سلطان العاشقین کی صحبت کے لمحات
Sultan-ul-Ashiqeen ki Sohbat kay Lamhaat
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
میرے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور امام الوقت ہیں۔ آپ کی پرُنور صحبت میں رہ کر طالبانِ مولیٰ کے نہ صرف عادات و اطوار بدلتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کا مرکز و محور اور نظریات و خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کا انداز منفرد ہو جاتا ہے۔ آپ کی نورانی صحبت سے طالبوں کے نفس کا یوں تزکیہ ہوتا ہے کہ رازِ پنہاں اُن پر عیاں ہو جاتا ہے۔
آپ کی پاکیزہ و نورانی صحبت اور آپ کے چہرۂ مبارک کے دیدار سے جو سکون اور فرحت نصیب ہوتی ہے وہ کسی اور چیز میں محسوس نہیں ہوتی۔ شاعر اپنے کلام میں محبوب کے حسن کے لیے چاند اور اس کی روشنی کا استعارہ استعمال کرتے ہیں کہ چودھویں کا چاند جب جوبن پر ہوتا ہے، اس کی روشنی جہاں بھر کو منور کر دیتی ہے لیکن جو انوار و تجلیات سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے وجودِ مسعود اور خاص طور پر چہرۂ مبارک سے نکلتی محسوس ہوتی ہیں وہ ماحول پر سحر طاری کر دیتی ہیں۔ چاند کی چاندنی رات کو اتنا منور نہیں کرتی جس قدر آپ کے نورانی وجود کی تجلیات قلوب کو منور کردیتی ہیں۔ حسن و جمالِ مطلق آپ کے وجودِ مسعود سے ہویدا ہے۔ جوکوئی آپ کے حسن کے حقیقی جلوے دیکھ لے اُسے پھر کوئی اور خوبصورت نہیں لگتا۔
بقول شاعر:
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
نظر سے گر گئے سب خوبصورت
جب آپ گفتگو فرمانے کے لیے اپنے لب ہائے مبارک کو جنبش دیتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا لبوں سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ آپ کی سحر انگیز گفتگو قلب و باطن کی کیفیات بدل دیتی ہے۔ طالبوں کا دل چاہتا ہے کہ گھنٹوں آپ کی گفتگو سنتے رہیں۔ بقول شاعر:
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
اس دوران کوئی دنیوی خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ گفتگو کا ہر ہر لفظ اسرارِ معرفت کو سموئے ہوئے اور ہر طالب کی اندرونی کیفیات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ہر طالب کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ میرے مرشد کی گفتگو خاص میرے ہی متعلق ہے۔ گفتگو کا ہر ہر سخن کانوں میں رَس گھول دیتا ہے۔ آپ کی دلفریب آواز کی تاثیر قرب و معرفتِ ِالٰہی کی نوید سناتی ہے۔ آپ کا خوبصورت اور نرم و ملائم لہجہ آپ کا ہر سخن قلب میں اتار دیتا ہے۔
آپ کا اندازِ تخاطب اس قدر دل موہ لینے والا ہوتا ہے کہ ہر طالب کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جتنی محبت میرا مرشد مجھ سے کرتا ہے اتنی محبت اس دنیا میں کوئی اور نہیں کرتا۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت بھی اسکے سامنے ہیچ لگتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہونے پر طالبانِ مولیٰ اپنی قسمت پر نازاں ہوتے ہیں۔
اگر کوئی طالب آپ سے سوال کرے تو ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں اور اس قدر مفصل جواب دیتے ہیں کہ اس سوال کے ساتھ ساتھ دیگر بیشمار اسرارِ الٰہی کے گوہر نصیب ہو جاتے ہیں۔جب طالب بارگاہ سے واپس لوٹنے پر آپ کی گفتگو پر تفکر کرتے ہیں تو بیشمار نادر نکتے منکشف ہوتے ہیں۔ جو طالب جس قدر غور و فکر کرتا ہے اُسی قدر علومِ معرفت میں ترقی پاتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس کی چشمانِ مبارک میں ایک ایسی چمک ہے جس کی تاب لانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جب نگاہِ نازسے طالب کی طرف دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نگاہ اندر تک اتر گئی ہو۔ آپ کی آنکھیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وہ طالب کے ہر حال و کیفیت سے بخوبی آگاہ ہیں اوراس کا اظہار آپ کی گفتگو سے بھی ہوتا ہے جس کا مشاہدہ طالب کرتے ہیں۔
