ناقص مرشد
تحریر: رافعیہ گلزار سروری قادری(لاہور)
ارشادِ باری تعا لیٰ ہے:
* وَا تَّبِعْ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ
ترجمہ: پیروی کرو اس (کے طریقے) کی جس نے رجوع کیا میری طرف۔‘‘
زندگی کے معاملا ت خواہ دنیاوی ہوں یا اُخروی، کسی نہ کسی راہنما کے بغیر خوش اسلوبی سے طے نہیں کیے جاسکتے۔ جہاں معاملہ قربِ الٰہی اور دیدارِ الٰہی کا ہو تو یہ راستہ تو بہت کٹھن اور دشوار گزار ہے اس کے لیے ماہر راہنما کی پہچان بہت مشکل اور دشوار جبکہ طالبِ مولیٰ کے لیے کامل راہنما (مرشد کامل اکمل) کی پہچان مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ طالبِ عقبیٰ اور طالبِ دنیا کے لیے تو یہ نا ممکن سی بات ہے۔ طالبِ عقبیٰ اور طالبِ دنیا کا زیادہ تر واسطہ ناقص مرشد سے پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ مرشد کامل سے بھی بدظن ہو کر ان کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ناقص مرشد کو فقر کی خوشبو کا بھی نہیں پتہ ہوتا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ان ناقص مرشد ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
* ’’ کچھ خود غرض لوگوں نے فقر یا تصوف کا جعلی لبادہ اوڑھ کر صوفیا کرام کو بدنام کر دیا ہے یہ کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ (شمس الفقرا)
آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں ’’ یاد رکھیں حقیقت یہ ہے کہ کھوٹے سکے وہیں بنتے ہیں جہاں کھرے سکے موجود ہوتے ہیں اور جعلی مال وہیں بنتا ہے جہاں خالص اور اصلی مال موجود ہوتا ہے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرشدِ کامل اکمل دنیا میں موجود ہوتا ہے تو ہی اس کی نقل یعنی ناقص مرشد لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے ۔ بس اس کی پہچان کے لیے نورِ بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔
ناقص مرشد پیر و فقیر کا روپ دھار کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ناقص مرشد ناکارہ اشیا کی مثل ہیں جو سب کی نظر میں نمایاں ہونے کے لیے نت نئے طریقے اپناتے ہیں جو بعض اوقات بلکہ زیادہ تر خلافِ شریعت حرکات ہیں ان کی انہی حرکات کی وجہ سے لوگ مرشدِ کامل اکمل کے بارے میں بھی وہی رائے قائم کر لیتے ہیں جو مرشدِ ناقص کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے۔
دنیاداروں کی آنکھوں پر لالچ و حرص کی پٹی بندھی ہونے کی وجہ سے وہ سوچتے ہیں کہ انہیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں ہے اور اگر کبھی ضرورت محسوس کریں بھی تو اپنے دنیاوی معاملات کے لیے ہی پیروں فقیروں کے پاس جانے کی زحمت کرتے ہیں۔ ان کی ناقص طلب ان کو ناقص مرشد کے در پر لے جاتی ہے کیونکہ ان کی طلب جہاں پوری ہوگی وہیں وہ جائیں گے۔ ناقص مرشد جھوٹے اور فریبی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے عوام الناس مرشد کامل اکمل سے بھی بدظن ہوتے ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ایسے مرشدِ ناقص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
’’یہ لوگ راہبر کی شکل میں راہزن ہیں، سادھو کی صورت میں چور، خیر خواہ کی صورت میں دشمنِ جاں، بزرگ کی صورت میں اصل شیطان اور خطرناک ترین۔‘‘ (شمس الفقرا)
ناقص مرشد کی مثال کتے کی سی ہے جو ہر وقت بھونکتا رہتا ہے اور راہگیروں کو تنگ کرتا رہتا ہے ان کو ان کی منزل تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* مرشد کامل قلب (دل)کی مانند ہوتا ہے اور مرشد ناقص کلب (کتے) کی مانند ہوتا ہے۔ ( مجالستہ النبیؐ خورد)
مولانا جلال الدین رومیؒ طالبانِ مولیٰ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’چونکہ بہت سے شیطان انسانی چہرے رکھتے ہیں اس لئے ہر ایک کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں پکڑانا چاہیے۔‘‘ آپؒ نے انسانی شیطان ناقص مرشد کو کہا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’انسانی شیطان جن شیطان سے زیادہ سخت (خطرناک ) ہے۔‘‘ ان کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دینے سے مراد ہے کہ ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے کیونکہ شرعی طور پر ان کی بیعت جائز نہیں۔ آپؒ مزید فرماتے ہیں ’’ اصل فقیر ہمیشہ شریعتِ محمدی کا پابند ہوتا ہے کیونکہ شریعت کی پابندی کے بغیر فقیری عین مکاری ہے۔‘‘ ناقص مرشد کس طرح لوگوں کو اپنے دھوکے اور فریب کے جال میں پھنساتا ہے اس کے متعلق آپؒ فرماتے ہیں ’’شکاری پرندے جیسی آواز اس لیے نکالتا ہے کہ پکڑنے والے پرندے کو دھوکا دے۔ وہ پرندہ اپنے ہم جنس کی آواز سنتا ہے اور پھنس جاتا ہے اسی طرح مکار درویش کا روپ بھر کر خلقِ خدا کو پھانستے ہیں۔ کمینے لوگ فقیروں کے الفاظ چرا لیتے ہیں تاکہ بھولے بھالے لوگوں کو ان سے پھانسا جا سکے ۔ مردوں (مرشد کامل اکمل) کاکام روشنی اور گرمی پہنچانا ہے جس سے روح کو طاقت ملے اور کمینوں کا کام دھوکہ دینا ہے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ صوفیا کرام (مرشد کامل اکمل) کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صوفیا کرام کی تین اقسام ہیں:
1 ۔ صوفی(مرشدِ کامل) : وہ ہے جو سلوک کی منازل طے کر کے پاےۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہو، فنا فی اللہ بقا باللہ ہو اور ماسویٰ اللہ سے آزاد ہو (ایسے ہی فقیر پر تلقین و ارشاد فرض ہوتی ہے)۔
2 ۔ متصوف: وہ ہے جو تصوف وطریقت کا بخوبی علم رکھتا ہو منازلِ سلوک سے واقفیت رکھتا ہو لیکن درجۂ تکمیل تک رسائی حاصل نہ کر سکا ہو (طلبِ ناقص کی وجہ سے، پھر کتب صوفیا کے مطالعہ سے ان امور سے واقف ہوگیا ہو۔)
3 ۔ مستصوف: وہ ہے جس نے دنیا اکٹھی کرنے اور مال و دولت سمیٹنے کے لیے صوفیا (مرشد کامل اکمل) جیسا حلیہ بنا رکھا ہو لیکن حقیقتاً تصوف و طریقت کی راہوں سے نا واقف ہو وہ محض ہوس کا غلام ہوتا ہے ۔
جس طرح خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اسی طرح ناقص مرشدکی محبت رکھنے والے دنیا اور دنیاوی چیزوں اور لذتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ناقص مرشد صرف اور صرف شہرت، عزت اور نیک نامی کے لیے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اہلِ دنیا کو دھوکا دیتے ہیں، ناقص اور خام مرشد کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ طالب کو آج و کل کے وعدوں پر ٹالتا رہتا ہے اور منزل (دیدارِ الٰہی اور قربِ الٰہی کی منزل) تک کبھی نہیں پہنچاتا اور نہ ہی پہنچا سکتا ہے۔ ناقص مرشد دنیا اور آخرت کو برباد کر دینے والے ہوتے ہیں یہ خود اور ان کے مرید جہنم کا ایندھن ہیں۔ دنیا دار لوگ چونکہ جھوٹے اور مکار ہوتے ہیں دھوکا دینا، مکروفریب کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے اسی لیے ان کے مرشد بھی جھوٹے، مکار، فریبی اور دھوکے باز ہوتے ہیں۔ اگر مرشد کی صحبت میں طالب دنیا کی ہوس کو اپنے اندر بڑھتے ہوئے محسوس کر رہا ہے یا اس کی توجہ دنیا سے ہٹ کر اللہ کی طرف نہیں ہو رہی تو اسکا مرشد ناقص ہے۔ خالص طلب صرف اور صرف اللہ کا قرب حاصل کرنے کی طلب ہے۔ جہاں اور جس کی صحبت میں یہ طلب پوری ہوتی ہوئی لگے وہی مرشد کامل ہوتا ہے اگر یہ طلب پوری نہ ہو رہی ہو تو فوراً مرشد بدل لینا چاہئے،ناقص مرشد کی محبت طالبِ مولیٰ کے لیے بے سکونی، بے چینی اور بے قراری کا باعث بنتی ہے جبکہ دنیا دار کے لیے راحت کا۔ ناقص مرشد کی صحبت سے روح مرجاتی ہے اور نفس پروان چڑھتا ہے اور نفس برائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور بھلائی سے روک دیتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* ’’ پس مرشدکسے کہتے ہیں ؟ جو دل (روح، قلب) کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے اور جب طالب پر جذب وغضب کی نگاہ ڈالے تو اس کے دل کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے ۔(عین الفقر)
مرشدِ ناقص روح کو میلا کچیلا کر دیتا ہے جبکہ مرشد کامل تو بہتے ہوئے پانی کی مثل ہے جو طالب کے تمام بُرے اعمال کو بہا لے جاتا ہے ۔ آج کل کے ظاہر پرست اور مادہ پرست دور میں ناقص مرشدان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ ناقص مرشد کی بہت سی اقسام ہیں:
* ناقص مرشد کی ایک قسم یہ ہے کہ وہ تعویذ گنڈوں کا کام کرتے ہیں لوگ کاروبار میں اضافے، مال میں اضافے وغیرہ کے لیے تعویذوں کا سہارا لیتے ہیں ان کی یہ طلب ان کو تعویذ گنڈوں والے مرشد کے پاس لے جاتی ہیں لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو تعویذ گنڈوں سے مال یا کاروبار میں اضافے کی بجائے کمی آتی ہے کیونکہ اس قسم کے ناقص مرشد پیسے لے کر تعویذ دیتے ہیں یعنی تعویذوں کی خریدوفروخت کا کاروبار خوب چلتا ہے۔یہی لوگ بانڈ اور سٹہ بازی کے نمبر معلوم کرنے کے لیے بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر ان لوگوں کے پاس علم ہوتا تو خود نہ امیر ہوتے یا ساری دنیا ان کے قدموں میں ہوتی ۔ بعض خواتین بھی ان کا کاروبار چمکانے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں ساس بہو کے خلاف اور بہو ساس کے خلاف تعویذ کرنے میں مصروفِ عمل ہوتی ہے۔ کچھ خواتین تو اپنے شوہروں کی اولاد نرینہ کی تڑپ کی وجہ سے ان ناقص مرشدوں کے در پر جاتی ہیں۔ ان کم عقل، نا سمجھ اور بے وقوف لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ مال و دولت، عزت و شہرت، اولاد سب کچھ صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں، جنہیں نہ اللہ کی خبر ہے نہ اللہ کی رضا کی۔
* ناقص مرشد کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ وہ پیری مریدی کی آڑ میں سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے مریدوں کے نام پر ووٹرز تیار کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی کامیابی لازمی ہو مرید بھی چونکہ اپنے مرشد کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے ان کا یہ کام آسان ہو جاتا ہے ۔
* ایک قسم ناقص مرشد کی یہ بھی ہے کہ انہیں کسی دربار کی گدی وراثت میں ملی ہوتی ہیں حقیقت میں ان کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا صرف اور صرف مزار کی کمائی پر عیش کرنا اور مریدوں سے خدمت کروانا ان کا مقصد ہوتا ہے ۔ اسی لیے گدی نشینی کی لڑائیاں ہوتی ہیں حتی کہ قتل و غارت اور عدالتوں تک معاملات پہنچ جاتے ہیں۔نسبی مرشد کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کے بغیر صرف شیخ زادہ ہونے کی وجہ سے خود کو راہبر اور پیشوا بنا لیتا ہے وہ خود بھی ضلالت (گمراہی ) میں ہے اور دوسروں کے لیے بھی مضل (گمراہ کرنے والا) ہے۔انہی لوگوں کے متعلق علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
میراث میں آئی ہے ان کو مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
ترجمہ: ان ناقصوں کو پیری وراثت میں مل گئی اور عقابوں اور شہبازکا کام اب ان کوؤں کے ہاتھ میں ہے۔
* ناقص مرشدوں کی ایک خطرناک قسم وہ ہے جو طالبوں کو اللہ، رسول، دین اور عبادات کے نام پر پھانستے ہیں اور اللہ سے ملانے کی باطنی راہ اور تصفیہ قلب کے اصل طریقہ سے بالکل نا واقف اور ناآشنا ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے تو خودکسی مرشد کی صحبت اختیار نہیں کی ہوتی۔ یہ خود بھی لاتعداد وردو ظائف میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی لاتعداد ورد و وظائف میں مصروف رکھتے ہیں جس کی وجہ سے مرید خود کو بہت نیک اور عبادت گزار سمجھنے لگتے ہیں جہاں انہوں نے تزکےۂ نفس اور تصفۂ قلب کرنا ہوتاہے وہاں الٹایہ ہوتا ہے کہ نیکیوں اورعبادات پر غرور اور تکبر اللہ کے قریب لے جانے کی بجائے مزید دور لے جاتا ہے ۔ یہ ناقص مرشد چونکہ ظاہر پرست ہوتے ہیں اسی لیے اپنے مریدوں کو ظاہر بدلنے پر زور دیتے ہیں ۔ چنانچہ یہ ناقص مرشد اپنے مریدوں کی باطنی بیماریوں کا علاج کرنا تو درکنار انہیں غرور و تکبر جیسی ناپسندیدہ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں انہیں نہ دنیا کے لائق چھوڑتے ہیں نہ دین کے، کیونکہ ان کے مریددن رات لا تعداد وظائف میں مصروف رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کی روز مرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ان ناقص مرشدوں کو تو خود راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض مرید زہد اور وظائف کے اثرات برداشت نہیں کر پاتے اور دیوانے یا مجذوب بن جاتے ہیں بعض مرید اس قدر مشقت اور عبادات سے حق نہ حاصل ہونے کی وجہ سے دین سے متنفر ہوجاتے ہیں۔
کامل مرشد
کامل مرشد اپنے مریدوں کا ظاہری حلیہ بدلنے کی بجائے ان کے قلب کا تصفیہ اور نفس کا تزکیہ کرتا ہے ، انہیں ظاہری ورد و وظائف میں اُلجھائے بغیر محض ذکر اسمِ اللہ ذات کے ذریعے قربِ الٰہی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ جس سے نہ مریدوں میں ریاکاری پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی غرور و تکبر بلکہ وہ ہمیشہ عاجزی میں رہتے ہیں ۔ وہ نہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے دنیاوی تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں۔ پس مرشد کامل اپنے مریدوں کو دین و دنیا دونوں کی بھلائی عطا کرتا ہے۔
مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس کائنات، روئے زمین اور مشائخ سروری قادری میں وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے ہر طالب کو بیعت کے پہلے روز ہی سلطان الاذکار (اسمِ اعظم ) ’’ھو‘‘ کا ذکر او ر اسمِ اللہ ذات کا نقش تصور کے لیے عطا فرماتے ہیں جس کی بدولت طالب کے لیے فقر کی انتہا پر پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے حسد، غرور، تکبر، کینہ اور نفرت جیسی بہت سی باطنی بیماریوں کو دور فرما دیتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی بارگاہ میں خلوصِ نیت اور صدق کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین