نواسیٔ رسولؐ سیدّہ اُمامہ بنتِ زینبؓ
Nawasi-e-Rasool (SAWW) Syeda Umamah bint-e-Zainab (R.A)
مسز انیلا یاسین سروری قادری ۔ لاہور
دینِ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورت کو کوئی عزت و مقام حاصل نہ تھا۔ اس گمراہ کن معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کے لیے اللہ جل جلالہٗ نے اپنے محبوب، وجہ تخلیقِ کائنات، محسنِ انسانیت رحمتِ دوجہان جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Mohammad pbuh) کی ذاتِ مبارکہ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے نہ صرف عورت کو عز ت و احترام سے نوازا بلکہ عملی طور پر بھی اپنے گھر پیدا ہونے والی بیٹیوں کو بے پناہ شفقت و پیار سے نوازا۔
بے شک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے پاک نفوس بھی ہدایت کے جگمگاتے روشن ستاروں کی مانند ہیں۔ انہی روشن ستاروں میں سے ایک اسمِ مبارک سیّدہ (Syeda) اُمامہ بنتِ زینبؓ یا سیدّہ اُمامہ بنتِ ابوالعاصؓ کا ہے۔
تعارف (Introduction)
اُمامہ کے لفظی معنی سرداری، قیادت اور بڑھنے کے ہیں۔ سیدّہ اُمامہؓ کی شانِ عزت و عظمت کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آپؓ کائنات کی بہترین ہستیوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اُمّ المومنین سیدّہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی پیاری نواسی ہیں۔ آپؓ کی والدہ محترمہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی صاحبزادی سیدّہ زینبؓ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دیگر صاحبزادیاں سیدّہ رقیہؓ، سیدّہ اُمِ کلثومؓ اور سیدّۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ جیسی عظیم المرتبت ہستیاں آپؓ کی خالا ئیں ہیں۔
والدین (Parents)
سیدّہ حضرت اُمامہؓ کی والدہ محترمہ سیدّہ زینبؓ اعلانِ نبوت سے دس سال قبل اور سیدّنا قاسمؓ بن محمد کے بعد پیدا ہوئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلانِ نبوت کے بعد اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ ہی دعوتِ حق کو قبول فرما کر مسلمان ہو گئیں۔ آپؓ کی شادی کم عمری میں حضرت ابوالعاصؓ بن الربیع سے ہوئی جو اُم المومنین سیدّہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ (Hazrat Khadija r.a bint khuwaylid) کی بہن حضرت ہالہؓ بنتِ خویلد کے بیٹے ہیں۔
ابوالعاصؓ ایک بڑے تاجر تھے۔ ان کی تجارت مکہ سے شام اور عراق سے یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ نہایت سچے اور امانت دار تاجر تھے۔ اہلِ تجارت حضرات کے معاملات کو نبٹانے میں ذکی اور ضرب المثل تھے۔ مکہ کے بڑے بڑے تاجر تجارت کے معاملت میں ان کے ساتھ معاہدے کرتے اور اپنے مال و اسباب کے سلسلہ میں ان پر بھرپور اعتماد کرتے۔ آپ کا کاروبار بھی نہایت وسیع تھا اور امانت و دیانت بھی بہت مشہور تھی اس لیے الامین کے لقب سے مشہور تھے۔ اس کے علاوہ آپ ایک باحیا اور شرمیلے نوجوان تھے۔ گو کہ بھرپور جوانی اور مردانہ وجاہت سے سرشار تھے لیکن شرفا کی اولاد کی طرح حیادار بھی کمال درجہ کے تھے۔ بہادری کا یہ عالم تھا کہ اہلِ عرب سے شیرِحجاز کا خطاب حاصل کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنے گھر میں اس صالح نوجوان کو خوش آمدید کہتے اور محبت و شفقت سے نوازتے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اہل و عیال کو شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو ابوالعاصؓ چوری چھپے کچھ کھانے پینے کی اشیا پہنچا دیتے جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابوالعاصؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ’’ابوالعاصؓ نے ہماری دامادی کا حق ادا کر دیا۔‘‘
