خواہشات و شہوات کی حصول کی تکمیل میں اس قدر مشغول کیا ہوا ہے کہ یہی غفلت اس کی گمراہی کا باعث بن جاتی ہے۔
راہِ فقر میں غفلت ایسا حجاب ہے جو طالبِ مولیٰ کی باطنی ترقی کو روک دیتا ہے اور بعض اوقات مکمل طور پر ختم ہی کر دیتا ہے۔ غفلت اللہ اور بندے کے درمیان ایسا حجاب ہے جو دل کو لاپرواہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور غفلت اور لاپرواہی میں مبتلا دلوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی تجلیات نازل نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں غفلت پر انسانوں کو خبر دار کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: ’’ ہم نے بہت سے انسانوں اور جنوں کو دوزخ کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ دل (باطن) رکھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے وہ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن دیکھ نہیں سکتے۔ ان کے کان ہیں لیکن وہ سن نہیں سکتے، یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘ (اعراف۔ 179 )
سورہ یونس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: بیشک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی ) پر یقین نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی پر راضی ہیں اور اسی سے مطمئن ہو گئے ہیں اور یہی لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں انہی لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ان اعمال کے بدلہ میں جو وہ کرتے رہے۔ (یونس ۔ 7-8 )
سورۃ المنافقون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’اے ایمان والو ! تمہارا مال اور تمہاری اولاد کہیں تمہیں ذکرِ اللہ سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاوہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (منافقون۔9 )
آج کا انسان غفلت میں اس قدر مبتلا ہے کہ سوچ و بچار (تفکر) تک کی بھی فرصت نہیں۔ غفلت نے انسان کو اس قدر جکڑ لیا ہے کہ وہ ظاہری و شرعی عبادات کی طرف آنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اگرکوئی ہمت کر کے عباداتِ شریعت (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور تلاوتِ قرآنِ مجید) کو باقاعدگی سے ادا بھی کرتا ہے تو وہ اسی میں مگن ہو کر رہ جاتا ہے یعنی اسی پر اکتفا کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ انسان کا مقصدِ حیات اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے جبکہ ظاہری عبادات اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ضرور ہیں لیکن منزل نہیں۔ کیونکہ ظاہری عبادات سے فرائض تو ادا ہوجاتے ہیں لیکن دل سے حُبِّ دنیا ختم نہیں ہوتی۔ انسان کی اصل منزل تو لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی ) ہے جو اس سے غافل ہو ا وہ نامراد ہوگیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
* یَوْمَلَا ےَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ (الشعراء ۔ 88 )
ترجمہ: اور اس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد۔
یہ چیزیں دل کو آلودہ کر کے باطنی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
* حُبُّ الدُّنْےَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْءَۃٍ
ترجمہ:دنیا کی محبت تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سلطان الوھم میں فرماتے ہیں:
* ’’ باطن میں جب دنیا کی محبت آجاتی ہے تو وجود میں موجود باطنی حواس کام نہیں کرتے اور کمزور ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت کا نام تک کئی ماہ اور کئی سال تک اس کے دل سے نہیں گزرتا بلکہ ہر لمحہ اس پر غفلت کے پردے گہرے ہوتے جاتے ہیں اور اس کا دل غفلت میں ڈوبا رہتا ہے اسی متعلق قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ھَےْھَاتَ ھَےْھَاتَ (ہائے افسوس! ہائے افسوس!) انبیا کرام کے حوا سِ باطنی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے پرورش پاتے ہیں اسی لیے انبیا کرام ہر روز ہر لمحہ عالمِ حقیقت سے باخبراور ہمیشہ ذکرو فکر میں رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ میں اس طرح مستغرق رہتے ہیں کہ کوئی لمحہ بھی مشاہدۂ حق تعالیٰ اور دیدارِ الٰہی کے بغیر نہیں گزارتے۔ ‘‘ (سلطان الوھم)
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا ’’جو ذکرِ اللہ کرتا ہے اس کی مثال زندہ کی ہے اور جو نہیں کرتا اس کی مثال مردہ کی ہے۔ (بخاری شریف)
اس حدیث کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے یوں فرمایا ہے:
جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھُو
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جب کوئی مجھے غفلت سے یاد کرتا ہے تو میں اسے لعنت سے یاد کرتا ہوں۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
