نورِ محمدیؐ
Noor-e-Mohammadi (saww)
تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری۔ اوکاڑہ
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک روشن کتاب۔ (سورۃ المائدہ)
مندرجہ بالا آیت میں نور (Noor) اور روشن کتاب سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت تو نور (Noor) ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری بشری وجود بھی اس قدر لطیف تھا کہ اگر اسے بھی نور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود کی نورانیت اور لطافت کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سایہ نہ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بھی سورج کے مقابل ٹھہرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب آ جاتی اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سراج (چراغ) کے مقابل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی چراغ کی روشنی پر غالب آ جاتی۔
یہ بات سائنس سے تحقیق شدہ ہے کہ سورج کی روشنی سے ہر اس چیز کا سایہ بنتا ہے جو ٹھوس شکل میں ہو اور اس کے اندر سے سورج کی کرنیں نہ گزر رہی ہوں۔ مگر ایسی کسی بھی شے کا سایہ نہیں بنتا جس کے اند ر سے سورج کی کرنیں گزر سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ نور (Noor) ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے سورج کی کرنیں گزر جاتی تھیں جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ مبارک نہ تھا۔ بلکہ اگر اس بات کو یوں بیان کیا جائے کہ جن کے نور (Noor) سے سورج کو روشنی میسر ہے وہ سورج اتنی تاب کا مالک کہاں ہو سکتا ہے کہ نورِ محمدی سے گزر سکے کیونکہ نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) سورج کی روشنی پر غالب ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قرآنِ مجید میں کبھی سراجاً منیرا، کبھی النجم، کبھی الشمس اور کبھی القمر کے نام سے یاد فرماتا ہے۔ ان تمام تشبیہات سے اللہ پاک اپنے محبوب ؐ کی نورانیت کو ہی ظاہر فرما رہا ہے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری حسن و جمال کی بات کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رنگ گندمی سفید، پیشانی کشادہ، دندان مبارک کھلے، ناک مبارک اونچی، آنکھیں سیاہ، دلکش صورت، داڑھی مبارک گھنی، ہاتھ مبارک لمبے، انگلیاں مبارک باریک اور قد درمیانہ تھا مگر شان و شوکت کی بنا پر سب سے نمایاں نظر آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بدن مبارک پر بال نہیں تھے۔ صرف ناف تک خط بنا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے والد محترم کے آبِ منی سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ بی بی آمنہؓ کے لیے جبرائیل امین جنت سے ایک پھل لائے تھے جو شجرۃ النور کا پھل تھا۔ (کلید التوحید کلاں )
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت نور ہے اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وجود کی ابتدا بھی نور (Noor) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری و باطنی طور پر نور (Noor) ہونے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے۔ چراغ فانوس میں ہے۔فانوس ایسے ہے کہ ایک موتی جو ستارے کی مانند چمکتا ہے۔ یہ چراغ اس برکت والے پیڑ زیتون کے تیل سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے۔ نور پر نور چھایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نور کی طرف اسی کو ہدایت دیتا ہے جو اس کا طالب بنتا ہے۔ (سورۃ النور۔ 35)
مفسر ِقرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
طاق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سینہ مبارک ہے اور فانوس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قلبِ اطہر ہے اور چراغ وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا کہ وہ نہ شرقی ہے نہ غربی یعنی نہ عربی ہے نہ عجمی۔ ایک شجر مبارکہ سے روشن ہے ،وہ شجر مبارکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ نورِ قلب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نورِ محمدیؐ نور پر نور ہیں۔
سرکارِ دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں انسانِ کامل کا لباس پہن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صورت میں بشرہیں اور حقیقت میں نور۔ بے عیب و پاک صاف، شفاف بشریت بھی بے مثل ہے اوراتنی لطیف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ تک نہیں۔ (حقیقتِ محمدیہ.The Mohammedan Reality)
شعورِ آدمیت ناز کر اس ذاتِ اقدس پر
تیری عظمت کا باعث ہے محمدؐ کا بشر ہونا
حضرت امام ابو حنیفہ کوفیؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح اور نورِ محمدیؐ (Noor-e-Mohammadi saww) کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ مقدس ذات ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو ہرگز کوئی آدمی پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی مخلوق۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ ہیں کہ آپ کے نور سے چاند کی روشنی ہے اور سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کے نورِ زیبا سے چمک رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ ہیں کہ جب آدم علیہ السلام نے لغزش کے سبب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وسیلہ پکڑا تو کامیاب ہو گئے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باپ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے ہی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روشن نور سے آگ ان پر ٹھنڈی ہو گئی۔
ایوب علیہ السلام نے اپنی مصیبت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی پکارا تو اس پکارنے پر اُن کی مصیبت دور ہو گئی۔
عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کی بشارت اور آپ ہی کی صفاتِ حسنہ کی خبر دیتے اور آپ کی بندگی کی مدح کرتے ہوئے آئے۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وسیلہ پکڑنے والے اور قیامت میں آپ کے سبزہ زار میں پناہ لینے والے رہے۔
انبیا اور مخلوقات میں ہر مخلوق اور پیغمبر اور فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے تلے ہیں۔ (حقیقتِ محمدیہ.The Mohammedan Reality)
امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ فرماتا۔ اس روایت کو مدنظر رکھا جائے تو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپؐ ہی کی بدولت حق تعالیٰ نے ساری کائنات بنائی۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے حضرت سخی سلطان باھوؒ (Sultan Bahoo ra) اپنی تصنیفِ لطیف ’’رسالہ روحی شریف (Risala Roohi Sharif)‘‘ میں فرماتے ہیں:
جب نورِ احدی (اللہ) نے وحدت سے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی، اس حسن بے مثال ارو شمعٔ جمال پر دونوںجہان پروانہ وار جل اٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ (رسالہ روحی شریف) (Risala Roohi Sharif)
یعنی جب اللہ نے اپنی پہچان کا ارادہ فرمایا تو احدیت سے وحدت میں، وحدت سے واحدیت میں، واحدیت سے جبروت میں، جبروت سے ملکوت میں اور ملکوت سے ناسوت میں نزول فرمایا۔ گویا اللہ کی ذات نے بواسطہ نورِ محمدی ہر شے میں ظہور فرما کر کائنات کو قائم کیا ہوا ہے۔ وجود صرف اللہ کی ذات کا ہے باقی ہر شے معدوم ہے اور یاد رہے اللہ کی ذات ماسویٰ نور (Noor)کے اور کچھ نہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور مبارک کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نور (Noor) مبارک سے ظاہر فرمایا جس کی طرف درج ذیل احادیث مبارکہ میں واضح اشارہ ہے:
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ
ترجمہ: حق تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور (Noor)کو پیدا فرمایا۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ رُوْحِیْ
ترجمہ: سب سے پہلے اللہ نے میری روح کو پیدا فرمایا۔
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور (Noor)سے ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھ سے فرمایا:
اے عمرؓ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا تو میرے نور نے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا۔ یہ نور (Noor)سات سو سال سجدہ میں رہا۔ تو سب سے پہلے جس نے اللہ کو سجدہ کیا وہ میرا نور تھا اور یہ بات میں فخر سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ اے عمرؓ کیا آپ کو معلوم ہے میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں کہ اللہ نے عرش کو میرے نور (Noor) سے پیدا فرمایا اور کرسی کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور سورج، چاند اور آنکھوں کے نور کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور عقل کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور مومنوں کے دلوں میں نورِ معرفت کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہہ رہا۔
نورِ محمدی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر شے نے ذاتِ حق تعالیٰ سے وجود پایا۔ اللہ تعالیٰ خودفرماتا ہے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔ نہ اللہ پاک ظاہر ہوتا اور نہ ہی تمام مخلوقات کا ظہور پذیر ہونا ممکن ہوتا۔ اگر یہ دنیا قائم و دائم ہے تو محض نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Noor-e-Mohammadi saww) کے باعث۔ ان کے بغیر ایک پل بھی کائنات کا قائم رہنا ممکن نہیں۔ اس بات کو اگر اہلِ دانش واقعہ معراج سے سمجھنا چاہیں تو یہ حق پر مبنی ہو گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لباسِ نور و بشر میں ملاقاتِ ربّ جلیل کی غرض سے لے جایا گیا تو دنیا کی ہر شے و مخلوق ساکت ہو گئی۔ گویا سب کچھ بے جان ہو گیا ہو اور تب تک کوئی شے حرکت نہ کر سکی جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم واپس تشریف نہ لے آئے۔ اسی طرح قیامت تب تک قائم نہ ہو گی جب تک اس کائنات میں نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) موجود ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک شخص نے نہر سے پانی کا گھڑا بھرا اور اس پانی کو مختلف برتنوں میں منتقل کر کے ہر ایک میں مختلف مشروبات ملا دیے تو ہر ایک کا نام تو مختلف ہو گیا مگر اس کی حقیقت تو پانی ہی رہے گی۔
جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ظاہری طور پر دیکھا وہ تمام صحابہؓ اپنے مشاہدات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ان تمام ہستیوں کے مشاہدات درج کرنے سے قبل اس بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ بشر نور (Noor)کی ضد ہے جو کہ سراسر غلط نظریہ ہے کیونکہ دو چیزوں کی ضد ایک ساتھ ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتی۔ جب کہ نور اور بشر ایک جگہ ٹھہر سکتے ہیں۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے یہ دلیل قارئین کے گوش گزار کرتے ہیں کہ فرشتے نورانی مخلوق ہیں لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق ہونے کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے اکثر انسانی صورت میں جلوہ گر ہوتے تھے۔
بیہقی، طبرانی اور ابو نعیم نے عتبہ بن عبد سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدّہ طاہرہ و طیبہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان مبارک مذکور ہے جس میں آپؓ فرماتی تھیں’’میں نے دیکھا کہ مجھ سے نور خارج ہوا جس کی وجہ سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘ (خصائصِ کبری جلد 1)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (Ummah ul Momineen Hazrat Ayesha Saddiqa ra)سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسرور حالت میں میرے گھر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کے نقوش بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔
حضرت حسان بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انوار کی طرف دیکھا تو اپنی آنکھوں پر اس خوف سے ہاتھ رکھ لیے کہ کہیں میری قوتِ بصارت نہ چلی جائے۔
ابنِ عساکرؓ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (Ummah ul Momineen Hazrat Ayesha Saddiqa ra) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’میں سحر کے وقت سلائی کر رہی تھی کہ مجھ سے سوئی گر گئی۔ میں نے اسے بہت تلاش کیا مگر نہ ملی۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کے نور (Noor) سے مجھے وہ گمشدہ سوئی نظر آ گئی۔ میں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’اے حمیرا! ہلاکت ہے، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنی نظر کو میرے چہرے کی دید سے محروم رکھا‘۔‘‘
اس روایت میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور (Noor)ہونے کی واضح دلیل ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کے دیدار کو بھی لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر دیدارِ مصطفیؐ کا تعلق صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تریسٹھ (63) سالہ ظاہری زندگی سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے اور بعد میں آنے والی تمام ہستیاں اس ہلاکت سے کیسے محفوظ ہیں؟ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اوّل و آخر، ظاہر و باطن اور ابتدا و انتہا ہیں اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور ازل تا ابد اپنی اصلی حالت میں موجود مختلف صورتوں میں ظہور پذیر رہے گا۔
نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) تخلیقِ آدم علیہ السلام کے بعد ان کی پشت میں ودیعت کیا گیا جو کہ آدم علیہ السلام کی پیشانی سے جھلکنے والے انوار سے محسوس ہوتا تھا اور ان سے کہا گیا اے آدمؑ یہ تیری نسل میں پیدا ہونے والے انبیا و مرسلین کے سردار ہیں۔ (حقیقتِ محمدیہ.The Mohammedan Reality)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نسب مبارک کے حوالے سے روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نورِ اقدس جس پشت میں منتقل ہوتا اس کی پیشانی میں چمکتا تھا حتیٰ کہ المواہب میں ہے کہ حضرت عبدالمطلبؓ کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک ان کی پیشانی میں خوب چمکتا تھا۔ اس نور کی ایسی عظمت تھی کہ بادشاہ بھی ہیبت زدہ رہ جاتے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) حضرت عبدالمطلبؓ سے حضرت عبداللہ کی پیشانی میں منتقل ہوا۔
اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ نورِ محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بشری وجود کی طرح اس کائنات میں موجود نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سراسر گمراہی کا شکار ہے کیونکہ نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) رہتی دنیا تک قائم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ظاہری وصال کے بعد باطن میں اسی طرح موجود ہیں جس طرح آپ ظاہری طور پر اپنے اصحاب کے دور میں موجود تھے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرامؓ ہوا کرتے تھے۔ (خط بنام نیاز الدین خاں۔ فتراک رسول۔ 7)
بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک تا قیامت انسانِ کامل کی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا اور ہر زمانہ میں اپنی شان کے مطابق مختلف صورتیں اختیار کر کے اپنے پیروکاروں کو اپنے نور (Noor) کے دیدار سے مشرف کرتے رہیں گے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ (Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں کہ باطن میں دیدارِ الٰہی اور حضوری مجلسِ محمدیؐ (Mohammadan Assembly) آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح صحابہ کرامؓ کے دور میں تھی۔
مجلسِ محمدیؐ کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب کے لیے اسمِ اللہ ذات آپؐ کا چہرہ مبارک اور اسم محمدؐ آپ کی ذات مبارکہ تھی۔اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہوا ہو جہاں سے اسے عطا کرنے کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عنایت فرمائی ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمدؐ مرشد کامل اکمل ،امام الوقت اور دورِ حاضر کے انسانِ کامل کی بارگاہ سے حاصل ہو۔
یاد رہے جو طالب خلوصِ نیت اور طلبِ مولیٰ لے کر مرشد کی بارگاہ میں آتا ہے تو وہ پہلے ہی روز جان جاتا ہے کہ گویا یہ مرشد کامل ہے یا نہیں۔ کیونکہ باطن میں اللہ طالب کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے بشرطیکہ طالب میں سچی طلب ہو۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ (Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں:
روز و شب در طلب نبویؐ باحضور
مرد مرشد میرساند خاص نور
ہر کہ منکر میشود زیں خاص راہ
عاقبت کافر شود با روسیاہ
ترجمہ: دن رات مجلسِ محمدیؐ (Majlis-e-Mohammadi) کی حضوری طلب کر لیکن یاد رکھ اس خاص نور (نورِ محمدیؐ) تک مرد مرشد ہی پہنچا سکتا ہے۔ جو کوئی اس خاص راہ کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہو کر روسیاہ ہو جاتا ہے۔ (مجالستہ النبی خورد)
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ نورِ محمدی (Noor-e-Mohammadi saww) ہر زمانہ کے اعتبار سے انسانِ کامل میں موجود ہے اور وہ انسانِ کامل باطن میں طالبانِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ Mohammadan Assembly (Majlis-e-Mohammadi) کی حضوری سے مشرف کرتا ہے۔
دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ، بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) نے لاکھوں طالبانِ مولیٰ کا اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کر کے انہیں دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ Mohammadan Assembly (Majlis-e-Mohammadi) کی حضوری کا شرف بخشا ہے۔ اب جو آنا چاہے در کھلا ہے ورنہ حق بے نیاز ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس آقاپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ورثۂ فقر کو زمانے بھر میں عام فرما رہے ہیں اور آپ مدظلہ الاقدس کا شجرۂ فقر سلسلہ در سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملتا ہے۔ جو کوئی آپ مدظلہ الاقدس سے بیعت کے ساتھ ذکر و تصور اسمِ اعظم حاصل کر لیتا ہے اس کی نسبت آقائے دوجہان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملتی ہے اور وہ دونوں جہانوں میں معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ Mohammadan Assemblyکی حضوری حاصل کر لیتا ہے۔ (الحمدللہ)
حاصلِ تحریر:
ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہی ہے اور وہ ذات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک کے تمام رسولوں اور نبیوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال اور اولیا اللہ کی صورت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔ نورِ محمدیؐ (Noor-e-Mohammadi saww) انسانِ کامل کے اندر عروج حاصل کرتا رہے گا کیونکہ انسان اپنے باطن میں عروج حاصل کرتا ہے اور اللہ اپنے نور کا انسانِ کامل کے باطن میں ظہور فرماتا ہے۔
استفادہ کتب:
حقیقتِ محمدیہؐ؛ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
ماشاءاللّٰہ بہترین مضمون ہے 💓
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سبحان اللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان 💕
SubhanAllah
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
ماشااللہ بہت ہی اچاچھا مضمون ہے ❤
بہترین مضمون ہے
Very interesting
بہت پیارا مضمون لکھا ہوا ہے۔
سبحان اللہ بہت عمدہ تحریر ہے♥️♥️❤️❤️❤️❤️
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ مقدس ذات ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو ہرگز کوئی آدمی پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی مخلوق۔