دین۔ علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ نظر میں | Deen Allama Iqbal ki Falsefana Nazar Mein


Rate this post

دین  علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ نظر میں

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور

علامہ اقبال ؒ ایک سچے عاشق ِ رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مفکر اوراعلیٰ پائے کے فلاسفر بھی تھے۔ اس بات کی صداقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی فلسفیانہ سوچ اور نظر محض علمی سطح تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ وہ واحد فلاسفر ہیں جنہوں نے اپنی فلسفیانہ سوچ کو علمی سطح سے نکال کر عملی جامہ بھی پہنایا۔ چاہے انسانِ کامل کا نظریہ ہو یا سیاسی فلاسفر کا، فردِ واحد کی اخلاقی یا روحانی نشوونما کا نظریہ ہو یا مذہب کے متعلق فلسفیانہ و حکیمانہ نظریہ، یا ریاست و حکومت کی بنیادیں استوار کرنا مقصود ہو‘ ہر پہلو اور انداز میں آپ کی سوچ حقیقت کو ہی بیان کرتی ہے اور اس کا تعلق عملی نقطہ نظر سے ہے نہ کہ محض قیاس آرائیوں سے۔ آپ ؒ کی تعلیمات کا مکمل مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے جو کہ تمام تعلیمات کا خلاصہ ہے اور وہ ہے ’’عشق ِ دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ جس کا رنگ آپؒ کے ہر کلام سے جھلکتا نظر آتا ہے۔

حکیم الامت ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ کے انگریزی لیکچرز جنہیں منظم کر کے ایک کتابی شکل دی گئی جس کا نام ‘‘The Reconstruction of Religious Thought in Islam’’  ہے اس میں آپؒ نے دین کے متعلق فرمایا :
وسیع معنوں میں بات کریں تو دین کی تقسیم تین ادوار میں ہو سکتی ہے:
۱)   اعتقاد (Faith )
۲) فکر   (Thought)
۳) کشف  (Discovery)

پہلا دور (اعتقاد): اس دورمیں دینی زندگی ایک نظم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس کی تعمیل فردِ واحد یا ایک پوری جماعت اس کے حتمی معنی اور مدعا کی عقلی تفہیم کے بغیر ایک غیر مشروط حکم کے طور پر کرتی ہے۔ یہ رویہ ممکن ہے کہ کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑے اہم نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جائے لیکن جہاں تک بات کسی فرد کی باطنی نشوونما، ارتقا اور وسعت کی ہے اس کے لیے ضروری ہے کے اگلے مرحلے میں داخل ہوا جائے۔  

دوسرا دور(فکر): کسی نظام کی مکمل اطاعت کے بعد وہ دور آتا ہے کہ جب اس نظام اور اس کے تحکم (غلبہ و تسلط) کے حتمی سرچشمے سے کوئی بات عقلی طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی ایک طرح کی مابعد طبیعات میں اپنی بنیاد تلاش کرتی ہے یعنی منطقی طور پر ساری کائنات کے بارے میں ایک مربوط نقطہ نظر۔

تیسرا دور(کشف): تیسرے دور میں بندے کے اندر یہ امنگ پرورش پاتی ہے کہ وہ حقیقت ِمطلقہ سے براہِ راست اپنا تعلق استوار کرے۔ یہاں آکر دین، زندگی اور قوت کے ذاتی سطح پر انجذاب (مشغولیت) کا معاملہ بن جاتا ہے جس سے فرد کی خود اپنی ایک آزاد شخصیت نکھرتی ہے۔ جیسا کہ مسلمان صوفی کا قول ہے کہ قرآنِ پاک کو اس وقت تک سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ وہ ایمان لانے والے پر اس طرح نازل نہ ہو جس طرح کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

 ( تجدید ِ فکریات ِ اسلام ، مترجم ڈاکٹر وحید عشرت)

مندرجہ بالا بیان کئے گئے مراتب یا ادوار کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے علامہ اقبال ؒ نے مسلمان ہو نے سے لیکر مومن بننے کا سفر بیان کیا ہے یا اس روحانی سفر کی بات کی ہے جس پر گامزن ہو کر انسان اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو پا سکتا ہے۔ 

اگر تینوں ادوار کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کرۂ ارض پر دین ِ اسلام کے سوا باقی جتنے بھی مذاہب ہیں سب کے سب ازلی حقیقت سے پردہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ جتنے بھی مذاہب ہیں اعتقاد کی حد تک قوم و ملت کو ظاہری طور پر کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں (مثلاً ہر مذہب کے عقائد میں اخلاقی اقدار کی پابندی پر فوقیت دی جاتی ہے) یا سیاسی و سماجی تاریخ رقم کرنے میں اہم نتائج پیدا کر سکتے ہیں مثلاً عیسائیت ہو یا بدھ مت یا ہندو مذہب‘ سب کی اپنی تاریخ ہے اور ان کے اپنے پیروکاروں پر ان کی تعلیمات کا گہرا اثر پایا جاتا ہے لیکن جہاں پر بات عقلی اور منطقی دلائل کے ساتھ مذہب کو سمجھنے اور اس مرتبے پر پہنچنے کی ہو جہاں بندہ ربّ تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست اپنا تعلق استوار کرسکتا ہے تو نتیجہ بے سود اور دامن خالی رہ جاتا ہے۔ جتنے بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ان کا نظریہ یہی ہوتا ہے کہ ان کا سابقہ مذہب ان کی روحانی و باطنی تشنگی مٹانے سے قاصر ہے صرف اسلام واحد دین ہے جو انسانی فطرت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے، ذہنی انتشار سے بچاتا ہے اور ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔

دین ِ اسلام اور اقبالؒ کے تین ادوار

ایک مسلمان کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی انہی تین ادوار یا مراحل (اعتقاد، فکر، کشف) پر مشتمل ہے۔

مرحلہ اعتقاد

وہ قلبی تصدیق جو کسی تصور میں یقین کی کیفیت پیدا کرے عقیدہ کہلاتی ہے۔ لفظ عقیدہ ’’عقد‘‘ سے ہے جس کے معنی گرہ اور گانٹھ کے ہیں۔ عقیدہ نہ بدلتا ہے اور نہ ہی کھلتا ہے۔ (اسلام کے بنیادی عقائد)

 ایک مسلمان کی دینی زندگی کا آغاز اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بتائے گئے عقائد پر ایمان اور ان کی پابندی سے ہوتا ہے۔ کوئی بھی عمل یا قول اس وقت صحیح اور قابل ِ قبول نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس سے متعلقہ عقیدہ درست اور جانب ِ حق نہ ہو۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جن عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں اللہ کی واحدانیت کا اقرار، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آخری نبی ماننا، رسولوں پر ایمان، روزِ قیامت، فرشتوں اور الہامی کتابوں پر ایمان لانا شامل ہے۔ 

عقیدہ اور نظریہ میں فرق:

دین ِ اسلام ہمارا عقیدہ ہے نظریہ نہیں۔ نظریہ بدلتا رہتا ہے جب کہ عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ نظریات ہمیشہ تجربات کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں جبکہ دین تجربات کے نتیجے میں نہیں بلکہ وحی الٰہی کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے توسط سے امت کو ملا ہے۔(اسلام کے بنیادی عقائد)

پوری امت دن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوتی ہے، سال میں ایک مخصوص دن میں کروڑوں لوگ سنت ِ ابراہیمی ؑ کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، رمضان میں روزے رکھ کر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، فوجی جوان ہر دم ملک کی سلامتی کے لیے کمربستہ رہتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ الغرض ہر عمل کے پس ِ منظر میں عقیدہ ہی کار فرما ہوتا ہے۔

بنیادی عقائد قرآن کی روشنی میں 

ایمان باللہ:

اللہ پر ایمان لانے سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق و مالک و رازق ہے، وہ اپنی ذات و صفات میں بے مثل اور وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی معبودِ حقیقی ہے۔سورہ اخلاص میں عقیدۂ توحید کے متعلق ارشاد ہوا ہے:

(اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) آپ فرما دیجیے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیازہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔ 

ایمان بالرسول اورایمان بالکتب:

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس پر ایمان لانا دین ِ اسلام کی بنیادی شرط ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کو قرآنِ مجید اور سابقہ آسمانی کتب پر ایمان لانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر اور جو کتاب اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پرنازل فرمائی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ۔‘‘ (النسائ 136)

ایمان بالملائکہ:

ملائکہ ’’ملک ‘‘ (فرشتہ) کی جمع ہے۔ فرشتے ایک لطیف اور نورانی مخلوق ہیں۔ ان پر بھی ایمان لانا اسلام کی شرط ہے۔ ان کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور آپ کے ربّ کے لشکروں (فرشتوں) کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدثر 31)

ایمان بالآخرت: 

