پوشیدہ راز (Poshida Raaz)
حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک شریف النفس اور کمزور آدمی تھا جو اللہ کے حضور یہ دعا کرتا رہتا تھا ’’مجھ غریب بے سہارا کو غیب سے روزی عطا فرما اور مجھے محنت و مشقت کے عذاب میں نہ ڈال۔ مریل گدھے پر گھوڑوں اور اونٹوں کا بوجھ نہیں لادا جا سکتا ۔پاؤں والا تو چل کر روزی پیدا کر سکتا ہے اور جس کے پاؤں نہ ہوں اس کو تیرا ہی آسرا ہے۔ اے اللہ، سب کی سننے والے! میں منہ سے ہی تجھ سے مانگ سکتا ہوں لیکن مشقت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔‘‘بس یہی دعا اس کے دن رات کی مصروفیت تھی۔
اس کا یہ عمل ہر خاص وعام میں مشہور ہو چکا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ خدا نے ہر شخص کی روزی محنت و مشقت کے راستے اُتاری ہے لیکن اسے دیکھو ہاتھ پیر ہلائے بغیر خدا سے اپنا رزق طلب کرتا ہے۔ پیغمبرِخدا کو دیکھو جنہیں اللہ نے معجزے بھی عطا کئے ہیں۔ خوش الحان ایسے کہ جن واِنس، چرند پرند تو ایک طرف پہاڑ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ باوجود اتنی شان کے وہ بھی بغیر مشقت کے روزی حاصل نہیں کرتے مگر اسے دیکھو ناکارہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے بیٹھے بٹھائے خزانہ مل جائے اور کوئی کسب نہ کرنا پڑے۔ لوگ سو سو باتیں کرتے وہ کسی کی پرواہ نہ کرتا، برابر اپنی آہ وزاری میں لگا رہتا۔ اس کی دُعا کا چر چا سارے شہر میں عام ہو گیا کہ یہ کیسا انسان ہے جو خالی تھیلی میں پنیر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ’’جو تلاش کرے آخر اس کومل جاتا ہے۔‘‘
اللہ سب کی دعائیں سنتا اور مرادیں پوری کرتا ہے۔ اس شخص نے دعاؤں اور رونے دھونے کی حد کر دی تو رحمتِ حق جوش میں آگئی اور اس کی مراد بر آئی۔ زور سے دروازہ کھلا اور ایک گائے اس کے گھر میں گھس آئی۔ اس نے فورا ًگائے کو پکڑا، ٹا نگیں باندھ کربے تامل حلق پر چھری پھیر کر ذبح کر دیا۔۔۔ پھر قصاب کو بلوایا کہ اس کو کاٹ کر بوٹیاں بنا دے۔ گائے کا مالک گائے کی تلاش میں گلی کو چوں کی خاک چھانتا ادھر آنکلا۔ دیکھا کہ گائے ذبح بھی ہو چکی ہے اور قصائی اس کی بوٹیاں کرنے میں مصروف ہے۔ اس نے رونا دھونا اور چلانا شروع کر دیا ’’ارے ظالم! یہ کیا غضب کیا، یہ گائے تو میری تھی، تجھے بھلا کیا حق تھا اسے پکڑ کر ذبح کرنے کا۔‘‘ دعا مانگنے والے نے جواب دیا ’’سنو بھائی! زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں، میں برسوں سے اس دعا میں مصروف ہوں کہ اے اللہ تعالیٰ میرا رزق میرے پاس پہنچا دے، اس نے دعا قبول کی۔ میں نے اسے خداداد سمجھ کر ذبح کر ڈالا۔‘‘ یہ جواب سن کر گائے کے مالک کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ اس نے پہلے درویش کی ٹھکائی کی پھر اُسے گریبان سے پکڑ کر حضرت داؤد ؑ کی عدالت میں لے گیا۔ ارے احمق! اگر محض دُعا مانگ کر دوسروں کا مال ہضم کرنے کی اجازت ہو جاتی تو پھر کوئی کچھ نہ کرتا۔ صرف دُعا کے بل بوتے پر لوگ ساری دولت کے مالک اور حق داربن جاتے۔
لوگوں نے گائے کے مالک کی باتیں سنیں تو اُسی کو حق پر قرار دیا۔ درویش نے اس بے بسی کی حالت میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا:
’’اے خدائے رحمان و رحیم! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں نے اپنی آرزو کی تکمیل کے لیے سینکڑوں روز و شب آہ و زاری کرنے اور دعا مانگنے میں صرف کئے اور میں نے روز ِالست جو خواب دیکھا تھا، اسی نے مجھے تیری بندگی میں مست کر دیا۔ میری مثال اس مست اونٹ کی سی ہے جو سستی اور تھکان محسوس کئے بغیر منہ سے جھاگ نکالے بوجھ اُٹھائے چلا جاتا ہے کہ اپنی اونٹنی سے ملاپ کرے۔ میں نے جب اپنی مراد پائی تو یہ مجھے تیرا بندہ نافرمان سمجھ کر شیطان کی طرح کوس رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ! میں تو ہمیشہ تیرے ہی آگے دستِ سوال دراز کرتا رہا ہوں، تو میری پردہ پوشی کرلے اور مجھے ذلیل ہونے سے بچا لے۔‘‘
گائے کے مالک نے جھلا کر کہا ’’اُدھر آسمان کی طرف کیا دیکھ رہا ہے؟ اِدھر میری طرف دیکھ اور حقیقت کا سامنا کر۔ تو کیا سمجھتا ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کو اس فریب میں مبتلا کر کے صاف نکل جائے گا۔‘‘دعا مانگنے والے نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اور رو کر بولا ’’اے خدائے ذوالجلال! اپنے اس بندے کو رُسوا نہ کر۔ میں بے شک خطا کار ہوں، توُ تو عیبوں کو ڈھانپنے والا ہے اور اس نازک وقت میں میری مدد فرما۔‘‘ مقدمہ حضرت داؤدؑکی عدالت میں پیش کیا گیا۔ گائے کے مالک نے پہلے دعویٰ پیش کیا اور کہا ’’اے پیغمبرِخدا! میری گائے اتفاق سے اس کے گھر میں جاگھسی۔ خدا جانے یہ کب سے تاک لگائے بیٹھا تھا، اس نے میری گائے کو پکڑ کر ذبح کر ڈالا۔ آپ کے سامنے میری فریاد ہے۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ دعا مانگنے والے نے اپنی صفائی میں یوں عرض کیا ’’اس شہر کے سبھی لوگ مجھے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ آج تک میں نے کسی کامال مارا نہ چوری کیا اور نہ ہی ناحق کسی کو پریشان کیا۔ میرا گزشتہ کئی سال سے یہ معمول رہا ہے کہ شب و روز بارگاہِ الٰہی میں یہ دعا کرتا رہتا تھا کہ بغیر محنت و مشقت کے مجھے رزق عطا فرما۔ آخر مسلسل دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری آرزو سنی اور یہ گائے خود بخود میرے گھر میں گھس آئی۔ میری آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی نو رآ گیا کہ حق تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور رزقِ حلال بغیر محنت کے مل گیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس گائے کو ذبح کر ڈالا۔ یہ شخص نہ جانے کہاں سے شور مچاتا ہوا آگیا اور کہنے لگا کہ گائے میری ہے۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا ’’ایسی معقول دلیل دے جس کی بنا پر تو نے گائے ذبح کی۔ تیرے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ گائے تجھے مالک نے دی نہ تو نے خریدی۔‘‘ دعا مانگنے والے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’اے پیغمبر ِ خدا! آپ ؑبھی وہی کہنے لگے جو دوسرے کہہ رہے ہیں ۔‘‘
ایک آہِ دردناک اس کے دل سے نکلی اور اس نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر کہا ’’اے میرے دل کا درد جاننے والے! تو داؤد علیہ السلام کو روشنی عطا فرما اور انہیں حقیقتِ حال سے آگاہ فرما۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اس کی آواز میں ایسا درد تھا کہ نہ صرف سنگ موم ہو گئے بلکہ حضرت داؤد ؑ کا دل بھی دہل گیا۔ انہوں نے گائے کے مالک سے کہا کہ اس کا فیصلہ ایک دن کے بعد کیا جائے گا۔
پیغمبرِ خدا اپنے حجرے میں داخل ہوئے اور اپنی عبادت گاہ کا دروازہ بند کر دیا۔ ذکر واذکار کے بعد اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے علیم و خبیر آقا! مجھے حقیقتِ حال سے آگاہ فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اسرار و رموز کھول دیئے۔ دوسرے دن دونوں کو طلب کیا گیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فیصلہ دیاکہ گائے کے مالک کو کہا کہ اس شخص کا پیچھا چھوڑ دے اور اسے معاف کر دے ۔حق تعالیٰ نے تیرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی ہے، تو بھی اس کی ستاری کا حق ادا کر اور اپنی گائے کی طرف سے صبر کر۔
حضرت داؤدؑکا ارشاد سنتے ہی اس بدبخت نے کہا ’’کیا اب کوئی نئی شریعت نافذ ہوگئی ہے؟ آپؑ کے انصاف کی شہرت تو زمین و آسمان تک پہنچ چکی ہے مگر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ یہ انصاف نہیں ظلم ہے۔‘‘
دوسری مرتبہ حضرت داؤدؑنے فرمایا ’’اپنا سارا مال اور جائیداد اس مظلوم کے حوالے کر دے ورنہ تیری سخت رُسوائی ہوگی اور کچھ عجب نہیں کہ جو ظلم و ستم تونے کئے ہیں وہ بھی ظاہر ہو جائیں۔ ‘‘گائے کے مالک نے یہ کلمات سنتے ہی سر پر خاک ڈالنا شروع کر دی ،گریبان پھاڑ ڈالا، بدحواس ہو کر اور منہ میں کف بھر کر بولا ’’اے داؤد! اچھا فیصلہ سنایا۔ مجھ پر ظلم و زیادتی کی حد کر دی۔ (نعوذ بااللہ) مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ تو اپنے حواس میں نہیں رہا۔ ‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے قریب بلایا اور کہا ’’اے بدبخت! اس ہنگامے سے باز آ، کہیں یہ تیری ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔ جو توُ نے بویا ہے وہ اب کاٹ۔‘‘ اب تیسری مرتبہ حضرت داؤد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ’’تو اپنے اہل وعیال بھی اس کے حوالے کر دے۔‘‘ اس حکم پر تو وہ پھر سے اپنا سر پھوڑنے لگا۔ لوگ بھی حیران تھے کہ حضرت یہ کیا حکم دے رہے ہیں۔
جو شخص تنکے کی طرح نفس کی ہوا کے بس میں ہووہ ظالم اور مظلوم میں کیا تمیز کر سکتا ہے۔ شیر بھی شرم کرتا ہے وہ ہمسایوں کے شکار پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ تماشائی پیغمبرِخدا کے احکام کی اصل وجہ سے ناواقف تھے۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا ’’اے اللہ کے نبی!آپ ؑکی ذات بابرکات سے ایسا صریح ظلم؟ ہم سب حیرت میں ہیں۔ بے قصور گائے والے پر اتنا عتاب آخر کیوں؟ اور جس نے ناحق گائے پکڑ کر ذبح کر ڈالی اُسے آپ ؑنے بری کر دیا۔‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا ’’شاید کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس گائے والے کے پوشیدہ راز ظاہر کر دیئے جائیں۔‘‘ حضرت داؤد ؑسب کو دریا کے کنارے ایک بہت پرانے گھنے درخت کے نیچے لے گئے۔ وہ گھنا درخت جس کی شاخیں آپس میں گتھی ہوئی تھیں، سورج کی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتی تھیں۔ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اس درخت کے نیچے ایک آدمی کو قتل کیا گیا تھا؟ تم نہیں جانتے البتہ وہ جانتا ہے جس نے اس زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا ’’حقیقت یہ ہے کہ اس گائے والے نے اپنے آقا کو قتل کیا۔ یہ شخص اصل میں مقتول کا زرخرید غلام تھا۔ اس نے اپنے آقا کو قتل کر کے اس کے مال و دولت اور جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ یہ مظلوم دعا مانگنے والا اُسی مقتول کا بیٹا ہے۔ پھر اس بے رحم اور سنگ دل شخص نے اپنے مقتول آقا کے کم سن یتیم بچوں پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ ان سے سب کچھ چھین لیا۔ یہاں تک نمک حرامی پر اُتر آیا کہ اس کے آقا کے بچے دانے دانے کے محتاج ہو گئے۔ اس مردود نے اپنے گناہوں کا پردہ خود ہی فاش کیا۔ ظلم ہمیشہ روح کی گہرائیوں میں دُبکا رہتا ہے لیکن ظالم اسے خود لوگوں پر کھول رہا ہے۔ اے سگِ دنیا! تونے شرع کے مطابق اس مقدمے کا فیصلہ مانگا تھا، شریعت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب اس کی تعمیل کرنا تیرا فرض بنتا ہے۔ تو نے اپنی سفا کی اور شقی القلبی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خدا کی پناہ۔ تو نے آقا کو اس طرح چھری سے ذبح کیا جس طرح اس دعا مانگنے والے نے تیری گائے کو ذبح کیا تھا۔ وہ خون آلود چھری راز فاش ہونے کے ڈر سے گڑھا کھود کر تو نے دفن کر دی تھی ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس چھری پر اس کا نام کندہ ہے۔۔۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام کے حکم پر زمین کھودی گئی۔ گڑھے کے اندر سے ایک شخص کی کھوپڑی اور لمبی سی چھری برآمد ہوئی۔ اب گائے والا خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ تماشائیوں پر سکتے کا عالم طاری تھا۔ لوگوں نے اپنے سروں سے کپڑے اور ٹوپیاں ہٹا دیں۔ ننگے سر ہو کر سامنے آئے اور عرض کرنے لگے، اے خدا کے سچے پیغمبر! ہم فطری نابینا ثابت ہوئے، ہم نے آپ کی زبان مبارک پر اعتبار نہ کیا۔ آپ ہماری گستاخی معاف فرما دیں۔ حضرت داؤد نے سب کو معاف کر دیا۔ پھر گائے والے کے بارے میں حکم دیا۔ چونکہ اس شخص کے ظلم کا پردہ کھل چکا ہے اور یہ قاتل ہے اس لیے رائج الوقت شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے۔ چنانچہ اُسی چھری کے ساتھ اس کی گردن اڑادی گئی۔
درس حیات:
ایک ظالم کی ہلاکت سے ایک جہان کا چھٹکارا ہوا اور ہر شخص کا حق تعالیٰ پر ایمان از سر نو تازہ ہوا۔ عزیزم! اس حکایت سے سبق حاصل کر۔ تو بھی اپنے نفس کو موت کے گھاٹ اتار۔ گائے والا کون ہے؟ تیر انفس کہ جس نے اپنے آپ کوظلم، دھوکے اور فریب سے بڑا آدمی بنا لیا۔ بے محنت و مشقت کے روزی کیسے ملتی ہے؟ خواہشاتِ نفس کو مار دینے سے۔ اصل وارث عقلِ سلیم ہے جو بے کس، بے آسرا اور غریب رہ گئی۔ اور خود غرض، بے رحم نفس جس کی حیثیت غلام کی سی تھی آقا اور مالک بن بیٹھا۔
(اقتباس: حکایاتِ رومیؒ ۔ مولانا جلال الدین رومیؒ)
بہت خوصورت حکایت ہے
اللہ پاک ہم سب کی عیب پوشی فرمائے
عمدہ تحریر
Allah pak ke raaz ko jana bohot zaroori hai
بہترین مضمون ہے
💕💗💗❣️
بہت سبق آموز مضمون
Behtareen ❤️
بہت خوبصورت تحریر
اللہ پاک ہمیں نفس و شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے آمین
بڑا سبق آموز آرٹیکل ہے
بہترین تحریر ہے
This is a thought provoking incident 💓
Interesting article
سبق آموز تحریر