قربِ دیدار
Qurb-e- Deedar (Sultan bahoo Book)
فقیر کے دل میں حرص، طمع، حسد، کبر نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دل اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کی تاثیر سے سیر ہوتا ہے اور اسے دائمی جمعیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Muhammad Mustafa saww) کا فرمان ہے:
خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ طِیْنِ الْاَرْضِ وَخُلِقَتِ الْفُقَرَآئِ مِنْ طِیْنِ الْجَنَّۃِ
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا ہے لیکن فقرا کو جنت کی مٹی سے پیدا کیا۔
جس فقیر (Fakir)کو نورِ الٰہی کا اصل وصل حاصل ہوتا ہے اس کا باطن مکمل ہو جاتا ہے اور اسے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Muhammad Mustafa saww) کی دائمی صحبت حاصل رہتی ہے۔ دنیا وعقبیٰ اس کی طلب میں صبح و شام حلقہ بگوش اور فرمانبردار غلام کی طرح رہتی ہیں۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے تمام باطنی خزانوں کا تصرف اسے حاصل ہوتا ہے خواہ وہ انہیں استعمال میں لائے یا ان کی طرف نگاہ تک نہ کرے، اسے پورا اختیار ہوتا ہے۔ نظرِ رحمت (Nazar-e-Rehmat) خداوندی سے فقیر کو ابتدا میں ہی یہ دو تصرف حاصل ہوتے ہیں تاکہ دنیا کی طرف سے اس کا دل سرد ہو جائے اور باطن میں اسے جمعیتِ کلُ حاصل ہو جائے۔
حدیث (Hadees)
مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: جس کو مولیٰ مل گیا اس کو سب مل گیا۔
بیت (Poetry)
در مدرسہ دیدار توحیدش سبق
شد مطالعہ کل و جز جملہ خلق
ترجمہ: دیدار کے مدرسہ کا سبق توحید ہے۔ اس کے مطالعہ سے تمام مخلوق اور کل وجز کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔
کنہ کن را یافتم لاریب غیب
ہر کرا احمق کرد ظاہر نیست غیب
ترجمہ: میں نے کن کی کنہ کو پا لیا ہے جو لاریب غیب ہے۔ جو بات کوئی احمق بتاتا ہے وہ غیب نہیں ہوتی۔
ارشادِ خدا وندی ہے :
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرہ۔2,3)
ترجمہ: پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
ایسا کونسا سلک سلوک ہے جس میں طالب ِ مولیٰ جب چاہے دریائے توحید میں غرق ہو جائے، مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly)کی حضوری اور ملازمت سے مشرف ہو کر دیدارِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پا لے اور اس وقت خود کو معرفتِ اِلاَّ اللّٰہ تک پہنچا لے؟ وہ راہ تصور اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے حاضرات کی راہ ہے جس سے طالب کو قرب، معرفت، مشاہدۂ نور اور توحید ذات کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ حاضرات اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) سے سرّاسرارِ ربانی منکشف ہوتے ہیں اور جمعیت ِ جاودانی، عین العیانی حاصل ہوتی ہے۔ مرشدکی توجہ و نظر سے اسے ایک ہی لمحہ میں لامکان تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ طالب مرید قادری غرق الحق فنا فی اللہ کی ابتدا ہے۔ قطعہ
گر تو خواہی معرفت توحید ذات
باتصور مردہ دل را کن حیات
ترجمہ:اگر تو توحید ِذات کی معرفت چاہتا ہے تو تصور اسم اللہ ذات سے مردہ دل کو زندہ کر۔
عرش زیرش فرش بروی خوش نشین
معرفت توحید کلی این بہ بین
ترجمہ: عرش مرشد کامل کے قدموں تلے ہے۔ اگر توُ خوشی سے اس کے قدموں میں بیٹھا رہے گا تو تجھ پر توحید کی مکمل معرفت ظاہر ہو جائے گی۔
جان لے کہ ذکر فکر کی راہ میں رجعت و زوال کی آفات ہیں۔ ورد و وظائف اور دعوت پڑھنے کی راہ میں ریاضت، رجوعاتِ خلق، رجعت، ریا و رنج کی آفات ہیں۔ چلہ کشی اور خلوت نشینی کی راہ میں خلل و خطراتِ شیطانی کا ڈر ہے اور حجرہ نشینی کی راہ میں وسوسوں اور وہمات کا ڈر ہے۔ یہ سب مطلق حجابات ہیں۔ بغیر ریاضت کے قرب و معرفتِ الٰہی کے خزائن پانے کی راہ تصور اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) ہے جس کی طے سے کل وجز کے تمام مراتب، مقامات اور درجات عطا ہوتے ہیں۔ مرشد کامل وہ ہے جو اسم اللہ ذات کی طے سے طالب پر ان تمام مطالب کو واضح کر دیتا ہے اور اس پر اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کی حقیقت ظاہر کر دیتا ہے۔
بیت (Poetry)
باتو گویم بشنو ای اہل از ہوس
ہر مطالب اسم اللہ با تو بس
ترجمہ: اے اہلِ ہوس میں تجھ سے کہتا ہوں سن! صرف اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) سے ہی تجھے تمام مطالب حاصل ہو سکتے ہیں۔
اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) بہت بھاری امانت ہے۔ اس کو اٹھانے کے لیے وسیع حوصلہ، مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) کی دائمی حضوری اور قوی قوت درکار ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلدُّنْیَا لَکُمْ وَالْعُقْبٰی لَکُمْ وَالْمَوْلٰی لِیْ
ترجمہ:دنیا اور عقبیٰ تمہارے لیے ہیں میرے لیے تو صرف مولیٰ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (النجم۔17)
ترجمہ: ان (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی نظر نہ (حق سے) ہٹی اور نہ حد سے بڑھی۔
حدیث: (Hadees)
لَوْ کَانَتِ الْجَنَّۃُ نَصِیْبُ الْمُشْتَاقِیْنَ بِدُوْنِ جَمَالِہٖ فَوَا وَیْلَاہُ وَلَوْ کَانَتِ النَّارُ نَصِیْبُ الْمُشْتَاقِیْنَ بِجَمَالِہٖ فَوَا شَوْقَاہُ
ترجمہ:اگر مشتاقوں کے نصیب میں جنت دیدارِ جمالِ الٰہی کے بغیر ہو تو وہ اس پر راضی نہیں ہوں گے لیکن اگر انہیں دیدارِ جمالِ الٰہی کے ساتھ دوزخ بھی نصیب ہو گی تو وہ اس پر راضی ہوں گے۔
ابیات (Poetry)
علم بہر از معرفت روشن ضمیر
ہر کہ خواند بہر دنیا بی نظیر
ترجمہ: جو شخص علم کو معرفت ِ الٰہی کے لیے حاصل کرتا ہے وہ روشن ضمیر بن جاتا ہے اور جو دنیا کے لیے حاصل کرتا ہے وہ بصیرت کھو بیٹھتا ہے۔
علم بہر از تقویٰ طاعت حق پسند
گر ترا عقل است بشنو ہوشمند
ترجمہ:اے ہوشمند، اگر تجھے عقل ہے تو سن! علم کو تقویٰ، طاعت اور حق پسندی کے لیے حاصل کر۔
عالم دین درم بی دین طلب
باتو گویم بشنو ای بی ادب
ترجمہ: اے بے ادب، میری نصیحت سن! وہ عالم بے دین ہے جو دین کو دولت کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔
علم بہر از راز رہبر باخدا
باتو گویم بشنو ای سر ہوا
ترجمہ: اے نفسانی خواہشات رکھنے والے، میں تجھ سے کہتا ہوں سن! جو علم اسرارِ الٰہی کے لیے حاصل کیا جائے وہ اللہ تک راہبر ہے۔
زیادہ علم حاصل کرنا فرض نہیں، البتہ اللہ سے ڈرنا اور گناہوں سے بچنا فرض عین ہے۔