دین ِاسلام اس عارضی دنیا کے ختم ہو جانے کے بعد ایک دائمی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے اور اسی زندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عارضی دنیا محض ایک آزمائش و امتحان گاہ ہے۔ موت کے بعد کی زندگی کے دو مرحلے ہیں۔
۱) برزخ (مرحلہ قبر)
۲)بعث بعد الموت (یعنی دوبارہ جی اٹھنے، میدان حشر میں جمع ہونے حساب و کتاب اور جنت اور جہنم میں خلود)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ (المومنون 100)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کو قیامت کے دن تک قبر میں ایک طویل زندگی گزارنی ہو گی جو کہ دنیا اور حشر کے درمیان ایک پردے کی طرح ہے۔
عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ ( دنیا ہی میں) عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے۔ (التوبہ 101)
اس آیت کریمہ میں تین عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک عذابِ دنیا (ذلت و رسوائی کا عذاب)، عذابِ قبر اور عذابِ عظیم یعنی جہنم کا عذاب۔
دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان لایا جائے۔ نہ صرف زبان سے اقرار کے ساتھ بلکہ کامل ایمان کے لیے تصدیق بالقلب بھی ضروری ہے۔ انسان کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر مستقبل دے سکے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسان یہی معاملہ اپنی دینی و روحانی زندگی کے لیے کیوں نہیں اپناتا؟ کیوں عقائد کی حد تک خود کو محدود کر لیتا ہے۔ کوشش، جدوجہد، عمل یہ زندگی کے اصول ہیں۔ سکوت یعنی رک جانا ’’موت ‘‘ہے۔ باطنی نشوونما اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے عقائد پر تصدیق بالقلب کے ساتھ ایمان لایا جائے اور پھر اللہ کے حضور اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے کوشش کی جائے (یعنی مرحلہ فکر میں داخل ہوا جائے) جس طرح ایک طالب ِ علم پرائمری جماعت سے اگلی جماعت میں داخل ہوتا ہے۔

مرحلہ فکر

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کیا انہوں نے اپنے اندرفکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور جو کچھ ان میں ہے حق کے ساتھ اور مقررہ وقت تک پیدا کیا اور بے شک اکثر لوگ لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی) کو جھٹلاتے ہیں۔ (سورہ الروم ۔8)
اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے غور وفکر کی دعوت دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے اور وہ لوگ جو دیدارِ حق تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں وہ نہ اللہ کی تخلیق کردہ کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ اپنی حقیقت کو جاننے کی کو شش کرتے ہیں۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔
فکر کے بغیر ذکر کرنا گویا کتے کا بھونکنا ہے۔(بحوالہ عین الفقر)
دنیا میں آج تک جتنی بھی سائنسی اور مادی ترقی ہوئی ہے اس کے پیچھے کسی سائنس دان، فلسفی یا مفکر کا تفکر شامل ہے۔ غور و فکر کرنے والے اور حقیقت کے متعلق جاننے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ اسی صفت کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ انسان کا اصل مقصد اللہ کا رازدان بننا ہے اور وہی اللہ کا مقرب راز دار اور نائب کہلاتا ہے جو غوروفکر کرتے ہوئے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر دنیا و آخرت کی ہر حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ 

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کسی علم یا چیز کو سمجھنے کے لیے جب ہم سوچ بچار کرتے ہیں تو اسے فکر، تفکر یا غور و فکر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد سائنس دانوں کا مادیت میں غور و فکر ہی ہے۔ ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے غور و فکر اور تفکر پنہاں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی ذات کے اندر فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’کیا وہ اپنے اندر فکر نہیں کرتے‘‘۔ انسان جب اپنے اندر فکر کرتا ہے تو اس راز تک پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں حدیث ِ قدسی ہے: ’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں‘‘۔ جب انسان اس راز سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنا محرمِ راز بنا لیتا ہے۔ اس لیے فقرا من میں ڈوبنے،تن کے حجرے میں جھانکنے اور اپنے اندر داخل ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ مراقبہ بھی فکر اور تفکر ہی کا نام ہے ابتدائی مراقبہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کر کے ذہن کو اسم ِاللہ ذات پر یکسو کیا جاتا ہے اور عارفین کا مراقبہ یہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے ہر چیز کا نظارہ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے ’’میں چالیس سال تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ محو ِ کلام رہا لوگ یہ سمجھتے رہے کہ میں ان سے باتیں کر رہا ہوں۔‘‘ (شمس الفقرا)

