واقعہ معراج اور حقیقتِ محمدیہ (Waqia-E-Meraj or Haqiqat-e-Mohammadia)
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
اللہ تعالیٰ نے جس بھی نبی کو کسی قوم میں مبعوث فرمایا ساتھ ہی انہیں معجزہ جیسی عظیم نعمت سے بھی سرفراز فرمایا۔واقعہ معراج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عظیم الشان معجزہ ہے۔ جو بھی اداراکِ قلبی سے اس پر تفکر کرتا ہے، اللہ پاک جس طرح ہر آن اپنے محبوبؐ کا ذکر بلند فرما رہا ہے اسی طرح سفرِ معراج کے بھی رموزو حقیقت نئی جہت اور نئے انداز سے اس طالب پرآشکار فرما دیتا ہے۔ الغرض جو بھی جتنا عشق و محبت کی اس لازوال داستان میں غوطہ زن ہوتا ہے اسی قدر اپنی باطنی استعداد کے مطابق معنی اخذ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود واقعہ معراج آج بھی طالبانِ مولیٰ کے لیے انتہائی پر کشش ، دل موہ لینے والا، نادر الوقوع واقعہ ہے۔ واقعہ معراج معجزہ نبی ؐ ہے۔ معجزہ خلافِ عادت واقعہ کو کہتے ہیں یعنی وہ واقعہ جو فطرت اور قدرت کے قوانین سے بالاتر ہو۔ معجزہ معراج النبیؐ یہ ہے کہ آپؐ نے مسجد الحرام سے مسجدِاقصیٰ کا زمینی سفر طے کیا پھر مسجدِ اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ تک رسائی حاصل کی۔ یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤ ں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے۔ سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے قابَ قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے۔یہ سفر محبت و عظمت اور ملاقات و دیدار کا ہے۔ سفر کے اس حصہ کو اللہ ربّ العزت نے اپنے اور اپنے محبوب کے درمیان راز رکھا ہے۔
آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رتبہ اتنا عالیشان اور ارفع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو یہ سفر نہ صرف باطنی بلکہ ظاہری جسم سمیت رات کے مختصر حصہ میں کروایاکہ جس بستر کو چھوڑ کر شرفِ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے جب لوٹے تو اسکو ویسا ہی گرم پایا۔ ایک لمحہ کے لیے اس واقعہ کو اگر عقل کے پیمانے میں رکھا جائے تو عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر رہ جاتی ہے کہ کس طرح صدیوں پر محیط سفر معراج چشم زدن میں طے ہو گیااور وہ کچھ دیکھ لیا جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔ واقعہ معراج پر یقین و ایمان وہی مومن رکھ سکتا ہے جو حقیقتِ محمدیہ پر ایمان رکھتا ہو۔ ورنہ عقل تو مافوق الفطرت واقعات کا انکار کرتی ہے ۔ انسانی عقل حواسِ خمسہ کے ساتھ پرواز کرتی ہے۔ جہاں حواسِ خمسہ ساتھ چھوڑ دیں عقل کی پرواز موقوف ہو کر رہ جاتی ہے اور رہی بات سفرِمعراج کی تو یہ واقعہ اس جہاں کا نہیں بلکہ لامکاں سے آگے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے واقعہ معراج پر ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر تصدیق کی مہر لگا دی اور ابوجہل منکر ہی رہا ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت جبرائیل ؑامین سے ارشاد فرمایا ’’اے جبرائیل ؑ!میری قوم (واقعہ معراج میں )میری تصدیق نہیں کرے گی۔ جبرائیلؑ نے فرمایا ’’ابو بکرؓ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں‘‘۔
درحقیقت’’ حقیقتِ محمدیہ‘‘ پر ایمان لائے بغیر واقعہ معراج کی رمز و حقیقت طالبِ مولیٰ پر عیاں نہیں ہوتی۔ تصنیف مبارکہ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں :
حقیقتِ محمدیہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر شے نے ذاتِ حق تعالیٰ سے وجود پایا ۔ ہرعام مسلمان کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اگر اللہ نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا لیکن اللہ خود فرماتا ہے کہ اگر محمدؐ نہ ہوتے توکچھ نہ ہوتا۔ لولاک لما اظھرت الربوبیہ (ترجمہ : اے محمدؐ اگر آپ نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا ) اور فرماتا ہے : لولاک لما خلقت الافلاک (ترجمہ : اے محمدؐ میں نے لولاک (تمام عالمِ مکان و لامکان ) صرف آپ کے لیے تخلیق کیے)۔ یعنی اگر محمد مصطفیؐ کی مبارک ذات نہ ہوتی تو نہ اللہ کا ہوناظاہر ہوتا، نہ عالم تخلیق ہوتے ، نہ مخلوق پیدا کی جاتی۔ اللہ موجود ہوتا لیکن نہ اسے کوئی ربّ کہنے والا ہوتا نہ ماننے والا، نہ سجدہ کرنے والا ، نہ اس کے سامنے عاجزی کرنے والا ، نہ دعا کرنے والا ۔ یعنی اس کی ربوبیت بھی ظاہر نہ ہوتی اور وہ خود بھی ظاہر نہ ہوتا ۔ پس ہوتا لیکن نہ ہوتا۔ پس وہ وجود جو ہر شے کی تخلیق کا باعث ہے وہ ایک جہت سے خود ذاتِ حق تعالیٰ ہے اور ایک جہت سے ذاتِ محمدؐ ۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو یہ وجود دو نہیں بلکہ ایک ہے لیکن ظاہراً دیکھا جائے تو وجود دو ہو کر بھی ایک دوسرے کے عین اور مشابہ ہیں ۔ (حقیقتِ محمدیہ)
اللہ تعالیٰ نے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے نور سے پیدا کیا اور تمام کائنات کو آپؐ کے نور سے زندگی بخشی ۔آپ ؐ کی ذات ہر شے کی حیات، سماعت، بصارت، قدرت ، ارادہ ، علم اور کلام کی حقیقی قوت ہے۔ ہر شے میں آپؐ ہی حقیقتِ مستعد ہیں یعنی ہر شے کی قوت کا باعث ہیں۔ آپؐ کی حیات سے ہر شے کی حیات ہے ، آپؐ کی قوتِ کلام ہر شے میں متکلم ہے ۔ غرضیکہ آپؐ کی ذات ہر شے اور تمام کائنات کی روحِ رواں ہے ۔ اس بات کی گواہی اس حقیقت سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ شبِ معراج جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کائنات اور عالمِ ناسوت سے نکل کرلاھوت لامکان کی طرف عازمِ سفر ہوئے تو تمام کائنات یک دم بے حس و حرکت ہو گئی کیونکہ آپ ؐکی ہی قوتِ حیات و سمع و بصر وغیرہ کی بدولت ہر شے کی حیات و سمع و بصر وغیرہ تھی۔ واقعہ معراج آپؐ کے مرتبہ کاملیت کا اظہار ہے جہاں اللہ پاک نے اپنے محبوب کو قرب در قرب کے لمحات عطا کر کے ایسا شرفِ ملاقات عطا کیا جس کی التجا حضرت موسیٰ علیہ السلا م کرتے رہے ۔ حضرت موسیٰ تجلیاتِ انوارِ الٰہی کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے جبکہ یہاں تو اللہ پاک خود اپنے محبوب کے قریب ہونے کا ارادہ فرماتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا :
پھر قریب ہوا (اللہ محمدؐ سے) پھر زیادہ قریب ہوا تو(محمدؐ اپنے ربّ سے)۔ دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریب۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی ‘‘۔ (سورۃ النجم9-10)
سفرِ معراج میں حقیقتِ محمدیہ کو اس قدر شان سے بیان کیا گیا ہے کہ چشمِ بصیرت رکھنے والے عش عش کر اٹھتے ہیں۔ سفرِ معراج کا ہر لمحہ عشق و محبت میں نرالا،انتہائے کاملیت سے ہمکنار، احدیت و حدت کے رازوں سے پرُہے جس کی ہر آن حقیقتِ محمدیہ کو ظاہر کرتی ہے۔ حقیقتِ محمدیہ کو’’حقیقتِ احد ‘‘ بھی کہتے ہیں جس کے متعلق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں :
انا احمد بلا میم
ترجمہ: میں میم کے بغیر احمد ہوں۔
من رانی فقدرائی الحق
ترجمہ:جس نے مجھے دیکھ لیا اس نے حق کو دیکھ لیا۔
لی مع اللّٰہ وقت لا یسعنی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل
ترجمہ:میرا اللہ کے ساتھ ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے جس میں کوئی مقرب فرشتہ اورنبی مرسل نہیں سما سکتا۔
واقعہ معراج میں اسی حقیقتِ محمدیہ یا حقیقتِ احدکے متعلق علامہ ابنِ عربی اپنی تصنیف مبارکہ ’’شجرۃ الکون ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جب آپؐ پر براق پیش کیا گیا تو آپؐ نے پوچھا ’’کیا یہ میرے لیے ہے؟‘‘ جبرائیلؑ امین نے عرض کیا’’یہ عشاق کی سواری ہے کہ عشاق برق کی سی رفتار سے اپنے پروردگار کے حریمِ قدس تک جا پہنچتے ہیں‘‘ ۔ آپؐ نے فرمایا’’مجھے سواری کی کیا حاجت ہے کہ سواری تو منزل پر پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت انہیں ہے جن کو قربِ الٰہی کے لیے کسی ذریعہ اور وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے لیے وہ ذریعہ اور وسیلہ تو میری ہی ذات ہے لیکن میرے اور میرے پروردگار کے درمیان تو کسی ذریعے اور وسیلہ کی بھی گنجائش نہیں۔ میرا قرب ایسا اعلیٰ اور کامل ہے اگر میں اپنے ربّ کے درمیان کسی شے کو واسطہ بناؤں گا تو وہ میرا اس کے بے حجاب دیدار کا شدید شوق ہو گا، اس سے بلاواسطہ ہمکلامی کی آرزو ہو گی، اس کی ذات میں خود کو فنا کر دینے اور اس کو پا لینے کا پختہ ارادہ ہو گا اور اس رات کی تاریکی کا حجاب میری دلیل ہو گا کہ میرے اور میرے محبوب کے وصل کے لمحات میں کسی کی دخل اندازی کی گنجائش نہیں ۔ مجھے کسی تیسرے کی حاجت نہیں ۔ اوّل تو میرا ربّ خود میری رہنمائی فرمائے گااور میری طرف سے اس تک پہنچنے کی کوشش میں یہی چیزیں میرے کام آئیں گی اور مجھے راستہ بتائیں گی کیونکہ یہ میری ذات سے وابستہ ہیں۔ جس طرح اللہ نے مجھے کمال عطا فرمایا ہے اسی طرح مجھ سے وابستہ ہر شے کو بھی کمال عطا فرمایا ہے خواہ وہ میرا عشق ہو یا ارادہ ، آرزو ہو یا دلیل ان کی برق رفتاری کے سامنے براق کی کیا حیثیت ،اس بے چارے کی کیا مجال کہ اس ہستی کا بوجھ اٹھا سکے جس نے امانت ِالٰہیہ کا وہ بوجھ اٹھا رکھا ہے جس کے اٹھانے سے روزِ اوّل زمین اور آسمانوں اور پہاڑوں نے انکار کر دیاتھا اور جس کے سینے میں اللہ کے رازوں کے بے شمار خزانے دفن ہیں۔اے جبرائیل ؑ! آپ یا آپ کی لائی ہوئی سواری مجھے اللہ تک کیسے پہنچا سکتے ہیں کہ آپ تو خود صرف سدرۃ المنتہیٰ تک کے راہی ہیں جبکہ میری منزل تو لامحدود قرب و وصال ہے ۔ آپ کا مقام عالم ِجبروت کی حد تک ہے جبکہ میری منزل عالمِ لاھوت میں واحدانیت اور احدیت ہے ۔ آپ کی اور میری کیا نسبت کہ میرا اپنے رب کے ساتھ ایسا تعلق ہے جس میں کسی مخلوق کی گنجائش نہیں جہاں نور علیٰ نور کی کیفیت ہوتی ہے وہاں مخلوق کا داخلہ ممکن نہیں۔ اگر میرے ربّ کی یہ شان ہے کہ لیس کمثلہ شیی ’’کوئی شے اس کی مثل نہیں ‘‘تو میں اس کا مظہر ہوں۔ کوئی شے میری مثل کیسے ہو سکتی ہے کہ مجھ میں تو اس کے سوا کچھ موجود نہیں لہٰذا میری آپ سے کیا نسبت ہے؟ سواری توفاصلوں کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے جبکہ میرا ربّ تو میری ہی ذات میں میرے باطن میں ،میرے ظاہر میں، ہر لمحہ میرے ساتھ ہے اور راہنما تو اس کو درکار ہے جسے کسی انجانے راستے پر سفر طے کرنا ہواور راہنما اسے بتائے کہ دائیں جاناہے یا بائیں اور یہ سب امور تو اس تخلیق کردہ عالمِ ناسوت سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میرا محبوب تو ان سب باتوں سے ماوراہے۔ اس کے قرب کے حصول کے لیے جسم کے ذریعہ چل کر اس تک نہیں پہنچا جا سکتا اور اس کے قرب کی راہ دائیں ، بائیں ، آگے پیچھے کے اشارات کے ذریعے ہر گز نہیں بتائی جا سکتی ۔ یہ تو باطن کے اسرار ہیں جس نے باطن کی حقیقی راہ کے اصولوں کو جان لیا وہی سمجھ سکتا ہے کہ اس راہ کا راہنما بھی وہی ہے جو اس راہ کی منزل ہے اور وہ تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہے ۔ ‘‘(شجرۃ الکون )
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت جبرائیل ؑاور براق کی خوشی کے لیے اور اللہ کے بھیجے ہوئے قاصد اور سواری کو عزت اور قبولیت بخشنے کے لیے براق پر سواری کو اختیار فرمایا۔
سدرۃ المنتہیٰ سے وصالِ الٰہی تک سفر کانقطہ معراج ہے جس میں قربت اور وصالِ الٰہی کی شدت کو بیان کرنے کے لیے قاب قوسین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قوسین سے مراد کمانیں یا ابر و یا بازو ہیں اور ’’قاب‘‘ فاصلے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو دو کمانوں کے درمیان ہوتی ہے ۔ قاب قوسین کا لفظ قرب کی شدت کو مثال یا سمجھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو ہر مثل سے پاک ہے اور پھر محب اور محبوب میں کیسا فاصلہ یا کیسی مسافت ؟ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم توعبدہٗ کے مرتبہ سے سرفراز ہیں۔ یعنی ایک جہت سے دیکھا جائے تو’’ ھو‘‘ ہیں اور دوسری جہت سے دیکھا جائے تو’’عبد‘‘ ہیں۔ واقعہ معراج آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ عبدہٗ کو ظاہر کرتاہے کیونکہ عبدہٗ کہتے ہی اس عبد کو ہیں جو ’’ذاتِ ھو سے واصل ہو جائے،جو دیدارِ ھو کر لے،جس میں ذاتِ ھو اس طرح جلوہ گر ہو جائے کہ وہ عبودیت اور ربوبیت کا کامل مظہر بن جائے ۔‘‘ آپؐ وہ عبد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ساتو ں آسمانوں کی حدود پار کرواکے لاھوت لامکان کا سفر طے کروایا اور اپنی ذات یعنی ’’ھو‘‘ کے دیدار سے مشرف فرمایا۔ اگر اللہ پاک چاہتا توآپؐ کو یہ سفر باطن میں طے کروا دیتا لیکن معراج کی رات بشری روپ میں عبدیت کا جامہ پہنا کر ربوبیت کا راز عطا کرنا ،یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ عبدہٗ کو ظاہر کرتا ہے۔ سفرِ معراج میں آپؐ کی اس شان کے متعلق علامہ ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں :
یہی معراج کا نقطہ کمال ہے کہ اس کی انتہا انسان کو اللہ کے قرب کی وسعتوں میں لے جاتی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مجھے آواز آئی ’’قریب ہو جا پھر میں قریب ہوا۔‘‘ اگرچہ اس قرب میں فاصلے اور مسافت کا کوئی دخل نہیں کیونکہ ’’فاصلہ‘‘ اور مسافت تو عالمِ خلق کی تخلیق ہے اور عالمِ امر میں جب وجود ہی ایک ہے تو فاصلہ اور مسافت کیا معنی رکھتے ہیں۔ پھر بھی ’’مزید قریب‘‘ ہونے کے حکم سے مراد ہے کہ ذات و صفات کی یکجائی میں عبد اور ھو کی کاملیت کو مزید اور لا محدود کاملیت حاصل ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے قولثم دنا فتدلی ’’پھر وہ اور قریب ہوا‘‘ کے یہی معنی ہیں یہاں تک کہ آپؐ قابَ قوسین کے مقام تک پہنچے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب کی حالت کو الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے (اگرچہ اس لا محدود وصال کو محدود الفاظ میں سمونا ممکن نہیں ) کہ یہاں نہ مکان ہے نہ زمان ہے، نہ وقت ہے نہ عالمِ مخلوقات جو عرش سے فرش تک پھیلا ہوا ہے ۔ پس او ادنیٰ کے مقام پرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ نے فرمایا ’’آگے بڑھو‘‘ یعنی محمدؐ کا وصال ایسا پر کیف ہے کہ او ادنیٰ کا فاصلہ بھی برداشت نہیں کرتا اور ان کے قرب سے سیر نہیں ہوتا۔ آپؐ فرماتے ہیں ’’اے میرے ربّ! جب آگے پیچھے اوپر نیچے کی جہات ہی ختم ہو چکیں تو میں اپنا قدم کہاں رکھوں؟‘‘ جواب ملا ’’قدم کو قدم پر رکھ تا کہ ہر کسی کو معلوم ہو جائے کہ میں وقت، زمانے، مکان، دن، رات، دائیں بائیں کی جہات کی حدود اور کم زیادہ مقدار کی حدود سے پاک ہوں، نہ مجھے جسموں میں قید کیا جا سکتا ہے نہ بتوں یا مکانوں میں سمویا جا سکتاہے۔ مجھے پانے کے لیے بشر کو جہانوں، زمانوں، جہات اور مقدارات کی حدود سے آزاد ہونا ہو گا ورنہ مجھے پانا ناممکن ہے ۔ پھر بھی بشر مجھے نہیں پاتا نہ مجھ تک پہنچتا ہے بلکہ میں اس میں ظاہر ہو کر اسے اپنا قرب عطا کرتا ہوں۔ بشر کی مجال نہیں کہ مجھے پالے۔ وہ محدود ہے میں لا محدود ۔ وہ ہی مجھ میں فنا ہوتا ہے نہ کہ میں اس میں سماتا ہوں ۔ اس کے ہاتھ ، پاؤں، زبان ، جسم جب صرف میرے لیے ہو جاتے ہیں (یعنی بندے کے تمام اعمال و افعال صرف اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں ) تو میں اس کو حالتِ فنا دے کر خود اس میں ظاہر ہو جاتا ہوں ۔‘‘ (شجرۃ الکون)
اوّل و آخر، ظاہر و باطن
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عالمِ احدیت (ھاھویت) سے نزول فرما کر عالمِ وحدت (یاھوت) میں میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدیؐ اختیار کی اور پھر آپؐ کے نور سے تمام انسانوں کی ارواح اور تمام کائنات کی تخلیق مرحلہ وارعمل میں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نورسے محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورکو جدا کیا اور آپؐ کے نور سے تمام کائنات کو پیدا کیا ۔ تخلیق میں آپؐ اوّل اور ظہور میں آپؐ آخرہیں اس لیے آپ ؐ کی ذات کو اوّل و آخر بھی کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وہی اوّل و آخر اور ظاہر و باطن ہے اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔ (سورۃ الحدید۔3)
حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنے کے لیے آپؐ کے اوّل و آخر اور ظاہر و باطن ہونے کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ واقعہ معراج میں آپؐ کے اوّل و آخر ہونے کی دلیل بھی ہے اور آپؐ کا یہ مرتبہ سفرِمعراج سے ظاہر بھی ہوتاہے۔ جس وجود کو جس مقام پر پیدا کیا جائے اس کی رسائی اسی مقام تک ہوتی ہے ۔ حضرت جبرائیل امین سدرۃ المنتہیٰ سے آگے نہ جا سکے،اگر جاتے تو ان کے پر جل جاتے۔یہ اس لیے تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی تخلیق اسی مقام پر ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو عالمِ جبروت میں تخلیق کیا تھا ۔ آپؐ اللہ کے نور سے ہیں اور نورِ حق لا تعین ہے اس لیے آپؐ نے معراج کی رات کہاں تک رسائی حاصل کی، کہاں تک پہنچے اور قرب و وصال کا کیا عالم تھا یہ بھی لا تعین ہے یعنی ہماری عقل میں سما نہیں سکتا۔ اگر اس بات کو الفاظ کی قید میں رہ کر سمجھا جائے تو وہ یہ کہ آپ ؐ کا نور تخلیق میں ’’اوّل‘‘ ہے اس لیے آپؐ کا مرتبہ مقامِ اوّلیت کو جا پہنچنا ہے ۔ آپ ؐ کی بشریت ’’تخلیق‘‘ کی انتہا ہے، آپؐ ہی خاتم النبیین ہیں، انسانِ کامل بھی آپ ہیں، عبدہٗ بھی آپ ہیں عالمِ ناسوت میں رہتے ہوئے تمام عالموں کو اپنے اندر سمیٹ لینے والے بھی آپؐ ہیں اور تمام عالموں کو پار کر کے ’’ابتدا‘‘ تک پہنچنے والے بھی آپؐ ہیں۔ چاہیں تو مقامِ آخر (عالمِ ناسوت ) سے مقامِ اوّل کو جا پہنچیں،چاہیں تو یہ سفر ظاہری طور پر طے کر لیں یاپھر باطنی اور اگرچاہیں تو یہ سفر ایک ہی لمحہ میں ظاہری و باطنی طور پر طے کر لیں۔ تمام انبیا کرام میں یہ مرتبہ اور مقام صرف آپؐ کو ہی حاصل ہے کیونکہ ’’اوّل آخر، ظاہر باطن ‘‘ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی مقام و مرتبہ ہے ۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
کامل معراج کیا ہے؟
یہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقتِ محمدیہ کا وصف ہے کہ آپؐ کو کامل معراج نصیب ہوئی اور کامل معراج کیاہے ؟کامل معراج ’’نہ نظر بہکی اور نہ حد سے بڑھی ‘‘ کے مصداق ہوناہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سفرِمعراج میں ہر شے سے بالا و ارفع ہو گئے اور ہر مقام و مرتبہ سے گزرتے ہوئے قرب ِحق تعالیٰ میں پہنچے ۔اس سفر میں آپؐ نے ظاہر و باطن میں ذاتِ حق تعالیٰ کے سواکسی طرف توجہ نہ کی اور قربِ حق کی لا محدود وسعتوں کو پا لیا۔ اس کے متعلق اللہ پاک نے فرمایا:
مازاغ البصر وما طغی (سورۃ النجم ۔17)
ترجمہ:نظر نہ بہکی نہ حد سے بڑھی۔
الرسالۃ الغوثیہ میں سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
میں نے ربّ تعالیٰ کو دیکھا پس میں نے معراج کے متعلق پوچھا۔اللہ ربّ العزت نے مجھ سے فرمایا’’اے غوث الاعظمؓ! معراج میرے سوا ہر چیزسے بلند ہو جانا اور معراج کا کمال ’نظر نہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی‘کا مصداق ہو جاناہے۔ اے غوث الاعظم ؓ ! اس کی نماز ہی نہیں ہوتی جس کی میرے نزدیک معراج نہ ہو اور وہ نماز سے محروم ہوتا ہے۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)
انسان کا وجود مرتبۂ وحدت (عالم ِیاھوت) میں نورِ محمدی کے نقطے سے دراز یا فراغ ہو کر عالمِ لاھوت ، جبروت ، ملکوت کے مراتب طے کرتے ہوئے عالمِ ناسوت میں مکمل ہوا۔ انسان کی معراج بھی یہی ہے اور معراج النبیؐ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ بندہ عالمِ ناسوت سے اپنی ابتدا کی جانب سفر طے کرے جو کہ نورِ محمدی ہے اور اس سفر میں وہی کامیاب و کامران ہو سکتا جو ظاہر و باطن میں کسی مرتبے یا مقام کی جانب توجہ نہ کرے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معراج کی رات کیا تھا۔ امتِ مسلمہ کو باطنی معراج کا شرف واقعہ معراج کی نسبت اور وسیلہ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس بات کی سب سے بڑی گواہی یہی ہے کہ سفر ِ معراج سے واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو نمازکا تحفہ عطا کیا اور نماز کو مومنین کی معراج قرار دیا گیا۔
واقعہ معراج اور عصرِ حاضر
جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے واقعہ معراج کی رمز و حقیقت کو سمجھنے کے لیے یا تصدیقِ قلب سے اس پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقتِ محمدیہ پر ایمان رکھا جائے۔ دورِ نبوت میں صحابہ کرامؓ کو یہ شرف آپؐ کے دیدار، قرب اور تربیت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ آپؐ کے ظاہری وصال کے بعد یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ طالبانِ مولیٰ کو یہ شرف آج بھی ویسے ہی حاصل ہوتا ہے جیسا دورِ نبویؐ میں ہوتا تھا۔ آپؐ کے بعد یہ فریضہ حق آپؐ کاباطنی جانشین اور حاملِ امانتِ فقر اور موجودہ دور کا انسانِ کامل و مرشد کامل اکمل سر انجام دیتا ہے۔ مرشد کامل ہی طالبانِ مولیٰ کو دین کی اصل روح سے واقف کرتاہے اور ان کے ظاہر و باطن کو پاک و منور فرما کر حقیقتِ محمدیہ کاراز ان کے قلوب میں سمو دیتاہے۔دورِ حاضرمیں یہ فریضہ حق آپؐ کے باطنی جانشین اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ادا کر رہے ہیں۔ متلاشیانِ حق کو اس عظیم سلسلہ سے جڑنے کی دعوت دی جاتی ہے۔جو آئے اس کے لیے در کھلا ہے اور جو نہ آئے تو اللہ پاک کی ذات بے نیاز ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو واقعہ معراج میں پوشیدہ حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
استفادہ کتب :
مرآۃ العارفین : تصنیفِ لطیف سیدّالشہداحضرت امام حسینؓ
الرسالۃ الغوثیہ : تصنیفِ لطیف سیدّنا شیخ عبد القادر جیلانیؓ
حقیقت ِ محمدیہ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
فلسفہ معراج النبیؐ : ڈاکٹرمحمد طاہر القادری
بہترین مضمون ہے
بہت اچھا لکھا گیا ہے ۔ماشااللہ
حقیقتِ محمدیہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر شے نے ذاتِ حق تعالیٰ سے وجود پایا ۔
متلاشیانِ حق کو اس عظیم سلسلہ سے جڑنے کی دعوت دی جاتی ہے۔جو آئے اس کے لیے در کھلا ہے اور جو نہ آئے تو اللہ پاک کی ذات بے نیاز ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو واقعہ معراج میں پوشیدہ حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
واقعہ معراج کی رمز و حقیقت کو سمجھنے کے لیے یا تصدیقِ قلب سے اس پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقتِ محمدیہ پر ایمان رکھا جائے۔
درحقیقت’’ حقیقتِ محمدیہ‘‘ پر ایمان لائے بغیر واقعہ معراج کی رمز و حقیقت طالبِ مولیٰ پر عیاں نہیں ہوتی۔ تصنیف مبارکہ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں :
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
Behtareen
Very informative article
واقعہ معراج آپؐ کے مرتبہ کاملیت کا اظہار ہے جہاں اللہ پاک نے اپنے محبوب کو قرب در قرب کے لمحات عطا کر کے ایسا شرفِ ملاقات عطا کیا جس کی التجا حضرت موسیٰ علیہ السلا م کرتے رہے
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت جبرائیل ؑامین سے ارشاد فرمایا ’’اے جبرائیل ؑ!میری قوم (واقعہ معراج میں )میری تصدیق نہیں کرے گی۔ جبرائیلؑ نے فرمایا ’’ابو بکرؓ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے نور سے پیدا کیا اور تمام کائنات کو آپؐ کے نور سے زندگی بخشی ۔
صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ❤️
یہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقتِ محمدیہ کا وصف ہے کہ آپؐ کو کامل معراج نصیب ہوئی
مرشد کامل ہی طالبانِ مولیٰ کو دین کی اصل روح سے واقف کرتاہے اور ان کے ظاہر و باطن کو پاک و منور فرما کر حقیقتِ محمدیہ کاراز ان کے قلوب میں سمو دیتاہے.
اللہ پاک ہم سب کو واقعہ معراج میں پوشیدہ حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
Very well written
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
حقیقتِ محمدیہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر شے نے ذاتِ حق تعالیٰ سے وجود پایا ۔
واقعہ معراج آپؐ کے مرتبہ کاملیت کا اظہار ہے جہاں اللہ پاک نے اپنے محبوب کو قرب در قرب کے لمحات عطا کر کے ایسا شرفِ ملاقات عطا کیا جس کی التجا حضرت موسیٰ علیہ السلا م کرتے رہے ۔
لکھوں کروڑوں درود و سلام ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آپ کی آل مبارک پر آپ کے اصحاب پر
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
Beshak mukamal eman yehi hai ke yaqeen kia jaye
Behtreen mazmoon
بہت بہترین مضمون ہے۔
متلاشیانِ حق کو اس عظیم سلسلہ سے جڑنے کی دعوت دی جاتی ہے۔جو آئے اس کے لیے در کھلا ہے اور جو نہ آئے تو اللہ پاک کی ذات بے نیاز ہے ۔ اللہ پاک ہم سب کو واقعہ معراج میں پوشیدہ حقیقتِ محمدیہ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور بہترین مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
بہترین آرٹیکل
بہت اعلی مضمون ہے