* ’’ غرور اور غفلت کا نشہ شراب سے بھی زیادہ ہوتا ہے جو اس نشے میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ جلدی ہوش میں نہیں آتا۔‘‘
حضرت شعبی ؒ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر و منزلت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے :
i ۔ پہلی ایسی نماز جو محض عادت کے طور پر ادا کی جائے۔
ii ۔ دوسرا وہ ذکر جس میں دل (باطن) غافل ہو۔
iii ۔ تیسری چیز یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اس طرح درود وسلام پڑھا جائے کہ جس میں حرمت و احترام کو ملحوظ نہ رکھا جائے ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس غفلت کے متعلق فرماتے ہیں:
i ۔ راہِ فقر میں غفلت بہت بڑی کوتاہی ہے جس کی وجہ سے طالبِ مولیٰ حق تعالیٰ کی پہچان سے محروم رہتا ہے۔
ii ۔ جو دنیا میں مگن اور مقصدِ حیات سے غافل رہے وہ زندگی بھر جانور رہے اور جانور ہی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
iii ۔ غفلت چشمِ دل روشن نہیں ہونے دیتی۔
iv ۔ غفلت عشق کی تڑپ پیدا نہیں ہونے دیتی ۔
v ۔ غفلت شیطان کا ہتھیار ہے۔
شیطان غافل دل کو دنیا اور لذتِ دنیا میں مشغول رکھتا ہے اور غافل بے کار اور بے فائدہ کاموں میں اپنی زندگی صرف کر دیتا ہے اور حقیقی مقصدِ حیات کے بارے میں بالکل نہیں سوچتا جس کا روزِ قیامت اسے جواب دینا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ:جب قیامت قائم ہوگی تو مجرمین (غافلین) قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے وہ تو بہت کم (مدت) دنیا میں رہ کر آئے ہیں۔اور وہ اپنے لیے زندگی کے ضائع کردہ اوقات پر حسرت کریں گے۔
بقول ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ :
ترسم ایں عصرے کہ تو زادی درآں
در بدن غرق است و کم داند ز جاں
ترجمہ: ’’ مجھے اس زمانے سے جس میں تو پیدا ہوا، ڈر لگ رہا ہے اس لیے کہ وہ بدن (مادیت) میں غرق ہے اور روح سے بے خبر ہے۔ آج کے لوگ مادیت (ظاہر) میں کھوئے ہوئے ہیں اور روح (باطن) سے نا آشنا ہیں۔‘‘
غفلت عشق و ایمان کی موت ہے ۔ہر انسان کو بلکہ خاص طور پر راہِ فقر اختیار کرنے والے طالبِ مولیٰ کو اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
غفلت سے بچنے کا علاج
سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ:اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا سانسوں کے ذریعے، خوف اور عاجزی کے ساتھ بغیر آواز نکالے اور صبح و شام کرو لیکن غافلین میں سے مت بنو۔(الاعراف۔205 )
آیاتِ قرآنی، حدیث مبارکہ اور دیگر بزرگانِ دین کے اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ غفلت شیطان کا ایسا ہتھیار ہے جو بڑی خاموشی اور چالاکی کے ساتھ طالبِ مولیٰ کے نفس پر حملہ کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ شیطان طالب کو اس کے مقصد سے دور کردیتا ہے۔ چونکہ غفلت بندے اور اللہ کے درمیان نفس کا حجاب ہے اور اس کی مخالفت سے ہی اس حجاب کو ہٹایا جاسکتا ہے شیطان طالبِ مولیٰ پر اپنے اس ہتھیار (غفلت) سے اس وقت زیادہ شدت سے وار کرنے کی کوشش کرتا ہے جب وہ خلوصِ نیت سے مرشد کی تفویض کردہ ڈیوٹیاں (مجاہدات) سرانجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی اپنے نفس سے غافل نہ ہو بلکہ ہوشیار طالبِ مولیٰ بن کر اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے۔ طالبِ مولیٰ غفلت کے حجاب کو صرف ذکروتصور اسمِ اللہ ذات سے جو کہ صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سے حاصل کیا گیا ہو، کی مددسے ہٹا سکتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* صاحبِ مسمّٰی مرشد طبیبِ اعظم ہوتا ہے اور تمام قلبی نفسی بیماریوں کے علاج کا ماہر ہوتا ہے۔
مرشد کامل اکمل اسمِ اللہ ذات کے ذریعے سے طالبِ مولیٰ کو اللہ تعالیٰ کی حضوری میں غرق کر کے اس کا سارا وجود نورِ ذات کا مظہر بنا دیتا ہے۔ جہاں راہِ فقر ترقی و معرفت کی راہ ہے وہاں مسلسل جدوجہد اور آزمائشوں کی راہ بھی ہے۔ اس راہ پر چلنے کے لیے طالبِ مولیٰ کو ہمیشہ ہوشیار اور چست رہنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنے ذاتی نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی نگاہ ہمیشہ مرشدکامل اکمل پر مرکوز رکھنی چاہیے یعنی ان کی رضا کے بارے میں کوشش اور غوروفکر (تفکر) کرنا چاہیے۔
بعض اوقات طالب شروع میں تو بہت تیزی سے اس راہ (راہِ فقر) پر اپنا سفر جاری رکھتا ہے پھر اچانک ہی کسی نہ کسی مقام پر رُک جاتا ہے ایسی حالت میں طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ وہ غورو فکر کرے اور ذکر و تصور اسمِ اللہ کے ذریعے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے اور صبرو استقامت اور صدق کے ساتھ اس راہ پر چلنے کی کوشش کرے اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔
اقبال ؒ طالبِ مولیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
4-5-A ایکسٹینشن ایجوکیشن ٹاءون وحدت روڈ لاہور
رابطہ 042-35436600