اشاعتِ اسلام میں امہات المومنینؓ کا کردار
تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
نبی آخر الزماں،آقائے دو جہاں، مختارِ کُل، وجۂ تخلیقِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک جہد ِ مسلسل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدوجہد کا مقصد کلمہ طیب ہے جو دینِ اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی جزو ہے۔ کلمے کے پہلے حصے میں اللہ ربّ العزت کی وحدانیت کا اقرار اور ہر طرح کے شرک و بت پرستی کی نفی ہے جبکہ دوسرے حصے میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بطور آخری نبی مہرِ تصدیق ہے۔ اسی کلمے کی اشاعت و تبلیغ کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کفارِ مکہ کی اذیتیں، سختیاں، قطع تعلق، طعن و تشنیع اور مخالفتیں برداشت کیں۔ حق کے پرچار کی خاطر مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں باطل قوتوں سے ٹکرا گئے۔ ان تمام تر حالات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ازواجِ مطہرات کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو امہات المومنین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک طرف آقائے دو جہان اپنے بہترین اسوئہ حسنہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تزکیہ نفس میں مصروف تھے تو دوسری جانب امہات المومنین کی دینِ اسلام کے لیے قربانیاں، ان کی دین ِ اسلام سے محبت اور عملی کردار تمام عالم بالخصوص خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو بھی نکاح فرمائے ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ تھی جو ان امہات المومنین کی زندگیوں پر نظر ڈالنے سے بخوبی سمجھ آ جاتی ہے۔ امہات المومنین کے پاکیزہ کردار کو بیان کرنا ہم عاصیوں کے بس کی بات نہیں البتہ ایک کاوش پیش ِ خدمت ہے۔
ام المومنین سیدۃ النساء حضرت خدیجۃ الکبریؓ
جب بھی امہات المومنین کا ذکر کیا جائے تو جو اسم ِ گرامی سب سے پہلے ہمارے ذہنوں میں نمایاں ہوتا ہے وہ سیدۃ النساء حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل 555ء عیسوی میں قبیلہ بنو اسد میں ہوئی۔ شرافت و نجابت، امانت و دیانتداری، راست گوئی و ایفائے عہد، احساسِ ذمہ داری، فراخ دلی اور ادب و اخلاق آپؓ کی ذاتِ اقدس کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپؓ کے انہی اعلیٰ اوصاف کے باعث زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کو ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
آپؓ روئے کائنات پر وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے نبوتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بلا حیل و حجت فوراً اقرار کیا اور ایمان لانے میں مرد و خواتین سب پر سبقت لے گئیں۔ آپؓ کا نبوتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کامل یقین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے مزید ہمت و تسکین کا باعث بنا۔ آپؓ کا ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے مضبوط ترین سہارا اور ذریعہ ٔ اطمینان تھا۔ جب تمام قبیلہ اور رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بدترین دشمن ہو گئے اس وقت آپؓ ہی ان کے لیے تسلی و تشفی اور ڈھارس بندھانے کا ذریعہ بنیں۔
اشاعت ِ اسلام کے لیے حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف اپنا سارا مال راہِ خدا میں وقف کر دیا بلکہ ہمیشہ اپنی عقل و فہم اور دانش مندی سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو راہِ حق میں درپیش مصائب میں بھی ساتھ دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثر غارِ حرا میں خلوت نشینی کی غرض سے تشریف لے جاتے اور غور و فکر میں مشغول رہتے۔ حضرت خدیجہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ضروری سامان تیار کر دیتیں۔ اسی خلوت نشینی کے دوران پہلی وحی نازل ہوئی۔ حضرت جبرائیل ؑ کو دیکھ کر اور ان کی گفتگو سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر رقت طاری ہو گئی۔ آپ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو مجھے کچھ اوڑھا دو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کیفیت ٹھیک ہوئی تو تمام تر واقعہ حضرت خدیجہؓ سے بیان فرمایا۔ اس موقع پر حضرت خدیجہؓ کے سنہری الفاظ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمت بندھائی۔ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا ’’آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ‘‘
حضرت خدیجہؓ کے فہم و فراست سے بھرپور اور دانشمندانہ بیان میں نہ صرف اسلام کی محبت بلکہ ایک وفادار اور مخلص شریک ِ حیات کی خصوصیت بھی جھلک رہی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اس واقعہ کے متعلق فرمایا۔ ورقہ بن نوفل (جو کہ توریت و انجیل کا بہت بڑا عالم تھا) بول اٹھا ’’یہ وہی ناموس (فرشتہ) ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا۔ اے کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔‘‘
حضرت خدیجہؓ کو یقین ہو گیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منصبِ نبوت پر فائز ہیں اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلانِ نبوت کیا تو بلا تعطل ایمان لے آئیں لہٰذا حضرت خدیجہؓ کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کی سب سے پہلے تصدیق کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔
غارِ حرا میں وحی کے نزول کے بعد سے لیکر شعب ابی طالب میں محصور ہونے تک کے تمام تر کٹھن حالات میں سیّدہ خدیجہؓ نے نہایت ہمت و دلیری سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساتھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی سیّدہ خدیجہ ؓ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ سیّدہ خدیجہؓ 11 رمضان المبارک 10 نبوی کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں اور مکہ کے قبرستان حجون میں دفن ہوئیں، اس وقت ان کی عمر مبارک 65 برس تھی۔ آپؓ کی وفات کے بعد بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کا ذکر نہایت محبت سے فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حسب ِ معمول سیّدہ خدیجہ ؓ کی تعریف فرما رہے تھے، مجھے رشک آیا۔ میں نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! وہ ایک بڑھیا بیوہ تھیں، خدا نے ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان سے بہتر بیوی عنایت کی۔‘‘ یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا ’’خدا کی قسم! مجھے خدیجہؓ سے اچھی بیوی نہیں ملی۔ وہ اس وقت ایمان لائیں جب سب کافر تھے۔ اس نے میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، اس نے اپنا زر و مال مجھ پر قربان کر دیا جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں ڈر گئی اور اس روز عہد کر لیاکہ آئندہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کبھی سیّدہ خدیجہ ؓ کو ایسا ویسا نہ کہوں گی۔
حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کے بطن مبارک سے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چھ اولادیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلے حضرت قاسمؓ پیدا ہوئے جو کمسنی میں انتقال کر گئے، پھر سیّدہ زینبؓ، ان کے بعد حضرت عبداللہؓ، وہ بھی کم عمری میں ہی فوت ہوگئے۔ پھر سیّدہ رقیہؓ، پھر سیّدہ اُمِ کلثومؓ اور پھر سیّدہ فاطمتہ الزھراؓ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
اُم المومنین سیّدہ سودہؓ بنتِ زمعہ
سیّدہ سودہؓ کا تعلق قریش کے ایک معزز قبیلے عامر بن لوی سے تھا۔ جب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعوتِ حق کے چرچے ہر طرف پھیلنا شروع ہوئے تو سیّدہ سودہؓ اور ان کے شوہر حضرت سکرانؓ بن عمرو نے قبیلہ عامر بن لوی میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ سیّدہ سودہؓ نہایت صالح طبیعت کی حامل تھیں۔ ایمان لانے کے کچھ عرصہ بعد ہی آپؓ نے اپنے قبیلے میں تبلیغ ِ دین شروع کر دی جس کے نتیجہ میں اس قبیلہ کے کئی لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت سکرانؓ سے آپ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹاتھا جن کا نام عبدالرحمن تھا۔ حضرت سکرانؓ کی وفات کے بعد بحکم ِ الٰہی آپؓ کا دوسرا نکاح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب مشرکین ِ مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حامیوں کو اذیتیں اور تکالیف پہنچانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا نہ چھوڑا تھا۔ ایسے حالات میں سیّدہ سودہؓ بنت ِ زمعہ نہ صرف نہایت دانشمندی سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوصلہ بڑھاتیں۔ آپؓ نے نہایت محبت و شفقت سے سیّدہ اُمِ کلثومؓ اور سیّدہ فاطمتہ الزھراؓ کی تربیت پر توجہ دی۔ ان صاحبزادیوں نے کم و بیش 5 سال سیّدہ سودہؓ کی نگرانی میں گزارے لیکن کوئی بھی روایت ایسی نہیں ملتی جو ان کی باہمی شکر رنجی (معمولی رنجش) یا ہلکی سی بھی تلخی کی نشاندہی کرتی ہو۔ آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس قدر مخلصانہ رفاقت و جانثارانہ خدمت کا شرف حاصل ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس اعزاز میں سیّدہ خدیجہؓ کے علاوہ کوئی اور خاتون ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ سیّدہ سودہؓ نہایت رحم دل اور سخی تھیں۔ کبھی مال و متاع جمع نہ رکھتیں بلکہ اپنے حق کی چیز بھی حاجت مند کو دے دیتیں۔ حافظ ابن ِحجر ؒ نے اصابہ میں لکھا ’’سیّدہ سودہؓ دستکار تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی اسے دریا دلی سے راہِ خدا میں خرچ کر دیا کرتی تھیں۔ آپؓ اتنے پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں اور انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رضا کی خاطر اپنی باری بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کو ہبہ کی ہوئی تھی۔ اس بنا پر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ’’سوائے سودہؓ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ ان کے جسم میں میری روح ہوتی۔‘‘
آپؓ نے 22ھ میں وصال فرمایا۔ آپؓ سے5 روایات منقول ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام سے آپؓ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پہلے شوہر سے ایک بیٹا حضرت عبدالرحمنؓ تھے جو عہد ِ فاروقی میں جنگ ِ جلولا میں شہید ہوئے۔
اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ
اُمت ِ مسلمہ کی بلند پایہ معلمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبوب زوجہ محترمہ اُم المومنین سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں جن کے بارے میں مسند ابی داؤد میں روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے ’’اے باری تعالیٰ! یوں تو میں سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہوں مگر دِل میرے بس میں نہیں کہ وہ عائشہ کو زیادہ محبوب رکھتا ہے یا اللہ اسے معاف فرمانا۔‘‘
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے نکاح کی بشارت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دی گئی تھی۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ریشم میں لپٹی ہوئی کوئی چیز آپؐ کو دکھا رہا ہے اور کہتا ہے کہ ’ یہ آپؐ کی ہے‘۔ آپؐ نے کھولا تو سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تھیں۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضرت عائشہؓ کے لیے پیغام بھیجا جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ ہجرت سے تین سال قبل ماہِ شوال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نکاح ہوا جبکہ رخصتی شوال یکم ہجری میں ہوئی۔
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بچپن ہی سے بڑی ذہین و متین تھیں اور آپ ؓ کی حرکات و سکنات سے مستقبل کی عظمت جھلکتی تھی۔ جہاں سیّدہ عائشہ صدیقہؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبوب زوجہ تھیں وہیں سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے وقت کہیں اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو موجود نہ پایا تو سخت پریشان ہوئیں۔ دیوانہ وار اُٹھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگیں، آخر کار ایک جگہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پاؤں مبارک نظر آیا، دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سر بسجود یادِ الٰہی میں مشغول ہیں۔ اس وقت انہیں اطمینان ہوا۔
آپؓ نہایت ذہین اور معاملہ فہم تھیں۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ غزوہ خندق میں قلعہ سے باہر نکل کر نقشہ ٔجنگ دیکھا کرتی تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دیگر غزوات میں شرکت کی اجازت چاہی تھی لیکن نہ ملی۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے 9 برس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفاقت میں گزارے اور اس مختصر عرصہ میں آپؓ نے نہ صرف رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانثارانہ خدمت کی بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ کے بے شمار خزانے بھی سمیٹے۔ جس سے تاقیامت اُمت ِ محمدیہ مستفید ہوتی رہے گی۔
حضرت عزوہؓ کا قول ہے ’’میں نے قرآن، حدیث ، فقہ، تاریخ اور علم الانساب میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت احنف ؓ بن قیس اور موسیٰ بن طلحہؓ کا قول ہے ’’ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔‘‘ الغرض بڑے بڑے جیل القدر صحابہؓ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل پوچھا کرتے تھے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے تو یہ عرصہ تیرہ دن پر محیط تھا۔ اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پانچ دن دیگر ازواجِ مطہرات کے ہاں قیام فرمایا اور آٹھ دن سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارک میں رہے اورآپؓ کا حجرہ مبارک ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابدی آرامگاہ بنا۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے 2210 احادیث مروی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ احکامِ شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے۔ آپؓ نے 17رمضان المبارک 58ھ کو نمازِ وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی، آپؓ کی نمازِ جنازہ حضرت ابو ہریرہؓ نے پڑھائی اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق آپؓ نے اپنی کنیت اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے نام پر ’اُم عبداللہ‘رکھی تھی۔
ام المومنین حضرت حفصہؓ بنتِ عمر ؓ
ام المومنین سیّدہ حفصہؓ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی صاحبزادی تھیں۔ جب حضرت عمر فاروقؓ نے اسلام قبول کیا تو آپؓ بھی فوراً مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ آپؓ کا پہلا نکاح حضرت خنیسؓ سے ہوا جو تین ہجری میں غزوہ احد میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ مدتِ عدت پوری ہونے کے بعد آپؓ کا نکاح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوا۔ سیّدہ حفصہؓ نہایت نیک، خدا ترس اور بلند حوصلہ خاتون تھیں۔ آپؓ اپنا زیادہ تر وقت عبادتِ الٰہی میں گزارتیں اور اکثر روزہ سے رہا کرتی تھیں۔ حافظ ابنِ عبد البرؒ نے الاستیعات میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے’’ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے سیّدہ حفصہؓ کے بارے میں یہ الفاظ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے فرمائے ’’وہ عبادت کرنے والی، روزے رکھنے والی ہیں۔ وہ جنت میں بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ ہیں۔‘‘ آپؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمودات و ارشادات کو نہایت توجہ و شوق سے سنتیں اور انہیں اپنے پاکیزہ قلب میں محفوظ فرما لیتیں۔ آپؓ کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک صحابیہ حضرت شفاؓ بن عبداللہ کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ سیّدہ حفصہؓ کو لکھنا اور پڑھنا سکھائیں۔ جب آپؓ نے لکھنا سیکھ لیا تو خود بھی آیاتِ قرآنی کو لکھ کر محفوظ کر لیتیں۔ فقہ وحدیث میں آپؓ ایک ممتاز درجہ رکھتی تھیں۔ آپؓ سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی 60 احادیث روایت ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآنِ کریم کے تمام کتابت شدہ اجزا کو یکجا کر کے آپؓ کے پاس رکھوا دیا تھا۔ جب عہد ِ صدیقیؓ میں قرآن کی جمع وترتیب کا اہتمام کیا گیا تو اہم نسخہ جو سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہوا‘ حضرت حفصہؓ کا نسخہ تھا اور پھر بعد میں عثمانی دور میں بھی اسی نسخے کی مدد سے قرآنِ کریم کی متعدد نقول تیار کر وا کر تمام مملکت میں بھیج دی گئیں۔ اس طرح کلامِ الٰہی کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت میں اُمِ المومنین حضرت حفصہؓ نے تاریخی کردار ادا کیا۔ اُمِ المومنین سیّدہ حفصہؓ نے ایک روایت کے مطابق41 ھ اور دوسری روایت کے مطابق 45 ھ میں وفات پائی۔
اُم المومنین حضرت سیّدہ زینبؓ بنتِ خزیمہ
اُم المومنین حضرت سیّدہ زینبؓ بنت ِ خزیمہ بعثتِ نبویؐ سے تیرہ سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور اسلام کے ابتدائی دور میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ روایات کے مطابق آپؓ کا پہلا نکاح حضرت عبیدہؓ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف بن قصی سے ہوا تھاجو انتہائی جلیل القدر صحابیؓ اور اوّلین ِ اسلام میں سے تھے۔ سیّدہ زینبؓ نہایت پاکیزہ اوصاف کی مالک تھیں۔ خوفِ خدا اور خدا ترسی میں سرشار ہمیشہ فقیروں و مسکینوں کی امداد کرنے کے لیے کمربستہ رہتی تھیں۔ انہی صفات کی وجہ سے ’’اُمِ المساکین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ جب ہجرت کا حکم ہوا تو سیّدہ ؓ نے اپنے شوہر حضرت عبیدہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔
2ھ میں جب حق و باطل کا پہلا معرکہ بدر میں پیش آیا تو حضرت عبیدہؓ نہایت شجاعت و بہادری سے راہِ حق میں لڑتے ہوئے زخمی ہوئے اور بعد ازاں شہید ہوگئے۔ ایامِ عدت پوری ہونے کے بعد آپؓ کا نکاح ثانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ ؓ سے ہوا۔ یہ مردِ حق بھی غزوہ احد میں راہِ حق میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔ حضرت سیّدہ زینبؓ کی ان قربانیوں اور تمام تر آزمائشوں کے باوجود دِین حق پر استقامت بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی۔ بحکم ِ الٰہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دین کی اس جانثار خادمہ کو مستقبل کی مایوسیوں سے بچانے کے لیے نکاح کا پیغام بھجوایا جو منظور ہوا ۔ نکاح کے وقت آپؓ کی عمر مبارک 30سال تھی۔ اُم المومنین حضرت سیّدہ زینبؓ کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ قیام نہایت مختصر تھا۔ آپؓ دو یا تین ماہ بعد ہی رحلت فرما گئیں۔ آپؓ کی نمازِ جنازہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود پڑھائی اور ان کے لیے مغفرت کی دُعا کی۔ اُم المومنین حضرت سیّدہ زینبؓ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں مدفن ہیں۔
ام المومنین سیّدہ اُم سلمہؓ بنتِ ابی امیہ
سیّدہ اُم سلمہؓ بنت ِ ابی امیہ بعثت ِ نبوت سے31 سال قبل قبیلہ قریش میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے والد کا نام ابی امیہ بن مغیرہ تھا جو نہایت دولت مند انسان تھا۔ آپؓ کا پہلا نکاح رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پھوپھی زاد رضاعی بھائی حضرت ابو سلمہؓ سے ہوا۔ حضرت ابوسلمہ ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس لحاظ سے رضاعی بھائی تھے کہ انہوں نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔ جب تبلیغ ِحق کا آغاز ہوا تو اس پاکیزہ جوڑے نے اپنے قبیلے سے چھپ کر مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت حاصل کی۔اس جوڑے کے قبولِ اسلام کی خبر عام ہوتے ہی ان پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جسے انہوں نے صبر و حوصلہ سے برداشت کیا۔ جب مکہ میں حالات بدترین ہو گئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے اس جوڑے نے حبشہ ہجرت کی۔ وہاں زندگی نے کچھ سُکھ کا سانس لیا لیکن اپنے ہادی و مرشد سے دوری ان کے لیے سخت اذیت کا باعث بنی ہوئی تھی۔ اس لیے حالات کی درستگی کی خبر ملتے ہی دونوں میاں بیوی فوراً ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ لیکن کفار کے ظلم و ستم بدستور جاری تھے اور جو ہجرت سے واپس آئے ان کا جینا تک محال تھا۔ چنانچہ بحکم ہادیؐ اس جوڑے نے دوسری مرتبہ راہِ حق کی خاطر اپنا گھر با ر چھوڑا۔ حضرت اُمِ سلمہؓ ہی وہ واحد ہستی ہیں جن سے ہجرتِ حبشہ کے حالات و واقعات اور نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ کی ایمان افروز تاریخی تقریر کی روایات ملتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت اُمِ سلمہؓ نے دین ِ اسلام کا یہ انتہائی اہم حصہ بڑی امانتداری سے حوالہ ٔ تاریخ کیا۔
ہجرتِ مدینہ کے موقع پر سیّدہ اُمِ سلمہؓ نے جس سخت ترین آزمائش کا سامنا کیا وہ انہی اصحابِ ہمت و عزیمت کا کام تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے دوران انہیں زبردستی ان کے بیٹے اور شوہر سے جدا کر دیا گیا۔ حضرت اُمِ سلمہؓ کوبیٹے اور شوہر کی جدائی کا فطری طور پر بہت صدمہ تھا اور ہجرت نہ کر سکنے کا غم بھی۔ وہ روزانہ صبح گھر سے نکلتیں اور سارا دن ایک ٹیلے پر بیٹھ کر گریہ و زاری کرتیں۔ آخر قبیلہ والوں کو ان کی حالت پر رحم آگیا، بچے کو ان کے حوالے کیا اور مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ ان کے مدینہ جانے کے بعد 3ہجری میںحضرت ابو سلمہؓ جنگ ِ احد میں بہادری سے دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے زہریلے تیر سے زخمی ہو گئے بعدازاں آپؓ نے اسی زخم سے شہادت پائی۔ اس وقت حضرت اُمِ سلمہؓ کے ان سے چار بچے تھے۔ حضرت عمرؓ کے توسط سے حضرت اُمِ سلمہؓ کا نکاح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوا۔ آپؓ حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عقل و فہم میں بھی کمال تھیں۔ امام الحرمینؒ کا بیان ہے ’’میں حضرت اُمِ سلمہؓ کے سوا کسی عورت کو نہیں جانتا جس کی رائے ہمیشہ درست ثابت ہوئی ہو۔ ‘‘
عقل و فہم کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ان کی مہارت خاص طور پر ممتاز تھی۔ حضرت اُمِ سلمہؓ نے 378 احادیث روایت فرمائیں جو حضرت عائشہؓ کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت تھی۔ آپؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند موئے مبارک تبرکاً اپنے پاس چاندی کی ڈبیہ میں محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو پانی کا پیالہ لے کر حضرت اُمِ سلمہؓ کے پاس حاضر ہوتا۔ آپؓ وہ موئے مبارک پانی میں ڈال کر ہلا دیتیں جسے پینے کی برکت سے تکلیف دور ہو جاتی۔ آپؓ کا اس طرح موئے مبارک محفوظ رکھنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہری محبت و عقیدت کا اظہار ہے۔ حضرت اُمِ سلمہؓ نے تمام امہات المومنین ؓ سے طویل عمر پائی۔ جب کربلا کا المناک واقعہ وقوع پذیر ہوا آپؓ حیات تھیں۔ اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت جبرائیل ؑ کی لائی ہوئی کربلا کی خاک کو شیشی میں بند کر کے حضرت اُمِ سلمہؓ کے حوالے کیا تھااور فرمایا تھا ’’جس دن یہ خاک سرخ ہو جائے سمجھ جانا میرا بیٹا حسینؓ شہید ہو گیا ہے۔‘‘ آپؓ کا سالِ وفات61 ھ یا63 ھ ہے۔ مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں مدفن ہیں۔
ام المومنین سیّدہ زینبؓ بنتِ حجش
سیّدہ زینبؓ بنتِ حجش دیگر امہات المومنین میں وہ واحد ہستی ہیں جن کا نکاح نہ صرف اللہ تعالیٰ نے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کرنے کا اعلان کیا بلکہ اس نکاح کی برکت سے عرب معاشرے کی دو جہالتیں بھی ختم ہوئیں۔ حضرت زید بن حارثؓ، حضرت خدیجہ ؓ کے آزاد کردہ غلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ بولے بیٹے تھے۔ سیّدہ زینبؓ کاپہلا نکاح حضرت زیدبن حارث ؓ سے ہوا لیکن دونوں کی طبیعتوں میں اختلاف کے باعث زیادہ دیر تک نبھا نہ ہو سکا اور ایک سال بعد ہی دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ مدتِ عدت پوری ہونے کے بعد اللہ کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سیّدہ زینبؓ سے نکاح کا حکم ہوا تاکہ جہالت کی رسم کو توڑا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ نے تاقیامت پڑھی جانے والی کتا ب قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرما دیا ’’جب زید ؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا ( یعنی اس کی طلاق کی عدت پوری ہو چکی) تو اے پیارے نبیؐ !ہم نے اس مطلقہ خاتون کا نکاح (خود) تم سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم عمل میں آنا ہی چاہیے۔ (الاحزاب۔37)
جب حضرت زینبؓ کو یہ خبر سنائی گئی تو آپؓ تشکر کے جذبات سے لبریز تھیں۔ چنانچہ اس وحی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سیدھا حضرت زینب ؓ کے گھر تشریف لائے اور بغیر اجازت گھر میں داخل ہو گئے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب حضرت زینبؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عقدمیں ہیں۔ سیّدہؓ نہایت دیندار، پرہیزگار اور حق گو خاتون تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان کی خوبیوں کا اعتراف ان الفاظ میں فرمایا ’’میں نے دین کے معاملے میں زینبؓ سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھی۔‘‘ سیّدہؓ چمڑے کی ماہر دستکار تھیں، اس دستکاری سے جو بھی آمدن ہوتی تمام کی تمام راہِ خدا میں خرچ کر دیتیں۔ آپؓ 20ہجری یا21 ہجری میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر مبارک53 برس تھی۔ آپؓ سے 11 احادیث مروی ہیں۔
ام المومنین سیّدہ جویریہؓ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ اقدس ہر ایک کے لیے رحمت ہی رحمت ہے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملتا رحمت ِ خداوندی کی اس مجسم صورت کا اسیر ہو جاتا۔ اُم المومنین سیّدہ جویریہؓ کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عقد میں آنے کا واقعہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ آپؓ کا اصل اسم ِ گرامی ’برہ‘ تھا اور آپ کا تعلق بنومصطلق سے تھا۔ آپؓ قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ جب قریش کے بھڑکانے پر اس قبیلے نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؓ کے اکابرین پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی سربراہی میں اس قبیلہ سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک دستہ روانہ فرمایا جس کے نتیجہ میں اس قبیلہ کو شکست ہوئی اور اس کے تقریباً 660 افراد قیدی ہوئے۔ انہی قیدیوں میں سیّدہ جویریہؓ بھی شامل تھیں۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک 20 برس تھی۔ مالِ غنیمت کی تقسیم میں آپؓ حضرت ثابت ؓ بن قیس کے حصہ میں آئیں لیکن آپؓ نے غلام بن کر رہنا ہرگز منظور نہ کیا اور حضرت ثابتؓ سے درخواست کی کہ انہیں فدیہ لیکر آزاد کر دیا جائے۔ چونکہ سیّدہؓ کے پاس مال واسباب کچھ نہ تھا اس لیے آپؓ نے مالی امداد کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ـ’’میں تمہاری طرف سے فدیہ کی رقم ادا کر دیتا ہوں تم آزادی حاصل کرنے کے بعد مجھ سے نکاح کر لو‘‘۔ حضرت سیّدہ جویریہ ؓ راضی ہو گئیں۔ یوں سیّدہ جویریہؓ آزاد ہو گئیں۔ جب آپؓ کے والد کوآپؓ کے دورانِ جنگ بچ جانے کی خبر ملی تو وہ بہت سا مال واسباب بطور فدیہ لے کر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا فیصلہ سیّدہ جویریہؓ پر چھوڑا جس پر سیّدہؓ نے آقائے دوجہان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی اختیار کرنے کی رضامندی ظاہر فرمائی۔ آپؓ کے قبولِ اسلا م کے ساتھ ہی آپ کے والد اور دیگر قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یوں بنی مصطلق نے دوبارہ کبھی مسلمانوں کے خلاف قدم نہ اُٹھایا۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتیں ہیں ’’دنیا میں کسی عورت کا نکاح سیّدہ جویریہؓ کے نکاح سے بڑھ کر مبارک ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام بنی مصطلق کو غلامی سے نجات حاصل ہو گئی۔‘‘ آپؓ نہایت صابر اور عبادت گزار تھیں۔ آپؓ 50 ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
ام المومنین سیّدہ اُمِ حبیبہؓ
سیّدہ اُمِ حبیبہؓ کا اصل نام ’رملہ‘ تھا۔ آپؓ سردارِ مکہ ابو سفیان کی صاحبزادی، امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کی پھوپھی زاد اور حضرت امیر معاویہؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ آپؓ کا پہلا نکاح عبداللہ بن حجش سے ہوا جو پہلی ہجرتِ حبشہ کے بعد عیسائیوں کی صحبت میں شراب و بدکاری کا اسیر ہو گیا۔ سیّدہ امِ حبیبہؓ نے اس شخص کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سنتا۔ اس طرح انہوں نے دس سال غریب الوطنی میں سخت قسم کے مصائب برداشت کیے۔ دس سال بعد کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے عبداللہ مر گیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی جانثار صحابیہ کے مصائب کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سخت رنجیدہ ہوئے۔ آپؓ کی عدت پوری ہونے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شاہِ حبشہ کے ذریعے آپؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے آپؓ نے بخوشی قبول فرمایا۔ یوں سیّدہ امِ حبیبہؓ 37 سال کی عمر میں حرمِ نبویؐ کی زینت بنیں۔ سیّدہ حضرت اُمِ حبیبہؓ نہایت پاکیزہ اخلاق اور سخی طبیعت کی مالک تھیں۔ آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دنیا میں سب سے بڑھ کر عقیدت و محبت تھی۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ایک بار آپؓ کے والد ابو سفیان جو کہ ابھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے صلح حدیبیہ کی تجدید کے لیے مدینہ آئے تو بے تکلف اپنی بیٹی سے ملنے چلے آئے اور بستر ِنبوت پر بیٹھ گئے۔ سیّدہ اُمِ حبیبہؓ نے اپنے والد کی ذرا پرواہ نہ کی اور یہ کہہ کر اپنے باپ کو بستر سے اُٹھا دیا ’’یہ بستر ِنبوت ہے میں کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک ناپاک مشرک اس بستر پر بیٹھے۔‘‘
سیّدہ حضرت اُمِ حبیبہؓ نے 72سال کی عمر میں 44ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔ آپؓ سے65 احادیث مروی ہیں۔
ام المومنین سیّدہ صفیہؓ بنتِ حیی
سیّدہ صفیہؓ کا اصل نام’ زینب‘ تھا۔ نکاح کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کا نام ’صفیہ‘رکھا۔ آپؓ کا تعلق یہودی قبیلہ بنونضیر سے تھا۔ آپ کا والد اس قبیلہ کا سرداراعظم حیی بن اخطب تھا۔ یہ خاندان بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھا۔ آپؓ کا سابق شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس ِاعظم تھا جو غزوہ خیبر میں قتل ہوا۔ حضرت صفیہؓ جنگ خیبر میں اسیر ہوکر آنے والے یہودیوں میں شامل تھیں۔ مالِ غنیمت کی تقسیم میں حضرت دحیہ کلبیؓ نے آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے طلب کیا جس کی انہیں اجازت مل گئی ۔ چونکہ سیّدہ صفیہؓ اسیرانِ جنگ میں ذی وقعت تھیں اس لیے بعض صحابہ کرامؓ کے مشورہ پر آپؓ کی رضا مندی سے آپؓ کا نکاح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوا اور حضرت دحیہؓ کو دوسری لونڈی عطافرمائی گئی جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا۔ 7 ہجری میں غزوئہ خیبر سے واپسی پر صہبا کے مقام پر رسم ِ عروسی ادا کی گئی اور وہیں اگلے دن دعوتِ ولیمہ بھی ہوئی۔اس بابرکت نکاح کے بعد یہودی پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہ ہوئے۔ سیّدہ حضرت صفیہؓ نے رمضان 50 ہجری میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفن ہیں ۔ آپؓ سے 10 احادیث مروی ہیں۔
اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ بنتِِ حارث
جب 6 ہجری میں مسلمانوں نے عمرہ کا ارادہ کیا تو کفارِ مکہ نے انہیں روک دیا۔ اسی موقع پر صلح نامہ (حدیبیہ) طے پایاجس میں مسلمانوں کو اگلے سال یعنی 7 ہجری کو عمرہ ادا کرنے اور تین دن مکہ میں ٹھہرنے پر اتفاق ہوا۔ اللہ کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا چنانچہ 7 ہجری میں جب مسلمان عمرہ کے لیے مکہ آئے تو ان کی تعداد اور شان و شوکت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ انہی دنوں حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کے چچا حضرت عباسؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کی درخواست پیش کی جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قبول فرما لی۔ حضرت میمونہ ؓ جو مسلمان ہو چکی تھیں، عمرۃالقضا کی ادائیگی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نکاح میں آ گئیں۔ اس نکاح کے ذریعے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہل ِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کو دورکرنے کا پیغام دیا۔ اس بابرکت نکاح کے بعد اہل ِ مکہ کے رویوں میں بھی کافی مثبت تبدیلیاں آئیں۔ حضرت میمونہؓ سے نکاح کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید کوئی نکاح نہ فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تمام نکاح جس مقدس مقصد کے لیے کیے‘ وہ پورا ہو چکا تھا۔ توحید ِ حق کی شمعیں ہر جانب روشن ہو گئی تھیں۔ حضرت میمونہ ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے احکامِ شریعت کو اچھی طرح سیکھا اور تاعمر لوگوں کی راہِ شریعت پر رہنمائی کی۔ حضرت میمونہ ؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد عقیدت و محبت تھی۔ روایت میں ہے کہ سیّدہ میمونہ ؓ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا استعمال شدہ ایک آئینہ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری وصال کے بعد جب صحابہ کرامؓ کو یادِ رسولؐ کا غم نڈھال کر دیتا تو وہ سیّدہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر آئینہ طلب کرتے جس میں ان عاشقانِ رسولؐ کو اپنے محبوب کی پاکیزہ صورت نظر آتی جس سے ان اصحاب پاکؓ کے بے قرار قلوب قرار پاتے۔
حضرت میمونہ ؓ نے 51ہجری میں 80سال کی عمر میں وفات پائی ۔ آپؓ سے 46احادیث مروی ہیں۔
ازواجِ مطہرات کی حیاتِ طیبہ کو پڑھنے سے یہ بات ہر صاحب ِ عقل و شعور کو سمجھ آجاتی ہے کہ بلاشبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر نکاح کا مقصد دین ِ حق کی ترویج و اشاعت ہی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تمام ازواجِ مطہراتؓ نے اس عظیم مقصد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھر پور ساتھ دیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم اجمعین کی حیاتِ طیبہ سے مستفید ہو کر تکمیل ِ ایمان کی نعمت سے ہمکنار فرمائے۔ آمین