راہِ فقر اور والدین کا کردار (Rah-e-Faqr Aur Walidain Ka Kirdar)
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور
انسان کی شخصیت، اس کے کردار کا انحصار اور اس کی جڑیں اس کے بچپن میں پیوست ہوتی ہیں۔ انسان کی فکر اور سوچ کا بیج بچپن میں بویا جاتا ہے اور اس کے کردار کا حسن اور نقص اس کے بچپن میں کی گئی تخم ریزی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ درحقیقت بچپن بنیادہے جس پر زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو تو عمارت بھی تند و تیز ہواؤں میں مضبوطی کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔
بچپن میں بچے کی تربیت کی پہلی درسگاہ والدین ہوتے ہیں۔ عقائد کی درستی، اچھے اور برُے میں تمیز، ظاہری و باطنی تربیت کا دارومدار سب والدین پر ہوتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ خالی ہوتا ہے، وہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی کو تربیت کے طور پر جذب کرتا ہے اور اسی کے مطابق کردار سازی کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔
اولاد کی تربیت سے متعلق حدیثِ مبارکہ ہے:
والدین اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دیتے ہیں وہ ان کی اچھی تربیت ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔4977)
سادہ اور آسان الفاط میں تربیت سے مراد ہے برُے اخلاق و عادات اورغلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح و پاکیزہ ماحول سے تبدیل کردینا۔بچے کو نفسیاتی، اخلاقی، عملی، اعتقادی، دینی اور روحانی طور پر تیار کرنا تا کہ وہ دین ودنیا دونوں میں کامیاب و کامران ہو سکے۔
حضرت امام غزالیؒ اولاد کی تربیت کے متعلق فرماتے ہیں:
بچے والدین کے پاس امانت ہیں، ان کا پاکیزہ دل ایک قیمتی جو ہر ہے، بچوں کو بھلائی(اچھے کام) کا عادی بنایا جائے اور اچھی تعلیم دی جائے تو بچے اس نہج پر پروان چڑھتے ہیں جس کی بدولت دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر بچوں کو برُی باتوں کا عادی بنایا جائے یا ان کی تربیت سے غفلت برتی جائے اور انہیں جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو بد بختی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ (بچوں کی تربیت اور اس کے بنیادی اصول)
بچے کی تربیت کا آغاز اور طرزِ فکر کی تشکیل کا عمل رحمِ مادر سے شروع ہو جاتا ہے۔ ماں جو سوچتی ہے اس کا اثر بچوں پر ہوتا ہے۔ بچے کی ذہنی تربیت اور اسے روحانی اقدار سے آشنا کرنے کے لیے ماں کا کردار بہت ضروری ہے۔ ماں اگر مثبت سوچ رکھے گی تو اس کے جسم میں صحت بخش اور پرُسکون لہریں گردش کریں گی اور یہی لہریں بچے کی طرزِ فکر کا حصہ بن جائیں گی۔ اس لیے عورتوں کو اس خاص مدت (نو ماہ) میں مثبت سوچ رکھنے، زیادہ دینی کاموں میں مشغول رہنے، نیک سیرت اپنانے اور محبتِ الٰہی سے دلوں کو روشن رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
بچپن کا عرصہ گزار کر جب بچہ لڑکپن کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو والدین کی دینی، اخلاقی اور تعلیمی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ جب بچے کے مزاج میں پختگی پیداہونا شروع ہو تو والدین کو چاہیے کہ بچے میں سب سے پہلے دین کی محبت پیدا کریں، اللہ کے ساتھ باطنی تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کریں، دینی کاموں اور فرائض کی ادائیگی کی جانب رغبت دلائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان، اس کی عظیم قدرت اور آفاق میں پھیلی اس کی عظیم الشان نشانیوں کی جانب بچوں کو غورو فکر کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔ ان میں اس چیز کا احساس پیدا کیا جائے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں خشوع و خضوع، تقویٰ، خشیتِ الٰہی اور عبدیت کی روح کو زندہ کیاجائے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے میں صرف اللہ کے خوف کے جذبے کو ابھارا جاتا ہے جبکہ ہمارا دین خوف اور امید کے درمیان ہے۔ اللہ کا خوف دل میں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رحیم و کریم ہونے کا جذبہ بھی دل میں پیدا کرنا ضروری ہے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بچے کی ظاہری تعلیم و تربیت پر حد سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اسے بڑا آدمی بنانے اور اس کے روشن مستقبل کی خاطر ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے لیکن اس کی دینی و روحانی تربیت کو پس ِپشت ڈال دیا جاتا ہے۔ والدین کا بچے پر احسانِ عظیم یہ ہے کہ انہیں دین کی اصل حقیقت کے متعلق آگاہی دی جائے۔ انہیں احساس دلایا جائے کہ انسان صرف گوشت پوست سے بنا وجود نہیں بلکہ اس کا ایک باطنی وجود بھی ہے۔ انسان کی تخلیق دو چیزوں کا مرکب ہے نفس اور روح۔ روح کی پہچان ہی درحقیقت دین کی حقیقت اور رمز ہے، اسی کو عرفانِ نفس اور خودی کی پہچان کہتے ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس جس طرح دین کی حقیقت کے متعلق رہنمائی فرماتے ہیں وہ تمام والدین کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
دین کے معنی ہیں ’’جوہر ِ انسان (روح) کی شناخت اور اس کی تکمیل ‘‘ یعنی مرتبۂ انسان کی پہچان اور اس کے حصول کا نام دین ہے۔ (فقرِ اقبال)
دین کی اصل حقیقت سے واقف کرانے کے لیے ضروری ہے کہ اولاد کو راہِ فقر کے متعلق رہنمائی دی جائے کیونکہ اسی راہ پر چل کر ’’روح‘‘ کی شناخت اور’’ مرتبۂ انسان‘‘ کی پہچان ہو سکتی ہے۔ فقر کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث ہیں:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّی فَافْتَخِرُّبِہٖ عَلٰی سَآئِرِ الْاَنْبِیَّآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔ اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے ۔
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ:فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
دین کی اصل حقیقت راہِ فقر ہے اور راہِ فقر کی اصل بنیاد ’’طلبِ مولیٰ‘‘ ہے۔ یعنی اولاد کی باطنی تربیت کے دو بنیادی پہلو ہیں، اوّل انہیں راہِ فقر کی ترغیب دی جائے دوم طلبِ مولیٰ کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یعنی اللہ کی عبادت جنت کے حصول کے لیے نہیں اور نہ ہی جہنم کے خوف سے کی جائے بلکہ اللہ کی عبادت اس لیے کی جائے کہ اللہ کی ذات ہی عبادت کے لائق ہے۔ تمام عبادات کا مقصداللہ پاک کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے :
دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے، عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور طالبِ مولیٰ پر دنیا و عقبی دونوں حرام ہیں ۔ جسے مولیٰ مل گیا سب کچھ اسی کا ہو گیا۔
حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
دنیا کا طالب (مخنث ) ہیجڑہ ہے، عقبیٰ کا طالب (مؤنث) عورت ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر (مرد) ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے :
میں اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی طلب یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرتا بلکہ میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے ۔
موجودہ دور نفس پرستی اور مادہ پرستی کا ہے ۔نفسا نفسی کے اس عالم میں اولاد کو تعلیماتِ فقر کی ترغیب دلانا والدین کے لیے اصل آزمائش ہے اور یہی اصل تربیت ہے ۔ اولاد کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لیے والدین پر لازم ہے کہ اولاد کو یہ سوچ دی جائے کہ انسان کو کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ اس کا اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد کیا ہے؟ اسے کیوں دیگر مخلوقات میں ’’اشرف‘‘ ہونے کا درجہ حاصل ہے؟ درحقیقت انسان کو اس دنیا میں ایک عظیم مقصد کے حصول کے لیے بھیجا گیا ہے اور وہ مقصد دیدارِ الٰہی کی نعمت حاصل کرنا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد میں دیدارِ الٰہی کے لیے جستجو پیدا کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے درست راہ کا انتخاب کرنے میں ان کے معاون اور مددگار بنیں۔ جس دل میں طلبِ مولیٰ ہوتی ہے اسی دل میں دیدارِ الٰہی کا شوق اور جستجو پیدا ہوتی ہے۔
حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق راہِ فقر ہی وہ راہ ہے جس میں کامیا ب طالبِ مولیٰ کو ’’دیدارِ الٰہی ‘‘ کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں :
فقر دیدارِ الٰہی کا علم ہے ۔ (عین الفقر)
جو شخص اللہ اور اس کا دیدار چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔ (عین الفقر)
تمام پیغمبروں نے فقر کے مرتبے کی التجا کی‘لیکن نہیں ملا۔ صرف سرورِ کائناتؐ کو حاصل ہوا جو آنحضرتؐ نے اپنی امت کے سپرد کیا ۔ یہ فقرِ محمدیؐ محض فیض ہے ۔ (امیر الکونین)
تلاشِ مرشد
ہر راہ کا ایک رہنما ہوتا ہے۔ راہِ باطن یعنی راہِ فقر کا رہنما مرشد کامل ہے۔ اسی کی رہنمائی اور نگاہِ فیض سے دل میں طلبِ مولیٰ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دین کی اصل حقیقت منکشف ہوتی ہے، نفس کی اصلاح ہوتی ہے، روح کوتقویت حاصل ہوتی ہے اور دیدارِ الٰہی کی منزل تک رسائی ہوتی ہے۔
اگر ہم اولیا اللہ جیسی نیک و برگزیدہ ہستیوں کی زندگیوں کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے مرشد کامل کوتلاش کیا اور ان کی صحبت اختیار کی۔ اس باطنی سفر میں اُن کے والدین کی خصوصی رہنمائی اور تربیت شامل تھی۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ کی حیاتِ مبارکہ کی مثال لی جائے تو اس سے بھی ہمیں یہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ اتنے اعلیٰ باطنی و روحانی مرتبے کے حامل ہونے کے باوجود ان کی والدہ حضرت بی بی راستی ؒنے انہیں ظاہری مرشد کامل تلاش کرنے کی ترغیب دلائی۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی مشہورِ زمانہ تصنیف’’ سلطان باھوؒ‘‘ میں درج ہے :
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی و روحانی مہربانی اور باطنی بیعت کے بعد جب آپؒ اپنی والدہ محترمہ کی بارگاہ میں حاضر ہو ئے اور اپنی باطنی بیعت کا پورا ماجرا ان کے گوش گزار کیا تو آپؒ کی والدہ نے فرمایا :
’’اب تمہیں کسی مرشد کامل سے ظاہری دست ِ بیعت کر لینی چاہیے ۔ راہِ فقر میں ظاہری بیعت ضروری ہے اور اس کیلئے مرشد کامل تلاش کرو۔‘‘ (سلطان باھو ؒ)
موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
آج تک کسی ولی کامل کو ولایت، معرفتِ الٰہی اور مشاہدۂ حق تعالیٰ بغیر مرشد کامل اکمل کی بیعت اور تربیت کے حاصل نہیں ہوا۔ امام غزالیؒ درس و تدریس کا سلسلہ چھوڑ کر حضرت یوسف نساجؒ کی بیعت نہ کرتے تو آج ان کا شہرہ نہ ہوتا، مولانا رومؒ اگر شمس تبریز ؒ کی غلامی اختیار نہ کرتے تو انہیں ہر گز یہ مقام نہ ملتا۔ قصہ مختصر کہ فقر و طریقت کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی مرشد کی راہنمائی اور بیعت کے بغیر اللہ تک نہیں پہنچ سکا۔ (سلطان العاشقین )
حاصلِ بحث یہ کہ اپنی اولاد کو راہِ فقر اپنانے کے لیے مرشد کامل اکمل کی تلاش اور اس کی بیعت کرنے کے لیے خصوصی توجہ دلانی چاہیے ۔
سورۃ لقمان میں اولاد کی تربیت کا بیان
قرآنِ مجید وہ عظیم کتاب ہے جو اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت اور بھلائی کے لیے نازل فرمائی ۔ یہ کتاب ہر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق رہنمائی فراہم کرنے کا وسیلہ ہے ۔ قرانِ کریم کی سورۃلقمان میں اولاد کی تربیت کے تین بنیادی اصول واضح کیے گئے ہیں۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کامیاب زندگی گزارنے کے متعلق کچھ نصیحتیں کیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے:
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اوریاد کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا:اے میرے فرزند !اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (سورۃ لقمان ۔13)
اس آیتِ مبارکہ کے مطابق اولاد کی تربیت میں سب سے پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ انہیں واحدانیت کا سبق پڑھایا جائے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ (سورۃاخلاص۔1)
ترجمہ: (اے نبی مکرمؐ) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے ۔
لآَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا (سورۃ مزمل۔9)
ترجمہ:اُس(ھُو)کے سوا کوئی معبود نہیں،پس اسی کو اپنا کارساز بنالیں۔
واحدانیت کیا ہے ؟ واحدانیت سے مراد ہے کہ اللہ پاک ذات و صفات دونوں میں واحد و یکتا ہے ۔ اور شرک کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرا یاجائے، غیر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے ، خواہشاتِ نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنالیا ہے ۔ (سورۃ الفرقان۔43)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
سلامۃ فی الوحدۃ والافات فی الاثنین
ترجمہ:وحدت میں سلامتی ہے اور کثرت میں آفات ہیں ۔
یعنی ضرورتِ امر یہ کہ اولاد کی تربیت میں جب اللہ کی واحدانیت کے متعلق رہنمائی دی جائے تو یہ عمل صرف زبانی کلامی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اصل اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اپنے دل سے غیر اللہ کے تمام بت توڑ دینے کی تربیت دی جائے۔ اپنی خواہشاتِ نفس کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت سر گردان رہنے کی بجائے اپنا رُخ اور توجہ اللہ کی رضا کی جانب مبذول کر لی جائے۔ دل سے غیر اللہ کا خیال نکال دیا جائے۔ اقرار باللسان کے ساتھ اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرنے سے انسان مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن درجۂ مومن تک پہنچنے کے لیے اپنے دل سے بھی تمام ما سویٰ اللہ کی نفی ضروری ہے ۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں(یعنی مومن ہیں)، آپ ؐ فرما دیں: تم ایمان نہیں لائے ، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں (یعنی تم نے ابھی اقرار باللسان کیا ہے اور زبانی کلمہ پڑھا ہے)اورابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا (یعنی تم تصدیق بالقلب کے مرتبے پر نہیں پہنچے )۔ (سورۃ الحجرات۔ 14)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
مرشد وہ ہے جو طالبِ مولیٰ کو مقامِ توحید پر واحدانیتِ منفرد میں داخل کر دے ۔ مقامِ منفرد کیا ہے ؟ وہ مقام ہے جہاں نورِ اوّل (نورِ محمد ی ) نورِ خدا سے جدا ہوا۔ (اے طالب)صدق و ارادت سے سن! مرشد ہی وہ رہنما ہے جو مقامِ منفرد تک پہنچا کر (طالب کو)بقا عطا کردیتا ہے ۔ (عین الفقر)
حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیماتِ فقر سے اس حقیقت سے پردہ کشائی ہوتی ہے کہ اصل توحید یا واحدانیت اپنے ازلی وطن یعنی نورِ محمد تک عروج حاصل کرنا ہے ۔ اس کے دیگر تمام مراتب و مقامات دوئی اور کثرت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ایک طالب ظاہر و باطن میں شرک جیسے عظیم ظلم سے صرف اسی صورت محفوظ رہ سکتا ہے اگر وہ اپنا ہا تھ مرشد کامل اکمل کے ہاتھ میں دے دے۔ پھر وہ اسے اپنی رہنمائی کا شرف بخش کر غیر اللہ سے رہائی دلا کر مقامِ توحید تک پہنچا دے ۔ یہی وحدت ہے اور اسی میں سلامتی ہے اور کثرت میں آفات ہی آفات ہیں ۔
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری نصیحت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(لقمان نے کہا)اے میرے فرزند! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو ،پھرخواہ وہ کسی چٹان میں(چھپی) ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں(تب بھی) اللہ تعالیٰ اسے (روز ِقیامت حساب کے لیے) موجود کر دے گا۔بے شک اللہ باریک بین(بھی)ہے آگاہ و خبردار (بھی)ہے۔ (سورۃ لقمان ۔16)
اس نصیحت میں واضح کیا گیا ہے اللہ سمیع و بصیر کی قدرت پر صدقِ دل سے ایمان رکھا جائے۔ ہم جو عمل اعلانیہ طور پر کرتے ہیں یا تنہائی میں کرتے ہیں الغرض دل میں رائی کے دانہ کے برابر پوشیدہ نیکی یا بدی کا خیال بھی اللہ جانتا ہے ۔ اس لیے بندے کو ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں عاجز اور مخلص بن کر رہنا چاہیے ۔
حقیقت میں اللہ کی قدرت پر ایمان وہی رکھ سکتا ہے جو اپنے باطن میں قرب و معرفتِ الٰہی کے درجات طے کرے اور اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور مجھے اٹھانے والا، بٹھانے والا، سلانے والا، جگانے والا، کھلانے والا، پلانے والا صرف وہی ایک اللہ ہے ۔ زبان سے یہ سب ادا کرنا انتہائی آسان ہے لیکن اپنی باطنی بصیرت سے اس سب کا مشاہدہ کرکے حقیقتاً دل سے تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ جب بندہ حقیقی مشاہدہ کے بعدسچے دل سے اللہ کو ظاہر باطن ، اوّل آخر، اور زمین و آسمان کا ربّ مان لیتا ہے تو ہی حقیقتاً اس کی قدرت پر ایمان لاتا ہے اور تب ہی صحیح طور پر اسے ربّ العالمین کہنے کا حق ادا کر پاتا ہے ۔
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت
اللہ ربّ العزت حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت اس انداز میں بیان کرتا ہے:
اے میرے فرزند!تو نماز قائم رکھ اورمعرفت کی نصیحت کرتے رہنا اور برُے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کرنا،بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔(سورۃ لقمان ۔17)
اس آیتِ مبارکہ میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے: اوّل نماز قائم کرنا اور دوم اچھے کاموں کی ترغیب دینااور برے کاموں سے روکنا اور اس عمل سے جو بھی نتائج نکلیں ان پر صبر کرنا ۔
قرآنِ کریم میں کم و پیش پچاس آیاتِ قرآنی میں نماز قائم کرنے کا حکم موجود ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو نماز تمام عبادات کی سردار اور پیشوا ہے ۔ جو شخص پانچ وقت کی فرض نمازوں کو ان کی تمام شرائط کے ساتھ وقت پر ادا کرتا ہے وہ اللہ کی امان میں رہے گا اور اسے اللہ کی حمایت حاصل رہے گی ۔ حدیثِ مبارکہ ہے :
نماز دین کا ستون ہے جس نے اس سے ہاتھ اٹھایا اس نے اپنے دین کو بر باد کیا ۔(کشف الخلفا)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
مفتاح الجنتہ الصلا ۃ (مسند احمد۔ 575ترمذی 4)
ترجمہ:بہشت کی کنجی نماز ہے ۔
من ترک الصلاۃ متعمدا فقد
کفر (صحیح ابن حبان )
ترجمہ: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا ۔
قرآنِ کریم ہمیں نماز قائم کرنے کا درس دیتا ہے۔ اس لیے اپنی اولاد کو پابندی کے ساتھ نماز قائم کرنے کا حکم دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اولاد کو یہ بھی سکھانا چاہیے کہ کون سی نماز اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہے اور نماز کی ادائیگی کے لیے حضورِ قلب کا ہو نا بہت ضروری ہے۔ انسان ظاہری طور پر کسی بھی فقہ کے مطابق نماز ادا کرے لیکن نماز کی روح ایک ہی ہے اور وہ ہے خشوع یعنی حضورِ قلب۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فلاح پا گئے وہ مومن جو اپنی نماز خشوع(حضورِ قلب)سے ادا کرتے ہیں ۔ (سورۃ المومنون 1-2)
نماز کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادِ مبارکہ ہیں :
حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
نماز مومن کی معراج ہے ۔
سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں :
جس نماز میں دل حاضر نہ ہو وہ نماز عذاب سے قریب ترہے ۔
اس نصیحت کا دوسرا حصہ ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘کے متعلق ہے یعنی اللہ کے قرب و معرفت کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمتِ مسلمہ کو دیا گیا ایک انتہائی اہم حکم ہے جسے نماز، روزہ،زکوٰۃ جتنی ہی اہمیت حاصل ہے کیونکہ معرفتِ الٰہی انسان کی تخلیق کا حقیقی مقصد ہے ۔
اُمتِ مسلمہ کے دیگر اُمتوں پر افضل ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تم بہترین اُمت ہو جوسب لوگوں(کی رہنمائی)کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم معرفت کا حکم دیتے ہو اوربرائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورۃ آل عمران۔110)
ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے امر بالمعروف کے فرض کو ادا کرنا تو دور اس کے صحیح معنی کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ امر بالمعروف کے معنی ہمیشہ یہ کیے جاتے ہیں کہ ’’نیکی کا حکم دو‘‘اور اس نیکی کو ہم صرف ظاہری یا جسمانی عبادات یا حقوق العباد کی ادائیگی تک محدود کر دیتے ہیں۔ یہ نیکی کی انتہائی محدود صورت ہے۔ ’’معروف‘‘ کے معنی ’’جاننے ‘‘ یا ’’واقف ہونے‘‘ کے ہیں۔ معروف کا لفظ تعارف سے نکلا ہے ۔ اس حوالے سے امر بالمعروف کے معنی ہوئے اللہ کی معرفت یعنی پہچان حاصل کرنے کا حکم دینا ۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی امر بالمعروف کا مطلب اور اہمیت سمجھیں، اپنی اولاد کوبھی اس کے متعلق ہدایت دیں اور دوسرے لوگوں کو بھی برائی کے کاموں سے روکنے کی کوشش کریں۔ اللہ کے اس دینی کام میں اگر مشکلات اور تنقید کا سامنا کر نا پڑ جائے تواس پر صبر کرنا چاہیے۔ اللہ کی معرفت اور پہچان کے لیے مرشد کامل اکمل کے دستِ اقدس پر بیعت کر نا ضروری ہے اور لوگوں کو اس نیک عمل اور بھلائی کی دعوت دینا بھی ضروری ہے ۔
اگر والدین حضرت لقمان کی بیان کی گئی ان تین نصیحتوں کے مطابق اولاد کی تربیت کریں تو ایسی اولاد نہ صرف دین و دنیا میں کامیاب ہو گی بلکہ والدین کے لیے صدقۂ جاریہ کا سبب بھی بنے گی ۔
درست عقائد کی ترویج میں والدین کا کردار
ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مسلک پرستی، فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اہم وجہ اولادکی اخلاقی، روحانی اور دینی تربیت کا فقدان ہے۔دینی و دنیاوی کامیابی کے لیے درست عقائد کے متعلق آگاہی دینا والدین پر فرض اور اولاد کا حق ہے۔ شانِ رسولؐ ، شانِ اصحابؓ ، شانِ اولیا ؒکو لے کر ذرا سا دل میں غلط گمان ایمان کے سلب ہونے کی وجہ بن سکتا ہے ۔
موجودہ دور کا سب سے بڑا فتنہ جو نوجوان نسل کو بری طرح تباہ کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ جس بھی شخص کو دین کے متعلق ذرا سا بھی علم ہے وہ عالمِ دین بن کرغلط نظریات اور عقائد کی تبلیغ کر رہاہے۔گویا ہر ایک نے اپنا ہی علیحدہ عقیدہ، نظریہ اور مدرسہ کھول رکھا ہے۔ مستند ریسرچ کیے بغیردینی ویڈیوز بنانا اور سوشل میڈیا پر اپنے فالورز بڑھانا، یوٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام جیسے پلیٹ فارم پر ان ویڈیوز کو اپلوڈ کر کے ان سے پیسہ کمانا یہ سب کاروبار کرنے کے نئے طریقے ہیں۔ دین کے متعلق صحیح علم نہ ہونے کے باعث بچوں کے معصوم ذہن بآسانی ان ویڈیوزسے خراب ہو سکتے ہیں اور وہ سیدھی راہ سے بھٹک سکتے ہیں۔ نوجوان طبقہ انٹر نیٹ سے مختلف مضامین پڑھ کر اور ویڈیوز دیکھ کر یہ سمجھ لیتاہے کہ بس یہی دین ہے حالانکہ ان غلط نظریات کا دین سے دور دورتک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ہماری نوجوان نسل ایسے فراڈ اور جعلی علما سے صرف اِسی طرح بچ سکتی ہے کہ جب والدین اپنی اولاد کی خود درست عقائد کے متعلق رہنمائی کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ انہیں دین کی حقیقی روح یعنی فقرِ محمدیؐ کے متعلق آگاہ کریں۔ جب بچوں میں دین کی درست تصویر، عقائد اور نظریات پہلے سے موجود ہوںگے تو وہ اس طرح کے ’’Trap‘‘سے بچ سکیں گے اور بآسانی درست اور غلط عقائد کے مابین فرق کر سکیں گے ۔
آئیں! دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ و روحانی صحبت میں اپنی اولاد کو پروان چڑھانے کا ارادہ کریں۔ ہر اتوار مسجدِ زہراؓ و خانقاہ سلطان العاشقین رنگیل پور شریف براستہ سندر اڈہ ملتان روڈ لاہور میں منعقد ہونے والی بزمِ سلطان العاشقین میں حاضری کو اپنا معمول بنائیں جہاں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس مردو خواتین، بچوں اور بڑوں پر یکساں نظر ِ عنایت فرماتے ہیں۔ خواتین کے لیے باقاعدہ پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی دینِ حق کے بتائے گئے اصولوں پر تربیت کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔آمین
استفادہ کتب :
۱۔عین الفقر : تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔امیرالکونین: ایضاً
۳۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۴۔سلطان باھوؒ: ایضاً
۵۔فقرِ اقبال: ایضاً
۶۔سلطان العاشقین : ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۷۔بچوں کی تربیت اور اس کے بنیادی اصول: مولف ابو دردا ابن عزیر احمد
سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں :
جس نماز میں دل حاضر نہ ہو وہ نماز عذاب سے قریب ترہے ۔
موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
آج تک کسی ولی کامل کو ولایت، معرفتِ الٰہی اور مشاہدۂ حق تعالیٰ بغیر مرشد کامل اکمل کی بیعت اور تربیت کے حاصل نہیں ہوا۔
حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق راہِ فقر ہی وہ راہ ہے جس میں کامیا ب طالبِ مولیٰ کو ’’دیدارِ الٰہی ‘‘ کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں :
فقر دیدارِ الٰہی کا علم ہے ۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں :
جس نماز میں دل حاضر نہ ہو وہ نماز عذاب سے قریب ترہے ۔
💕💓💓🌹
Very good information
Very beautiful ❤️ and informative article
بہت ہیں زبردست اور دلچسپ مضمون ہے ۔۔۔👌👌❤️❤️👌👌
حدیثِ مبارکہ ہے:
والدین اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دیتے ہیں وہ ان کی اچھی تربیت ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔4977)
سادہ اور آسان الفاط میں تربیت سے مراد ہے برُے اخلاق و عادات اورغلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح و پاکیزہ ماحول سے تبدیل کردینا۔بچے کو نفسیاتی، اخلاقی، عملی، اعتقادی، دینی اور روحانی طور پر تیار کرنا تا کہ وہ دین ودنیا دونوں میں کامیاب و کامران ہو سکے۔
عمدہ تحریر
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی دینِ حق کے بتائے گئے اصولوں پر تربیت کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔آمین
Beautiful article
بہترین آرٹیکل ہے
ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مسلک پرستی، فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اہم وجہ اولادکی اخلاقی، روحانی اور دینی تربیت کا فقدان ہے۔دینی و دنیاوی کامیابی کے لیے درست عقائد کے متعلق آگاہی دینا والدین پر فرض اور اولاد کا حق ہے۔ شانِ رسولؐ ، شانِ اصحابؓ ، شانِ اولیا ؒکو لے کر ذرا سا دل میں غلط گمان ایمان کے سلب ہونے کی وجہ بن سکتا ہے ۔
Truely informative and guiding article
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی امر بالمعروف کا مطلب اور اہمیت سمجھیں، اپنی اولاد کوبھی اس کے متعلق ہدایت دیں اور دوسرے لوگوں کو بھی برائی کے کاموں سے روکنے کی کوشش کریں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تم بہترین اُمت ہو جوسب لوگوں(کی رہنمائی)کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم معرفت کا حکم دیتے ہو اوربرائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورۃ آل عمران۔110)
Behtreen aor dilchasp mazmoon ha
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی دینِ حق کے بتائے گئے اصولوں پر تربیت کرنے کی تو فیق عطا فرمائے
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ:فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق راہِ فقر ہی وہ راہ ہے جس میں کامیا ب طالبِ مولیٰ کو ’’دیدارِ الٰہی ‘‘ کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں :
فقر دیدارِ الٰہی کا علم ہے ۔ (عین الفقر)
جو شخص اللہ اور اس کا دیدار چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔ (عین الفقر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے :
میں اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی طلب یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرتا بلکہ میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے ۔
حدیثِ مبارکہ ہے:
والدین اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دیتے ہیں وہ ان کی اچھی تربیت ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔4977)