انسانی شیطان اور جن شیطان
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ سیالکوٹ
نافرمان اور سرکش وجود کے لیے لفظ شیطان بولا جاتا ہے۔ شیطان بنیادی طور پر عربی زبان کا لفظ ہے۔ سرکش، باغی اور خبیث کو شیطان کہا جاتا ہے خواہ وہ انسان ہو، جن ہو یا کوئی جانور۔ قرآن و حدیث میں بھی سرکش وباغی انسانوں اور جنوں کے لیے لفظ شیطان استعمال کیا گیا ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غَرُوْرًا۔ (سورۃ الانعام۔112)
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکا دینے کے لیے ڈالتے رہتے ہیں۔
’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ‘‘ آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے مخاطب ہے کہ جس طرح جن و انس کے شیطان آپؐ سے دشمنی کر رہے یہ صرف آپؐ کے ساتھ معاملہ نہیں بلکہ اسی طرح ہم نے آپؐ سے پہلے تمام انبیا کے لیے بھی جن و انس شیطان دشمن بنائے تھے لہٰذا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ جس طرح پہلے انبیا نے اپنے شریر دشمنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیا آپ بھی ان کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے، مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ دیجیے۔
یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غَرُوْرًا۔ آیت کے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ وحی کا معنی خفیہ طریقے سے اطلاع دینا ہے یعنی وہ انسان اور جن جو شیطان ہیں، وہ سیدھے سادے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے چوری چھپے طرح طرح کی چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے دھوکا دیتے اور بہکاتے ہیں۔
رسول اللہؐ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے فرمایا:
شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کی: کیا آدمیوں میں بھی شیطان ہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ (مسند امام احمد، 132/8، حدیث:21608)
مندرجہ بالا آیت اور حدیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان دو طرح کے ہیں:
1۔شیاطین الانسان
2۔ شیاطین الجن
شیاطین الانسان
وہ شیاطین جن کا تعلق انسانوں سے ہے اور یہ کفر و گمراہی کی طرف بلانے والے انسان ہیں۔جو خود بھی اللہ کے احکامات سے سرتابی کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
آئمہِ دین نے فرمایا کہ شیطان آدمی لوگوں کے لئے شیطان جن سے زیادہ سخت (یعنی خطرناک) ہوتا ہے۔ (تفسیر طبری، 753/12)
آئمہِ دین کی اس بات کی تائید آیت مبارکہ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جس میں شیاطین کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے ’انسان‘ کا لفظ پہلے ہے اور ’جنات‘ کا بعد میں۔
عہدِ نبویؐ میں جو منافق و سرکش لوگ تھے ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے شیاطین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
جب وہ (منافق) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب وہ اپنے شیطانوں(سرکش سرداروں) سے تنہائی میں ملتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا) محض مذاق اڑاتے ہیں۔(سورۃ البقرہ۔14)
اللہ پاک کی مخلوق میں سب سے بڑا سرکش، نافرمان اور خدا کا باغی شیطانِ اکبر یعنی ابلیس ہے اس لیے لفظ شیطان زیادہ تر اسی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ابلیس ساری انسانیت کا دشمن ہے اور اس نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ ابلیس یہ کام اکیلے نہیں کرتا بلکہ اس کام میں اس کے بہت سے چیلے ہیں جو دکھائی دئیے بغیر ہی اپنا کام کر جاتے ہیں۔ لیکن ابلیس کے کچھ چیلے ایسے بھی ہیں جو دکھائی بھی دیتے ہیں اور ہمارے ساتھ یا آس پاس بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ چیلے ہیں انسان نما شیطان۔ وہ انسان نما شیطان دوسرے انسانوں سے گمراہی کے بہت بڑے بڑے کام کروالیتے ہیں۔ یہ انسان نما شیطان ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں برائی کو دیکھتے ہوئے شیطان اسے مزید شیطانیت پر اُکساتا ہے اور اپنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے جیسے کہ حضرت موسیٰؑ کے دور میں فرعون، جس نے حضرت موسیٰؑ کی بھرپور مخالفت کی۔ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں نمرود۔ شیطان نے اس انسان نما شیطان کے روپ میں خلیل اللہؑ کے لیے آتش کدہ تیار کیا مگر اللہ پاک کے حکم سے وہ آتش کدہ باغ و بہار بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کی حمایت کی اور کافروں کے شر سے انہیں محفوظ رکھا۔حضرت یوسف علیہ السلام کو شیطان نے ان کے بھائیوں کے ذریعے حضرت یعقوب علیہ السلام سے الگ کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کے متعلق شیطان نے یہودیوں کو ورغلایا کہ انہیں پھانسی پر چڑھا دیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے فضل وکرم سے ان کے شر سے محفوظ فرمایا۔ ہابیل اور قابیل دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلوا کر زمین پر سب سے پہلا قتل بھی شیطان نے کروایا۔ یہ شیطان ہی کے کرتوت تھے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریاعلیہم السلام کو کافروں کے ہاتھوں شہید کرایا۔ فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے، زمین میں سخت فساد پھیلانے اور غریبوں پر مظالم ڈھانے پر آمادہ کیا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف کافروں کو اکسایا کہ ان کے قتل کی سازش کریں (نعوذ باللہ ) اور آپؐ کی رسالت کو ناکام بنانے کے لیے آپؐ کے ساتھ لڑائیاں لڑیں۔ یہ تمام انسان نما شیطان انبیا و فقرا کے منکرین ہیں۔ ایسے شیطان نما انسان دوسرے انسانوں کے ایمان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ جن شیطان کی جب انسان پر غلبہ پانے، گمراہ کرنے اور اسے اس کے نفس کے ذریعے بہکانے کی طاقت جواب دے جائے تو پھر وہ انسان نما شیاطین سے مدد طلب کرتا ہے اور یہ انسان نما شیاطین اپنے عزیز واقارب بھی ہو سکتے ہیں۔
روزِ بدر کفار کا طاقتور ہونا بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔شیطان نے ان کے عزائم کو پختہ و مضبوط کر دیا تھا۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جب شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں کوئی تم پر غالب نہ ہو گا اور میں تمہارا رفیق ہوں۔ (سورۃ الانفال۔48)
شیطان نے ان کے عزائم کو پختہ کیا اور جنگی اقدام میں ان کی مدد کی تاکہ اہلِ اسلام کو شکست دے سکیں۔مومنوں کے ساتھ جھگڑا کرنے اور اللہ پاک کے دین میں شکوک پیدا کرنے کے لیے بھی شیطان، انسانی شیطانوں کی مدد سے کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور شیطان (لوگ) اپنے رفقا کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چلے تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے۔ (سورۃ الانعام۔121)
ابو العرفان حاجی فتح محمد نسیم اپنی کتاب ’’ابلیس کی تباہ کاریاں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا:
میرے لئے انسانی شیطان جنوں کے شیطان سے زیادہ سخت ہے۔ اس لئے کہ جب میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو جنوں کا شیطان بھاگ جاتا ہے، انسانوں کا شیطان میرے قریب آجاتا ہے اورمجھے اعلانیہ گناہوں کی طرف کھینچتا ہے۔