مرحلہ کشف

دین ِ اسلام کی تکمیل کے تین ادوار جو علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمائے ہیں ان میں تیسرا مرحلہ ’’کشف ‘‘ کا ہے۔
کشف کے لغوی معنی کھولنا یا ظاہر کرنا کے ہیں۔ یہ اسرارِ غیب کھلنے کا درجہ ہے۔ حدیث ِ پاک ہے ’’مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ کشف وہ نور ہے جو طالبانِ مولیٰ کو راہِ فقر کے دوران حاصل ہوتا ہے، کشف کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے جب تصور اسم ِ اللہ ذات اور مشق ِ مرقومِ وجودیہ سے نفس کے حجابات کا پردہ اٹھ جاتا ہے، باطنی حواس روشن ہو جاتے ہیں اور بصارت بصیرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جنہیں مرتبہ کشف حاصل ہو جاتا ہے ان پر غیب سے اسرارِ الٰہی روشن ہوتے ہیں جس سے بندے اور اللہ کا تعلق مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اولیا اللہ کی زندگیوں سے ہمیں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جس میں حق تعالیٰ کی جانب سے ان تک بذریعہ کشف راہنمائی فراہم کی گئی۔ اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے دل کی پاکیزگی و طہارت ضروری ہے۔ 

 جب ایک مسلمان ان تینوں ادوار (اعتقاد، فکر، کشف) سے گزر جاتا ہے اس کی ایک نئی اور آزاد شخصیت پروان چڑھتی ہے۔

بقول علامہ اقبال :

خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا

(بالِ جبریل)

بالِ جبریل میں ہی فرماتے ہیں:

خودی کی جلوتوں میں مصطفائیؐ
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!

مرتبہ خودی سے مراد اپنی حقیقت کو پہچاننا ہے۔ جس پر اپنی ذات کے راز آشکار ہو جاتے ہیں اس پر زمین و آسمان اور عرش و کرسی کی تمام حقیقتیں منکشف ہو جاتی ہیں اور غلامی ٔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تاج اس کی شخصیت کی زینت بن جاتا ہے۔  

خودی   کا   سرِ  نہاں  لَآ   اِلٰہَ   اِلَّا   اللّٰہُ
خودی   ہے   تیغ  ِ فساں     لَآ   اِلٰہَ   اِلَّا   اللّٰہُ

(ضربِ کلیم)

اپنی ذات کی پہچان ہی اللہ کی ذات کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔ تمام فقرائے کاملین اور عارفین نے انسانوں کو اپنی ذات کو پہچاننے کا درس دیا ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سے ایمان مضبوط ہوتا ہے، غور و فکر اور تفکر سے کل کائنات کی حقیقت روشن ہو جاتی ہے۔ جب انسان کا وجود ان دونوں مراحل سے گزر جاتا ہے تو غیب سے علم ِ لدنیّ اور کشف کے ذریعہ اس کا تعلق اللہ کے ساتھ اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ یقین پختہ ہوتے ہوتے پہلے عین الیقین اور پھر حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اس کی شخصیت میں قوتِ ایمانی کے ایسے جواہر کھلتے ہیں جن پر وہ خود عش عش کر اٹھتا ہے اور وہ خودی کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

(بالِ جبریل)

 باطنی سفر میں ترقی کی منازل طے کرنے سے مراد مرتبہ مسلمانی سے عروج حاصل کر کے مومن بن جانا ہے۔ ان مراتب تک پہنچنے کے لیے کامل پیشوا کا ہونا ضروری ہے جو باطن کے ہر راستے سے واقف ہو اور بندے کو ربّ تعالیٰ کے حضور حاضر کرنے کی طاقت رکھتا ہو کیونکہ

اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں 

استفادہ کتب:
شمس الفقرا  تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
فقر ِ اقبالؒ  ایضاً
اسلام کے بنیادی عقائد ؛ترتیب و تدوین غلام مرتضیٰ علوی
تجدید ِ فکریاتِ اسلام ؛ ڈاکٹر وحید عشرت

 

36 تبصرے “دین۔ علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ نظر میں | Deen Allama Iqbal ki Falsefana Nazar Mein

      1. ماشا ﷲ اقبال کے فلسفیانہ دین پر یہ بہترین مضمون ہے
        #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  1. علامہ اقبال ؒ ایک سچے عاشق ِ رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مفکر اوراعلیٰ پائے کے فلاسفر بھی تھے۔

  2. ماشاﷲ اقبال ؒ پر بہترین بلاگ ہے
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  3. اللہ اللہ کر نے سے اللہ نہیں ملتا یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں!

  4. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  5. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  6. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  7. MashaAllah
    sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #spirituality #sufism #islam #faqr #allamaiqbal

  8. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی وروحانی وارث ہیں اورموجودہ دورکے مرشد کامل اکمل اور سلسلہ سروری قادری کے امام ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے فوراً بعد اسمِ اعظم کا آخری ذکرعطا فرماتےہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں