Khashiat-e-Elahi

خشیتِ الٰہی–Khashiat e Elahi

Spread the love

4/5 - (1 vote)

خشیتِ الٰہی

تحریر: فائزہ سعید۔ زیوچ (سوئٹرزر لینڈ)

قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* اِنَّ الَّذِےْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْےَۃِ رَبِھّمْ مُّشْفِقُوْنَo وَالَّذِےْنَ ھُمْ بِاٰےٰتِ رَبِّھِمْ ےُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِےْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لَا ےُشْرِکُوْنَo وَالَّذِےْنَ ےُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَo اُولٰٓءِکَ ےُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَےْرَاتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون۔57-61)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اپنے ربّ کی خشیت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے ربّ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے ربّ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں۔
خشیت کے معنی خوف کے ہیں اور خشیتِ الٰہی سے مراد اللہ کا خوف۔ خشیتِ الٰہی دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اللہ کا ایسا خوف جس میں محبت اورا حترام کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اللہ کا ایسا خوف جو اللہ کے قرب، بخشش اور رحمتوں کے حصول کا باعث بنے نہ کہ وہ خوف جو اللہ سے دور کر دے ۔ ابوالقاسم العلیم کا قول ہے کہ خوف دو قسم کا ہے۔
1 ۔ رھبہ
2 ۔ خشیہ
صاحبِ الرھبہ جب کسی سے ڈرتا ہے تو بھاگ جاتا ہے اور صاحبِ الخشیہ جب ڈرتا ہے تو اپنے ربّ سے دعا کرتا ہے۔ ابو حفص نے خشیت کی تشریح یوں فرمائی ہے ’’ قلبِ مومن میں خشیت وہ شمع ہے جس کی روشنی کی بدولت وہ خیروشر میں فرق کر سکتا ہے۔‘‘
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِےْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِےَتْ عَلَےْھِمْ اٰےٰتُہٗ زَادَ تْھُمْ اِےْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ ےَتَوَکَّلُوْنَo (الانفال۔ 2-3 )
ترجمہ: ایمان والے صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے)خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں ) اپنے ربّ پر توکل (قائم) رکھتے ہیں۔
* وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن۔ 46)
ترجمہ: ’’اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور (پیشی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
* وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo( النزعت۔ 41-40 )
ترجمہ: ’’ اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اس نے (اپنے) نفس کو (بُری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بے شک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگا۔‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی بارہا خشیتِ الٰہی کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے:
* حضرت انس بن مالک رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ الٰہی کی بنا پر اس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘ ( امام حاکم، ابنِ ابی شیبہ اور طبرانی)
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان باتوں میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہیں‘ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے میری عزت کی قسم ہے میں اپنے بندے میں دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا اگر اس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن خوف دوں گا‘‘۔( طبرانی۔ بیہقی)
* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب اللہ ربّ العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی ’’اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دن صحابہؓ میں یہ آیت تلاوت فرمائی ایک نوجوان یہ آیت سن کر بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اے نوجوان کہو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس نے یہ کلمہ پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا وہ ہم میں سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ’’یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدہ(عذاب ) سے خائف ہوا۔‘‘ ( سورۃ ابراہیم۔14)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آیت ’’ والذی یوتون ما اتواو قلوبھم وجلۃ‘‘ (اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ وہ دے سکتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں) کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے صدیق کی بیٹی! نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نیکیاں قبول نہ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوبھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
حقیقی مومنین تو وہ ہیں جو مقدور بھر عمل کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کہ معلوم نہیں ہمارے اعمال اللہ کے ہاں مقبول ہوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ قصوروار نکل آئیں اور یہ نیکیاں رَدّ کر دی جائیں۔ خوف کی اصل وجہ گناہ نہیں بلکہ وہ احساس ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے حقوق کی اہمیت کے بارے میں وہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ایک مومن کے دل میں خوف کی اس کیفیت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ آدمی کسی بھی حال میں بے خوف اور مطمئن نہ بیٹھا رہے اسے اللہ تعالیٰ سے اچھی اُمید بھی ہو مگر وہ اللہ کی بے نیازی کی صفت سے لرزاں بھی رہے، ایسے ہی لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھتے ہیں۔
نیوٹن جب دنیا میں اپنی نت نئی ایجادات کی وجہ سے بہت ترقی پا چکا تھا اس وقت اس نے اس بات کو سمجھ لیا تھا اور کہا تھا’’ ہم جو کچھ معلوم کر سکے ہیں وہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے جن رموز سے ہم ناواقف ہیں۔ ہماری حالت اس شخص کی ہے جس کے ہاتھ میں سمندر کی چند گھونگھیاں آگئی ہیں جبکہ سمندر میں ابھی بے شمارقیمتی خزانے موجود ہیں۔‘‘ نیوٹن کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ فطرت کے جو قوانین اس نے دریافت کیے ہیں وہ ان کے سامنے کچھ بھی نہیں جو ابھی اس سے پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح جب مومن کو اس کا احساس ہو جاتا ہے کہ اس کے ذمہ کتنے کام ہیں جو وہ کرسکتا تھا مگر یوں ہی پڑے ہیں اور جو کام اس نے کیے ہیں وہ اس عظمت و جلال والے ربّ کے ہاں قابلِ قبول بھی ہیں کہ نہیں‘ اس وقت اس پر خشیتِ الٰہی کی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ روئے اور گڑگڑائے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّےْطٰنُ ےُخَوِّفُ اَوْلِےَآءَہٗ ص فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِےْنَ (سورۃ آلِ عمران۔175 )
ترجمہ: یہ(خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو توا ن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
* ےَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَےَفْعَلُوْنَ مَا ےُؤْمَرُوْنَ ( سورۃ النحل۔ 50 )
ترجمہ: اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے، سے ڈرتے ہیں جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات میں گناہگاروں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ مومنین کا ذکر ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ خوفِ الٰہی کا دل میں ہونا مومن کی شان ہے۔ مومنین ہی ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اچھے اعمال کے بعد یہ خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کیا کوئی پاکیزہ، معصوم اور محبوب ہستی ہوگی وہ جن میں اپنی ہی جھلک دیکھنے کے بعد اللہ کو اتنا پیار آیا کہ اس نے ساری کائنات تخلیق فرما دی۔ جن کی شان میں قرآن اتارا اور ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اے محبوب کہہ کہ مخاطب کیاگیا یعنی جو محبوبیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل بھی خشیتِ الٰہی سے لبریز تھا۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھبرا کر اس طرح خوف سے کھڑے ہوگئے کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں آئے اور نماز میں طویل قیام، رکوع اور سجدہ کیا ۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے ان نشانیوں کو بھیجتا ہے جب تم اس قسم کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا اور استغفار کی پناہ میں آؤ۔‘‘ (متفقہ علیہ)
یہاں مزید ایسے مومنین کا ذکر کرتے ہیں جو بندگی میں کمال حاصل کر چکے تھے لیکن خوفِ الٰہی ان کے سینوں میں ایسے ٹھاٹھیں مارتا تھا کہ کسی پل بھی سکون میں نہ تھے جن کے بارے میں قرآنِ پاک میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:
* وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْےُنَھُمْ تَفِےْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّج (سورۃ المائدہ۔83 )
ترجمہ: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اترا (یعنی قرآن ) تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے لبریز ہیں اس لیے کہ انہیں حق کی معرفت حاصل ہو گئی ہے۔
حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ خشیتِ الٰہی کے تحت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اگر یہ صدا بلند ہوئی کہ سوائے ایک شخص کے سب جنت میں جائیں گے تو مجھے خوف ہے کہ وہ میں ہی نہ ہوں۔ کبھی کسی باغ سے گزرتے تو فرماتے کاش میں سبزہ ہوتا جسے چرند پرند کھا گئے ہوتے تو اللہ کے حساب کتاب سے بچ جاتا۔ خشیتِ الٰہی کے باعث راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اتنا روتے کہ ہچکیاں بندھ جاتی اور چہرے کا رنگ زرد پڑجاتا۔
حضرت عمر فاروقؓ کے خوف کا یہ عالم تھا کہ اینٹ اُٹھا کر فرماتے کاش میں بھی اینٹ ہوتا عمارت میں لگا دیا جاتا اور روزِ قیامت حساب کتاب سے بچ جاتا۔ ایک روز آپؓ سورۃ التکویر کی تلاوت فرما رہے تھے جب ’’واِذَالصُّحُفُ نُشِرَتْ‘‘ یعنی ا’’ور جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے‘‘ تو خوف سے بے ہوش ہوگئے۔ اور جب ہوش میں آئے تو اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کو خشیتِ الٰہی نے اس قدر عاجز بنا دیا تھا کہ ایک دن لکڑیوں کا گٹھا اُٹھا لیا اور چل پڑے۔ لوگوں نے کہا حضور غلام اُٹھا لیتے، تو فرمایا کہ سوچا اپنے نفس کو آزما لوں کہیں غلامی کی حیثیت کو بھول تو نہیں گیا۔ جب کسی قبر کے قریب سے گزرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک بھیگ جاتی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا نماز کے اوقات میں چہرۂ مبارک متغیر ہوجاتا اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ جب کوئی پوچھتا تو فرماتے اللہ کے سامنے حاضر ہونے لگا ہوں پتہ نہیں اللہ قبول بھی فرماتا ہے کہ نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں صالحین کی علامت یہ ہے کہ ان کی رنگت خشیتِ الٰہی کے باعث زرد ہوتی ہے اور رو رو کے آنکھیں چندھیائی ہوتی ہیں اور ہونٹ پژمردہ رہتے ہیں۔ مزید فرمایا خشیتِ الٰہی ایک ایسا راستہ ہے جسے اپنائے بغیر کسی نے اپنے مولا کو نہیں پایا۔
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
حضرت رابعہ بصریؒ خوفِ الٰہی کے باعث ہر وقت روتی رہتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ میں اللہ کے فراق سے خوفزدہ ہوں جس کو محفوظ تصور کرتی ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ دمِ نزاع یہ ندا آئے کہ تُو لائقِ بارگاہِ الٰہی نہیں۔
جب میں نے اپنے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے خوفِ الٰہی کے بارے میں سوال کیا تو فرمانے لگے کہ خوفِ الٰہی کے باعث رو رو کر آنکھوں کے گرد حلقے پڑ جائیں۔ مزید فرمایا کہ خشیتِ الٰہی مومن کا زیور ہے۔ جس کی آنکھوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو نہ آئے وہ اپنے آپ کو طالبِ مولیٰ نہ سمجھے۔ پھر ایک حدیثِ مبارکہ بیان فرمائی کہ اللہ کو دو ہی قطرے پسند ہیں۔ ایک شہید کے خون کا اور دوسرا اللہ کے خوف سے گرا آنسو۔ آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے فرمایا اللہ کو مضطرب دل پسند ہے۔ وہ مضطرب دل جو کہ خشیتِ الٰہی سے لبریز ہو، اللہ ایسے دل کی دعا بہت جلد قبول فرماتا ہے۔ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے اسی ڈر کی وجہ سے وہ ہر بُرے کام سے بچا رہے گا۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ مومن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرتا کیونکہ نیکیوں پر فخر کرنا تو منافق کی نشانی ہے مومن تو ہر کام اللہ کے حکم کے مطابق کرنے کے باوجود اسی خوف میں رہتا ہے کہ میں ویسے نہیں کر پایا جیسے اللہ چاہتا تھا اور پتہ نہیں بارگاہِ الٰہی میں اس کام کی قبولیت ہوگی بھی یا نہیں۔ جتنا زیادہ خوفِ الٰہی دل میں ہوگا اتنی ہی عاجزی پیدا ہوگی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’بے شک اللہ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔‘‘
آپ مدظلہ الاقدس نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا یہاں ’’علم والے‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی معرفت رکھتے ہیں۔ جو اللہ کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہی اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں ۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* اہلِ اللہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، جو کام بھی کرتے ہیں ان کے دل خوف زدہ ہی رہتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں وہ اچانک نہ پکڑ لیے جائیں اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا ایمان ان کے پاس عاریت نہ ہو۔ (الفتح الربانی ۔ مجلس61 )
* خوفِ خداوندی دل کا کوتوال ہے اور دل کو نور بخشنے والا، وضاحت و شرح کرنے والا ہے اگر تو اسی حالت پر قائم رہا تو یقیناًتو نے دنیا اور آخرت میں سلامتی کو رخصت کردیا ۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 56)
* اولیا کرام بڑے خطرے میں رہتے ہیں۔ ان کا خوف اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر کے سکون حاصل نہ کر لیں۔ اس لیے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا اس کا خوف اور زیادہ بڑھ گیا اور اس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ کو تم سے زیادہ پہچاننے والا اور تم میں سب سے زیادہ خوف کرنے والا ہوں۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس۔49 )
* ’’خدا کا خوف لازم رکھ! خدا کے سوا کسی سے نہ ڈر اور نہ ہی اس کے سوا کسی سے امید رکھ۔ ‘‘
حضرت ذوالنّون مصریؒ فرماتے ہیں:
* ’’عاشق کو محبت کا جام اس وقت پلایا جاتا ہے جب خوف اس کے دل کو پختہ اور مضبوط بنا دیتا ہے۔‘‘
* حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’ پانچ چیزیں تزکیہ قلب کا ذریعہ ہیں خوفِ الٰہی، اللہ سے امید وابستہ رکھنا، صرف اللہ سے حیا رکھنا، صرف اللہ سے محبت رکھنا اورانس باللہ۔‘‘
* مزید فرمایا’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔‘‘
* حضرت ابو حفص رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’ اللہ کا خوف ایسا کوڑا ہے جس سے اللہ بدکے ہوؤں کو سیدھا کرتا ہے۔‘‘
* حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’ خوف ایک فرشتہ ہے جو صرف متقی کے دل میں رہتا ہے۔‘‘
* حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں ’’ایماندار شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے تمام اعضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے خوفزدہ رہے۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)
* حضرت ابواللیت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ساتویں آسمان پر ایسے فرشتے موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت سے ان کی تخلیق فرمائی ہے وہ سجدہ میں پڑے ہیں اور تا قیامت سجدہ میں ہی رہیں گے۔ انکے پہلو خوفِ الٰہی کے باعث کانپتے ہیں۔ وہ روزِ قیامت اپنے سر سجدے سے اُٹھا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے اے اللہ تو پاک ہے ہم ایسی عبادت نہیں کر سکے جیسا تیرا حق تھا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’وہ خوفزدہ ہیں اپنے ربّ سے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے یعنی وہ اللہ سے بے خوف نہیں ہیں (بلکہ ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں)‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’جب بوجہ خوفِ الٰہی بندے کا بدن کانپ اُٹھتا ہے تو اس کے گناہ یوں جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ (مکاشفتہ القلوب)
اللہ کا خوف اللہ کے قرب، بخشش، نجات اور رحمتوں کے حصول کا راستہ ہے جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ج فَسَأَکْتُبُھَا لِلَّذِےْنَ ےَتَّقُوْنَ وَ ےُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِےْنَ ھُمْ بِاٰےٰتِنَا ےُؤْمِنُوْنَo (سورۃ الاعراف آیت156 )
ترجمہ: اور میری رحمت ہر چیزکو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو متقی ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
جیسے پانی گندگی کو صاف کر دیتا ہے اسی طرح اللہ کی خشیت کے باعث آنکھوں سے بہنے والے آنسو اپنے ساتھ دل کی ساری کثافتیں بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔ رونے کے باعث دل کی زمین اتنی نرم اور زرخیز ہوجاتی ہے کہ عشقِ الٰہی کا پودا بہت جلد اُگ آتا ہے۔ رونا اور وہ بھی خوفِ الٰہی کے باعث تو عاجزی کی نشانی ہے۔ اپنے گناہوں کے اعتراف میں شرمندگی سے رونا اور یا پھر اس خوف میں رونا کہ پتہ نہیں ہمارے اعمال اس قابل بھی ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوں اپنے آپ کو عاجز تصور کر کے رونا اور عاجزی کے بغیر تو فقر میں ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
مرشد پاک کی محنت اور ان کے کرم سے اگر ہمیں فقر میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد بے خوف ہو جانا اور خود کو اعلیٰ سمجھنا اور ہر عمل کو بہترین قرار دینا اور جھکنے اور خوف کی حالت میں رہنے کی جگہ بے خوف ہوجانا اور معافی نہ مانگنا تکبر کی نشانی ہے۔ اور بے خوفی آغاز ہے تمام برائیوں کا جوکہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔
پر زم زم نکلتا ہے ایڑھیاں رگڑنے کے بعد
ایڑھیاں رگڑنے سے مراد اللہ کے حضور رونا گڑگڑانا ہے۔ مومن کو ہمہ وقت حالتِ خوف کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ بہت سے غلط کام ہم سے انجانے میں ایسے بھی سرزد ہو جاتے ہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہوتے مگرخدائے بزرگ و برتر جانتا ہے تو ایسے اعمال کے خوف سے معافی مانگنی چاہیے۔ اللہ ہم سب کو خوف کی وہ حالت عطا فرمائے جو اس کے قرب اور دوستی کا باعث بنے نہ کہ وہ خوف جو کہ اللہ سے دور کر دے۔
حضرت علی بن عثمان الہجویری رحمتہ اللہ علیہ (حضرت داتا گنج بخشؒ ) کشف المحجوب میں فرماتے ہیں ’’صحیح فقر کی علامت یہ ہے کہ بندہ فقر کے چھن جانے سے ڈرتا رہے۔‘‘
اور فقر کیا ہے خود ذاتِ باری تعالیٰ۔ تو حقیقی خوف اللہ سے دوری کاخوف ہے نہ کہ کسی مقام کو حاصل نہ کر سکنا اور اچھا عمل کرنے کے بعد اس خوف میں رہنا کہ پتہ نہیں اس عظیم ربّ کے معیار پر پورا اُترے گا بھی کہ نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بے خوف ہوجائیں اور یہی سوچتے رہیں کہ ہم نے تو اعلیٰ کام کردیا ہے اور ایسی بے خوفی ایک طرح تکبر کی علامت ہے اور اسی بے خوفی کی وجہ سے قیامت کے روز ہمارے تمام اعمال ہمارے منہ پر مارے جائیں گے۔
اور مرشد پاک شانِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا یہ قول ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں ’’جس کی آنکھ میں اللہ تعالیٰ کے خوف کے باعث آنسو نہ آئے وہ اپنے آپ کو طالبِ مولیٰ نہ سمجھے۔ ‘‘
اللہ پاک ہمیں اپنے مرشد پاک کی باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں