نورِ کامل.حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام
تحریر: مسز میمو نہ اسد سروری قادری ۔ لاہور
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے قبل گمراہ کن تاریکیوں اور دورِ جہالت میں غرق منتشراور بے مقصد زندگی گزارنے والا ہجومِ انسان معاشرتی، ذہنی، سماجی بے راہ روی میں مبتلا تھا۔ اہلِ عرب مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں میں نہ صرف تقسیم تھے بلکہ انتہائی انتشار نے ان کی ہر قسم کی طاقت کو توڑ رکھا تھا۔ وہ لوگ بلا مقصد زندگی گزار رہے تھے۔ بات بات پر جھگڑا اور طویل دشمنیاں ان کی عادت بن چکی تھی۔ نہ عزت کا خیال تھا نہ آبرو کی پرواہ۔ غلط عقائد اس حد تک پروان چڑھ چکے تھے کہ اللہ اور اس کے انبیا کے منکر ہو چکے تھے۔ ان کی اس حالت ِ زارپر اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں فرما یا :
ترجمہ: انہیں کسی قسم کا علم نہیں ایسے ہی گمان کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ (الجا ثیہ ۔ 24 )
لیکن جب اللہ پاک اپنی قدرت سے روشنی دکھانا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا ممکن نہیں! وہی تو ہے جو شر سے خیر اور خیر سے شر ظاہر کرتا ہے اس لیے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس سرزمین پر اصلاحِ انسانیت کے لئے آفتا بِ ہدایت بنا کر بھیجا۔
اللہ پاک نے اپنی پہچان کی غرض سے ہی یہ کائنات تخلیق فرمائی تھی اور اس کی ابتدا اپنے نور سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور جدا کر کے فرمائی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے تمہارے نبیؐ کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں اللہ نے چاہا وہ نور گھومتا رہا۔ اُس وقت نہ روح تھی نہ فرشتے، نہ زمین تھی نہ آسمان، نہ سورج تھا نہ چاند اور نہ ہی جن وانسان۔ بقول شاعر
انجم کی ضو نہ شمس و قمر کا ظہور تھا
آنکھیں بھی جب نہ تھیں تو محمدؐ کا نور تھا
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
٭ جان لے کہ اللہ تعا لیٰ نے سب سے پہلے روحِ محمد ؐ کو اپنے نورِ جمال سے پیدا کیا۔ جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’میں نے آپؐ کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا فرمایا۔‘‘ جیسا کہ آپؐ کافرمان ہے:
1) اللہ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایا۔
2) اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور کو پیدا فرمایا۔
3) اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا۔
4) اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا فرمایا۔
ان سب سے مراد ایک ہی چیز ہے وہ ہے حقیقت ِ محمدیہ جس کا نا م نور اس لیے رکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ظلماتِ جلالیہ سے بالکل پاک ہے قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
٭قَدْ جَائَکُمْ مِنْ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْن۔ (الما ئدہ۔ 15)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس آیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور کتابِ مبین۔
عقل اس لیے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات تمام کلیات پر محیط ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہو ں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
قلم اس لئے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات علم کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہے یعنی کامل ترین انسان اور رہنما ہے۔ ان تما م سے مراد حقیقتِ محمدیہ ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔ (سرّالاسرار)
جیسا کہ حدیثِ قدسی میں بھی اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
٭ لَوْلَاکَ لَمْا اَظْھَرْتُ الرَّبُوْبِیَّۃ
ترجمہ: اے محبو ب!ؐ اگر آپ نہ ہو تے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا۔
٭لَوْلَاکَ لَمَا خَلَّقْتُ الْاَفْلَاکْ
ترجمہ: اے محبوبؐ ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنا ت کو پیدا نہ کرتا۔
بقول شاعر
محمد ؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا، ندی بھی نہ ہوتی سمندر بھی نہ ہوتا
زمیں بھی نہ ہوتی فلک بھی نہ ہوتا، اِرادے نہ ہوتے عمل بھی نہ ہوتا
یہ فرشی نہ ہوتے وہ عرشی نہ ہوتا، ملائک نہ ہوتے لاہوتی نہ ہوتا
اگر آپؐ نہ ہوتے تو کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا
اس کی وجہ ان احادیث مبارکہ سے مزید واضح ہو جاتی ہے:
٭اَنَا اَحْمَدٌ بِلَا مِیْم
ترجمہ : میں میم کے بغیر احمد ہوں ۔
یعنی لفظ ’احمد‘ سے م حذف کر دیا جائے تو ’احد‘ بن جاتا ہے۔
خدا نے نور سے اپنے بنایا نورِ احمدؐ کو
بتاؤ پھر بشر بُولوں یا نورِ کبریا بولوں
احد میں اور احمدؐ میں فقط ایک میم کا پردہ
خدا سے پھر محمدؐ کو بھلا کیسے جدا بولوں
٭ مَنْ رَانِیْ فَقَدْ رَایَ الْحَقْ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا اس نے حقیقت میں اللہ کودیکھا۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اعلیٰ مقام اور عظمت و برتری
اللہ تعالیٰ نے جیسا بلند مقام و مرتبہ اور عظمت و برتری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائی وہ کسی اور کو عطا نہ فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقام و مرتبہ اور ذکر ہر لمحہ بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔
صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جبرائیلؑ امین میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا میرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ربّ مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا اللہ ہی بہتر جا نتا ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر کیا جائے۔‘‘ (جلا ل الدین سیوطی د رمنشور)
جب اُن کا ذکر ہو دُنیا سراپا گوش بن جائے
جب ان کا نام آئے مرحبا صلِ علیٰ کہیے
اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ ساتھ اللہ پاک خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجتا ہے اور اہلِ ایمان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیتا ہے۔
جب زباں پر محمدؐ کا نام آ گیا
آسماں سے درود و سلام آ گیا
مشہور مفسر ِ قرآن علامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرکْ ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت ورفعت آپؐ کی سیرتِ عظمیٰ اور نامِ گرامی کی بلندی یہ ہے کہ کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوبؐ کا نام ملا دیا اور اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں معزز القابات یَآاَیُّھَا الْمُدَّثِّرْ، یَآاَیُّھَا الْمُزَّمِّلْ، یَآاَیُّھَا النَّبِیُّ‘ یَآاَیُّھَا الرَّسُوْل کے ساتھ خطاب فرما یا ور گزشتہ آسما نی صحیفوں میں بھی آپؐ کاذکر ِ خیر فرمایا۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندگی کے ہر روپ میں عظیم الصفات اور پوری کائنات میں مثالی ہیں۔ شوہر کے روپ میں ہوں یا تاجر کے روپ میں، باپ کے رُوپ میں ہوں یا رشتہ دا ر کے روپ میں، مرشد کے روپ میں یا معلم کے روپ میں، انسانِ کامل کے روپ میں ہوں یا رہبر ِ کامل اکمل کے روپ میں۔ حقوقِ انسانی کے مثالی داعی، مشقت اور درگزر کے پیکر، پاکیزہ تہذیب وثقافت کے عظیم بانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’آپؐ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کربھیجا۔‘‘ اگر اس کو وا ضح کر کے لکھیں تو آپؐ جیسا نہ کو ئی سخی ہے نہ رہنما اور نہ ہی مرشد۔ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام جہانوں کے لئے بھلائی اور رحمت کا پیغام لے کر آئے۔ جس نے بندوں کو خدا سے ملوایا، جس نے دل کوپاک اور روح کو روشن کیا جس نے امیری اور غریبی، بادشاہی اور گدائی، رنج و راحت کے ہر درجہ اور ہر مقام پر انسان کی رہنمائی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنا نور کے راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر سکیں۔ یہی اصل دین ہے۔ قرآنِ مجید میں اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہاتھ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بولنا چلنا یہاں تک کہ کھانا پینا سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
٭اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِم۔(الفتح ۔10)
ترجمہ: اے نبیؐ! جو لو گ آپؐ کے ہا تھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہا تھ پر بیعت کرتے ہیں اور ان لو گو ں کے ہا تھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ سے جدا ہو کر بھی جدا نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کامل ترین انسان ہیں جن کا ہر کام چاہے وہ ذاتی زندگی سے متعلق ہو یا اسلام کی تبلیغ سے متعلق‘ سب اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔
تو صاحبِ لولاک ہے، تو فخرِ موجودات ہے
تو مظہرِشان خدا، یا رحمت اللعالمین
خالق نے تیرے واسطے، پیدا کئے کون و مکاں
تیرے لیے سب کچھ بنا، یا رحمت اللعالمین
ہے نور تیرا اوّلین، تجھ پر رسالت ختم ہے
تو ابتدا تو انتہا یا رحمت العالمین
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مرشد کامل اکمل ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ ہی ہدایت ہے جس کی کو ئی حد نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انسانوں چاہے وہ آپؐ کے دور کے ہوں چاہے بعد والے دو ر کے، اُن سب کے لئے رحمت اور ہدایت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی بات پر فخر نہ فرمایا سوائے فقر کے جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیا مت تک کے لئے آگے درجہ بدرجہ منتقل کر دیا۔
آپؐ کا فرمانِ عالی شان ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ ۔
ترجمہ: فقر میر ا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقر وہ خزانہ ہے جو کسی نبی یا پیغمبر کو نہ ملا۔ صرف اور صرف آقائے دوجہان کامل ترین ذات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے مختارِ کُل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اپنے حقیقی روحانی وارثین کو منتقل کر دیا۔ یہی وہ فقر ہے جو امام الانبیا سے منتقل ہوتا ہوا سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا اور ان کے ہی سلسلہ میں منتقل ہو تا ہوا آج اَلْحَمْدُلِلّٰہ ہما رے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو عطا ہوا۔
آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے انسانِ کامل اور مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں موجودہ دور کے مطابق اس انداز سے پھیلا رہے ہیں جو کہ اس دور اور آنے والی کئی صدیوں کے طالبانِ مولیٰ کے لیے فقر کی منازل طے کرنے میں رہنما ثابت ہوتا رہے گا۔ انشاء اللہ
ِ
سبحان اللہ