ہاتھ اور پاؤں چومنے کا ثبوت
Hath or Paon Chomnay ka Saboot
تحریر: احسن علی سروری قادری
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
انسان اگر دین و دنیا میں فلاح یاب ہونے کا خواہشمند ہے تو اسے ادب کو اپنا شعار بنانا ہوگا، خواہ دینی امور ہوں یا دنیوی، شعائر اللہ کی زیارت ہو یا مقدس مقامات کی، فقرا کاملین کی بارگاہ میں حاضری ہو یا علمائے دین کی، اساتذہ کی مجلس ہو یا بزرگوں کی، قرآن کی تلاوت ہو یا دیگر مذہبی کتب کا مطالعہ، اگر انسان ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھے گا تو ہی کامیابی اس کے قدم چومے گی۔
انسان کی ظاہری تربیت میں سب سے اہم کردار والدین اور اساتذہ کا ہوتا ہے جو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور باطنی تربیت میں سب سے اہم کردار مرشد کامل اکمل کا ہے جو نفس کا تزکیہ کر کے روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے اور شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ والدین ہوں یا اساتذہ یا مرشد کامل اکمل، یہ تمام ہستیاں باعث ِعقیدت و محبت اور باعث ِصد اکرام ہیں۔ ان کی خدمت کرنا اور ادب بجا لانا انسان پر لازم ہے۔
دورِ حاضر میں عوام الناس بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص ادب و لحاظ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اساتذہ کا ادب و احترام تو خواب و خیال بن چکا ہے۔ فقرا کی صحبت اختیار کرنا تو دور فقرا کی ضرورت سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی روحانی تربیت کے یے فقرا کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ اگر کوئی ادب و احترام اور عاجزی و انکساری کے جذبات سے مغلوب ہو کر فقرا کاملین کی دست بوسی یا قدم بوسی کر لے تو اسے طنز و مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جہالت کی انتہا تو یہ ہے کہ قدم بوسی کو سجدے سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں۔
شریعتِ مطہرہ کے مطابق سجدہ کی حالت میں جسم کے سات اعضا کا زمین پر لگنا ضروری ہے۔ یہ سات اعضا پیشانی، دو ہاتھ، دو پاؤں اوردو گھٹنے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَنْ یُّسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَعْضَائِ
ترجمہ: سجدہ سات اعضا کے ساتھ کیا جائے۔
امام جلال الدین سیوطیؒ روایت درج فرماتے ہیں کہ سجدہ سات اعضا دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں، دونوں گھٹنوں اور پیشانی سے ہوتا ہے۔ (جامع الصغیر)
اگر ان سات میں سے کوئی ایک بھی عضو زمین پر نہ لگے تو سجدہ نہیں ہوگا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فقرا کاملین کی قدم بوسی کرنا سجدہ کے زمرے میں نہیں آتا۔
دوسری بات یہ کہ کسی بھی عمل کے پیچھے نیت اور ارادہ کارفرما ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
بیشک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ اعمال کو، بلکہ وہ تمہارے قلوب کو اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔
لہٰذا قدم بوسی کرتے وقت نیت عقیدت و احترام کی ہوتی ہے نہ کہ سجدے کی۔
’’تنویر القلوب‘‘ میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے معجزہ طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW)نے ارشاد فرمایا ’’اس درخت سے کہو کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW)بلاتے ہیں۔‘‘ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ وہ درخت دائیں بائیں اور آگے پیچھے جھکا جس سے اس کی جڑیں ٹوٹ گئیں۔ پھر وہ زمین کو کھودتا، اپنی جڑوں کو کھینچتا، خاک اڑاتا ہوا اور آگے بڑھتا ہوا بارگاہِ رسالت مآبؐ (Prophet Muhammad SAW) میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘۔ اعرابی نے کہا کہ اب اس کو اپنی جگہ پر لوٹ جانے کا حکم فرمائیے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کے حکم پر درخت واپس اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر اس اعرابی نے عرض کیا ’’مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو سجدہ کروں۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) نے ارشاد فرمایا ’’اگر میں کسی کو یہ حکم فرماتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو بلاشبہ عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘ بعد ازاں اعرابی نے عرض کیا کہ میں آپ کے دست مبارک اور قدم مبارک پر بوسہ لینا چاہتا ہوں۔ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) نے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (تنویر القلوب)
اس روایت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر ہاتھ اور پاؤں پر بوسہ لینا غلط ہوتا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW)اس سے بھی منع فرما دیتے جس طرح سجدہ کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW)نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دست بوسی اور قدم بوسی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ مستحب عمل ہے۔ ذیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کی دست بوسی اور قدم بوسی کے چند واقعات درج کیے جا رہے ہیں:
صحابہ کرامؓ کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دست بوسی اور قدم بوسی کے معمولات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ترتیب یہ تھی کہ وہ جب بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کی دست بوسی لازمی کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) سے قریب ہوئے اور ہم نے آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔ (ابو دائود5223، مسند احمد 8315)
حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ دو یہودیوں نے سیدّ الابرار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر چند سوال کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) نے ان کے جواب ارشاد فرمائے۔ ان یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ (ترمذی شریف3705,4083)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اپنی تصنیف ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں ایک روایت درج فرماتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہٗ11 ربیع الاوّل کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) کی بارگاہ میں اپنے لشکر سمیت رخصتی کی اجازت حاصل کرنے کے ارادہ سے حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کے سرہانے کھڑے ہو گئے پھر اپنے سر کو جھکا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سر مبارک اور ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت زارعؓ فرماتے ہیں ’’ہم وفد القیس میں شامل تھے۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘ (مشکوٰۃ4688)
حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کی بارگاہ میں حاضر ہوئے مگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کی صورت مبارک سے ناآشنا تھے۔ کسی نے ہم سے کہا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تو ہم نے حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک ہاتھ اور پاؤں کو پکڑ کو بوسہ دیا۔ (بخاری، تنویر القلوب)
یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Muhammad SAW) کی عزت و تکریم کی چند مثالیں ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) خود بھی اپنی صاحبزادیوں خاص طور پر سیدّہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا بہت اکرام فرماتے۔ جب بھی سیدّہ کائنات ملاقات کے لیے تشریف لاتیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW) کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے، ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھے کی جگہ پر بٹھاتے۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad SAW) ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کی طرف لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداؤد5217)
صحابہ کرامؓ کے اکابرین کی دست بوسی کے معمولات
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW) کی دست بوسی اور قدم بوسی کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کا بھی اکرام کرتے۔ ہر صحابی اپنے سے بزرگ اور جید صحابی کی دست بوسی ضرور کرتا۔ ذیل میں صحابہ کرام کے چند واقعات درج کیے جا رہے ہیں:
حضرت ثابت رضی اللہ عنہٗ نے حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے پوچھا ’’کیا آپ نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW) کے دست مبارک کو چھوا ہے؟‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے اثبات میں جواب دیا۔ تو حضرت ثابت رضی اللہ عنہٗ نے حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کا ہاتھ چوم لیا۔ (مسند احمد 12118)
حضرت عبدالرحمن بن رزین رضی اللہ عنہٗ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ربذہ مقام پر اترے۔ وہ حج کرنے جا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW) کے صحابی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہٗ مقیم ہیں۔ ہم نے ان کی خدمت میں حاضری دی اور ان کو سلام عرض کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ (چادر سے) باہر نکالے اور فرمانے لگے کہ میں نے ان ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad SAW) سے بیعت کی۔ آپؓ نے اپنی پُرگوشت ہتھیلی سامنے کی۔ ہم کھڑے ہوئے اور ان کی دونوں ہتھیلیوں کو چوم لیا۔ (مسند احمد 16666)
شیخ الاسلام ابو القاسم عبدالکریم ہوازن القشیری نے اپنی مستند کتاب میں ایک روایت درج فرمائی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ سواری پر سوار ہونے لگے تو سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے ادباً عرض کیا کہ اے سرورِ عالم کے چچا جان کے صاحبزادے! آپ ٹھہر جائیں یعنی رکاب نہ پکڑیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ علما کی تعظیم کریں۔ یہ سن کر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر اس کو بوسہ دیا اور عرض کی ہم کو بھی اسی طرح حکم دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہلِ بیتؓ کی تعظیم کریں۔
فقہا و محدثین کے دست و قدم بوسی کے متعلق فرامین اور معمولات
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ بیان فرماتے ہیں کہ امام مسلم جو کہ صحیح مسلم کے جامع ہیں جب حضرت امام بخاریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے اجازت فرمائیں کہ میں آپ کے مبارک پاؤں کو چوم لوں۔
ابنِ قیم اپنی کتاب ’’بدائع الفوائد‘‘ میں حضرت شیخ الحنابلہ ابن عقیل رحمتہ اللہ علیہ کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ الحنابلہ ابن عقیلؒ نے مصافحہ کرتے وقت بادشاہ کے ہاتھ کو چوم لیا تو کسی شخص نے انہیں اس فعل پر ملامت کی۔ آپؒ نے جواب دیا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میرا باپ ہوتا اور میں اس کے ہاتھ کو بوسہ دیتا تو کیا یہ میرے لیے جائز تھا یا کہ ناجائز؟ لوگوں نے اس کو جواب میں کہا کہ کیوں نہیں، ایسا کرنا تو آپ کے لیے جائز ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ جب باپ کے ہاتھ کو بوسہ دینا جائز ہے حالانکہ وہ مخصوص افراد کی پرورش کرتا ہے تو بادشاہ کے ہاتھ کو بوسہ دینا کس طرح جائز نہ ہوگا جب کہ وہ ملک کی تمام رعایا کی پرورش کرتا ہے، اس لیے وہ زیادہ مکرم ہے۔ (بدائع الفوائد)
امام نوویؒ سے کسی نے پوچھا کہ اپنے غیر (یعنی دوسرے) کے ہاتھ کو چومنے کا کیا حکم ہے؟ تو آپؒ نے جواب دیا صالحین (فقرا)، فضلا اور علما کے ہاتھوں کو چومنا مستحب ہے۔ (کتاب الاذکار للنووی)
علامہ ابن ِحجر مکی رحمتہ اللہ علیہ سے مصافحہ کرنے اور ہاتھ پاؤں چومنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؒ نے جواب دیا کہ آنے والے کے ساتھ مصافحہ کرنا اور عالم ِدین، صالح شریف اور عمدہ نسب والے کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینا سنت ہے۔
حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں ’’بیشک عالم ِدین اور عادل بادشاہ کے ہاتھ چومنا سنت ہے۔‘‘ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں عالمِ دین اور زاہد یا عمر رسیدہ کا ہاتھ چومنا جائز ہے۔ (اشعتہ المعات)
حضرت علامہ سیدّ احمد بن محمد الحموی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ کو چومنا جو تعظیم و تکریم کا مستحق ہے جیسے علمائے دین، سادات، اشراف اور ذوالاحترام حضرات ہیں۔ ان کے ہاتھ چومنے میں ثواب کی امید ہے جیسا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ثابت ہے۔ (مفتاح السعادت)
علامہ محمد امین الکردی الاربلی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’علم اور زہد کی بنا پر ہاتھ چومنا سنت ہے۔‘‘
سلف صالحین اور فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کے فرامین اور معمولات
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ (Syedna Ghous-ul-Azam Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani) غنیۃ الطالبین میں ارشاد فرماتے ہیں ’’اگر دو آدمی آپس میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے اور ایک دوسرے کے سر اور ہاتھ کو انہوں نے تبرکاً بوسہ دیا تو یہ شرعاً جائز ہے۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اپنے مرشد خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی قدم بوسی کے متعلق فرماتے ہیں ’’جمعرات کے روز ایک مرتبہ جامع مسجد اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے پاؤں مبارک چومنے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘ (اخبار الاخیار)
خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ اپنے مرشد کے متعلق فرماتے ہیں کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ جب مسجد سے باہر نکلتے تو اپنا دست مبارک سامنے کر دیتے اور آپ کے حلقہ بگوش حلقہ بنا لیتے اور ہاتھ مبارک کو بوسہ دے کر چلے جاتے۔ (اسرار الاولیا)
حضرت نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ فرید الدین گنج شکرؒ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ شیخ ابوسعید ابوالخیرؒ ایک راستہ میں سوار جا رہے تھے کہ ایک مرید سامنے آیا۔ وہ مرید پیدل تھا۔ اس نے شیخ کے زانو چومے۔ شیخ نے فرمایا اس سے نیچے بوسہ دو۔ مرید نے شیخ کے پاؤں کو بوسہ دیا۔ شیخ نے پھر فرمایا اس سے نیچے بوسہ دو۔ مرید نے شیخ کے گھوڑے کے زانوؤں کو چوما۔ شیخ نے فرمایا اس سے نیچے بوسہ دو۔ مرید نے گھوڑے کے سم کو بوسہ دیا۔ شیخ نے پھر فرمایا کہ اس سے نیچے بوسہ دو۔ مرید نے زمین کو بوسہ دیا۔ شیخ نے فرمایا جب میں نے تجھ سے اس سے نیچے، اس سے نیچے فرمایا تو میرا منشا زمین کو چومنا نہ تھا بلکہ تو جب بھی نیچے ہوتا تھا اور بوسہ دیتا تھا تو تیرا درجہ بوجہ انکساری بلند ہوتا تھا۔ (فوائد الفواد)
شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں ’’جو مرید پیر کے ہاتھ اور پاؤں کو چومتے ہیں ان کا یہ فعل درست ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW) کے قدم مبارک کو بوسے دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں منع نہ فرمایا۔ اگر یہ جائز نہ ہوتا تو نبی کریم ضرور منع فرما دیتے۔
صحابہ کرامؓ، فقہا، محدثین اور صالحین کے فرامین اور معمولات سے ثابت ہوتا ہے کہ بزرگوں کا اکرام کرتے ہوئے ان کی دست بوسی اور قدم بوسی کرنا مستحب عمل ہے۔ اس سے طالب کا باطنی درجہ بھی بلند ہوتا ہے۔ ان مقدس ہستیوں کی بات تو ایک طرف اساتذہ، والدین اور بزرگوں کی دست بوسی اور قدم بوسی کی روایات بھی ملتی ہیں۔ علامہ بدر الدین غنی حنفی رحمتہ اللہ علیہ حدیث شریف روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ مکرمہ کی فتح دی تو میں بیت اللہ کے پاس جاؤں گا اور اس کی چوکھٹ کو بوسہ دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنی والدہ کے دونوں پاؤں کو بوسہ دو، تمہاری نذر پوری ہو جائے گی۔‘‘ (عمدۃ القاری)
امام جلال الدین سیوطیؒ نے بوسہ لینے کی پانچ اقسام بیان فرمائی ہیں:
۱) محبت کے طور پر
۲) رحمت کے طور پر
۳) شفقت کے طور پر
۴) احترام کے طور پر
۵) شہوت کے طور پر
محبت کے طور پر بوسہ لینا ایسا ہے جیسے والدین کا اپنی اولاد کے رخساروں کا بوسہ لینا۔ رحمت کے طور پر بوسہ لینا ایسا ہے جیسے اولاد کا والدین کے رخساروں کا بوسہ لینا، شفقت کے طور پر بوسہ لینا ایسا ہے جیسے ہمشیرہ کا بھائی کی پیشانی کا بوسہ لینا، عزت و احترام کے طور پر بوسہ لینا ایسا ہے جیسے مسلمان کا آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ کا بوسہ لینا، شہوت کے طور پر بوسہ لینا ایسا ہے جیسے خاوند کا اپنی بیوی کے چہرہ کا بوسہ لینا۔
اگر اولاد کا، والدین کا یا ازواج کا بوسہ لینا جائز ہو سکتا ہے تو فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کے ہاتھوں اور قدموں کا بوسہ لینا کس طرح غلط ہو سکتا ہے؟ ہم قرآن کے الہامی کتاب ہونے کے باعث اس کی تکریم کرتے ہیں، اسے بلند اور پاکیزہ جگہ پر رکھتے ہیں اور اس کی طرف پشت کرنے سے گریز کرتے ہیں تو فقیرِکامل تو فنا فی اللہ بقا باللہ کے مرتبہ پر ہوتا ہے، وہ صاحبِ کتاب ہوتا ہے۔ ایسی ہستی کا اکرام کیونکر غلط ہو سکتا ہے؟ اولاد اور والدین یا میاں بیوی کا رشتہ تو محض اس دنیا تک محدود ہے، مرنے کے ساتھ ہی یہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ تمام رشتے روزِ حشر اس وقت کام نہیں آئیں گے جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ لیکن فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کے ساتھ تعلق قلبی و روحانی ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی برقرار رہتا ہے بلکہ موت کے پہلے حالتِ نزع میں جب شیطان اپنے سارے لاؤ لشکر کے ساتھ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے سرگرم ہوتا ہے تو اس نازک موقع پر بھی مرشد کامل اکمل ہی طالب کو گمراہی کے اندھیرے میں گرنے اور شیطان کے چنگل میں پھنسنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
آج اگر ہم برائیوں میں مبتلا ہیں تو اسی وجہ سے کہ ہم نے ان مبارک ہستیوں کے ادب و احترام کو فراموش کر دیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ روحانی تربیت مرشد کامل اکمل کی نورانی صحبت میں ہی میسر آسکتی ہے۔ موجودہ دور میں مرکزِفقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کی مقدس بارگاہ ہی وہ واحد روحانی تربیت گاہ ہے جہاں ادب و عقیدت سے حاضر ہونے والے اپنی مرادیں پاتے ہیں، معرفتِ الٰہی حاصل کر کے اپنا مقصدِحیات حاصل کرتے ہیں، تزکیہ نفس کروا کر نفسانی بیماریوں سے نجات پاتے ہیں، اسم اللہ ذات کے ذکر، تصور اور مشق مرقومِ وجودیہ سے اپنے قلب و باطن کو منور کرتے ہیں۔ تمام اہلِ عقیدت و محبت خواتین و حضرات کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کی پاکیزہ صحبت اختیار کریں اور اپنی روحانی تربیت حاصل کریں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی بچائے جو فقرا کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
استفادہ:
ہاتھ اور پاؤں چومنے کا ثبوت، مؤلف محمد ضیا اللہ قادری کوٹلوی
حضرت زارعؓ فرماتے ہیں ’’ہم وفد القیس میں شامل تھے۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘ (مشکوٰۃ4688)
بہت ھی پیارا مضمون ھے ۔
آج اگر ہم برائیوں میں مبتلا ہیں تو اسی وجہ سے کہ ہم نے ان مبارک ہستیوں کے ادب و احترام کو فراموش کر دیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ روحانی تربیت مرشد کامل اکمل کی نورانی صحبت میں ہی میسر آسکتی ہے۔ موجودہ دور میں مرکزِفقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کی مقدس بارگاہ ہی وہ واحد روحانی تربیت گاہ ہے
ماشاءاللہ بہت خوب صورت مضمون ھے
ماشاءاللہ
بہترین مضمون ہے
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی بچائے جو فقرا کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔آمین
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی بچائے جو فقرا کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔آمین
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
👍
بہترین ❣️❣️❣️
مکمل تحقیق کے بعد لکھا گیا بہترین مضمون
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
بہترین مضمون ہے ❣️💯
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے،
اللہ پاک فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے،
قدم بوسی کرتے وقت نیت عقیدت و احترام کی ہوتی ہے نہ کہ سجدہ کی
بہت معلوماتی تحریر ہے
اس مضمون میں بڑے جامع انداز میں سجدہ اور اولیا کرام کے ہاتھوں اور پاوں کو بوسہ دینے کے فرق کو بیان کیا گیا ہے جو آج کے نام نہاد توحید پرستوں کے لئے ایک آئینہ ہے
حق نجیب یا نجیب
ھو نجیب یا نجیب
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی بچائے جو فقرا کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بہترین مضمون۔۔۔👌💯❤️
مکمل تحقیق کے بعد لکھا گیا بہترین مضمون
بہت خوب
بہترین تحریر ہے سبحان اللہ
بہت معلوماتی مضمون ہے ماشائ اللہ
بیشک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ اعمال کو، بلکہ وہ تمہارے قلوب کو اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔
علامہ محمد امین الکردی الاربلی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’علم اور زہد کی بنا پر ہاتھ چومنا سنت ہے۔‘‘
بہت اعلیٰ مضمون
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Muhammad SAW) سے قریب ہوئے اور ہم نے آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔ (ابو دائود5223، مسند احمد 8315)
ماشاء اللہ بہترین ارٹیکل ہے اور بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین (Fuqara-e-Kamileen) کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی بچائے جو فقرا کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آمین
اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ سلطان العاشقین لجپال سائیں مرشد کامل اکمل کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ❤🌹سلطان العاشقین لجپال سائیں مرشد میرا
ماشااللہ جی بہت اچھا مضمون لکھا ہے
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد بہت ساری ایسی باتوں کا پتہ چلا ہے جو پہلے ہمیں نہیں پتہ تھی اللہ پاک ہمیں فقراء کاملین کی گستاخیوں سے محفوظ رکھے
MashaAllah Bilkul Allah walay hi Allah tak ley jatay hai
Behtreen
بہترین مضمون
بہت اچھا مضمون ہے۔
بہت بہترین مضمون ہے
فقرا کا ادب و اکرام کی کامیابی کی ضمانت ہے
MashaAllah 💖
بہترین مضمون ہے۔ اس مضمون میں ہاتھ پاؤں چومنے کے تمام ثبوت موجود ہیں۔
👍
دست بوسی کو نہایت مدلل اور جامع انداز میں بیان کیا گیا
اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے،
علامہ محمد امین الکردی الاربلی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’علم اور زہد کی بنا پر ہاتھ چومنا سنت ہے۔‘‘
بہترین مضمون ہے
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
Is zamane main yeh baatein batana bohat zarori hai, bohat hi accha article hai!
Very informative
بہترین مضون ہے۔
بہترین مضمون 👍💯