مرشد اور مرید کا باطنی تعلق (Murshid Or Mureed Ka Taluq)
تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری ۔ اوکاڑہ
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کسی بھی شے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا خواہ بظاہر وہ شے کتنی ہی حقیر اور معمولی کیوں نہ ہو، بارگاہِ ایزدی میں ہر شے کی تخلیق کا ایک مقصد ہے۔ اسی طرح اشرف المخلوقات یعنی انسان کی زندگی کامقصد بارگاہِ قدس میں سرخرو ہونا ہے۔ راہِ سلوک کے آغاز میں ایک طالب و مرید کا نفس بہت سے تعلقات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے نہایت کثیف ہوتا ہے جبکہ ذاتِ باری تعالیٰ انتہائی پاکیزہ اور ارفع ہے اس لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے طالب اور مطلوب کے درمیان جو مناسب تعلق ہوناچاہیے وہ موجود نہیں ہوتا، لہٰذا اس منزل کے راستہ سے باخبر اور راستہ کو صحیح دیکھنے والے پیر ِ کامل کے سوا کوئی چارہ نہیں جومرید اوراللہ ربّ العزت کے درمیان واسطہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے قرب اور عام انسانوں سے رابطہ رکھتا ہو تاکہ وہ مطلوب کے ساتھ طالب کے وصال کا ذریعہ بنے۔
شیخ بایزید بسطامیؒ کا قول ہے:
جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کا مرشد شیطان ہوتا ہے۔
قول سے واضح ہے کہ دو راستوں کے سوا انسان کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک خیر کا راستہ جس کا تعلق مرشد کامل سے ہے اور دوسرا شر کا راستہ جو شیطان کی راہ ہے۔ انسان اگر پہلا راستہ نہ چنے تو دوسرا راستہ اسے اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مرشد اور مرید ایک دوسرے کے لیے بہت اہم ہیں اور ان میں قائم تعلق ہی ان کے مابین رشتے کی مضبوطی کا اظہار ہے۔ مرشد اور مرید کا تعلق طبیب اور مریض کے تعلق کے مترادف ہے۔ طبیب دوائیں دیتا ہے لیکن مرض تب ختم ہوتا ہے جب مریض دوائی کو ڈاکٹر کے بتائے گئے طریقہ کے مطابق استعمال کرتا رہے۔ عین اسی طرح مرشد بیعت کے پہلے ہی روز مرید کواپنے تعلق سے روشناس کروا دیتا ہے، اب اگلی محنت خودمرید کی ہونی چاہیے کہ وہ مرشد کویاد کر کے قدم بڑھاتا چلا جائے اور مرشد کے تعلق کے رازو نیاز سے بہرہ وَر ہوتا رہے۔
مرشد اور مرید کے تعلق کی ابتدا اور انتہا کیا ہے؟
ہر شے کی ابتدا اس کے ظاہر سے اور انتہا باطن پر ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو ساحلِ سمندر پر بیٹھا سمندر کا نظارہ کر رہا ہے۔ یہ اُسی شخص جیساہے جس نے مرشدکامل کے دستِ اقدس پربیعت کی، اب وہ مرشد اور اس کے کمالات کا نظارہ ظاہری آنکھ سے کر رہاہے۔ پھر کنارے پربیٹھا شخص آہستہ آہستہ خود کوسمندر کی موجوں کے سپرد کر نے لگتا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ خود کو سمندر کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے جہاں پانی اور پانی کے ساتھ دیگر اشیا اس کو خود میں سمو لیتی ہیں۔ پھر نہ تو باہر سے کوئی شخص یہ جان پاتا ہے کہ غوطہ زن کس گہرائی پر سمندر سے جا ملا نہ ہی غوطہ زَن بذاتِ خود جان سکتا ہے۔ مرشد اور مرید کے جس تعلق کو کمال حاصل ہے وہ باطنی تعلق ہی ہے۔
حضرت خواجہ شبلیؒ فرماتے ہیں:
اپنی زبان کو الفاظ کی آراستگی سے خاموش کر دے کیونکہ جب تو ظاہر گوئی سے باز آجائے گا توتجھے باطنی زبان حاصل ہو جائے گی۔ جب میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا تو میں نے اپنے محبوب کاایسا کلام سنا جس سے تیرا دل محروم ہے۔ (سلطان الوھم)
جس قدر مرید خاموشی سے مرشد کی طرف متوجہ رہے گا اُسی قدر وہ مرشد کی مہک کی بدولت فیضیاب ہو گا۔ عزیزقارئین! یہ بات انتہائی غور طلب بھی ہے اور حقیقت پر مبنی بھی کہ مرشد سے تعلق خود مرشد کی مہربانی سے ہی ممکن ہے۔ مرشد کی عطا کے بغیر یہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ ذکر محض پیر کی عطا ہے اور املاک سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ راستہ وھم کے سلطان(مرشد کامل) کے بغیر طے کرنا قطعاً ممکن نہیں۔
مرشد کس طرح اپنے مرید سے باطنی تعلق مضبوط کرواتا ہے؟
مرشد اپنے تصرف سے مرید کے دل کو مکمل طور پر زندہ کرتاہے اور تمام غیر ماسویٰ اللہ اس کے دل سے نکال دیتا ہے۔یہ صرف مرشد کامل اکمل کے باطنی تصرف ہی کی بدولت ممکن ہوتاہے۔ چنانچہ حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے مرید ِصادق کے حق میں فرماتے ہیں:
ابوبکرؓ کی فضیلت نہ توکثرتِ نماز کی وجہ سے ہے اور نہ ہی کثرتِ تلاوت و روزہ کی وجہ سے بلکہ ان کے دل میں قرار پکڑنے والی چیز کی وجہ سے ہے۔
حدیث مبارکہ ہے:
اللہ تعالیٰ نے جو خاص چیز میرے سینے میں ڈالی میں نے وہ ابوبکرؓ کے سینے میں ڈال دی۔(سلطان الوھم)
تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس نے سنتِ نبویؐ پر عمل کیا وہ نجات پا گیا اور اللہ کے حبیب سرکارِ دو عالم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہی سنت ہے کہ آپؐ اپنے اصحابؓ کو باطن کی راہ نصیب فرماتے ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے:
شیخ اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی امت میں۔
در حقیقت اس تعلق میں مرید اور مرشد دونوں ہی کی جانب سے پیش قدمی ضروری ہے۔ مرید کے لیے مرشد اور مرشد کے لیے مرید لازم ہے۔ اگر مرشد نہ ہو تو مرید کس کی مانے اور اگر مرید نہ ہو تو مرشد تلقین و ارشاد کسے کرے؟نوجوان نسل کوسمجھانے کے لیے سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ فون کال کرنے والے کے لیے دوسری جانب کال وصول کرنے والا لازم و ملزوم ہے اور دونوں کی باہمی رضا مندی سے ہی گفتگو ممکن ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس راہ میں کامیابی کا تعلق مرشد اور مرید دونوں جانب سے ہے۔ پیر ِکامل کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح ہونا چاہیے کہ اپناتصرف اور علم اپنے مریدِصادق کو عطا کرنے سے گریز نہ کرے اور مریدِصادق کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرح ہونا چاہیے کہ اپنامال، جان اور اولاد صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے اپنے پیر پر قربان کر دے۔ جب ایسے مرشد اور مرید آپس میں مل جاتے ہیں تو روز بروز ان کا کام ترقی کی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ (سلطان الوھم)
آپؒ اسی تصنیف میں مزید رقم طراز ہیں:
پیر اور مرید کا آپس میں ہر دو جانب سے تعلق ہوتا ہے۔ اگر ایک جانب بھی قاصر ہو تو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اے جانِ عزیز!جب طالبِ صادق مرشد کامل اکمل تک پہنچ کر اس کی محبت حاصل کر لیتا ہے تو پھر ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں رہنا چاہیے۔ پیر ِکامل اپنے تصرف سے مریدِ صادق کو وھم اور ہمت عطا کرتا ہے حتیٰ کہ یادِ خدا تعالیٰ کے سوا اس کے دل سے کوئی خیال نہیں گزرتااور وہ ماسویٰ اللہ ہر شے کو مفقود سمجھتا ہے۔(سلطان الوھم)
یہ بات قارئین کے گوش گزار کی جا چکی ہے کہ مرشد کس طرح مرید کو باطنی تعلق میں جڑنے کی توفیق بخشتااور اس پرکرم نوازی کرتاہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مرید اس تعلق کی بنیاد کیسے رکھے اور پھر اس بنیاد پر اس تعلق کی عمارت کیسے تعمیر کرے؟
طالب کا یہ تعلق مرشد سے شدید عشق، قرب، صحبتِ مرشد، عجزو انکساری اور شکر گزاری کے ساتھ جان توڑ اطاعت سے قائم ہوتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
طالبِ صادق کا مرشد کامل سے تعلق اس قول کے مطابق ہوتا ہے ’’میرا گوشت تیرا گوشت، میرا خون تیرا خون۔‘‘ وہ مرشد کامل کے عشق میں سوختہ رہتاہے۔ اپنی جان کو مرشد پر قربان کر دیتا ہے۔ سوزشِ عشق سے اس کا دل چاک چاک ہو جاتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
مرید ابتدا میں اپنے مرشد سے شدید ترین عشق نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے دل میں مال، رشتے ناتے اور دیگر محبتیں موجود ہوتی ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرشد کی صحبت اختیار کرنے اور مرشد کی اتباع کرنے سے مرشد کی رضا کے حصول پر مرشد کی جانب سے عطا مرید کے شاملِ حال ہو کر اس کے دل میں عشقِ مرشد کی آگ بھڑکا دیتی ہے اور عشق کو اپنے معشوق کے سوا ہر شے حقیر دکھائی دیتی ہے۔ کلید التوحیدکلاں میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
جان لو کہ طالبِ مولیٰ (مرید) پر پانچ حقوق ہیں۔ پہلا حق والدین کا، دوسرا حق اساتذہ کا، تیسرا حق پیر کا، چوتھا حق مرشد کا اور پنجم حق بیوی کا۔ مرشد کا حق ان تمام حقوق پر غالب اور فائق تر ہے کیونکہ مرشد سے معرفتِ الٰہی کے مراتب حاصل ہوتے ہیں اور طالب حق پر نظر برقرار رکھتاہے۔ جیسے ہی طالب قربِ حق کے اس مرتبے پر پہنچتا ہے اس کی نگاہ کو روشن ضمیری حاصل ہوجاتی ہے اور وہ ظاہری طور پر علمِ تفسیر کا باتاثیر عالم بن جاتا ہے اور دونوں جہان پر حکمران ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
طالبِ اللہ (مرید) پر فرضِ عین ہے کہ وہ دین و دنیا کا کوئی کام بھی مرشد کے حکم و اجازت کے بغیر ہرگز نہ کرے اور اپنا ہر اختیار مرشد کے حوالے کر کے خود بے اختیار ہو جائے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
پھر جب مرید صدق کے ساتھ مرشد کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تب اسے مراتب حاصل ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مریدکے تعلق کا سفر آغاز سے انجام کی جانب بڑھتاہے جو کہ مراتب کے اعتبار سے کچھ یوں ہے:
۱۔تصورِ شیخ
۲۔رابطۂ شیخ
۳۔فنا فی الشیخ
تصورِ شیخ
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
اگرچہ میرے مرشد کا جسم مجھ سے دور ہے لیکن میرے دل سے ہرگز دور نہیں ہے۔ میرا مرشد سینکڑوں میل دور رہتاہے لیکن وہ تو ہمیں عین حضور دکھائی دیتا ہے۔ (ابیاتِ باھو کامل)
مرشد کا تصور کرنے یا اس کی عطا کے بعد مرید ہر دم اپنے مرشد کے چہرے کو اپنے خیالات میں محسوس کرتاہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا مرشد ہی رہتا ہے خواہ وہ کچھ بھی دیکھ رہا ہو یا کر رہا ہو اور جب مرشد کا تصور مرید کو حاصل ہونے لگتا ہے یا حاصل ہو جاتا ہے تب باقی تمام چیزوں کے نقش مرید کی نگاہوں میں دھندلی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر یہ وقت مرید پر آنے لگے تو اسے ہرگز نہیں گھبرانا چاہیے کیونکہ یہ باعثِ مسرت ہے نہ کہ باعثِ پریشانی۔اس مسئلہ کو سمجھانے کی غرض سے حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ایک واقعہ درج کیا جا رہا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ایک مرید نے آپ کو خط لکھا کہ اس کا تصور ِشیخ ایسی حد تک غالب آ چکا ہے کہ وہ نماز میں بھی اپنے شیخ کے تصور کو اپنا مسجود دیکھتا اور جانتا ہے اور اگر مرید نفی کرے تو بھی حقیقتاً نفی نہیں کرتا یعنی نظر کے سامنے سے نہیں ہٹتا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مرید کو جواب لکھا اے محبت کے اطوار والے! یہ دولت طالبانِ حق کی تمنا اور آرزوہے اورہزاروں میں سے شاید کسی ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ (مکتوب نمبر 30۔ دفتر دوم، حصہ اوّل صفحہ۔ 101)
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ خود بھی اس کے متعلق فرماتا ہے :
تم جدھر دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ دکھائی دے گا۔ (سورۃالبقرۃ۔ 115)
رابطۂ شیخ
تصور کے حصول کے بعد مرشد کی عنایت سے باطن میں مرید کا رابطہ اپنے شیخ سے استوار ہو جاتا ہے یا یوں کہیے کہ عاشق و معشوق، مرید و مرشدمیں دل کی ہمکلامی کا آغاز ہو جاتا ہے جہاں ماسویٰ ان دونوں کے اور کوئی نہیں ہوتا۔ عاشق صدائیں دے رہا ہوتاہے اور معشوق اپنے کلام کی چاشنی سے عاشق کے قلب کو سکون۔ اس مقام پر مرید کی روح مرشد کی روح میں فنا ہونے کے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اب یہاں مرید کی روح پاکی اختیار کر کے مرشد کی پاک روح میں شامل ہوتی ہے جیسے ایک دریا سمندر میں۔جیسے سمندر اور دریایکجا ہو جاتے ہیں اسی طرح مرید اور مرشد کا نور ایک ہو کریکتائی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے جہاں دوئی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کو حضرت سخی سلطان باھوؒ وھم کی کیفیت کہتے ہیں۔
آپؒ اس روحانی تعلق کے متعلق فرماتے ہیں:
جان لو کہ تصورِ شیخ بے حد کثرت سے کرنے سے وجود میں غیب الغیب سے ایک صورتِ نور پیدا ہوتی ہے جو کبھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھتے ہوئے ذکرِ اللہ میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت شب و روز تلاوتِ قرآن اور آیات حفظ کرنے میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت علمِ فضیلت بیان کرتی ہے اور نص و حدیث، تفسیر، مسائلِ فقہ اور فرض، واجب، سنت، مستحب کے علم کے ذریعے سنتِ محمدیؐ کو بجا لانے اور ربّ کے حضور پیش ہونے کے فرض آداب سکھاتی ہے اور کبھی وہ صورت ذکرِاللہ میں غرق ہوتی ہے اور کبھی وہ صورت وجود کے اندر بلند آواز سے ھو الحق، لیس فی الدارین الا ھو پکارتی ہے جو طالب کو سنائی دیتی ہے اور کبھی وہ صورت ماضی، حال اور مستقبل کے احوال ایک ساتھ بتاتی ہے۔ جب مرشد اور مرید کا رابطہ قائم ہو جاتاہے اس کے ذریعے مرشد مرید کے باطن کو اطاعتِ الٰہی کے لائق بنا دیتا ہے۔ پھر باطن سے جوبھی حکم ملتا ہے طالب کے لیے لازم ہے کہ اس کو پورا کرے خواہ ظاہر میں اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ مگر اس کے لیے مرید کو یقین ہونا ضروری ہے کہ اس کے باطن میں اللہ ہی کی ذات موجود ہے۔ تب یہ باطنی رابطہ اس کے لیے خیر مقدم کے ترانے گاتی اس کی روح اور اس کے امر کو تازگی بخشتا ہے۔
سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ مزیدفرماتے ہیں:
جو طالب آوازِ روحانی کا محرم ہو جاتاہے وہ قربِ ربانی سے الہام وصول کرتا ہے لیکن اگر اسے اسمِ اللہ ذات پر اعتبار نہ آئے اور نہ ہی وہ مرشد بزرگوار کے فرمان پر اعتبار کرے تو معلوم ہوا کہ وہ طالب خود پسند ہے جو ہوا و نفس کی قید میں ہے اور راہِ صفا نہیں پا رہا۔ (امیر الکونین)
پس ثابت ہوا کہ مرید کے لیے مرشد سے رابطہ کامل ہونا اس کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ تعلق مرید کو مرشد کی ظاہری زندگی میں ہی استوار کر لینا چاہیے کیونکہ مرید کو مرشد کی ضرورت ہر لمحہ ہوتی ہے اگر خدانخواستہ مرشد وصال فرما جائے اور مرید اپنا تعلق مرشد سے قائم کرنے میں ناکام رہے تو اس کی باقی زندگی کا ضامن پھر کوئی نہیں ہوتا اور وہ پھر پریشانی کے عالم میں رہتا ہے اور اگر مرید و مرشد کا یہ باطنی تعلق جڑ جائے تب اس کے باعث وہ ہمیشہ ظاہری و باطنی، دنیوی و اخروی حیات میں اپنے مرشد سے متصل (جڑا) رہے گا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں:
جو لوگ اپنے شیخ سے عقیدت رکھتے ہیں ان کو اپنے شیخ کے فیوض بھی پہنچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جو کمالات ان کے شیخ میں موجود ہوں مرید اپنی محبت اور لگاؤ کی وجہ سے انہیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ موافقت کے باعث دونوں میں اس قدر مماثلت ہو جاتی ہے کہ عوام کے لیے شیخ اور مرید میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ محبت کی اس منزل میں ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ یعنی ’’تو میں ہو گیا اور میں تو ہو گیا‘‘ کا مقام مرید کو اسی صحبت کے باعث میسر ہو جاتا ہے جسے یک جان دو قالب بھی کہا جاتا ہے۔
فنا فی الشیخ
حضرت شمس الدین سیالویؒ فرماتے ہیں:
جب مرید شیخ سے رابطہ قائم کرے تو وہ اپنے شیخ کی ذات میں اس طرح ڈوب جائے کہ اپنی کسی حرکت و سکون کو اپنا نہیں بلکہ شیخ کا سمجھے حتیٰ کہ پیر و مرید کی صورت ایک جیسی ہو جائے۔ فرماتے ہیں کہ شیخ بہاؤ الدین زکریاؒ اور شیخ شہاب الدینؒ جب ایک جگہ بیٹھ جاتے تو لوگ دونوں میں تمیز نہ کر سکتے تھے۔ ان کا درجہ اتحاد اس قدر بڑھ گیا تھا کہ دونوں کی شکل و صورت بھی ایک ہو گئی تھی۔
دورِ حاضر میں جسے فنا فی الشیخ کے مرتبہ کی حقیقت سمجھنی ہو وہ صرف اور صرف سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اور آپؒ کے مریدِ صادق دورِ حاضر کے پیرِکامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا چہرہ مبارک دیکھ لے۔ فنا فی الشیخ کے مرتبہ کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جب کسی کے وجود میں پیر و مرشد کا نور بھر جاتاہے تو اس کے منہ سے ہر بات پیر و مرشد کی نکلتی ہے یہ مرتبہ فنا فی الشیخ کا مرتبہ ہے۔ (عقلِ بیدار)
معشوق عشق عاشق ہر سہ یکی است اینجا
چوں وصل در نہ گنجد ہجراں چہ کار آید
ترجمہ:اس مقام پر پہنچ کر طالب کا ہر عمل، حال اور قول مرشد کاعمل، حال اور قول بن جاتا ہے۔ جب یہاں وصل نہیں تو ہجر کیسا؟ (عقلِ بیدار)
مرشد اور مرید کے باطنی تعلق کے فوائد
سلطان باھوؒفرماتے ہیں:
ایک بزرگ نے اپنے کسی دوست بزرگ کو لکھا کہ عجیب بات ہے کہ کوئی دن رات سویا رہے اور قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے بغیر منزل پر پہنچنے کی امید رکھے؟ دوسرے بزرگ نے جواب میں لکھا کہ اے بھائی! اس راہ میں کچھ ایسے مرد بھی ہیں جو دن رات سوئے رہتے ہیں اور قافلہ کے ساتھ بھی روانہ نہیں ہوتے لیکن منزل پر پہنچنے کی بھی امید رکھتے ہیں ایسے ہی سالکوں کو شطار کا نام دیا گیا ہے کہ بظاہر وہ دن رات سونے یا کھانے پینے، مباشرت کرنے یا ایسے ہی دیگر کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں اس کے باوجود ان کا حضوری کا سفر جاری رہتا ہے یہ ایسے سائر ہوتے ہیں کہ ان کی سیر کا کسی کو بھی علم نہیں ہوتا۔ (سلطان الوھم)
پھر مرید اس بیت کے مطابق دعا کرنے لگتا ہیں
ما کامہا اضمار و قبا بہارا متحیرم
ندانم کہ تو خود چہ نام داری
ترجمہ:اے اللہ! تیرے بے انتہا پوشیدہ و ظاہری جلوؤں نے مجھے متحیر کر دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تیری ہر زمانہ میں نئی شان کے مطابق تجھے کس نام سے پکاروں۔
حاصلِ تحریر:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً (سورۃ النمل۔34)
ترجمہ: بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسواکر ڈالتے ہیں۔
اس حکم کے مطابق مرشد طالب کے خواہشاتِ نفس کے لشکر کو مغلوب کر کے نفس کو اپنا مطیع و تابع کر لیتا ہے۔ نفس کی مکمل اصلاح و آگہی کے بعد سلطان الوھم (مرشد کامل اکمل) طالب کے ضمیر اور روح کی طرف متوجہ ہو کر انہیں منور کر دیتا ہے اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ کر ان پر غالب آ جاتا ہے۔ طالب کے باطن سے اندھیرا مکمل ختم ہو جاتا ہے اور نور اسے گھیر لیتا ہے۔ (سلطان الوھم)
اَلْمَجَازُ قَنْطَرُ الْحَقِیْقَۃِ
ترجمہ:مجاز حقیقت کا پل ہے۔
اس حکم کے مطابق مجاز (مرشد) حقیقت (اللہ) کی جانب جانے والا پل قرار دیا گیا ہے۔ مرشد کامل جب اپنے مرید کو باطن میں کمال بخش دیتاہے اور مرید اپنے شیخ میں فنا ہو جاتا ہے تو وہ وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کا مرشد موجود ہوتا ہے یعنی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری اور لقائے حق تعالیٰ۔ راہِ معرفت میں سب سے مشکل مرتبہ مرشد کامل میں فنا ہونا ہے جو کہ نہ تو عبادات سے حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی عقل و شعور سے، یہ نعمت عشق کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ عشق وہ کمال احساس ہے جو معشوق جیسا بنانے میں عاشق کو ذرا دیر نہیں لگنے دیتا اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف کا احساس ہونے دیتا ہے بلکہ اس کی کیفیت تو حضرت علیؓ کی اس کیفیت جیسی ہوتی ہے کہ جب آپؓ کو کوئی جسمانی عذر پیش آیا تو طبیب نے اس حصے کو جدا کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہمیں نماز میں کھڑے ہونے دیجیے تا کہ ہمیں تکلیف کا احساس نہ ہو کیونکہ سب جانتے ہیں مولیٰ علیؓ کو ہر نماز میں معراج (اللہ سے ملاقات و دیدار)کا شرف حاصل تھا۔
استفادہ کتب:
۱۔ سلطان الوھم: سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔ عقلِ بیدار: ایضاً
۳۔ امیر الکونین: ایضاً
۴۔ کلید التوحید کلاں: ایضاً
۵۔ نور الہدیٰ کلاں: ایضاً
حضرت خواجہ شبلیؒ فرماتے ہیں:
اپنی زبان کو الفاظ کی آراستگی سے خاموش کر دے کیونکہ جب تو ظاہر گوئی سے باز آجائے گا توتجھے باطنی زبان حاصل ہو جائے گی۔ جب میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا تو میں نے اپنے محبوب کاایسا کلام سنا جس سے تیرا دل محروم ہے۔