قربِ دیدار
(قسط نمبر 03)
طالب کے باشعور ہونے کی گواہی یہ ہے کہ وہ باحضور ہوتا ہے۔ اے جانِ عزیز سن لو! راہِ باطن میں معرفت و توحید تک رسائی حاصل کرنا، مراتب ِ فنا فی الشیخ، فنا فی رسول اور فنا فی اللہ کا حصول بغیر عارف باللہ مرشد کامل کے محال ہے کیونکہ تمام مراتب میں طرح طرح کے ذکر، مشاہدے اور احوال ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ موجودہ دور میں کوئی بھی ولی کامل ایسا نہیں جو دست ِ بیعت اور تلقین و ارشاد کے لائق ہو تو سمجھ لو یہ شیطانی حیلہ اور نفس کا فتنہ و فساد ہے۔ ایسا کہنے والے انا و ہوس کے مارے لوگ طالب ِ مولیٰ کو معرفت اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ جاسوس، رہزن، ڈاکہ زن، غیبت گو اور عیب جو ہوتے ہیں۔ اگرچہ ظاہر میں وہ عالم ہی کیوں نہ ہو، لیکن باطن میں جاہل ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِتَّقُوْا عَالِمَ الْجَاہِلِ قِیْلَ مَنِ الْعَالِمَ الْجَاہِلِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ عَالِمُ اللِّسَانِ وَ جَاہِلُ الْقَلْبِ ط
ترجمہ: جاہل عالم سے ڈرو، (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے) دریافت کیا ’’جاہل عالم کون ہوتا ہے؟‘‘ فرمایا ’’جو زبان کا عالم مگر دل کا جاہل ہو۔‘‘
فقیر عارف باللہ کے ظاہری اعمال پر نظر مت رکھ خواہ وہ دنیا کی نظر میں گناہ ہی کیوں نہ ہوں بلکہ ان کی باطنی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر کیونکہ اس سے تجھے قرب اور معرفت ِ الٰہی کی راہ نصیب ہوگی۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کر دیا، گری ہوئی دیوار کو بنا دیا اور بچے کو قتل کر دیا۔ یہ تینوں امور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں گناہ تھے لیکن حضرت خضر علیہ السلام عین راہِ ثواب پر تھے۔ یہ واقعہ سورۃ کہف میں مذکور ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ علم، اَنَا اور خودپسندی نے شیطان کو قربِ الٰہی اور حضوری سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سرزنش کرتے ہوئے لعنتی کا خطاب دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ (ص۔78)
ترجمہ: اور بے شک تجھ پر روزِ قیامت تک میری لعنت رہے گی۔
جبکہ اصحابِ کہف کے کتے کو محبت نے دوری سے حضوری میں پہنچا دیا اس لیے (اے طالب ِ صادق) محبت ِ الٰہی میں تو بھی کتے سے کمتر نہ ہو۔قولہٗ تعالیٰ:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل۔70)
ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔
حدیث ِ قدسی:
عَبْدِیْ تَنْعَمْ بِیْ وَاٰنِسْ بِیْ اَنَا خَیْرٌ مِنْ کُلِّ مَاسِوٰی اللّٰہِ۔
ترجمہ:اے میرے بندے، تو مجھ سے سکون پا اور مجھ سے ہی محبت کر۔ میں ماسویٰ اللہ ہر شے سے بہتر ہوں۔
عبادات کی دو قسمیں ہیں، پہلی باطنی عبادات جن کا مقصد قربِ الٰہی ہے اور جو اللہ کے ہاں بلاواسطہ پہنچتی ہیں، دوسری ظاہری عبادات جن کا پیغام فرشتے لے کر جاتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک وہی عبادت مقبول ہے جس میں تصدیق ِ قلب اور توفیق ِ روح کے ساتھ توجہ، تصرف، تفکر اور تصور کیا جائے۔ ذکر اللہ کی دو اقسام قلبی اور روحی ذکر ہیں۔ قلبی ذکر سے مراد اَلْقَطْعِ مِنْ دَارِ الْفَنَائِ اِلٰی دَارِ الْبَقَآئِ یعنی دارالفنا سے قطع تعلق کر کے دارالبقا کا رخ کیا جائے اور روحی ذکر سے مراد اِلٰی رُوْیَۃِ اللّٰہِ وَاللِّقَا یعنی اللہ تعالیٰ کی رویت اور دیدار۔
پس معلوم ہوا کہ فقیر ِ کامل اگر نیند کے عالم میں ہو تو معرفت اور نورِ الٰہی کے بے حجاب مشاہدے میں مستغرق رہتا ہے اور اگر بیداری کے عالم میں ہو تو عین بعین دیدار کی طرف متوجہ رہتا ہے جس سے اس کی روح بقا پاتی ہے اور نفس فنا ہو جاتا ہے۔ جب وہ کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ذکر، نص و حدیث اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس وقت بھی باشعور ہو کر حضوری اور مشاہدۂ دیدار ِ ذات سے مشرف رہتا ہے، اسے دیدار کے جو مراتب حاصل ہوتے ہیں انہیں مثال کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہی مکمل توحید کہلاتی ہے‘ اسی کی بنا پر اولادِ آدم کو عزت اور اُمت ِ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام انسانوں سے اشرف ہونے کا درجہ حاصل ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل۔70)
ترجمہ:اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔
تلاوت میں برکت قربِ قرآن اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر ِ رحمن سے ہے۔جان لے کہ کلمہ طیبہ کے چوبیس حروف ہیں، دن رات میں چوبیس گھنٹے ہیں اور انسان دن میں چوبیس ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے۔ چوبیس ہزار سانسوں میں سے ہر ایک سانس میں عارف باللہ، اہل ِ قرب صاحب ِ تصور اسم ِ اللہ ذات کے دل پر قرب الانوار اور تفکر کرنے سے نورِ دیدارِ ذات نازل ہوتا رہتا ہے۔ یہ صاحب ِ تصور و تفکر فقیر کے مراتب ہیں جو معرفت اور قربِ الٰہی میں عالم اور فیض و فضل میں فاضل ہوتا ہے۔ اس نور کی تپش دوزخ کی آگ سے زیادہ تیز ہوتی ہے جس سے سر سے پاؤں تک ساتوں اعضا اور قلب و قالب اس طرح جلتے رہتے ہیں جیسے آگ خشک لکڑی کو جلا دیتی ہے۔ اگر اس وقت وہ نورِ جلال کے قہر و غضب اور جذب کی نگاہ ڈال دے تو تحت الثریٰ سے آسمان تک اور قاف سے قاف تک بلکہ دونوں جہانوں ملک و ملکوت کو قدرتِ الٰہی سے آتش ِ توحید کی تجلی سے جلا کر خاکستر اور نابود کر دے۔ صدبار آفرین اس وسیع حوصلہ وجود پر جو تصور اسم اللہ ذات کی تجلیات و انوار کی تپش کو برداشت کرتا ہے لیکن مخلوق کو تنگ نہیں کرتا۔ اسم اللہ ذات دونوں جہان سے زیادہ بھاری ہے۔ اس کی وضاحت اس آیت ِ کریمہ میں بیان کی گئی ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا (الاحزاب۔72)
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا، سب نے اس کو اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور (اپنی شان و قدر سے) نادان ہے۔
مثنوی
اسم اللہ بس گران است بار بر
اسم را برداشت فقرش زود تر
ترجمہ: اسم ِاللہ ذات بہت بھاری امانت ہے۔ جس نے اس بارِ امانت کو اٹھا لیا اس نے بہت جلد فقر کو پا لیا۔
اللہ اللہ گفت مردم خاص و عام
ہر کہ کنہش یافتہ شد عارف تمام
ترجمہ: اللہ اللہ تو ہر خاص و عام پکارتا ہے لیکن جس نے اس کے راز کو پا لیا وہ مکمل عارف بن گیا۔
اسم اللہ بر زبان گردد روان
ہر کہ یابد کنہ اللہ شد عیان
ترجمہ:جس کی زبان پر اسم ِ اللہ کا ورد جاری ہو گیا اس نے اسم اللہ کی کنہ کو عیاں پا لیا۔
ابتدا اللہ اللہ انتہا
از تصور اسم اللہ شد بقا
ترجمہ: جس کو تصور اسم اللہ ذات سے بقا حاصل ہو گئی اس کی ابتدا و انتہا اللہ ہے۔
باتصور ذات بر ذاتش نگر
تا شوی عارف خدا صاحب نظر
ترجمہ: اسم ِ اللہ ذات کے تصور سے ذات کو دیکھ تا کہ تو صاحب ِ نظر عارفِ خدا بن جائے۔
کثرتِ تصور اسم اللہ ذات سے جب طالب کے وجود پر اسم اللہ ذات کا غلبہ ہو جاتا ہے تو ہر عضو، گوشت پوست ، رگ، مغز، ہڈیوں، ہفت اندام اور جسم و جان سب میں نورِ ذات کی تجلیات کی تاثیر سرایت کر جاتی ہے اور اسم اللہ ذات قرار پکڑ لیتا ہے۔ اس نور کے روشن ہو جانے سے ’اسم‘ اور ’ذات‘ دونوں یکجا ہو کر یک وجود بن جاتے ہیں۔ یہ یگانگت سر سے پاؤں تک طالب کے سارے جسم کو اپنے حصار کی قید میں لے لیتی ہے جس سے حجابِ نفسانی، خطراتِ دنیا کی پریشانی اور عزتِ خلق کے حجابات وجود سے اٹھ جاتے ہیں اور ظاہری حواسِ خمسہ بند ہو کر باطنی حواسِ خمسہ کھل جاتے ہیں۔ طالب کے وجود سے بُرے خصائل کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور چاروں نفس یعنی نفس ِ امارہ، لوامہ، ملہمہ، مطمئنہ اور ان کی علامت چار پرندے یعنی شہوت کا مرغ، زینت کا مور، ہوا و ہوس کا کبوتر اور حرص کا کوّا قتل اور ذبح ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کا اشارہ بھی اسی طرف ہے:
قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ (البقرہ۔260)
ترجمہ:فرمایا! چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لو۔
بعد ازاں جب ذکر ِ خفی کے غلبہ سے قلب میں جوش پیدا ہوتا ہے تو قلب میں بھی ذکر جاری ہو جاتا ہے۔ پھر مخلوق کی آواز طالب کو پسند نہیں آتی خواہ وہ داؤدی گلے کا گایا ہوا خوش آواز سرود ہی کیوں نہ ہو۔ نہ ہی مخلوق کے خدوخال کا حسن اسے بھاتا ہے خواہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے مماثلت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ نفس جب قلب کا لباس اوڑھ لیتا ہے تو وہ باطنی اطاعت میں مصروف ہو جاتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (الشعرائ۔88,89)
ترجمہ:اس دن نہ مال اور نہ ہی اولاد کچھ نفع نہ دے گی مگر جو اللہ تعالیٰ کے پاس قلب ِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوا۔
قلب روح کا لباس پہن لیتا ہے اور روح سرّ کا۔ پھر نفس قلب، قالب، روح، سانس اور سرّ سب نور میں ڈھل کر ذکر کے ساتھ تسبیح کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسا تفکر صاحب ِ انتہا کا ہوتا ہے، جو مشاہدۂ ذاتِ نور میں غرق اور قربِ الٰہی کی حضوری کے لائق ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلتَّفَکَّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ
ترجمہ: ایک لمحہ کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔
جب آنکھوں سے دوئی کا پردہ ہٹ جاتا ہے تو طالب کی (ظاہری باطنی) آنکھوں کو یکتائی نصیب ہوتی ہے جن سے وہ بے حجاب دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوجاتا ہے۔ بیت
بدریائے محبت را چہ آرائی خطاب
چون حباب از خود تہی شد گشت آب
ترجمہ: جو طالب دریائے محبت میں غرق ہو جائے اسے کیا خطاب دیا جائے کہ بلبلہ جب ہوا سے خالی ہو جاتا ہے تو خود پانی بن جاتا ہے۔
جان لے کہ فقر کا خزانہ عوام الناس سے پنہاں ہے۔ اس خزانے سے بحکم ِ الٰہی دین و دنیا کا مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے۔ حاضراتِ تصور اسم ِ اللہ ذات کی راہ میں وحدانیت ہی وحدانیت ہے۔ یہ راہ اللہ کی عطا ہے جس میں ریاضت نہیں بلکہ اللہ کے راز ہیں۔ یہ اللہ کا فیض ہے، جس میں بغیر مجاہدے کے مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ فضل ِ الٰہی ہے جس میں کوئی رنج نہیں بلکہ خزائن ِ اللہ گنج ہیں۔ یہ معرفت اور محبت کی راہ ہے، جو محنت سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ بخشش ِ الٰہی ہے۔ یہ رحمت ِ الٰہی کی راہ ہے جس میں ذکر مذکور نہیں بلکہ قرب اور حضوری ہے۔ یہ راہ لطف ِ الٰہی ہے جس میں فکر نہیں، فنا النفس ہے۔ یہ اولیا اللہ کا شرف ہے جس میں دنیا مردار کی طلب نہیں بلکہ توحید اور دیدارِ الٰہی کا استغراق ہے۔ یہ دعوت کی سراگاہ نہیں بلکہ مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری کی راہ ہے۔ یہ راہ (مرشدکامل اکمل) کی نظر و نگاہ اور تصور اسم اللہ ذات سے طے ہوتی ہے جو قلب کو زندہ کرتی ہے۔ اس راہ میں رجعت نہیں، جمعیت ہے۔ اس راہ میں مشق ِ مرقومِ وجودیہ کی ستر مشقیں تفکر سے ناف اور قلب سے دماغ سر تک انگشت کی مدد سے کی جاتی ہیں جو طالب کو نفس کے خلاف کرتی ہیں اور کل و جز اور ذات و صفات کے تمام مقامات منکشف ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ مرقومِ وجودیہ کی مشق کرنے سے وجود روشن ہوتا ہے اور راز نور محمود ظاہر ہو جاتا ہے جس سے کل جمعیت، مقصود معرفت اور معبود کی توحید حاصل ہوتی ہے۔ وجود کا دائرہ یہ ہے:
(جاری ہے)