حضرت ابوالعاصؓ بن الربیع انتہائی سعادت مند، بردبار، حلیم الطبع، نیک سیرت اور نہایت شریف النفس انسان تھے ۔ آپؓ نے ہمیشہ سیدّہ زینبؓ کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ رکھا اور انہیں کبھی کوئی تکلیف نہ ہونے دی ۔حتیٰ کے سردارانِ قریش نے کئی مرتبہ آپؓ پر دباؤ بھی ڈالا کہ سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) کو طلاق دے دیں تاکہ حضورؐ کو اذیت دی جائے لیکن آپؓ نے ایسا نہ کیا۔ جب بہت زیادہ اصرار کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’’خدا کی قسم! میں اپنی بیوی یعنی سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) سے کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔‘‘ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابوالعاصؓ کی شکرگزاری اور قدردانی کو عمدہ الفاظ میں سراہا اور آپ کے لیے دعا بھی فرمائی اور کہا ’’ابوالعاصؓ ایک انصاف پسند شخص اور میرا بہت اچھا داماد ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلانِ نبوت کے وقت ابوالعاصؓ تجارت کی غرض سے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے اور انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلانِ نبوت اور آپ کے تمام اہلِ خانہ کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملی۔ ابوالعاصؓ نے سیدّہ زینبؓ سے پوچھا ’’اے زینبؓ! کیا تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر میں تمہارے بابا پر ایمان نہ لایا تو کیا ہوگا؟‘‘ سیدّہ زینب (Syeda Zainab) نے جواب دیا ’’میں اپنے صادق و امین بابا کوکیسے جھٹلا سکتی ہوں۔ خدا کی قسم! وہ سچے ہیں۔ ان پر آپ کی خالہ، میری ماں، میری بہنیں، حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سبھی تو ایمان لے آئے ہیں۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ آپ میرے بابا کو جھٹلائیں گے اور ان کی نبوت پر ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
ابوالعاصؓ نے کہا ’’مجھے آپ کے بابا پر کوئی شک و شبہ نہیں اور نہ میں ان کو جھٹلاتا ہوں۔ مجھے تو اس سے زیادہ کچھ عزیز نہیں کہ میں آپ کے ساتھ آپ کے طریقہ پر چلوں۔ لیکن میں اس بات سے گھبراتا ہوں کہ لوگ مجھے الزام دیں گے اور کہیں گے کہ میں نے اپنی بیوی کی خاطر اپنے اجداد کے دین کو چھوڑ دیا۔‘‘
بہرحال ظاہری طور پر اسلام (Islam) کا اقرار تو نہیں کیا لیکن دل سے اس کی حقانیت کے قائل ہو چکے تھے۔ کفار کے شدید دباؤ کی وجہ سے بادلِ نخواستہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور قید کر لیے گئے۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے جب ان سے فدیہ طلب کیا گیا تو ابوالعاصؓ نے سیدّہ زینبؓ کو خط لکھ کر فدیہ ادا کرنے کا کہا۔ انہوں نے اپنا وہ ہار فدیہ میں بھیج دیا جو اُم المومنین سیدّہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے اپنی پیاری بیٹی کی رخصتی کے وقت اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ ہار دیکھا تو اُم المومنین (Ummul Momineen) حضرت خدیجہ اورحضرت زینب رضی اللہ عنہما کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے اور صحابہؓ سے فرمایا ’’یہ بیٹی کے پاس ماں کی یاد گار ہے، اگر تم اجازت دو تو اسے واپس کر دیا جائے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے بخوشی اس بات سے اتفاق کیا۔ اسی ہار وجہ سے سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) کا لقب صاحبۃالقلادۃ (ہار والی) ہے۔
اس کے بعد ابو العاصؓ کو رہا کر دیا گیا لیکن جب وہ روانہ ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا ’’اے ابو العاصؓ! جب تم مکہ پہنچو تو ہماری بیٹی زینبؓ کو ہمارے پاس مدینہ منورہ روانہ کر دینا۔‘‘
چنانچہ ایفائے عہد کی پاس داری کے لیے ابو العاصؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق سیدّہ زینبؓ( Syeda Zaynab) اور ان کے دو نوں بچوں حضرت علی بن ابوالعاصؓ اور حضرت اُمامہ بنتِ ابوالعاصؓ کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ بن الربیع کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کردیا۔ ابھی یہ قافلہ مکہ سے ذرا دور وادی ذی طویٰ میں ہی پہنچا تھا کہ اچانک عقب سے دشمنانِ اسلام کا ایک گروہ پہنچ گیا۔ اس گروہ میں ہبار بن اسود بھی تھا جو حضرت خدیجہؓ کا چچازاد بھائی تھا لیکن اس نے اسلام دشمنی میں رشتہ داری کا پاس بھی نہ کیا۔ اس نے سیدّہ زینبؓ (Syeda Zaynab ) کو روکنے اور واپس جانے کی کوشش کی اور منع کرنے پر پتھر کھینچ مارا جس کے نتیجے میں سیدّہ زینبؓ اور بچے اونٹنی سے گر کر شدید زخمی ہو گئے۔ کنانہ نے جب سیدّہ زینبؓ کو شدید زخمی اور بچوں کو بلکتے دیکھا تو غصے سے بپھر گیا۔ میان سے شمشیر نکال کر غضبناک آواز میں بولا ’’اگر تم میں سے کسی میں ہمت ہے توقریب آؤ تاکہ تمہارے جسموں کو گردن کے بوجھ سے آزاد کر دوں۔‘‘ کنانہ بن الربیع کے غصے اور جلال کو دیکھ کر ہبار بن اسود کی قیادت میں آنے والا لشکر ِکفار پیچھے ہٹ گیا۔ سفر چند دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور صحت یاب ہونے پر سیدّہ زینبؓ بچوں کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کے بعد سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) نے قریش کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر کیاتو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ سب مظالم اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ڈھائے گئے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’ـ زینبؓ میری سب سے افضل بیٹی تھی اس نے میری محبت کی وجہ سے اذیتیں برداشت کیں۔‘‘
اس سفر میں زخمی ہونے پر وقتی طور پر تو زخم بھر گئے لیکن اس وقت چونکہ سیدّہ زینبؓ امید سے تھیں اور چوٹ لگنے سے حمل ضائع ہو گیا تھا اس لیے اندرونی زخم نہ بھر پائے جس کی وجہ سے مستقل طور پر علیل رہنے لگیں۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بیٹی کی دل جوئی کی پوری کوششیں کرتے مگر ان کی صحت بحال نہ ہو سکی۔ ۸ھ میں سیدّہ (Syeda)حضرت زینبؓ نے ۳۱ سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ اپنی صاحبزادی کی وفات پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شدید صدمہ پہنچا۔ صحابہ کرامؓ نے اس موقع پر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تو وہ بھی مغموم ہو گئے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بیٹی کی وفات پر دو ازواجِ مطہرات اُمّ المومنین حضرت سودہؓ اور اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ایمنؓ کے ساتھ مل کر آپؐ کی پیاری بیٹی کو غسل دیں اور فرمایا جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو زینبؓ کے جسم پر خوشبو لگاؤ۔ کفن کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا تہہ بند بھی عطا فرمایا۔ سیدّہ حضرت زینبؓ (Syeda Zainab) کو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور ابوالعاصؓ نے اپنے دستِ مبارک سے لحد میں اتارا۔
غزوہ بدر کے بعد آپؓ دل سے تو مسلمان ہو گئے تھے لیکن اعلانیہ اسلام قبول کرنا ابھی باقی تھا کیونکہ آپؓ کسی مناسب موقع پر قبولِ اسلام کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوالعاصؓ کے پاس لوگوں کا بہت سامالِ تجارت تھا جس سے انہوں نے شام میں کافی منافع بخش تجارت کی۔ اتفاق سے شام سے واپسی پر مسلمانوں نے اس تجارتی قافلے کو روکا اور سامان اور تاجروں کو گرفتار کر کے مدینہ لے آئے۔ حضرت ابوالعاصؓ کی بطور اسیر مدینہ میں یہ دوسری حاضری تھی۔ سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) سے حسنِ سلوک کی وجہ سے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ان کا بدلہ اتارنا چاہتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کوئی فیصلہ نہ فرمایا بلکہ صحابہ کرامؓ سے مشاورت کے بعد حضرت ابوالعاصؓ کا سامان انہیں واپس کیا گیا۔ جب آپؓ مکہ پہنچے تو لوگوں کی امانتیں اور رقوم مع منافع ان کو واپس کر دیں پھر تمام قریش سے اپنے بارے میں گواہی لی کہ ان کے ذمہ کسی کا کوئی لین دین تو نہیں سب نے گواہی دی کہ نہیں ہے۔ کافروں سے یہ گواہی لینے کے بعد آپؓ نے اسی مجمع میں قبولِ اسلام کا اعلان فرمایا اور پھر ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا ’’ابوالعاصؓ جب مدینہ والوں نے سامانِ تجارت واپس کیا تھا اس وقت اسلام قبول کیوں نہیں کیا؟‘‘حضرت ابوالعاصؓ نے عرض کی ’’حضور! اسلام تو میں نے اسی وقت قبول کر لیا تھا لیکن اظہار اس لیے نہیں کیا کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اپنا سامان واپس لینے کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔‘‘
حضرت ابوالعاصؓ کے مدینہ منورہ (Medina Munawara) آنے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) کے ساتھ تجدید نکاح کی اور سابقہ حق مہر پر ہی سیدّہ حضرت زینبؓ کو حضرت ابوالعاصؓ کے پاس بھیج دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوالعاصؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اس نے مجھ سے بات کی اور سچی بات کی اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا اور اسے پورا کر کے دکھایا۔‘‘ (بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ماذکر من درع النبی: ۳۱۱۰) (مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ)
10 ہجری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سرکردگی میں یمن جانے والے سریہ میں بھی شریک ہوئے۔ لیکن سیدّہ زینبؓ(Syeda Zainab r.a) کے وصال کے بعد بہت غمزدہ رہنے لگ گئے تھے جس نے صحت پر گہرا اثر ڈالا۔ بالآخر 12 ہجری میں آپؓ نے وفات پائی۔
سیدّہ امامہؓ کے علاوہ سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab r.a) کے ایک بیٹے بھی تھے جن کا نام علی بن ابوالعاصؓ تھا۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے کم سنی میں وفات پائی۔ دوسری روایت کے مطابق سن ِرشد کو پہنچے۔ ابنِ عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی۔
شجرۂ نسب (Shajra-e-Nasab)
سیدّہ اُمامہؓ (Syeda Umamah Bint-e-Zainab)کا والدہ محترمہ کی طرف سے نسب مبارک یوں ہے:
حضرت اُمامہؓ بنتِ زینبؓ بنتِ محمدؐبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قصیٰ۔
سیدّہ اُمامہؓ کا والدمحترم کی طرف سے نسب مبارک یوں ہے:
حضرت اُمامہؓ بنتِ حضرت ابوالعاصؓ بن ربیع بن عبد العزیٰ بن عبدشمس بن عبد المناف بن قصیٰ۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیدّہ حضرت اُمامہؓ سے محبت
(Hazoor saw ki syeda umama se Mohabbat)
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو سیدّہ اُمامہؓ، حسنین کریمین ؓ کی طرح نہایت عزیز تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ ان پر خصوصی محبت و شفقت فرماتے۔ آپؐ اکثر انہیں اپنے ہاں بلاتے اور خود بھی ان کے ہاں تشریف لے جاتے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بطور ہدیہ ایک سونے کی انگوٹھی بھیجی جس میں حبشی نگینہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے لکڑی سے چھوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے اعراض کر رہے تھے یا پھر اپنی ایک انگلی سے چھوا اور اپنی نواسی اُمامہ بنتِ زینب کو بلا کر فرمایا: بیٹی ! اسے پہن لو۔ (سنن ابن ماجہ ، حدیث:۳۶۴۴)
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اُمامہ بنتِ ابوالعاصؓ کو اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے تھے۔ سیدّہ اُمامہؓ کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab r.a) تھیں، سیدّہ اُمامہؓ (Syeda Ummamah r.a) ابھی چھوٹی بچی تھیں۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کندھے پر تھیں۔ جب آپؐ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے پھر جب کھڑے ہوتے تو انہیں دوبارہ اُٹھا لیتے اسی طرح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی پوری نماز ادا کی۔ (سنن ابو داؤد، حدیث: ۹۱۸)
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیدّہ اُمامہؓ سے محبت کا ایک اور خوبصورت واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک بہت ہی خوبصورت ہار پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں اس ہار کو اپنے خاندان میں جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اس کی گردن میں پہناؤں گا، خواتین نے کہا کہ سرورِ دوعالمؐ یہ ہار سیدّہ حضرت عائشہ صدیقہؓ (Syeda Hazrat Ayesha Siddiqa R.A) کو ہی عنایت فرمائیں گے لیکن آپؐ نے سیدّہ حضرت اُمامہؓ (Syeda Ummamah r.a) کو بلوایا اور وہ ہار اپنے ہاتھ سے ان کو پہنادیا۔ ‘‘(مسند ابی یعلیٰ، حدیث۴۴۵۴)
پرورش (Parvarish)
سیدّہ زینبؓ (Syeda Zainab) کی وفات کے بعد سیدّہ اُمامہؓ کی پرورش و تربیت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی اس لیے حق گوئی، شرم و حیا، فرمانبرداری، سنجیدگی اور معاملہ فہمی انؓ کی ذاتِ مقدسہ میں بدرجہ اُتم موجود تھے، آپؓ اپنے اخلاق و کردار (Akhlaq o Kirdar) میں اپنی والدہ محترمہ سے بھی مشابہت رکھتی تھیں۔
سیدّہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی وصیت اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نکاح
(Syeda Fatima-Tul-Zahra ki Wasihat or Hazrat Ali sy Nikah)
حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت سیدّہ اُمامہؓ (Syeda Ummamah r.a)سنِ شعور کو پہنچ چکی تھیں۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زیرِ سایہ تربیت سے صبر و شکر، تسلیم و رضا (Tasleem o Raza) اور توکل(Tawakkul)علی اللہ آپؓ کے مزاج کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپؓ کی انہی خوبیوں کی بِنا پر سیدّۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ (Fatimah bint Muhammad)نے اپنے وصال سے قبل ہی سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وصیت فرمائی ’’میرے بعد میری بھانجی اُمامہ بنتِ زینبؓ (Syeda Zainab r.a)سے نکاح کر لینا کیونکہ میرے بچوں کے لیے ان سے بہتر ماں کوئی اور ثابت نہیں ہو سکتی۔‘‘
چنانچہ سیدّۂ کائناتؓ کی وصیت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت اُمامہؓ بنتِ ابو العاصؓ سے نکاح فرمایا۔ (مدارج النبوۃ، ج۲، ص۳۲۵)
سیدّہ اُمامہؓ نے نہایت وفاشعار بیوی کی طرح سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت و اطاعت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔آپؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رفاقت میں 28 سال گزارے۔
سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت
(Syedna Hazrat Ali ra ki Wasihat)
19 رمضان المبارک 40ھ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ایک بدبخت خارجی عبد الرحمن ابن ِملجم نے جان لیوا حملہ کیا، نتیجتاً آپؓ نے دو دن شدید زخمی حالت میں گزارے۔ جب جانبری کی کوئی اُمید باقی نہ رہی تو آپؓ نے حضرت مغیرہ بن نوفلؓ کو طلب فرمایا جو جناب عبدالمطلب کے پڑپوتے تھے اور انہیں وصیت کی کہ میرے بعد اُمامہ سے نکاح کر لینا۔ (شہادت نواسۂ سیدّ الابرار و مناقبِ آلِ نبی المختار)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے 21 رمضان المبارک 40ھ میں شہادت پائی۔
حضرت مغیرہ بن نوفلؓ سے نکاح
(Hazrat Mughira Bin Nofal se Nikah)
سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت کے مطابق سیدّنا حضرت امام حسنؓ نے سیدّہ اُمامہؓ کی رضا مندی سے ان کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفلؓ سے کر دیا۔ (شہادت نواسۂ سیدّ الابرار و مناقبِ آلِ نبی المختار)
حضرت مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم قریشی ہاشمی صحابی تھے۔ ان کے والد حضرت نوفل بن حارثؓ پیغمبرِ اسلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ (الاستیعا ب فی معرفۃ الاصحاب، ابنِ عبد البر)
سیدّہ حضرت اُمامہؓ (Syeda Ummamah r.a) 26 سال تک حضرت مغیرہ بن نوفلؓ کے نکاح میں رہیں۔
سیدّہ حضرت اُمامہؓ کی اولاد
(Syeda Ummamah r.a ki Aulad)
سیدّہ حضرت اُمامہؓ (Syeda Ummamah r.a) کو اللہ پاک نے دو فرزند ارجمند سے نوازا۔
سیدّنا حضرت محمد الاوسط بن علیؓ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان)
حضرت یحییٰ بن مغیرہؓ (لاولد فوت ہوئے)۔ (شہادت نواسۂ سیّد الابرار و مناقب ِ آلِ نبی المختار)
وفات
(Death of Hazrat Umamah Bint-e-Zainab)
سیدّہ اُمامہؓ بنتِ زینبؓ نے 66ھ بمطابق 686عیسوی میں حضرت مغیرہ بن نوفلؓ کے گھر وفات پائی اور آپؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
استفادہ:
شہادت نواسۂ سیدّ الابرار و مناقبِ آلِ نبی المختار از مولانا محمد عبد السلام قادری رضوی
ستارہ ڈائجسٹ، بناتِ رسول نمبر
سیارہ ڈائجسٹ، رسول نمبر
روزنامہ جنگ سنڈے میگرین
ے شک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے پاک نفوس بھی ہدایت کے جگمگاتے روشن ستاروں کی مانند ہیں۔
نہایت عمدہ اور معلوماتی مضمون ہے۔
سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون ہے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پہلی بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا پر اتنا تفصیلی مضمون پڑھا ہے
MashaAllah
بہت تفصیلی تحریر ہے جزاک اللہ۔
Very informative article ❤️
بے شک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے پاک نفوس بھی ہدایت کے جگمگاتے روشن ستاروں کی مانند ہیں۔
ے شک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے پاک نفوس بھی ہدایت کے جگمگاتے روشن ستاروں کی مانند ہیں۔
It is a very informative article 👌❤️❤️❤️
بہترین مضمون ہے ماشاءاللّٰہ ❣️❣️
بہترین مضمون
Great article!
بہت عمدہ تحریر ❤️❤️
حق فرمایا آپؓ کی ذات ہمارے نبیؐ کو بہت عزیز تھی
Very informative