کتنے ہی ایسے انسان ہیں جنہیں جن شیطان گمراہ نہ کر سکے تو انہوں نے انسانوں میں سے اپنے رفقا اور چاہنے والے شیاطین سے مدد طلب کی جنہوں نے بدعات، خرافات اور گناہوں کو اچھا کر کے انہیں دکھایا تو کبھی ٹھٹھہ اور مذاق سے ایذا پہنچائی تا کہ انہیں صراطِ مستقیم سے گمراہ کر دیں کیونکہ شیطان کو صراطِ مستقیم پر چلنے والوں سے تکلیف ہوتی ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر نہایت ہی خوبصورتی سے پیش کرتا ہے کہ انسان باطل کے ارتکاب اور حق سے اعراض کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حق اور باطل کی لڑائی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
شیطان جن انسانی شیطانوں سے ایسے وار کرواتا ہے کہ انسان راہِ حق پر چلنے سے ڈرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ حق کے راستے (فقر) پر چلنے سے ڈرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور فواحش کی تعلیم دیتا ہے۔ (سورۃ البقرہ۔268)
راہِ فقر اللہ کوپانے کاراستہ ہے اور اس راستے پر مرشد کامل اکمل کے بغیر چلنا ناممکن ہے۔ مرشد کی ذات اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ ہے۔ لیکن گمراہی کے اس دور میں جگہ جگہ بیٹھے جھوٹے اور نام نہاد پیروں نے لوگوں کو حق تک پہنچنے میں مشکل پیدا کر دی ہے۔
دینِ اسلام ہر طرح کی تحریفات سے پاک ہے اور کوئی گمراہی اور بدعت اس کے ماخذ میں جگہ نہیں پاسکتی۔ لیکن عملی طور پر اس بات کا مکمل امکان ہے کہ لوگ اصل دین کی بجائے غیر متعلق چیزوں کو اہم بنا دیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں دین کی اصل تعلیم بڑی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے اور دین کے نام پر دیگر چیزوں کا رواج عام ہوگیا ہے اور ان ہی کو نیکی و تقویٰ کی معراج سمجھا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس کا ٹکراؤ لازماً ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہوتے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں۔ قرآن نے دین کو حقیر سمجھنے اور اس کا مذاق اُڑانے والوں کے پاس بیٹھنے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ وعیدبھی سنائی کہ جوان کی اسلام مخالف باتوں کے دوران ان کے پاس بیٹھتا اور ان کی باتیں سنتا ہے تو وہ بھی انہی جیسا ہے، اور انہی جیسا ہونے کی وعید عقل و مشاہدے سے بھی سمجھ آتی ہے کہ عوام تو عوام ،بعض اوقات پڑھے لکھے لوگ بھی ان شیطان صفت لوگوں کی گمراہ کُن باتیں سن کر آہستہ آہستہ متاثر ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہی عقائد اپنا کر گمراہی کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی ناسمجھی اور کم علمی سے گمان کرتے ہیں کہ ہم تو پکے مسلمان ہیں، ہم پر اُن کی باتوں کا کیسے اثر ہوسکتا ہے؟
امت کے خیر خواہ، ہمارے آقا و مولا، رسولِ خداؐ کا فرمانِ عالیشان ہے:
جو دجّال کی خبر سنے اس پر واجب ہے کہ اس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم! جوآدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تو مسلمان ہوں (یعنی مجھے اس سے کیانقصان پہنچے گا) وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اسی کا پیرو کارہو جائے گا۔ (ابوداؤد۔ 4319)
حدیث پاک میں دجّال کے پاس جانے سے گمراہ ہونے کا جو خدشہ بیان کیا گیا ہے، وہ صرف سب سے بڑے کانے دجّال کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بلکہ ہر طرح کے دجّال کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے اور گمراہی کی طرف بلانے والا ہر فرد اِسی زمرے میں آتا ہے۔
آج کل صورت حال بڑی نازک ہے، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر شخص کو اپنی بات کرنے میں آزادی ہے۔ کوئی ڈھکے چھپے الفاظ میں اِسلام کا مذاق اڑا رہاہے تو کوئی کھلے الفاظ میں اسلامی احکام کو قبائلی زمانے کی باتیں قرار دیتا ہے، کسی کو سود خوری جائز نظر آتی ہے تو کوئی بے پردگی کی تائید میں دلائل دے رہا ہے۔ کسی کو موسیقی میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی تو کسی کو گانے باجے کے بغیر دین خشک سا محسوس ہوتا ہے۔ کسی کو مذہبی وضع قطع والے ایک آنکھ نہیں بھاتے، کسی کو داڑھی والے مشکوک و غیرمعتبر نظر آتے ہیں تو کوئی داڑھی رکھنے کومعاذ اللہ فاسقوں کی نشانی قرار دے رہا ہے، کوئی احادیث کومذہبی داستانیں قرار دے کر کھلم کھلا انکار کررہا ہے تو کوئی تھوڑا سا گھما پھرا کراحادیث کو صرف تاریخی ریکارڈ کہہ کر انکارِ حدیث کا مقصد پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی کی نظر میں آئمہ دین کے اِجتہاد آج کے دَور میں ناکارہ ہیں تو کسی کے خیال میں قرآن و حدیث ہی اب ناقابلِ عمل ہوچکے ہیں اور کسی کی نظر میں مسلمانوں کے سارے علمی کارنامے ماضی کا پرانا قصّہ بن چکے ہیں۔
دینی علوم سے محروم لوگ دعوت دے رہے ہیں کہ دین صرف ہم سے سیکھو جبکہ سکرین پر جلوہ نما ہونے والے دین کی الف ب نہ جاننے کے باوجود دین کے ہر معاملے میں رائے دینا اپنا حق سمجھتے اور اس رائے کو قبول کرنا دوسروں کیلئے فرض قرار دیتے ہیں۔ جن حضرات کی رائے حقیقت میں معتبر ہے یعنی اولیا وفقرا کاملین ، ان کی رائے کو یکسر فضول کہہ دیا جاتا ہے بلکہ ان فقرا کے حقیقی دین کو سکھانے اور سمجھانے پر انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔
الغرض دین سے دور کرنے والوں، مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنے والوں اور ان کی عقیدت و اعتقاد میں نقب زنی کرنے کی کوشش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں اور ایسی ہی صورت حال کی غیبی خبر ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سالوں پہلے دے دی تھی، آپؐ نے فرمایا:
عنقریب لوگوں پر ایسے سال آئیں گے کہ جن میں دھوکا ہی دھوکا ہو گا، جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا بنا کر پیش کیا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اوررُوَیبِضَۃخوب بولے گا۔ عرض کی گئی: رُوَیبِضَۃ کیا ہے؟ارشاد فرمایا: لوگوں کے اہم معاملات میں مداخلت کرنے والا حقیر اور کمینہ شخص۔ (ابن ِ ماجہ۔4036)
شیاطین الجن
وہ شیاطین جن کا تعلق جنات سے ہے، جیسے ابلیس لعین اور اس کی اولاد۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ۔ الَّذِی یْوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ۔
ترجمہ: اس بڑے وسوسہ ڈالنے والے کی برائی سے جو اللہ کا نام سن کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
خناس لفظ ’’خنس‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے پیچھے ہٹ جانے والا، چھپ جانے والا۔ شیطان ابن ِآدم کے قلب پر بیٹھا رہتا ہے، جب وہ غفلت میں ہو تو وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ کا ذکر کرے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ’خناس‘ وہ ہے جو ایک بار وسوسہ ڈالتا ہے اور دوسری بار پیچھے ہٹ جاتا ہے اور موقع کاانتظارکرتارہتا ہے۔ شیطان الجن وسوسہ ڈالتا ہے اور ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے جبکہ شیطان الانس کوہم دیکھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے۔ شیطان کا طریقہ اور معمول یہ ہے کہ اللہ کی یاد کے وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے اس لیے اس کو خناس فرمایا۔ الوسواس الخناس کی وضاحت اس طرح سے ہے کہ جب خناس کسی شخص کو اس کی طبیعت کے خلاف کسی کام پر اکساتا ہے تو اس کا پہلا ردِ عمل شدید ہوتا ہے اور وہ بڑی حقارت سے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ ہر وسوسہ ڈالنے والا اصرار نہیں کرتا بلکہ پیچھے کھسک جاتا ہے۔ بظاہر پسپائی اختیار کرتا ہے، پھر موقع ملتے ہی وہی بات کانوں میں ڈالتا ہے اگر پھر بھی وہ شخص تیوری چڑھائے تو خناس دبک جاتا ہے۔ یہ تسلسل جاری رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس شخص کا ردعمل کمزور ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ یہ شخص جس بات پر پہلی بار آگ بگولہ ہو گیا تھا وہ خود لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔ شیطان کا یہی طریقہ ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرتے تھکتا نہیں بلکہ لگاتار اپنی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی حملہ کرتا ہے، کبھی پسپائی اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑے سے بڑے زیرک انسان کو بھی اگر اسے اپنے ربّ کی پناہ حاصل نہ ہو تو چاروں شانے چت کر دیتا ہے اس کی ان دونوں چالوں کو وسواس اور خناس کے الفاظ استعمال کرکے بیان کیا گیا ہے۔
شیطان کا وسوسہ تمام گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جڑ ہے اوریہ وسوسہ ایک ایسا شر ہے جو خود انسان کے اندر موجود ہے اور اس کا تعلق انسان کے اپنے اختیار سے ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے کیونکہ شیطان کا وسوسہ اس وقت تک کچھ بھی شر نہیں پیدا کرتا جب تک انسان خود اس کو قبول نہ کرے اور اس پر عمل پیرا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس عمل کو یوں بیان کیاہے کہ وہ انسان سے کہے گا:
اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا، ہاں میں نے تمہیں (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بے دلیل) میرا کہا مان لیا، پس (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ (سورۃابراہیم۔22)
شیطان چور ہے لوگوں کے ایمان کے ساتھ ان کا مال بھی چراتا ہے، وہ اس طرح کہ جس کھانے یا پینے کی چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ ذکر کیا جائے، اس سے اپنا حصہ چرا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔لوگوں کومال و دولت کم ہو جانے کے ڈر سے صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ سے روک دیتا ہے۔
انسان جب کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتا ہے تو شیطان اس کا راستہ روکتا ہے اور اس کو نیکی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر ایک نیکی کے راستے پر شیطان راستہ روکتا ہے اور اسکی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس راستے پر کوئی نہ چلے اور اگر کوئی اسکی مخالفت کرکے چل پڑے تو وہ رہزن کی طرح اس کو تشویش میں ڈال کر اور اسکے سامنے ہر قسم کی رکاوٹ لا کر اسے منزل تک پہنچنے نہیں دیتا۔ اگر کوئی خوش قسمت اور باہمت انسان نیکی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کو ایسی باتوں پر آمادہ کرنے میں کوشاں رہتا ہے جس سے اس کا وہ عمل برباد ہو جائے کیونکہ اس نے گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں کچھ اس طرح ہے:
اس (ابلیس) نے کہا پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا (مجھے قسم ہے کہ) میں (بھی) ان (بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے صراطِ مستقیم پر ضرور بیٹھوں گا (تاکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں) پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکرگزار نہ پائے گا۔ (سورۃ الاعراف 17-16)
صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہؐ کا فرمان ہے:
شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات کو سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے۔ اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اگر (فرض یا نفل) نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند اور خوش مزاج رہتا ہے ورنہ اس پر خباثت اور سستی طاری رہتی ہے۔(کتاب:انسان اور شیطان، حافظ مبشر حسین)
شیطان انسان کو سست بناتا اور کام کرنے سے روکتا ہے اور آج کا کام کل کرنے کا عادی بنا دیتا ہے،کبھی وہ وسوسہ پیدا کر کے انسان کو کام سے روکتا ہے۔اس سلسلے میں علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں:
کتنے یہودیوں اور عیسائیوں کے دلوں میں اسلام کی محبت کا خیال آیا لیکن شیطان ان کو روکتا اور کہتا رہا’’ جلدی مت کرو ابھی غور و فکر کر لو‘‘۔ اس طرح خیالات ڈالتا رہا یہاں تک کہ ان کی موت کفر پر ہوئی۔
جس چیز میں انسان کی بھلائی ہوتی ہے شیطان اس سے انسان کو غافل کر دیتا ہے جیسے اس نے حضرت آدمؑ کے ساتھ کیا۔ نفس کو جو چیزمحبوب ہوتی ہے شیطان اسی دروازے سے نفس پر قبضہ کرتا ہے۔
علامہ ابن قیم الجوزیؒ اپنی کتاب ’’اغاثۃ اللھفان‘‘ میں لکھتے ہیں:
شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے یہاں تک کہ اسکی ملاقات نفس سے ہوتی ہے۔ شیطان نفس سے معلوم کرتا ہے کہ اسے کون سی چیز پسند ہے جب اس کو نفس کی کمزوری معلوم ہو جاتی ہے تو وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اس کمزوری سے مدد لیتا ہے اور انسان پر اس دروازے سے قابض ہو جاتا ہے۔شیطان اپنے انسان دوستوں اور ساتھیوں کو بھی یہ سبق دیتا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھیوں سے کوئی فاسد مقصد و مفاد حاصل کرنا ہو تو ان پر اسی دروازے سے قابض ہو جائے جو ان کے نزدیک محبوب ہو کیونکہ اس دروازہ سے جانے والا اپنے مقصد میں ناکام نہیں ہو سکتا۔ جو شخص دوسرے دروازے سے جائے گا اس کے لئے وہ دروازہ بند ہو گا وہ منزل کو نہیں پہنچ سکتا۔
ہر شر کی ابتدا شیطان سے ہے۔سب سے بڑا گناہ شرک و کفر ہے جس کا نتیجہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہوتی ہے اور اس کا انجام آخرت میں جہنم ہے۔ شیطان سب سے پہلے انسان کو اسی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔اگر اس میں وہ کامیاب نہ ہو تو پھر وہ آدمی کو بدعت کی طرف بلاتا ہے جس کی بنیاد مخالفتِ رسولؐ پر ہے، اس لیے اس کا درجہ شرک اور کفر کے قریب ہے۔ بدعت کی طرف بلانا شیطانِ لعین کا مرغوب اور پسندیدہ مشغلہ ہے اور جب اس کوشش میں وہ کامیاب ہو تو سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے خلفا کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ کر لیا ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے سنت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشی ہو تو شیطان کااگلا داؤ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو کبیرہ گناہوں کے ارتکاب پر آمادہ اور اس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر وہ شخص عالم ہے اور لوگ اس کو قابل ِ اقتدا سمجھتے ہیں تو شیطان لعین کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو پھسلادے تاکہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اس کے فیضِ صحبت سے جو تھوڑا بہت فائدہ ہو رہا تھا، اس کا دروازہ بند ہوجائے۔
شیطان نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جو کچھ کیا اس کی اصل وجہ تکبر تھی۔ یہی وہ منفی جذبہ ہے جو انسانوں کو آخری درجے میں خدا کا نافرمان بنا دیتا ہے۔ چنانچہ جو شخص کسی اور طریقے سے قابو نہیں آتا اس کے لیے شیاطین تکبر کا داؤ استعمال کرتے ہیں۔ انسان خود کو بڑا سمجھتا ہے، اپنے عمل کو بڑا عمل خیال کرتا ہے، وہ اپنی دولت، طاقت، مقام و مرتبے، حسن، علم، ذہانت، صلاحیت اور اقتدار پر نازاں ہوتا ہے۔ اس کا یہی ناز اسے خدا کی بارگاہ میں ایک مجرم بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان حق کا انکار کرتا ہے، کمزوروں پر ظلم کرتا ہے، معصوموں کا حق دباتا ہے۔ ان میں سے ہر چیز غضبِ الٰہی کو بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے۔
بہت سے لوگ اپنی ذات میں متکبر نہیں ہوتے بلکہ بہت متواضع طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ اکثر اوقات اپنی قوم، پارٹی، فرقے اور گروہ کے بارے میں تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جن سے وہ وابستہ ہیں وہ کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ ایسے لوگ مان لیں گے کہ غلطی ہوسکتی ہے مگر یہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کے لوگوں نے غلطی کی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں میں ایک نوعیت کا گروہی تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔
شیطان اور نفسِ امارہ
نفسِ امارہ شیطان کے سپاہیوں میں شمار ہوتا ہے۔ ابلیس کی طرف سے وساوس ظاہری شیطان کے عنوان سے اور نفسِ امارہ کی خواہش باطنی شیطان کے عنوان سے انسان کو زوال سے دو چار کرتے ہیں۔ شیطان کی تمام کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ انسان گمراہ ہو کر حقیقت تک نہ پہنچ جائے اور اسی سلسلہ میں اس نے اللہ پاک کی عزت کی قسم کھائی ہے۔ جو انسان شیطانی وسوسوں کے نتیجہ میں نفسانی اور حیوانی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے وہ نفسِ امارہ کے دام میں پھنس جاتا ہے۔ شیطان اور نفسِ امارہ دونوں انسان کے دشمن ہیں اسی لئے قرآنِ مجید نے بھی شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن کہا ہے۔
نفسِ امارہ کے بارے میں نبی پاکؐ نے فرمایا ’’تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے۔‘‘
نفس کا سب سے بڑا دشمن ہونے کا راز اس کا پوشیدہ ہونا ہے۔ ظاہری دشمن اور چور اس باطنی و پوشیدہ دشمن اور چور کی مدد کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ باطنی دشمن اس کا محرم راز ہے اور اس آگاہی سے استفادہ کر کے انسان کی خواہشات کی ہر خبر شیطان کو پہنچاتا ہے۔ دوسری جانب سے نفسِ امارہ ابلیس کے پیغام اور فر مان کو، جو ظاہری برائیوں پر مشتمل ہو تا ہے ، پہنچاتا ہے۔ پس انسان میں موجود حیوانی رجحانات کے پیشِ نظر نفسِ امارہ شیطانی وسوسوں کے تحت قرار پاتا ہے اور مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ انسان بھی شیطان کی پارٹی کا رکن بن جاتا ہے۔
انسانی شیطان اور جن شیطان میں فرق
انسانی شیطان اور جن شیطان میں فرق یہ ہے کہ انسانوں کے شیطانوں کو اذان نہیں بھگاتی اور نہ ہی وہ ماہِ رمضان میں جکڑے جاتے ہیں بلکہ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ مسلسل جھگڑنے میں لگے رہتے ہیں جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ (کی شان) میں علم (و دانش) کے بغیر جھگڑتے اور سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ (سورۃ الحج۔3)
ان دونوں قسموں کے شیاطین سے بچنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جن میں سے ایک آسان طریقہ حدیث میں یہ بیان فرمایا گیا کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے تو اتنا کہہ کر الگ ہو جاؤ کہ تُو جھوٹا ہے۔ مثلاً جنات والا شیطان جب دل میں خیال ڈالے کہ اسلام مکمل دین نہیں ہے یا آخرت کی نجات کے لئے اسلام ضروری نہیں یا شریعت پر عمل کریں گے تو زِندگی مشکل ہو جائے گی تو شیطان کے اِس وسوسے پر اسے فوراً کہیں کہ تو جھوٹا ہے۔ یونہی اگر انسانوں میں سے کوئی شیطان ایسی باتیں کرے کہ معاشی ترقی سود کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے یا ترقی و خوشحالی کے لیے قرآنِ و حدیث کے پرانے و حقیقی معانی بدلنا ضروری ہیں یا اقوامِ عالم میں عزت و مقام پانے کے لئے اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنانا ضروری ہے تو ایسے انسانی شیطان کو بھی کہہ دیا جائے کہ تُو جھوٹا ہے اور میرے نزدیک اسلام ہی حق ہے اور قرآن و حدیث کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے۔ دنیا کی کامیابی اور آخرت کی نجات اسی پر عمل کرنے میں ہے اور قرآن و حدیث کے وہی معانی درست ہیں جو بزرگانِ دین ہمیشہ سے بیان کرتے آئے ہیں۔
شیطان اور اس کے جنوں کا لشکر اکثر مومن انسانوں پر حملہ کرتا ہے تاکہ انہیں خدا سے دور کر کے کافر اور مشرک بنا دے۔قرآن کی روسے صرف خدا کے مخلص بندوں پر شیطان قابو نہیں پاسکتا۔ قرآن میں ہے کہ شیطان نے قسم کھائی ہے کہ میں تمام بندوں کو گمراہ کروں گا صرف تیرے مخلص بندے میرے قابو میں نہ آئیں گے۔ کیونکہ اللہ پاک کے یہ نیک بندے صرف اللہ پاک پر ہی توکل کرتے ہیں، ہمیشہ اس کے سامنے عاجزی سے اپنی گردن جھکائے رکھتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر وقت ذکرِالٰہی یعنی اسمِ اللہ ذات سے آباد رکھتے ہیں۔ اسمِ اللہ ذات کے ذکر اور تصور سے ہی نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ ہوتا ہے۔ اسم اللہ ذات کی یہ نعمت امام الوقت مرشد کامل اکمل عطا فرماتا ہے جو زمین پر اللہ پاک اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نائب ہوتا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ زمانے کے مرشد کامل اکمل ہیں جو بیعت اور بغیر بیعت کے اسمِ اللہ ذات کی نعمت و دولت سے نوازتے ہیں۔ آپ بھی یہ عظیم نعمت و دولت حاصل کر کے شیطان اور نفس کی تباہ کاریوں سے بچ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
استفادہ کتب:
انسان اور شیطان، حافظ مبشر حسین
ابلیس کی تباہ کاریاں،ابو العرفان حاجی فتح محمد نسیم
رسول اللہؐ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے فرمایا:
شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کی: کیا آدمیوں میں بھی شیطان ہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ (مسند امام احمد، 132/8، حدیث:21608)
اچھی وضاحت بیان کی گئی ہے انسانی شیطان اور جن شیطان کے متعلق۔
اللہ پاک ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔
بہت خوب
اللہ پاک شیطانی شر سے محفوظ رکھے
راہِ فقر اللہ کوپانے کاراستہ ہے اور اس راستے پر مرشد کامل اکمل کے بغیر چلنا ناممکن ہے۔ مرشد کی ذات اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ ہے
👍
Bht khoo
b
اسمِ اللہ ذات کے ذکر اور تصور سے ہی نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ ہوتا ہے۔
💯👍
Bohat hi important article hai apne aapko inssano aur jinn shaitaano se bachane ke liye.
بہت عمدہ تحریر ہے۔
مرشد کامل اکمل کا عطا کردہ اسم اللہ ذات انسانی شیطان و جن شیطان کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے
بہترین
بہت ہی بہترین لکھا ہوا ہے مضمون
بہت اچھا مضمون معلوماتی ہے۔
جس چیز میں انسان کی بھلائی ہوتی ہے شیطان اس سے انسان کو غافل کر دیتا ہے
انسانی شیطان جن سے شیطان سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جسے صرف خواص ہی پہچان سکتے ہیں کیونکہ یہ انسانی شکل میں ہوتا ہے۔ یااللہ تعالٰی ہم انسانی شیطان اور جن شیطان سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
MashaAllah
راہِ فقر اللہ کوپانے کاراستہ ہے اور اس راستے پر مرشد کامل اکمل کے بغیر چلنا ناممکن ہے۔
بہت اعلیٰ
Allah Pak humein jin shetan or insani shetan se mehfooz rakhe
ہم جن شیطان کو برا کہتے رہتے ہیں لیکن ہمیں ان شیطان صفت انسانوں سے بھی بچنا چاہیے جو ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں. اس مضمون میں بہت اچھا بیان کیا گیا ہے ماشا اللہ
جس چیز میں انسان کی بھلائی ہوتی ہے شیطان اس سے انسان کو غافل کر دیتا ہے جیسے اس نے حضرت آدمؑ کے ساتھ کیا۔ نفس کو جو چیزمحبوب ہوتی ہے شیطان اسی دروازے سے نفس پر قبضہ کرتا ہے۔