حدیث: (Hadees)
لَا فَرَقَ بَیْنَ الْحَیْوَانِ وَالْاِنْسَانِ اِلَّا بِالْعِلْمِ
ترجمہ:حیوان اور انسان میں فرق کرنے والی چیز علم ہے۔
علم وہ ہے جو حق تک لے جائے اور جس سے حق حاصل ہو جائے۔ حق کی حقیقت معرفت تک پہنچا دیتی ہے اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) کے دیدار سے مشرف کر دیتی ہے۔ علم کا معنی ہے جاننا۔ لیکن کیا جاننا؟ حقیقی علم وہ ہے جس کو حاصل کرنے سے باطل، انا، کفر، شرک، کبر، عجب، طمع، حرص، حسد اور ہوا وجود سے نکل جائیں اور جو اللہ کی ذات میں غرق کر دے، نفسانی خواہشات فنا ہو جائیں اور روح کو بقا حاصل ہو جائے۔
بیت (Poetry)
ز دل چشم بکشا و بہ بین ذات نور
تو نفس این فنا کن روی در حضور
ترجمہ: دل کی آنکھ کھول اور نورِ ذات کو دیکھ۔ تو اپنے نفس کو فنا کر کے حضوری حاصل کر لے۔
قولہٗ تعالیٰ:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریٰت۔21)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم نہیں دیکھتے۔
بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نفس خبیث کا پردہ ہے۔ جب یہ دیو نفس درمیان سے ہٹ جاتا ہے تو طالب عالم باحدیث بن جاتا ہے۔ بیت
ز شہ رگ نزدیک چون گویند دور
اسم اللہ برد مارا در حضور
ترجمہ: اللہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے پھر تو اسے دور کیوں کہتا ہے؟ اسم اللہ نے ہمیں حضوری میں پہنچا دیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ(البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر دیکھو گے اللہ کا چہرہ دکھائی دے گا۔
بیت (Poetry)
ہر طرف بینم بجلوۂ ذات نور
از تصور اسم اللہ با حضور
ترجمہ: جس طرف بھی دیکھتا ہوں ذاتِ نور کا جلوہ عیاں ہے۔ اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے تصور سے میں باحضور ہو گیا۔
وہ کونسی راہ ہے جس میں دعوت کا تمام علم و عمل یکبارگی حاصل ہو جاتا ہے اور دعوت رواں ہو جاتی ہے اور اس کا عالم اطاعت سے عامل بن جاتا ہے؟ اطاعت کی توفیق مرشد کامل کی توجہ، التفات اور اجازت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
بیت (Poetry)
ہر کہ را مرشد نہ او شیطان مرید
ہر کہ با مرشد بود گو بایزیدؒ
ترجمہ: جس کا مرشد نہیں وہ شیطان کا مرید ہے۔ جس کو کامل مرشد مل گیا وہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح بن گیا۔
وہ کونسی راہ ہے جس میں دعوت کا تمام علم و عمل یکبارگی حاصل ہو جاتا ہے اور دعوت رواں ہو جاتی ہے؟ وہ راہ اولیا اللہ کی قبور پر دعوت پڑھ کر عامل بننے کی راہ ہے۔ وہ کونسی راہ ہے جس میں فقیر کو کامل معرفت، کامل توحید، کامل فقر، کامل قرب اور مشاہدہ ایک ہی پل میں بغیر مجاہدے کے حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ راہ کامل تصور اسم اللہ ذات سے غرق فی اللہ ہو کر حضوری پانے کی راہ ہے۔ یہ فیض اور بخشش ِ الٰہی ہے جو مرشد کامل طالب کو عطا کرتا ہے۔
مرشد کامل کس عمل اور کس چیز سے پہچانا جاتا ہے؟ اس کا کلام کن کی کنہ سے ہوتا ہے۔ وہ طالب ِ مولیٰ کو ذکر، فکر اور مستی میں مشغول نہیں کرتا اور نورِ ذات کے مشاہدے، توجہ، تصور اور حضوری کے علاوہ اور کوئی باطنی راہ نہیں جانتا۔ جان لے کہ فقیر صاحب ِجوہر کا قالب، قلب، مقدس روح، جسم، جان اور وجود معرفت ِ رحمان کی توحید گاہ ہوتا ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کے احسان سے جمعیت ِقرب حاصل ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ فقیر اہلِ تصور اسم اللہ ذات ذکر، فکر، مراقبہ، مکاشفہ، مجادلہ، کشف و کرامات، عزہ و جاہ، دنیاوی درجات ، ورد و وظائف کی راہ کو نہیں اپناتا۔عین بعین ذات کا لازوال وصال اور مکمل فنا فی اللہ ہونا ہی اس کی راہ ہوتی ہے۔ صادق صدیق اور صاحبِ تصدیق باتوفیق طالبِ مولیٰ وہ ہے جو مرشد سے صرف معرفت، مشاہدۂ نور ذات اور معمور باطن طلب کرتا ہے۔ صادق صدیق طالب مولیٰ صحیح حضوری سے مشرف ہوتا ہے۔ تصور اسم اللہ ذات رازِ بے ریاضت ہے اور قادری مرشد کامل کا فیض بخش طریق ہے جس کا تمام عالم قدردان ہے۔
حدیث (Hadees)
وَمَنْ اَرَادَ الدُّنْیَا فَلَہُ الدُّنْیَا وَمَنْ اَرَادَ الْعُقْبٰی فَلَہُ الْعُقْبٰی وَمَنْ اَرَادَ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: جس نے دنیا کا ارادہ کیا اس کے لیے دنیا ہے اور جس نے عقبیٰ کا ارادہ کیا اس کے لیے عقبیٰ ہے اور جس نے مولیٰ کا ارادہ کیا پس اس کے لیے سب کچھ ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو طالب ذات کو پا لے وہ صفات سے بلاواسطہ متصف ہو جاتا ہے۔ جس طالب کو توحید کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے جو کل کی کلید ہے‘ وہ لایحتاج اور بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی سے کوئی التجا نہیں کرتا۔ عملِ دعوت اختیار کرنے والے ایک مبتدی کے لیے وہ کونسا عمل ِ دعوت ہے جو سخت و غالب ہو؟ عملِ تیغِ برہنہ کس دعوت کا نام ہے؟باتوفیق دعوت پڑھنے کے پانچ طریقے ہیں۔ علمِ دعوت میں عامل کامل وہ ہے جو پہلے قرآن یا دعائے سیفی یا اسمائے باری تعالیٰ یا مع اللہ دور مدور دعوت پڑھنے کے ساتھ جواب باصواب کا طریقہ جانے۔ اس کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad saww) کے حضور بھی اسی طرح دعوت کے دور مدور کرے اور جانے۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad saww) تک تمام انبیا، مرسل، اصفیا علیہم السلام کے ساتھ دعوت کے دور مدور کرے اور ان سے سیکھے، پھر مؤکل فرشتوں اور تمام شہدا، غوث، قطب، فقرا اور درویشوں کے ساتھ دعوت کے دور مدور کرے اور سیکھے۔ بعد ازاں دعوت پڑھنے کا حکم پہلے اللہ تعالیٰ سے حاصل کرے‘ اس کے بعد دعوت کی اجازت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad saww)سے طلب کرے۔ پھر تمام صحابہ کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور پنجتن پاک سے دعوت کی اجازت طلب کرے اور ان سے بخشش اور عطا مانگے۔ اس کے بعد حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ از روئے لطف و کرم امرِ دعوت مرحمت فرماتے ہیں اور تمام انبیا، اولیا اللہ، مرسل و نبی، اصفیا، غوث و قطب اور فقرا اشارہ کرتے ہیں جس سے وہ شخص دعوت میں عامل، کامل، مکمل اور کل الکلید بن جاتا ہے۔ ایسا شخص جب دعوت پڑھنا چاہے تو کسی ولی اللہ کی قبر پر جائے جو تیغِ برہنہ کی مثل ہو اور قبر کے قریب بیٹھ کر دعوت پڑھے تو اسے قبر سے جواب باصواب ملتا ہے۔ اُس کے لیے ہر ایک کے حضور دعوت پڑھنا آسان کام ہے۔ اگرچہ دعوت پڑھنے میں بے شمار رجعتیں اور آفات ہیں لیکن کامل صاحبِ دعوت کو نہ ہی رجعت ہوتی ہے نہ ہی زوال، اور نہ ہی اسے حصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ عارف باللہ ولی اللہ پروردگار کے ساتھ یگانہ ہوتا ہے۔ کامل دعوت خواں ناظر کی نگاہ میں تمام غیبی اور ظاہری خزانے موجود ہوتے ہیں لیکن اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اہلِ دنیا کے لیے دعوت پڑھے۔ جو شخص دنیا یا کسی دنیا دار کے لیے دعوت پڑھتا ہے، وہ ناقص ہے اور اسے دعوت کے سلک سلوک کی ابتدا و انتہا کا کچھ علم نہیں۔ کامل شخص دعوت کو صرف تین امور کے لیے پڑھتا ہے۔ اسے دینِ ظاہر کا معائنہ اور اللہ کے تمام خزانوں کا تصرف حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا دل دنیا و دولتِ دنیا سے سرد رہتا ہے اور اس کی نظر میں سیم و زر برابر ہوتے ہیں۔ وہ تین امور حسبِ ذیل ہیں:
اوّل یہ کہ بادشاہِ اسلام نے راہزن کافروں کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہو۔ دوم کوئی شخص دعوت پڑھتے وقت رجعت میں آکر دیوانہ اور مجنون ہو گیا ہو۔ سیوم یہ کہ کسی عامل عالم، وارثِ انبیا کو کوئی مشکل مہم درپیش ہو۔
جو فقیر عملِ دعوت کا نگہدار ہو، اسم اللہ ذات (Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کے تصور و تصرف میں کامل، اکمل مکمل اور کُل ہو تو ایسے فقیر کامل کی ایک لمحہ کی توجہ خلوت، چلوُں، دعوت، مجاہدوں اور ریاضت سے ہزارہا گنا بہتر ہے۔ جو کامل فقیر توجہ، تصرف اور تصور کا عمل جانتا ہے، اس کی لحظہ بھر کی توجہ تاقیامت قائم رہتی ہے بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ جو علما حقیقی وارث الانبیا ہیں ان کے مراتب یہ ہیں کہ اگر ان سے علمِ ظاہری میں غلطی، نقص یا سہو واقع ہو جائے یا علما کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو جائے تو وہ علم ظاہری کی قوت سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad saww) تک تمام انبیا کی ارواح کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور ہر نبی مرسل اور سب اصفیا کی ارواح سے مصافحہ اور ملاقات کر کے ان سے اس معاملے کے متعلق صحیح علم طلب کرتے ہیں اور اپنی غلطی و خطا کو تحقیق باتوفیق سے درست کر لیتے ہیں۔ جو علما باطن میں مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں خود کو حاضر نہیں کر سکتے اور مجلس میں باطنی خدمات سرانجام نہیں دیتے وہ وارث الانبیا کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایسے لوگ تو مردہ دل چوپایوں کی مانند ہیں۔ وارث الانبیا صرف وہی علما ہیں جو زندہ قلب روحانی ہیں۔ نفسانی و ناسوتی عالم وارث الانبیا ہرگز نہیں ہو سکتے۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ط (الجمعہ۔5)
ترجمہ: ان کی مثال ایک گدھے کی مانند ہے جس نے اپنی پیٹھ پر کتابیں اٹھا رکھی ہیں۔
بیت (Poetry)
علم باعمل است علمش راہبر
عالمان را دل صفا صاحب نظر
ترجمہ: جو علم پر عمل کرتے ہیں ان کا علم ان کا رہبر ہوتا ہے۔ عالموں کو قلب صفا اور صاحبِ نظر ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)