وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (سورۃ الانشرح: 4)
ترجمہ: اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر بلند فرما دیا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر بلند کردیں گے یا کر دیا جائے گا بلکہ فرمایا ’’کر دیا ہے۔‘‘ کب سے کررہا ہے؟ جب سے اللہ تعالیٰ موجود ہے اور کب تک بلند رہے گا؟ جب تک اللہ تعالیٰ موجود رہے گا۔ وہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا! اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اُس وقت بھی نبی تھے جب آدمؑ مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی عمر کے متعلق بتایا کہ وہ اپنی عمر تو نہیں جانتے بس اتنا جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نورانی حجابات کے چوتھے پردہ میں ستر ہزار سال بعد ایک نوری تارا ظاہر ہوتا ہے اور انہوں نے اُسے بہتّر ہزار بار دیکھا ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)نے فرمایا ’’اے جبرائیل! وہ تارا میں ہی ہوں۔‘‘
پھر کہاں کہاں بلند فرما دیا! کیا صرف اس دنیا میں؟ کیوں؟ وہ خود ’’ربّ العالمین‘‘ ہے اور اس کا محبوب’’رحمتہ اللعالمین‘‘ ہے لہٰذا جتنے عالمین (جہان) اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے وہ اُن کا ربّ ہے اور اُن تمام جہانوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رسول ہیں۔ اسی لیے ان تمام عالمین میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بلند فرما دیا ہے۔ عالم (جہان) کتنے ہیں یہ تو ہمارے حد ِ ادراک سے باہر ہے اور اُن تمام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر بلند ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت اور ذکر کی بلندی کو سمجھنا عقل و فہم سے بالاتر ہے۔
اس آیت کریمہ میں لفظ لَکَ یعنی ’’آپ کے لیے‘‘ اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہمیں کسی کی کیا پرواہ ہے؟ کوئی خوش ہو یا ناخوش‘ راضی ہو یا ناراض‘ ہم تو مالک ہیں بے نیاز ہیں، ہر کوئی ہمارا محتاج ہے ہم کسی کے محتاج نہیں۔ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی بات آتی ہے تو آپ کا ذکر بھی اس لیے کرتا ہوں کہ آپ راضی ہو جائیں۔
یہاں پر بلندی اضافی امر ہے۔ جیسے سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ ان لوگوں سے بلند ہوتے ہیں جو زمین پر بیٹھے ہوں اور جو لوگ مکان کی چھت پر ہوں ان لوگوں سے بلند ہوتے ہیں جو سٹیج پر ہوں علیٰ ہذا القیاس۔ ہر بلندی اضافی امر ہے چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں چیز ’بلند‘ ہے تو فوراً ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کے مقابلے میں بلند ہے؟ اور اگر مقابلے میں کسی چیز کا ذکر نہ ہو تو بلندی سمجھ میں نہیں آتی‘ بنا بریں بلندی ایک اضافی امر ہے لیکن اس آیت کریمہ میں مطلق بلندی مذکور ہے۔
عقل ِ انسانی سوال کرتی ہے کہ باری تعالیٰ کس کے مقابلے پر بلند کر دیا؟ کیونکہ مقابلے میں تو کسی چیز کا ذکر نہیں۔ اس لیے وہ ذات کہتی ہے کہ میرے محبوب کے مقابلے میں تو کوئی ہے ہی نہیں‘ کس کا ذکر کیا جائے۔ یہاں مطلق ارتفاع ہے مطلق بلندی ہے۔ دو چار‘ دس‘ پندرہ‘ سو‘ ہزار‘ کروڑ‘ ارب‘ کھرب الغرض گنی چنی چیزیں نہیں جن کا ذکر کر کے بتایا جائے کہ ان کے مقابلے میں بلند کیا ہے۔ جب محبوب ؐ کا ذکر تمام موجوداتِ عالم سے بلند کر دیا تو اب کس کا ذکر کرو کوئی لائق ِ تذکرہ ہے ہی نہیں۔
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کے مفہوم پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت کریمہ اس حقیقت کی وضاحت کر رہی ہے کہ کائنات میں کوئی شے ایسی نہیں جس سے حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بلند تر نہ ہو کیونکہ فرمایا ’’محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے تمہارا ذکر ہر شے سے بلند کردیا۔‘‘ اب بتائیے آپ کی عقل‘ آپ کا علم‘ آپ کا مطالعہ‘ آپ کے مناظرے‘ مجادلے‘ استدلال اور آپ کے عقلی نقلی دلائل‘ تحریریں بیان‘ کلام وغیرہ یہ سب لفظ ’’شے‘‘ کے دائرے میں آتے ہیں کہ نہیں؟ جب یہ سب کچھ لفظ ’’شے‘‘ کے دائرے میں آتا ہے تو فرمانِ الٰہی کا مفہوم یا مطلب یہ ہوا کہ ذکر ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہارے علم سے بھی بلند ہے اور تمہاری عقل سے بھی‘ تمہاری فکر و بصیرت سے بھی بلند ہے، تمہارے ادراک سے بھی بلند ہے اور تمہارے مطالعوں سے بھی‘ تمہاری کتابوں سے بھی بلند ہے اور تمہارے مناظروں سے بھی۔ عمر بھر تم پرواز کرتے رہو تمہاری پرواز جہاں جاکر ختم ہوگی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر اس سے بھی بلند ہے۔ غرضیکہ ’’حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقام یہ ہے اور یہ نہیں ہے‘‘ کی بحث میں پڑنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام و مرتبے کو متعین کرنے کے مترادف ہے جو سراسر ضلالت و گمراہی اور جہالت ہے۔ (ایمان کامرکز و محور ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو اس طرح بلند کیا ہے کہ اپنے ذکر کے ساتھ ذکر ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرض کر دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
لَا اُذْکَرُ فِیْ مَکَانٍ اِلَّا ذُکِرْتَ مَعِیْ یَامُحَمَّدُ مِمَّنْ ذَکَرَنِیْ وَلَمْ یَذْکُرَکُ فَلَیْسَ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نَصِیْبٌ۔ (درمنشور جلد 6 صفحہ 401)
ترجمہ: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جہاں میرا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ جس نے میرا ذکر کیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر نہ کیا‘ جنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کی بلندی کی سب سے بڑی مثال ایک دن میں پانچ وقت کی اذان ہے۔ مؤذن جب اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا اعلان کرتاہے اَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا اعلان بھی کرتا ہے: اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ جاننے والے جانتے ہوں گے کہ اذان وہ اسلامی شعار ہے جو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں دنیا کے کونے کونے میں ہر لمحہ گونجتی رہتی ہے۔ وہ یوں کہ سب سے پہلے طلوعِ سحر سیلز کے مشرق میں واقع جزائر میں ہوتی ہے۔ وہاں جس وقت صبح کے ساڑھے پانچ بج رہے ہوتے ہیں طلوعِ سحر کے ساتھ ہی انڈونیشیا کے انتہائی مشرقی جزائر میں فجر کی اذان شروع ہوجاتی ہے اور بیک وقت ہزاروں مؤذن خدائے بزرگ و برتر کی توحید اور حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ مشرقی جزائر سے یہ سلسلہ مغربی جزائر کی طرف بڑھتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹہ تک جکارتہ میں مؤذنوں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ جکارتہ کے بعد یہ سلسلہ سماٹرا میں شروع ہو جاتا ہے اور سماٹرا کے مغربی قصبوں اور دیہات سے پہلے ہی ملایا کی مسجدوں میں اذانیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ملایا کے بعد برما کی باری آجاتی ہے۔ جکارتہ سے اذانوں کا جوسلسلہ شروع ہوتا ہے وہ ایک گھنٹہ بعد ڈھاکہ پہنچتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ابھی اذانوں کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ کلکتہ سے سری نگر سے بمبئی کی طرف بڑھتا ہے اور پورے ہندوستان کی فضا توحید و رسالت کے اعلان سے گونج اٹھتی ہے۔ سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کی اذان کا ایک ہی وقت ہے سیالکوٹ سے کوئٹہ کراچی اور گوادر تک چالیس منٹ کا فرق ہے اس عرصہ میں فجر کی اذان پاکستان میں بلند ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں یہ سلسلہ ختم ہونے سے پہلے افغانستان اور مسقط میں شروع ہو جاتا ہے مسقط سے بغداد تک ایک گھنٹہ کا فرق ہے اس عرصہ میں اذانیں حجازِ مقدس، یمن، عرب امارات، کویت اور عراق میں گونجتی ہیں۔ بغداد سے اسکندر یہ تک پھر ایک گھنٹہ کا فرق ہے اس دوران میں شام، مصر، صومالیہ اور سوڈان میں اذانیں بلند ہوتی ہیں۔ اسکندریہ اور استنبول ایک ہی طول و عرض پر واقع ہیں۔ مشرقی ترکی سے مغربی ترکی تک ڈیڑھ گھنٹہ کا فرق ہے اس دوران ترکی میں صدائے توحید و رسالت بلند ہوتی ہے۔ اسکندریہ سے طرابلس تک ایک گھنٹہ کا دورانیہ ہے اس عرصہ میں شمالی افریقہ میں لیبیا اور تیونس میں اذانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فجر کی اذان جس کا آغاز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے ہوا تھا ساڑھے نو گھنٹے کا طویل سفر کر کے بحر اوقیانوس کے مشرقی کنارے تک پہنچتی ہے۔ فجر کی اذان بحر اوقیانوس تک پہنچنے سے قبل ہی مشرقی انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور ڈھاکہ میں ظہر کی اذانیں شروع ہونے تک مشرقی انڈونیشیا میں عصر کی اذانیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ گھنٹہ تک بمشکل جکارتہ پہنچتا ہے کہ انڈونیشیا کے مشرقی جزائر میں نمازِ مغرب کا وقت ہوتا ہے مغرب کی اذانیں سیلز سے بمشکل سماٹرا تک پہنچتی ہیں کہ اتنے میں عشاء کا وقت ہو جاتا ہے۔ جس وقت مشرقی انڈونیشیا میں عشاء کی اذانوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اس وقت افریقہ میں فجر کی اذانیں گونج رہی ہوتی ہیں۔ کرہ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں لاکھوں مؤذن بیک وقت اللہ کی کبریائی اور رسول اللہؐ کی مصطفائی کا ڈنکا نہ بجا رہے ہوں اور قیامت تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کی ایک کیفیت اور ثبوت۔
نماز اسلام کا اہم رکن اور دِن کے پانچ اوقات میں فرض ہے اور ہر نمازی ہر نماز میں تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سلام اور درود بھیجتا ہے یعنی نماز بھی آپ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
پھر درود وہ ذکر اور عبادت ہے جو ہر عبادت کو بارگاہِ الٰہی میں مقبول بناتی ہے کیونکہ ہر فرقہ اور مسلک کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر دعا یا کسی عبادت کے اوّل آخر درود شریف پڑھ لیا جائے تو عبادت اور دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ پس فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگنا ہے تو پہلے میرے محبوب پر درود بھیجو۔ میرے محبوب کا ذکر کرو۔ پھر قبول کروں گا۔ یہ ہے ایک اور طریقہ محبوب کے ذکر کو بلند کرنے کا۔
آقائے دو جہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کے مطابق بیان کرنا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ’’میری حقیقت میرے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر اور تعریف عبادت ہے اور درود شریف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کا دوسرا نام ہے ۔ درود پاک تاجدارِ انبیا محبو بِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاں نذرانہ عقیدت ‘ عظمت ِشان ‘ ایمانِ کامل کا اعلان ،اوصافِ ِجمیلہ کی تعریف وتوصیف ‘ لامتناہی محبت وعقیدت اور حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعزاز و اکرام کا دوسرا نام ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(الاحزاب۔56)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود اورسلام بھیجا کرو۔
یہ وہ واحد عبادت ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے والے تین ہیں :(۱) اللہ تعالیٰ (۲) فرشتے (۳) اہلِ ایمان۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے :
۱۔ اللہ تعالیٰ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو بلند کررہا ہے۔
۲۔ ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین ِمبارک کو غلبہ عطا فرما رہا ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کرام کی شریعتوں کو منسوخ کرکے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریعت ِ مبارکہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برقرار رکھنے کا اعلان فرما دیا ہے اور اب ہمیشہ ہمیشہ تاقیامت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں کو جمیع اہلِ ایمان کا عمل اور دار و مدارِ نجات اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دے رہا ہے۔
۴۔ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت و عظمت کو چار چاند لگ رہے ہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وللا خرہ خیر لک من الاولی ترجمہ:اور بعد میں آنے والا ہر لمحہ آپ کیلئے پہلے لمحے کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔
۵۔ روزِ محشر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مقامِ شفاعت ووسیلہ عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ فر مائے گا ’’محبوب سوال کرو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کریں گے، شفاعت کرو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت قبول کریں گے۔‘‘ (مسلم شریف)
۶۔ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے ’’دیدارِحق تعالیٰ ‘‘ کی نعمت مومنین کو عطا فرما رہا ہے۔
فرشتوں کی طرف سے آپ پر درود کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب عطا فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کو دنیا میں غلبہ عطا فرمائے۔
اہل ِایمان کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب بھی اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان بلند کرنے کی التجا ہے۔ یعنی اہل ِایمان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ جب میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر برکات کا نزول کرتا ہوں اور میرے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں تعریف کرتے ہیں تو اے ایمان والو! تم بھی میرے محبوب کی تعریف کرو۔
اس آیت ِمبارکہ میں لفظ صلوٰۃ استعمال ہوا ہے جس کے تین معانی ہیں پہلا محبت اور عشق کی بنا پر رحمت کرنا یا مہربان ہونا۔ دوسرا تعریف وتوصیف کرنا۔ تیسرا التجا کرنا۔ لہٰذا جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ کے معنوں میں استعمال کیا جائے گا تو اس سے پہلا اور دوسرا مطلب مراد لیے جائیں گے۔ لیکن جب صلوٰۃ کا لفظ فرشتوں اور انسانوں کی طرف سے بولا جائے گا تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا اور التجا کرنا لیا جائے گا۔
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاکا مطلب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں سلام پیش کرنا ہے۔ مومنین کو درود کے ساتھ ساتھ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے کا بھی حکم ہے اور سلام اسے کیا جاتا ہے جو سامنے موجود ہو لہٰذا اس سے ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کا ثبوت دینا بھی مقصود ہے۔
اگرچہ مندرجہ بالا آیت ِمبارکہ میں ہمیں صلوٰۃ وسلام کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہم اعترافِ عجز کرتے ہوئے کہتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ یعنی اے اللہ تو ہی اپنے محبوب کی شان اور قدر ومنزلت کو صحیح طرح جانتا ہے اس لئے تو ہی ہماری طرف سے اپنے محبوب پر صلوٰۃ وسلام بھیج جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شایانِ شان ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو اس طرح بھی بلند کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کا ایک ایک پہلو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک ایک ادا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک ایک قول، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک ایک عمل محفوظ فرما دیا اور اُن کی اتباع ہر مسلمان پر لازم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر جتنی کتب تحریر ہو چکی ہیں اتنی آج تک کسی انسان پر تحریر نہیں ہوئیں اور ہر لمحہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ تحریر ہو رہی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ غیر بھی جب تعصب کی عینک اتار کر کائنات کی سو شخصیات کا انتخاب کرتے ہیں تو سب سے پہلی شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قرار پاتی ہے‘ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب کے ذکر کو بلند کرنا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک ایک حکم، ایک ایک عمل کو سنت ِ مبارکہ کی صورت میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ جب کوئی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ِمبارکہ پر عمل کرتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر ہی بلند کر رہا ہوتا ہے۔
پھر اللہ نے صرف اپنے حبیب ؐکا ذکر ہی بلند نہ کیا بلکہ جس نے بھی اللہ کے حبیب کو اپنا محبوب جانا‘ اس کا بھی ذکر بلند کیا۔ بلال حبشی رضی اللہ عنہٗ کو ویسے بھلا کون جانتا اور مؤذنِ اسلام بلال رضی اللہ عنہٗ کو کون مسلمان نہیں جانتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ ‘ عمر رضی اللہ عنہٗ‘ عثمان رضی اللہ عنہٗ اور علی رضی اللہ عنہٗ کی شہرت اگر ہوتی بھی تو صرف اپنے اپنے قبیلے، علاقے یا زمانے تک محدود رہتی لیکن یہ اس دُرِّ یتیم کی مقناطیسی قوت اور کیمیاگری ہی کا اثر تھا کہ جو بھی کھنچا چلا آیا‘ نام پا گیا اور جو جتنا قریب آتا گیا اس کے نام کو اس جہان میں اتنی ہی جِلا ملی اور دو جہان میں اتنا ہی اونچا مقام ملا۔ خطاب کا بیٹا ننگی تلوار سونتے قتل کرنے آتا ہے لیکن اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اپنے خدا سے دین کی سربلندی کے لیے مانگ لیا ہے۔ تلوار نیام میں چلی جاتی ہے اور پھر جب نکلتی ہے تو اسلام کی تلوار بن جاتی ہے‘ آدھی دنیا پہ چھا جاتی ہے اور رہتی دنیا تک یاد رکھی جاتی ہے۔ عمر بن خطاب امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ بن جاتے ہیں اور دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین حکمرانوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف مقناطیسیت ہی نہیں‘ یہ علم ِ اکسیر ہے یعنی عام دھات کو سونا بنانے کا عمل ‘ عام انسان کو خاص بنانے کا عمل‘ انسان تو انسان، جن دشوار گزار پہاڑوں اور غاروں میں قیام کیا‘ انہیں بھی نہ صرف لازوال شہرت عطا کی بلکہ زیارت گاہِ خاص و عام بنا دیا۔ یہ وہ پہاڑ تھے کہ نہ ہمالیہ کی طرح بلند تھے کہ بلندی کی بنا پر نام پاتے، نہ کوہِ مری یا ایلپس کی طرح خشک اور سرسبز کہ صحت افزا مقام بن کر انسانوں کے کام آتے۔ ان کی اگر کوئی صفت ہے تو صرف اور صرف یہ کہ ایک بلند مرتبہ یتیم نے ایک خاص وقت میں یہ دُور افتادہ غار اپنے قیام کے لیے چنے اور اسی انتخاب نے کسی بے نام غار کو حرا اور کسی بے نور غار کو ثور کا نام دے کر رہتی دنیا تک ان کا نام بلندکر دیا۔ لوگ تو چودہ برس گزرنے کے بعد اپنے باپ دادا تک کو بھول جاتے ہیں اور یہاں چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی انسانوں اور غاروں کے ناموں کو شہرت ہی نہیں‘ کھربوں انسانوں کی عقیدت‘ بلکہ محبت حاصل رہی ہے۔ مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر معجزہ کیا ہوتا ہے اور ہمیں مافوق الفطرت واقعات میں معجزے تلاش کرنے کا خیال ہی کیوں آتا ہے؟
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد جس زمانہ میں جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل کیا اور جتنا قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا محبوب بنایا، خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں فنا کر دیا وہ اللہ کا ولی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا محبوب ہو گیا اور اس کا نام بھی بلند ہو گیا۔ اگر نہیں اعتبار تو صدیوں سے قائم اولیا اللہ کے مزارات کو دیکھ لیں کہ دشمن جتنی مخالفت کرتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر اتنا ہی بلند ہوتا جا رہا ہے۔
’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ کا اس سے بڑا جیتا جاگتا اور سکہ بند ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ ذکر کل بھی بلند تھا‘ آج بھی بلند ہے اور کل بھی بلند رہے گا۔ یہ ذکر ازل سے بلند ہے اور ابد تک بلند رہے گا۔ یہ ذکر اس گھڑی تک بلند رہے گا جب تک اللہ کا نام بلند ہے اور اس وقت تک موجود رہے گا جب تک اللہ موجود ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس ذکر کو بلند کرنے کے لیے بلند آواز ضروری نہیں‘ بلند دعویٰ درکار نہیں‘ جو بھی صدقِ دل اور صحیح عقیدے سے ایک بار خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وابستہ کرلے گا وہ بھی بلند ہو جائے گا۔ یہ ذکر بلند سے بلند تر ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا‘ کیونکہ اس کی جبلت میں بلند ہونا ہے اور اپنے وابستگان کو بھی بلند سے بلند تر کرنا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ اسے بلند کرنے کا ذمہ اس نے لیا ہے جو کائنات کی ہر شے سے بلند و برتر ہے۔
(نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔
سبحان اللہ
https://www.sultan-ul-faqr-library.com/ameer-ul-kaunain-urdu-sultan-bahoo-urdu-books/
Behtareen andaz mein haqiqat-e-Mohammadia ko bayan kia gaya hai
https://www.sultan-ul-faqr-publications.com/shop/haqeeqat-e-mohammadia/
ماشاﷲ بے شک آپؐ کا ذکر ہمیشہ بلند رہے گا
https://sultanulfaqr.tv/haqeeqat-e-mohammadia-sall-allahu-alayhi-waalihi-wasallam/