دنیوی زندگی اور معمولات میں مشغولیت سے طالبوں کے نفس پر جو میل جم جاتی ہے آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کرم بارانِ رحمت کی مثل وہ سب میل اتار دیتی ہے۔ جس طرح غسل کے بعد انسان خود کو تازہ دَم محسوس کرتا ہے، آپ کی نگاہِ کامل طالبوں کے نفس کو اس طرح پاک کرتی ہے کہ وہ خود کو ظاہری و باطنی دونوں طرح تازہ دم محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یوں لگتاہے جیسے عشقِ حقیقی کا ایک سمندر ان کے اندر موجزن ہو اور دنیا کی ہر فکر و پریشانی سے نجات مل گئی ہو۔ طالبوں کی کیفیات ایسی ہوتی ہیں گویا وہ جنتِ قرب میں پہنچ گئے ہوں۔ طالب سرکش نفس اور زنگ آلود قلب لے کر بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور شفاف آئینے کی مثل پاکیزہ نفس اور باصفا قلب لے کر بارگاہ سے لوٹتے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی آفتاب کی مثل فیض بخش نگاہِ کامل کی تاثیر اور پاکیزہ و نورانی صحبت سے طالبوں کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ کثرت کے ساتھ آپ کی صحبت پانے سے زندگی جینے کا قرینہ آجاتا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ جینے اور مرنے کا سلیقہ آجاتا ہے۔ خوشی اور غم کے حقیقی معنوں سے آشنائی ہوتی ہے اور طالب ہر شے اور ہر تعلق کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہونے لگتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس کی چشمانِ مبارک وحدت کا بحر ِبے کنار ہیں جن میں ڈوب کر طالب اسرارِ الٰہی کے موتی نکالتے ہیں۔ جو صادق طالب جس قدر ان چشمانِ مقدسہ کے اشارے سمجھنے لگتاہے وہ معرفت میں اسی قدر کامل ہونے لگتا ہے۔
تابِ آفتاب لیے آپ کی چشمانِ مبارک کے اوپر دراز پلکیں جب جھپکتی ہیں تو طالبوں کے دل کی دنیا ہی بدل ڈالتی ہیں گویا فیض بخش نگاہوں سے مستفید ہونے کی دعوت دے رہی ہوں۔
آپ کے خمدار ابرو کی طرف دیکھنے کے دوران طالب کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں پاتا۔ یہ خمدار ابرو گویا کمان کی مثل عشق کا تیر چلا کر طالبوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں اور طالب ان کے دیدار میں مشغول ہو کر گردو پیش سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
آپ کا وجود مبارک سراپا نور ہے۔ محب اپنے محبوب کے حسن میں رطب اللسان رہتے ہیں لیکن کوئی کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو یا کسی کا سراپا کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو، آپ کے جمالِ حقیقی کے سامنے ہر کسی کا حسن ماند ہوتا ہے۔ بقول احمد فراز:
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
آپ کے وجود مبارک کی خوشبو ہر چیز کو معطر کر دیتی ہے۔ کسی نے کیسا بھی قیمتی اور تیز پرفیوم کیوں نہ استعمال کیا ہو، آپ کے نورانی وجود سے آنے والی خوشبو ماحول پر غالب آجاتی ہے۔ جس چیز کو بھی آپ چھو لیں اس سے کئی دنوں تک ایسی دلفریب مہک آتی ہے جو طالب کو مدہوش رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے لباس مبارک سے آنے والی مہک سے مشامِ جاں معطر ہو جاتے ہیں۔ اسی دلفریب خوشبو سے گویا تمام پھول خوشبو مستعار لیتے ہیں۔ جن طالبوں کوتبرکاً آپ کے لباس مبارک عطا ہوئے ہیں وہ مہینوں بعد بھی جب لباس کھولتے ہیں تو دلفریب خوشبو سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی گہری سیاہ زلفیں سیاہ گھٹاؤں کی مثل اور طالب کے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی مانندہیں۔ ویسے توآپ سر اقدس پر ہمیشہ دستار یا سندھی ٹوپی پہنے رکھتے ہیں لیکن جب کبھی زلفیں آزاد ہوں تو ان کے پیچ و خم میں طالبوں کو اپنا وجود گم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ جب زلفیں سرک کر آنکھوں پر آتی ہیں اور آپ اپنے نورانی دست مبارک سے انہیں پیچھے ہٹاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چاند بادلوں کی اَوٹ سے نمودار ہو رہا ہو۔
چال مبارک کا کیا کہیے کہ جب نرم قدموں سے چلتے ہوئے محفل میں تشریف لاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خوش نصیبی کے دَر کھلتے جا رہے ہوں۔ ساقیٔ وحدت کے دستِ اقدس عشقِ حقیقی کے تشنہ کاموں کو جامِ الفت سے یوں سیراب کرتے ہیں کہ ایک طرف تو روح پرُسکون ہو جاتی ہے اور دوسری طرف مزید کی طلب میں تڑپنے لگتی ہے۔
انسان زندگی بھر جدوجہد کرتا ہے تاکہ سکون پا سکے اور اسی سکون کی خاطر ہر ممکن بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اپنا سکون وہ دنیا میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی ایسی جگہ کا متلاشی ہوتا ہے جہاں وہ اپنے ہر غم و فکر سے آزاد ہو کر اپنے قلب و باطن کو سکون کی چند گھڑیاں فراہم کر سکے لیکن دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں اور نہ ہی یہاں کی رنگینیوں میں سکون ملتا ہے۔ اگر ملے بھی تووقتی اور فانی۔ایک طالب کے لیے یا ایک عاشق و محب کے لیے جائے سکون اس کے معشوق و محبوب مرشد کامل اکمل کی بارگاہ ہوتی ہے۔ آپ کی بارگاہ میں آنے سے قبل چاہے دل میں کتنے ہی تفکرات و اندیشے اور غم و پریشانیاں کیوں نہ ہوں، آپ کے پاس بیٹھتے ہی وہ دنیاوی تفکرات اور پریشانیاں یوں غائب ہوتی ہیں گویا کبھی تھیں ہی نہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس کا نورانی وجوداپنے مریدوں اور طالبوں کو زمانے کی سرد و گرم ہواؤں سے بچانے کے لیے ایک ڈھال اور سایہ دار درخت کی مانند ہے۔ طالبانِ مولیٰ ہر لمحہ آپ کو اپنے ہمراہ اور آپ کی نگاہوں کے حصار میں محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر، دکھ سکھ اور تنگی و آسانی کی ہر کیفیت میں طالبوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ان کی دلجوئی اور تسلی و اطمینان کے لیے ہمہ وقت ان کے ہمراہ ہیں۔ ہر مشکل میں طالبوں کی دستگیری کے لیے موجود ہیں۔ آپ کبھی بھی زمانے کی تند و تیز لہروں میں طالبوں کو بہنے نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ ان کا ہاتھ تھامے رکھتے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے قرب کے لمحات میں پیش آنے والی کیفیات کو لفظوں میں ڈھالنا آسان نہیں اور نہ ہی ان کیفیات کو زبان دی جا سکتی ہے۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے:
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زبان میں آنکھ نہیں اور آنکھ میں زبان نہیں
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
نظر سے گر گئے سب خوبصورت
آپ کی پاکیزہ و نورانی صحبت اور آپ کے چہرۂ مبارک کے دیدار سے جو سکون اور فرحت نصیب ہوتی ہے وہ کسی اور چیز میں محسوس نہیں ہوتی۔
Very beautiful ❤️ and informative article
مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور امام الوقت ہیں۔ آپ کی پرُنور صحبت میں رہ کر طالبانِ مولیٰ کے نہ صرف عادات و اطوار بدلتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کا مرکز و محور اور نظریات و خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کا انداز منفرد ہو جاتا ہے۔ آپ کی نورانی صحبت سے طالبوں کے نفس کا یوں تزکیہ ہوتا ہے کہ رازِ پنہاں اُن پر عیاں ہو جاتا ہے۔
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زبان میں آنکھ نہیں اور آنکھ میں زبان نہیں
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہونے پر طالبانِ مولیٰ اپنی قسمت پر نازاں ہوتے ہیں۔
میرے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور امام الوقت ہیں۔ آپ کی پرُنور صحبت میں رہ کر طالبانِ مولیٰ کے نہ صرف عادات و اطوار بدلتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کا مرکز و محور اور نظریات و خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کا انداز منفرد ہو جاتا ہے۔ آپ کی نورانی صحبت سے طالبوں کے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
آپ کی پاکیزہ و نورانی صحبت اور آپ کے چہرۂ مبارک کے دیدار سے جو سکون اور فرحت نصیب ہوتی ہے وہ کسی اور چیز میں محسوس نہیں ہوتی
Behtareen ❤️
Ap Madzillah ul aqdas bakaml shakseat kay malik hain
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا نورانی وجوداپنے مریدوں اور طالبوں کو زمانے کی سرد و گرم ہواؤں سے بچانے کے لیے ایک ڈھال اور سایہ دار درخت کی مانند ہے۔
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زبان میں آنکھ نہیں اور آنکھ میں زبان نہیں
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا اندازِ تخاطب اس قدر دل موہ لینے والا ہوتا ہے کہ ہر طالب کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جتنی محبت میرا مرشد مجھ سے کرتا ہے اتنی محبت اس دنیا میں کوئی اور نہیں کرتا۔
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زبان میں آنکھ نہیں اور آنکھ میں زبان نہیں
طالبانِ مولیٰ کو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ و نورانی صحبت اور آپ کے چہرۂ مبارک کے دیدار سے جو سکون اور فرحت نصیب ہوتی ہے وہ کسی اور چیز میں محسوس نہیں ہوتی۔
انوار و تجلیات سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے وجودِ مسعود اور خاص طور پر چہرۂ مبارک سے نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔ چاند کی چاندنی رات کو اتنا منور نہیں کرتی جس قدر آپ کے نورانی وجود کی تجلیات قلوب کو منور کردیتی ہیں۔
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