عشقِ حقیقی صوفیاء کے اقوال کی روشنی میں
تحریر: شازیہ تبسم سروری قادری(لاہور)
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* وَالَّذِِینَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرۃ۔165)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔
یعنی اللہ پر ایمان کا مطلب اللہ سے شدید محبت ہے۔ اللہ کا عشق اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ عشق ایک ایسا شدید جذبہ ہے جو انسان کے باقی تمام جذبات پر حاوی آجاتا ہے۔ جب ایک انسان کسی سے عشق کرنے لگتا ہے تو وہ ذات اس کیلئے ہر دوسرے رشتے ناتے سے بڑھ کر ہوجاتی ہے۔ جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ’’اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تم کو تمہاری جانوں ، بیوی، بچوں، گھر باراور دیگر چیزوں سب سے زیادہ عزیز نہیں ہوجاتا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں اللہ نے اللہ پاک سے شدید محبت کو مومنین کی صفت قرار دیا ہے اور عشق کا خمیر انسان کی روح میں شامل ہے۔
کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نورِ مبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ انسانی کے حصہ میں آیا۔ (شمس الفقرا)
عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے جو مرشد کامل اکمل کے زیرِ سایہ پھلتا پھولتا ہے وہی اس کی آبیاری کرسکتا ہے۔ مرشد کے بغیر عشق پروان نہیں چڑھتا۔
عشق ہر کسی کے اندر سیپ کے موتی کی طرح چھپا ہوا ہے وہ مرشد کی نگاہ سے ہی اُبھرتا ہے۔ عشق ایک ایسی آگ ہے جو ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
عشق آں شعلہ است کہ جوں بر فروخت
کہ ہر جُز معشوق باشد جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
انسان کو بہت سی چیزوں سے محبت ہوتی ہے کسی بھی چیز کی محبت اگر شدت پکڑے تو وہ عشق ہوتا ہے۔ لیکن انسان کو صرف اللہ کی ذات کیلئے ہی شدت اختیار کرنی چاہیے کیونکہ زندگی کا مقصد صرف اللہ کی ذات کو حاصل کرناہے۔اصل حقیقت یہی ہے جس نے حقیقت کو نہیں پایا اس نے اپنی زندگی کو ضائع کردیا۔ عشقِ حقیقی کا جذبہ ہی طالبِ مولیٰ میں ایسی تڑپ پیدا کرتا ہے کہ طالب ہر لمحہ اس سوز میں گزارتا ہے اللہ کے قرب اور دیدار کی تڑپ ہر لمحہ اس پر حاوی رہتی ہے عشق سے ہی انسان میں درد و سوز پیدا ہوتا ہے تو انتہا کی طرف سفر شروع ہوتا ہے۔
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
عشق ہی راہِ فقر کی کنجی ہے اور عشق سے ہی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے جب انسان کے اندر عشق پنپتا ہے تب ہی انسان کا سفر اللہ کی طرف شروع ہوتا ہے۔جس دل میں عشق نہیں وہ راہِ فقر پر نہیں چل سکتا۔
عشقِ حقیقی میں ہی مومنین کیلئے لذت اور سرور ہے جو اور کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتا ۔ اللہ سے محبت مومنین کو ہر لمحہ بیقرار رکھتی ہے اسی تڑپ کی وجہ سے عاشق وہ کام کر گزرتے ہیں جو بہت سے مسلمانوں کے بس کی بات نہیں اور یہ عشقِ حقیقی ہی ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ کو آتشِ نمرود میں کود جانے کا حوصلہ عطا کیا۔ حضرت اسماعیل ؑ کو قربان ہوجانے کی ہمت عطا کی۔اسی عشق کے جذبہ نے صحابہ کرامؓ کو گھر بار لٹانے کی جرأت عطا کی اور اسی عشق نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو اپنے اصحاب و احبابؓ کے ہمراہ قربان ہونے کا حوصلہ عطا کیا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’ عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مخفی و پوشیدہ تھی پھر اس ذات کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا کہ میں پہچانا جاؤں مگر یہ چاہت اور جذبہ اس شدت سے ظہور پذیر ہوا کہ صوفیا کرامؒ نے اسے عشق سے تعبیر کیا اسی جذبۂ عشق میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے نورِ احمدیؐ کو جدا کیا اور پھر نورِ احمدیؐ سے تمام مخلوقات کی ارواح تخلیق ہوئیں جیسا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ’’میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔‘‘
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقان، وہی ےٰسین وہی طٰہٰ
یہ وہی مرتبہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کل ہیں الکل فیہ ومنہ وکان عندہ۔ ( سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے تھا اور ہوگا۔)
مولانا روم ؒ فرماتے ہیں:
مصطفیؐ آئینہ روئے خداست
منعکس در وے ہمہ خوئے خداست
ترجمہ: مصطفیؐ اللہ تعالیٰ کے چہرے کا آئینہ ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہر صفت منعکس ہے۔
ایک اورجگہ مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
* اپنے محبوب کی ایک نگاہ کے خواہاں عاشق کتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اگر میرا محبوب مجھ پر ایک نگاہ ڈالے تو میں ایک جان تو کیا سو جانیں قربان کر دوں گا۔
مولانا رومؒ عشق اور عقل کے بارے میں بھی فرماتے ہیں :
عشق آمد عقل او آوارہ شد
صبح آمد شمع او بیچارہ شد
ترجمہ: عشق آیا تو عقل بیچاری بیکار ہوگئی جس طرح صبح آئی تو شمع کی ضرورت نہ رہی۔
جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشاق کے متعلق فرماتے ہیں:
* اگر عاشقوں کو جنت اس کے جمال کے بغیر نصیب ہو تو سخت بد قسمتی ہے۔ عاشقوں کو اس کے وصال سمیت دوزخ بھی نصیب ہو تو بھی نہایت ہی خوش قسمتی ہے۔ (اسرارِ قادری)
عشق والوں سے معاملہ بھی جُدا ہوتا ہے علمائے محض سے اور طرح بات ہوتی ہے اور عشاق کے ساتھ دوسرے طریقہ سے گفتگو کی جاتی ہے۔ چنانچہ جب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج سے مشرف ہو کر واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے عاشقوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ کو کس صورت میں دیکھا؟ فرمایا مَنْ رَانِیْ فَقَدْ رَاَئیَ الْحَقْ ( جس نے مجھے دیکھا اس نے گویا اللہ تعالیٰ ہی کو دیکھا) بعد ازاں علما نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کو دیکھا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق میں وَمَا ےَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی (سورۃ النجم) (ترجمہ: اور نبی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتا) وارد ہے۔ فرمایا : تَفَکَّرُوْا فِیْ اٰےٰتِہٖ وَلاَ تَفَکَّرُوْا فِیْ ذَاتِہٖ ( اس کی آیات میں تفکر کرو لیکن اس کی ذات کی بابت نہیں) ۔ ( محبت الاسرار)
محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی سیّد نا غوث الاعظمؓ اپنے رسالہ اسرارِ الٰہیہ الرسالۃ الغوثیہ میں بیان فرماتے ہیں ’’میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا پھر میں نے سوال کیا ’’اے ربّ عشق کے کیا معنی ہیں؟‘‘ فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! عشق میرے لیے کر، عشق مجھ سے کراور میں خود عشق ہوں اور اپنے دل کو، اپنی حرکات کو میرے ماسویٰ سے فارغ کر دے۔ جب تم نے ظاہری عشق کو جان لیا پس تم پر لازم ہوگیا کہ عشق سے فنا حاصل کرو کیونکہ عشق‘ عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ ہے پس تم پر لازم ہے کہ غیر سے فنا ہو جاؤ کیونکہ ہر غیر عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ ہے۔‘‘
حضرت رابعہ بصری ؒ کا قول ہے :
سجدہ مستانہ ام باشد نماز
دردِ دِل با او بود قرآنِ من
ترجمہ: مستانہ وار محبوب کو سجدہ کرنا عاشقوں کی نمازِ حقیقی ہے اوردرد بھرے دل کے ساتھ محبوب کے ہمراہ رہنا میرا قرآن پڑھنا ہے۔
* خواجہ حافظؒ فرماتے ہیں:
جو شخص دل میں اللہ کا عشق نہیں رکھتا یقیناًاس کی عبادت بے سود اور مکروریا ہے۔ (دیوانِ حافظؒ )
میاں محمدبخش صاحبؒ فرماتے ہیں:
جنہاں عشق خرید نہ کیتا ایویں آبھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے
ترجمہ: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا ان کی زندگی فضول اور بے کار گزری اور عشق کے بغیر انسان اور کتے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
* علامہ اقبالؒ بھی تمام عارفین کی طرح عشق کے بغیر ایمان کو نامکمل قرار دیتے ہیں:
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات
ترجمہ: عقل و دل اور نظر کو اللہ کی طرف راستہ دکھانے والا پہلا رہنما عشق ہے اگر عشق نہ ہو تو اسلامی قوانین اور مذہبی ارکان نماز، روزہ وغیرہ کافرانہ و مشرکانہ خیالات کا بت خانہ ہے اگر دل میں لوگوں اور اشیا کی محبت کے بت یا اپنی خواہشات کے بت رکھ کر اللہ کی عبادت کی جائے تو وہ عبادت نہیں بلکہ بت پرستی ہے کیونکہ عبادت صرف جسم سے نہیں بلکہ دل اور روح سے کی جاتی ہے۔
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
اس شعر میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صدق اور واحدانیت پر یقین جس کی وجہ سے انہیں آگ میں ڈال دیا گیا اور آگ آپ پر ٹھنڈی ہوگئی‘ عشق کی بدولت تھا، آگ میں کود جانے کی ہمت بھی عشق سے ملی اور آگ کی تپش بھی عشق کی شدید آتش کی وجہ سے آپؑ پر ٹھنڈی ہوگئی۔ معرکہ کر بلا میں حضرت امام حسینؓ کا صبر بھی عشقِ حقیقی کی بدولت تھا جس نے انہیں تسلیم و رضا کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا دیا۔
نفس اور روح کی جنگ جس میں کبھی نفس اور اس کی خواہشات غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی روح اور اس کی نورانیت۔ نفس و روح کی یہ جنگ بھی عشق ہی کی بدولت ہے۔ جن لوگوں کو عشقِ حقیقی حاصل نہیں ہوتا ان میں یہ جنگ بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان کا نفس ہمیشہ ان کی روح پر غالب رہتا ہے۔اسطرح مقامِ بدر و حنین پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قیادت میں صحابہ کرامؓ نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق میں سرشار ہو کر جنگیں لڑیں اور فتح پائی۔
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم ؑ عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
ترجمہ: ’’جس طرح حضرت ابرہیم ؑ نے بتوں کو توڑ دیا اسی طرح عشق بھی وجود اور انا کے بتوں کو توڑ دیتا ہے۔ یعنی عشق کی مستی عقل کیلئے دوا کا کام کرتی ہے۔‘‘
عقل اللہ کی نعمت ہے جو اللہ نے انسان کو اس لیے دی تاکہ وہ اس کائنات میں موجود اللہ کی نشانیوں پر غور کر کے اللہ کو پہچانے لیکن انسان کی عقل اس دنیا میں ہی پھنسی رہتی ہے اور اس کی رنگینیوں میں ہی مدہوش رہتی ہے جب عشقِ حقیقی کی دوا ملتی ہے تو اسے ہوش آتی ہے اور انسان اللہ تک پہنچتا ہے۔ آپ ؒ پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عشق کے جہاں میں ہر ایک کو اپنا مقام خود پیدا کرنا پڑتا ہے یہاں حسب نسب کام نہیں آتے۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اقبالؒ کے نزدیک عشق ہی انسان کی تربیت کرتا ہے او ر اس کے اندر سے غیر اللہ کو نکال کر اسے بارگاہِ حق کے لائق بناتا ہے۔
عشقِ حقیقی (ابیاتِ باھوؒ کی روشنی میں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں علم اور عقل عشقِ الٰہی کی راہ کی بڑی کمزوری ہے۔ عشقِ الٰہی میں وہ لطف و سرور ہے کہ اگر کسی عالم کو اس کا ذرا سا مزہ مل جائے تو وہ تمام علمیت بھول کر عشقِ الٰہی میں گم ہو جائے۔
مزید فرماتے ہیں جان لو ’’جب اللہ واحد نے حجلۂ تنہائی وحدت سے نکل کر کثرت میں ظہور فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن و جمال کے جلوؤں کو صفائی دے کر عشق کا بازار گرم کیا جس سے ہر دو جہان اس کے حسن و جمال کی شمع پر پروانہ وار جلنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے میم احمدی کا نقاب اوڑھا اور صورتِ احمدیؐ اختیار کرلی۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ راہِ فقر میں عشق کو سب سے اہم مقام قرار دیتے ہیں اور آپؒ کے پنجابی ابیات میں زیادہ ترابیات عشق کے ہی موضوع پر ہیں:
عشق دِی بھاہ ہڈاں دا بالن، عاشق بہہ سکیندے ھُو
گھت کے جان جگر وچ آرا، ویکھ کباب تلیندے ھُو
سرگردان پھرن ہر ویلے، خون جگر دا پیندے ھُو
عاشق ہوئے ہزاراں باھوؒ ، پر عشق نصیب کیندے ھُو
مفہوم: عشق وہ آگ ہے جو معشوق کے علاوہ سب کچھ جلا دیتی ہے۔ اس آگ میں پڑ کر عاشق بھی آگ بن جاتا ہے۔ اس کی ہڈیاں جل رہی ہوتی ہیں اور اس کی جان و جگر اس آگ میں جل کر کباب ہو جاتے ہیں۔ یہ عاشقِ ذات ہر وقت وحشت و پریشانی میں سرگردان‘ بے چین و بے قرار رہتے ہیں مگر ان ہزاروں عاشقوں میں سے ذاتِ حق کا عشق (محبوبیت) کسی خوش نصیب کو ہی حاصل ہوتاہے۔
عاشق ہونویں تے عشق کمانویں، دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھُو
لکھ لکھ بدیاں تے ہزار الاہمے، کر جانیں باغ بہاراں ھُو
منصور جیہے چک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھُو
سجدیوں سر نہ چائیے باھُوؒ ، توڑے کافر کہن ہزاراں ھُو
مفہوم: اگر تو عاشق ہے او ر عشق کی راہ میں کامیابی ، کامرانی چاہتا ہے تواپنے آپ کو قوی اور مضبوط رکھ۔ راہِ عشق میں تو لاکھوں بدنامیاں اور ہزاروں طعنے خوشی خوشی برداشت کرنا پڑتے ہیں یہ کوئی آسان راہ نہیں ہے منصور حلاجؒ کو رازِ حقیقی سے واقف ہونے پر ہی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اگر ایک دفعہ مرشد کامل کی غلامی نصیب ہوجائے تو پھر سر کو اس در سے ہٹانا نہیں چاہیے خواہ دنیا کافر ہی کیوں نہ کہتی رہے۔
عشق اسانوں لسیاں جاتا، لَتھا مَل مہاڑی ھُو
ناں سووے ناں سون دیوے، جیویں بال رہاڑی ھُو
پوہ مانہہ دے وچ منگے خربوزے، میں کتھوں لے آواں واڑی ھُو
عقل فکر دیاں بھل گیاں گلاں باھو ؒ ، جداں عشق وجائی تاڑی ھُو
مفہوم: عشقِ حقیقی اس کمزور اور نا تواں جان پر پورے زور وشور سے حملہ آور ہو چکا ہے اور اس نے وجود پر اس حد تک غلبہ پالیا ہے کہ دیدارِ یار کی تڑپ میں نہ تو خود سوتا ہے اور نہ ہمیں سونے دیتا ہے اور راہِ عشق کی رسومات اور امتحانات کے بغیر ہی جلد از جلد وصال چاہتا ہے جبکہ یہ مقام اور منزل تو ابھی دور ہے لیکن جب عشقِ حق تعالیٰ نے ہمیں راہ دکھائی تو عقل اور فکر کو ہم نے چھوڑ دیا۔
عاشق دا دِل موم برابر، معشوقاں وَل کاہلی ھُو
طاماں ویکھ کے تُر تُر تَکّے، جیوں بازاں دِی چالی ھُو
باز بے چارا کیونکر اُڈّے، پیریں پیوس دُوالی ھُو
جیں دِل عشق خرید نہ کیتا باھوؒ ، دُوہاں جہانوں خالی ھُو
مفہوم: عاشقوں(طالبانِ مولیٰ) کے دِل تو موم کی طرح نرم اور نازک ہوتے ہیں وہ معشوق (ذاتِ حق تعالیٰ) سے ملاقات کرنے کے لیے جلد باز ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہر وقت بے چین اور بے سکون رہتے ہیں۔وہ دیدارِ حق کے لیے حسرت بھری نگاہ سے فضل و کرم کے انتظار میں رہتے ہیں کیونکہ خود تو وہ بشری اور دنیاوی پابندیوں اور بندشوں میں جکڑے ہوتے ہیں اور راز کو آشکار نہیں کر سکتے۔ جس نے عشقِ ذات کا سودا نہ کیا وہ دونوں جہانوں میں خالی ہاتھ رہا۔
اس راستے میں طالبانِ مولیٰ کیلئے بہت سی مشکلات اور آزمائشیں پیش آتی ہیں اس کیلئے طالبانِ مولیٰ کو اپنا دل مضبوط رکھنا چاہئے اور ہمت سے کام لینا چاہئے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ ہم تمہیں آزمائیں گے تمہاری جان سے، مال سے، اولاد سے۔ اس راہ میں تو لوگوں کے طعنے اور کوسنے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
عشق جنہاندے ہڈیں رَچیا، اوہ رہندے چُپ چپاتے ھُو
لُوں لُوں دے وِچ لکھ زباناں، اوہ کر دے گُنگی باتے ھُو
اوہ کر دے وضو اسمِ اعظم دا، تے دریا وحدت وِچ ناتے ھُو
تداں قبول نمازاں باھوؒ ، جداں یاراں یار پچھاتے ھُو
مفہوم: عشق جن کے پورے وجود میں سرایت کر چکا ہو اُن کا تمام وجود عشق بن جاتا ہے اور وہ رازِ حقیقی سے واقف ہونے کے باوجود خاموش رہتے ہیں حالانکہ اُن کے لوں لوں میں لاکھوں زبانیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ گونگے بن کر رہتے ہیں۔ بات کرنی پڑے تو رُک رُک کر عاجزی سے بات کرتے ہیں۔ وہ ایسے عاشق ہیں جو اسمِ اعظم سے وضو کرتے ہیں اور دریائے وحدت میں غوطہ زن رہتے ہیں ۔نماز یں تو اُسی وقت قبول ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔
عشق دریا محبت دے وچ، تھی مردانہ ترئیے ھُو
جِتّھے لہر غضب دیاں ٹھاٹھاں، قدم اُتھائیں دھرئیے ھُو
اوجھڑجھنگ بلائیں بیلے، ویکھو ویکھ نہ ڈرئیے ھُو
نام فقیر تد تھیندا باھوؒ ، جد وِچ طلب دے مرئیے ھُو
مفہوم: راہِ فقرجو اصل میں عشق کی راہ ہے‘ میں مردانہ وار بڑھتے چلے جانا چاہیے۔ راہِ عشق کے بڑے بڑے امتحانات اور آزمائشوں میں بے خطر کود پڑنا چاہیے کیونکہ جتنی جلدی بڑی بڑی مشکلات اور امتحانات سے گزریں گے اتنی جلدی دیدارِ حق تعالیٰ حاصل ہو گا۔ خطرات اور صعوبتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے اور فقیر تو نام ہی اُن کا ہوتا ہے جو طلبِ مولیٰ میں جان دے دیتے ہیں۔
عشقِ مجازی
عشقِ حقیقی کے لیے عشق مجازی کا ہونا ضروری ہے اور عشقِ مجازی سے مرادمرشدِ کامل اکمل کی ذات سے عشق ہے۔ آج کے دور میں لوگوں نے عشقِ مجازی کا کچھ اور ہی مطلب لیا ہوا ہے اور مرشد کے وسیلہ اور ضرورت و اہمیت سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی انجان ہیں۔ مرشد کامل ہی عشقِ حقیقی کے جذبہ سے روشناس کراتا ہے جس کیلئے وہ سب سے پہلے معرفتِ حق تعالیٰ سے مشرف کرتا ہے اور پھر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری عطا فرماتا ہے اسی لیے طالبِ مولیٰ اپنا یقین و توکل مرشد کی ذات پر برقرار رکھتا ہے اور اس کی ذات کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ ایسی صورت میں مرشدِ کامل اکمل بھی اسمِ اللہ ذات کے نور سے صادق طالبانِ مولیٰ کے باطن کو منور کرتا ہے اور ان کو عشقِ حقیقی کی لذت سے بہرہ ور کرتا ہے۔
حضرت شاہ شمس تبریزؒ فرماتے ہیں:
عشق معراج است سوئے بام سلطانِ ازل
از رخِ عاشق فرد خواں قصہ معراج را
ترجمہ:عشقِ حقیقی ہی بارگاہ ایزدی میں باریابی دلاتا ہے اگر معراج کی داستانِ حقیقی پڑھنا ہے تو کسی عاشق صادق کے چہرہ پر نظر جماؤ۔ مولانا جامیؒ کا قول ہے کہ اگر تجھے ذاتِ مرشد کا عشق نصیب ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی جان کیونکہ یہ ذاتِ حق کے عشق تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔
غنیمت داں اگر عشق مجازیست
کہ از بہر حقیقت کارسازیست
ترجمہؒ اگر تجھے عشقِ مجازی (مرشد سے عشق) حاصل ہے تو خود کو خوش قسمت سمجھ کہ مرشد سے عشق ہی عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔
حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں نیواں میرا مرشد اُچا اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں اُنہاں اُچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی
ترجمہ: میں بہت عاجز اور عام آدمی تھا لیکن مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میرا مرشد کامل اور اکمل ہے اور انہوں نے مجھ عاصی پر اپنی شان کے مطابق مہربانی کی اور آخر تک اپنی غلامی میں رکھا اور مجھے میری منزل (عشقِ حقیقی) تک پہنچایا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
گرد مستاں گرد، گرمے کم رسد بوئے رسد
بوئے او گرکم رسد، رویتِ ایشاں بس است
ترجمہ:مستوں کے گرد گھومتا رہااگر محبت کی شراب نہ ملے تو کم از کم اس کی بُو تو حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ بھی نہ ملے تو ان کا دیدار ہی کافی ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
عاشقاں را شد مدرس حسن دوست
دفتر و درس و سبق شان روئے اوست
ترجمہ: محبوب کا حسن ہی عاشقوں کا مدرسہ بن گیا انکی کتاب ، درس اور سبق اس کا چہرہ ہوتا ہے۔
عشقِ حقیقی کے سفر پر چلنے کیلئے طالبِ مولیٰ کے لیے اپنا ہاتھ مرشد کامل اکمل کے ہاتھ میں دینا لازمی ہے جو بھی عشق کے راستے پر چلا ہے وہ مرشدِ کامل اکمل کے بغیر نہیں چلا۔ اس موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ایک فقیر ِ کامل کی حیثیت سے موجود ہیں جو بھی اللہ کو پانا چاہتا ہے تو اس کے علاوہ اور کوئی سچا راستہ نہیں ہے۔ اللہ پاک سب کو اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین