وسعتِ رحمتِ مصطفیٰ- Wast-e-Rehmat Mustafa
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری ۔سیالکوٹ
رحمت اس جذبہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ذات دوسری ذات کے ساتھ محبت و شفقت،لطف وکرم اور فضل و احسان کا برتاؤ کرتی ہے اور انہیں موت سے زندگی، اندھیرے سے اجالے اور بے قراری سے امن وسکون کی طرف لے جاتی ہے۔یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کے اندر کم وبیش ودیعت فرمایا ہے اسی وجہ سے ایک جانور بھی اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور اسے دشمنوں کا شکار ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
مگر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ رحمت کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشا ہے اور انسانوں میں سب سے زیادہ رحمت والااپنے پیارے حبیب حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بنا کر بھیجااور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کو زمان ومکان، دوست و دشمن، انسان وحیوان کی تمام تر قیود سے الگ کر کے ارشاد فرمایا:
اے محبوبؐ! ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (سورۃالانبیا۔107)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ عزّوجل کے تمام انبیا و مرسلین ’’رحمت‘‘ تھے، مگر ’’رحمتہ اللعالمین‘‘ نہیں تھے۔ ان کی شانِ رحمت اپنی قوم، اپنے علاقے، اپنے دور اور اپنے زمانے تک محدود تھی جبکہ رحمتِ مجسم، محسنِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت و شفقت کا دائرہ ہر عہد، ہر زمانہ، ہر قوم، اپنے پرائے، جملہ کائنات اور جملہ مخلوقات یہاں تک کہ تمام جہانوں اور دنیا و آخرت پر محیط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کے لئے محدود نہ تھابلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس طرح اپنے دوستوں کے لئے رحمت تھے ویسے ہی اپنے دشمنوں کے لیے بھی، جیسے تمام انسانوں کے لیے رحمت تھے ویسے ہی تمام حیوانوں کے لیے بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ہر پہلو میں رحمت کے جلووں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ ربّ العزت نے تمام بنی نوع انسان کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پوری انسانیت کے دکھوں اور مشقتوں پر گرانی محسوس کرنے والے، ہر مومن و غیر مومن کی بہتری اور بھلائی کے خواہاں اور کوشاں رہنے والے ہیں تاکہ ہر کوئی بھلائی سے ہمکنار ہو جائے۔
بعثتِ مصطفیٰؐ۔۔رحمتِ الٰہیہ
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مشرکین نے سخت تکالیف پہنچائیں، آپؐ پر پتھر برسائے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جسد مبارک لہولہان ہو گیا تو یہ حال دیکھ کر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:
یارسول اللہؐ! ان مشرکین کو(جنہوں نے آپؐ کو تکلیف پہنچائی ہے) بددعا دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں فرمایا ’’ نہیں، میں ان کے لیے بددعا نہیں کروں گا کیونکہ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘(مسلم6613)
تاجدارِ رسالتؐ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں کے لیے رحمت ہیں، دین و دنیا میں رحمت ہیں، جنات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں، مومن و کافر کے لیے رحمت ہیں، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لیے رحمت ہیں الغرض عالم میں جتنی چیزیں داخل ہیں، سیدّ المرسلینؐ ان سب کے لیے رحمت ہیں چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا۔ مومن کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بدولت اس کے دنیوی عذاب کو مؤخر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔
اللہ ربّ العزت نے آپؐ کے وجودِ مبارک، قلبِ اطہراور ظاہر و باطن کو اپنی رحمت کا منبع اور سرچشمہ بنایا ہے۔ آپؐ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
عالمِ انسانیت کے لیے پیکرِ رحمت
عالمِ انسانیت کی عذابِ الٰہی سے نجات کے لیے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت فکرمندی کااظہار فرماتے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے حبیبِ مکرمؐ) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جان (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس کلامِ(ربانی) پر ایمان نہ لائے۔ (سورۃالکہف۔6)
یہ آیت جہاں اللہ ربّ العزت کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے محبت کی مظہر ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انسانیت کے لیے بے پایاں محبت و شفقت اور رحمت کی عکاس بھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت، شفقت اور درد مندی کا عالم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منکرین کے مبتلائے عذاب کا سوچ سوچ کر اپنی جان کو مشقت میں مبتلا کر رہے ہیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انسانیت کے لیے بھلائی اور خیر کی طلب کے اِسی روّیہ کو اللہ ربّ العزت نے اس طرح بیان فرمایا:
سو ( اے جانِ جہاں!) ان پر حسرت اور فرطِ غم میں آپؐ کی جان نہ جاتی رہے، بے شک وہ جو کچھ سرانجام دیتے ہیں اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔(سورۃ فاطر۔8)
اسلام قبول نہ کرنے کے سبب ان لوگوں کا انجام ہلاکت اور عذابِ جہنم صاف دکھائی دینے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غم، حسرت اور پریشانی لاحق ہوتی جا رہی تھی۔ اس پر اللہ ربّ العزت نے فرمایا کہ ان لوگوں کے حال اور انجام پر اتنا غمزدہ نہ ہوں کہ کہیں یہ پریشانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جان کو ہی نقصان نہ پہنچا دے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فریضہ صرف دعوت دینا ہے قبول کرنے کی ذمہ داری ان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی ذمہ داری ادا فرماتے رہیں مگر ان کی طرف سے عدم قبولیت پر فکرمند نہ ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انسانیت کے لیے رحمت و شفقت کا عالم تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن آپ کو پتھر مارتے ہیں، جنگ کرتے ، تلواریں چلا کر جسدِ اقدس کو لہولہان کرتے ہیں، سازشیں بھی کرتے ہیں اور وطن سے بھی نکالتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سب کے باوجود ان کی بھلائی کے لیے فکرمند اور غمزدہ رہتے ہیں کہ کاش یہ اسلام قبول کر کے آخرت کے دردناک عذاب سے بچ جائیں۔
اُمت کے لئے رحمت
یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مبارک حیات کا ایسا پہلو اور گوشہ ہے کہ جس کا مکمل بیان تحریرکی قید سے باہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُمت کے لیے اس قدر رحیم و شفیق ہیں کہ ربّ العالمین نے اُمت سے یوں ارشاد فرمایا :
بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان۔(سورۃالتوبہ ۔ 128)
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چار اوصافِ مبارکہ کا ذکر فرمایا جو کہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی اُمت پر رحمت کا بیان کرتے ہیں۔ ’’تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر گراں ہے‘‘ ،’’ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں‘‘،’’ کمال مہربان ہیں‘‘ اور ’’رحم والے ہیں‘‘۔
کیسے رحیم و کریم آقا ہیں کہ دنیا میں تشریف لاتے وقت بھی اُمت کی فکر تھی تو پردہ فرماتے وقت بھی لب ہائے اقدس پر بخششِ اُمت ہی کے الفاظ تھے، ان کی راتیں سجدۂ بارگاہِ الٰہی میں گزر جاتیں اور اُمت پر غفرانِ الٰہی کا سوال کرتے رہتے، وہ جو خود لوگوں کو جنت بانٹتے تھے اور یقینا جنت اور بارگاہِ الٰہی میں اپنا مقام و مرتبہ خوب جانتے تھے پھر بھی دوزخ کے دہکائے جانے کی خبر ملی تو اُمت پر رحمت و شفقت کے سبب بہت زیادہ روئے۔
اُمت کے لئے اپنی رحمت کا بیان اپنے ہی الفاظ میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے اِردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ!جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ!اور تم لوگ میری بات نہ مان کر(پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح)جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔ (مسلم 5957)
وجودِ مصطفیؐ کے صدقے عذاب کا ٹلنا
اللہ ربّ العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام عالمِ انسانیت اور جمیع مخلوقات کے لیے سراپا رحمت و شفقت بنایاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موجودگی کے سبب کفار اور مشرکین پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا۔ سورۃ الانفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے جبکہ(اے حبیب ِمکرمؐ)آپ بھی ان میں موجود ہوں۔ (سورۃ الانفال۔33)
کفار و مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ ماننے میں تعصب اور انتہا پسندی کی حد کر دی تھی مگر جیسے پہلے لوگوں پر انبیا کے منکر ہونے پر مختلف عذاب نازل ہوتے تھے یہ لوگ اس سے بھی دردناک عذاب کے مستحق تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک وجود کی برکت سے عذابِ الٰہی سے دور رہے۔ اللہ ربّ العزت نے وجودِ مصطفیؐ کی برکت سے عذاب نہ آنے کے ذکر کے بارے میں فرمایا:
اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔(سورۃالانفال۔33)
بشیر و نذیر صفات میں رحمت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور (اے حبیبِ مکرم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری اور ڈر سنانے والے ہیں۔ (سورۃسبا۔ 28)
’’بشیر اور نذیر‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صفات کا اظہار ہے۔ خوشخبری سنانے اور ڈر سنانے کے دونوں افعال میں رحمت کا اظہار کار فرما ہے۔ خوشخبری سنانا رحمت کا اظہار ہے مگر ڈر سنانے کا عمل بھی درحقیقت رحمت ہی ہے اس لیے کہ بعض لوگ جو خوشخبری سن کر مائل بہ ہدایت نہیں ہوتے، ان کے دل کی سختی نہیں ٹوٹتی انہیں اللہ کا ڈر اور اس کی پیدا کردہ ہلاکت انگیز کیفیات سنائی جاتی ہیں تاکہ وہ اللہ کے خوف اور دوزخ کے ڈر سے ہی ہدایت قبول کرلیں اور عذاب سے بچ جائیں۔ اس طرح دونوں صورتوں میں رحمت ہے ان دونوں صورتوں میں رحمت ہونے کے باوجود بھی بشیر میں ظاہراً خوشخبری، کثیر رحمت و شفقت اور نرمی کا اشارہ ہے جبکہ اسمِ نذیر میں خوفزدگی کی بھی کیفیت ہے۔ اللہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دونوں شانوں کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خوشخبری سنانے والا پہلے بیان کیا اور عذاب و آخرت کا ڈر سنانے والا بعد میں بیان کیا کیونکہ بشیر میں نرمی اور محبت کا رُخ ہے۔ دونوں صفات کا مقصود اللہ کے عذاب سے بچاناہے اور دونوں ہی رحمت ہیں۔سورۃ الاحزاب میں اللہ پاک نے ارشادفرمایا:
اے نبی (مکرم!)بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (سورۃالاحزاب۔45)
شفاعتِ مصطفیؐ
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غمزدہ اور اشکبار تھے کہ جبرائیل امینؑ اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آئے کہ یارسول اللہؐ ! اللہ ربّ العزت نے پوچھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس قدر پریشان ، غمزدہ اور دکھی کیوں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا ’’مجھے یہ غم ہے کہ قیامت کے دن میری اُمت کا کیا حال ہوگا؟؟‘‘ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
’’اور آپ کا ربّ عنقریب آپ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘ (سورۃ الضحی۔5)
یعنی اے حبیبؐ! آپ غمزدہ نہ ہوں بلکہ خوش اور مطمئن ہو جائیں کیونکہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ربّ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ، آپ کی اُمت کے معاملے میں راضی فرما دے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غمزدہ نہ دیکھنے کے لیے اس نے یہ پیمانہ مقرر کر دیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس انداز سے خوش فرمائے گا کہ وہ اپنی بخشش و مغفرت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت اتنی فراوانی کے ساتھ قبول کرے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بذاتِ خود فرمائیں گے کہ مولا اب میں راضی ہوں۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
ہر نبی کو ایک خاص دعائے مستجاب کا حق ہوتا ہے جو وہ کرتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ اپنی اس خاص دعا کو آخرت میں اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے مؤخر کر کے رکھوں۔(بخاری6304)
حضرت نوح علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب انہوں نے پورے 950 سال تبلیغ کرنے کے بعد دیکھا کہ ان کی قوم بلکہ ان کی نسلیں بھی کفر سے باز آنے والی نہیں تو انہوں نے دعا کی کہ اے باری تعالیٰ! ان کو تباہ و برباد کردے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ان کی نسلوں میں سے بھی کوئی مومن پیدا نہیں ہو گا۔ اس دعا کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر طوفان آیا اوراہلِ کفر کی تمام بستیاں ہلاک ہو گئیں۔
مختلف وقتوں میں انبیا دعائیں کرتے رہے جن کے نتیجے میں کفارپر عذاب آئے اور مومنین کو نجات ملی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دریائے نیل پھٹ گیا اور آپ علیہ السلام اپنی قوم کو دریا سے کنارے پر لے آئے جبکہ فرعون اسی دریا میں لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ رحمت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے باقی انبیا کی طرح اپنی قوم کے لیے بددعا نہیں فرمائی حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم طائف والوں کی بدسلوکی کے پیشِ نظر پہاڑ کی آڑ میں کھڑے تھے اور جبریلؑ امین نے حاضر ہو کر عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اللہ ربّ العزت نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر آپ حکم دیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ملا کر ان بدبختوں کو پیس کر تباہ و برباد کردوں یا اس پوری بستی کو اٹھا کر بلندیوں سے اس طرح گراؤں کہ زمین کے اس خطے پر قیامت تک کوئی نسل پیدا نہ ہو۔‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس وقت بھی اس دعا کو استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی شانِ رحمت کو اس طرح بیان فرمایا:
’’مجھے رحمت ہی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘(مسلم6613)
بعد از وصال بھی عطائے رحمتِ مصطفیؐ
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میری حیات بھی تمہارے لیے باعثِ خیر ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ) تین بار فرمایا اور میرا وصال بھی تمہارے لیے باعثِ خیرہے اور( آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بھی) تین بار فرمایا۔ پھر جب لوگ خاموش ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان ہوں! یہ کیسے ہو گا (وفات کیسے باعثِ خیر ہو گی)؟؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’میری حیات تو تمہارے لیے (اس طرح) باعثِ خیر ہے کہ مجھ پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے۔میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کون سی چیز تم پر حلال ہے اور کون سی شے تم پر حرام ہے۔میری وفات تمہارے لیے اس طرح باعثِ خیر ہے کہ تمہارے اعمال ہر جمعرات مجھ پر پیش کیے جائیں گے پس اگر وہ اعمال بہتر ہوئے تو اس پر اللہ کی حمد و ثنا کروں گا اور اگر وہ اعمال برُے ہوئے تو میں تمہارے لیے اللہ سے تمہارے گناہوں کی معافی طلب کروں گا۔‘‘ (دیلمی)
کائنات میں نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کوئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جس کی رحمت و شفقت، احسان و انعام اس حالت اور اس کیفیت میں بھی اپنے عروج پر رہے۔ جسے اس غم و غصہ کی انتہائی کیفیت میں بھی اپنے جذبات پر اتنا ضبط ہو کہ وہ اپنے دامنِ رحمت کو تمام انسانیت پر تانے رہے اور اپنے مرتبہ رحمتہ اللعالمین سے ایک لمحہ بھی پیچھے نہ ہٹے، بلاشبہ یہ مقام ساری کائنات میں صرف ایک ہی فردِ مقدس کو حاصل ہوا ہے جو ہمارے نبی، سردار اور آقاؐحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔
مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
جب اللہ ربّ العزت جمیع مخلوقات پر اپنی رحمت و شفقت اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کی بات کرتا ہے تو خود کو ربّ العالمین کہتا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رحمتہ اللعالمین فرماتا ہے۔ اس لیے کہ وہی سارے جہانوں اور جمیع طبقات کا پرورش کرنے والاہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمیع جہانوں اور تمام طبقاتِ مخلوق کے لیے رحمت و شفقت ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمتِ مجسم ہیں لیکن صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرّے کے لیے، شجر و حجر کے لیے، بحر و بر کے لیے ، نباتات و جمادات کے لیے۔ یعنی کائنات کی ہر شے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کا فیض ہر شخص تک پہنچا اور کائنات کی ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت سے مستفیض ہوئی اور تاحال ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت جاری رہے گا۔ دوست تو دوست آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خون کے پیاسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیضانِ رحمت سے محروم نہیں رہے۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ہر واقعہ اور حیاتِ مبارکہ کے ہر معاملہ میں رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے۔ آپؐ کی محبت و شفقت صرف بڑوں اور نوجوانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپؐ کا مبارک وجود معصوم اور چھوٹے بچوں کے لیے بھی سراپا رحمت و شفقت تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بچوں سے بہت پیار فرماتے تھے۔ جب آپؐ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپؐ کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ بچیاں آپؐ کے آنے کی خوشی میں گیت گارہی تھیں۔
حضرت عبد اللہ بن شدادؓ اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں:
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز میں حضرت حسنؓ یا حسینؓ کو ساتھ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نماز پڑھائی، دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سجدہ طویل فرمایا، حضرت شدادؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپؐ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ان میں سے کوئی بات نہ تھی بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں۔‘‘ (مسند احمد28199)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سارے عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ابرِ رحمت جہاں انسانی طبقات پر برسا وہیں جانوروں اور چرند پرند پر بھی برسا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بے زبان جانوروں کے متعلق اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر بھلے طریقے سے سواری کرو اور بھلے طریقوں سے انہیں کھلاؤ۔ (ابوداؤد 2548)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جانوروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا اور جو جانور جس کام کے لیے ہے اس سے وہی کام لینے کی تاکید فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جانوروں کو بھوکا رکھنے سے منع فرمایا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے۔اس میں ایک اونٹ تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ کر سسکنے لگا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے پاس گئے اس کی گردن اور کوہان کو سہلایا تو اونٹ نے سسکنا بند کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دریافت کیا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان آیا اور کہا اے اللہ کے رسولؐ!یہ میرا اونٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ کیا تم اس جانور کے بارے میں اللہ سے ڈرتے نہیں ہو جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے؟ یہ اونٹ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس کو خوب تیز ہانکتے ہو۔‘‘(ابوداؤد2549)
ایک چڑیا کے بچے کو کوئی اٹھا لیتا تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی بے قراری پر خود بے قرار ہوجاتے اور فوراً اس کے بچوں کو واپس دلاتے۔
صرف یہی نہیں بلکہ وہ جانور جنہیں ذبح کرنا مقصود ہوتا ان پر بھی وقتِ آخر نرمی کرنے کا فرماتے، اس کے سامنے چھری تیز نہ کرنے اور تیز ترین چھری کے ساتھ ذبح کرنے کی تلقین فرماتے تاکہ اسے زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دورانِ سفر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جانوروں کو چرنے کا موقع دیا جائے۔ جانوروں پر زیادہ افراد سوار کئے جانے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منع فرمایا حتیٰ کہ جانوروں کو برُا بھلا کہنے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منع فرمایا، چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
مرغ کو گالی نہ دوکیونکہ وہ نماز کے لئے بیدار کرتا ہے۔ (ابوداؤد 5101)
اس مختصر مضمون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، آپ کی صفتِ رحمت کے چند پہلو ہی پیش کئے گئے ہیں۔ جب ہم اپنے قول و فعل سے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کریں گے اس نبیؐ کی جس نے اذیت کے بدلے میں اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کیا، جس نے تمام مخلوقات کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا، جو تمام دنیا کے لئے رحمت ہیں، تبھی ہم دنیاو آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ پس ہم مسلمانوں سے خدائے بزرگ و بر تر کا اک یہی تقاضا ہے کہ ہم اس عظیم نمونہ کی پیروی کریں، اللہ حاکم الحاکمین نے امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کو پوری انسانیت کیلئے اسوۂ حسنہ قرار دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ کی ذاتِ اقدس بہترین نمونہ ہے۔ (سورۃالاحزاب۔21)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیشہ امن و امان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔ اس صابر و شاکر ہستی نے ہر اچھی چیز کو اپنانے یا اس پر عمل کرنے کی تاکید کی، ہم اس عظیم نبی کے نام لیوا ہیں جنہوں نے اپنوں کے ظلم و ستم کو برداشت کیا، بڑی زیادتی کے بعد بھی صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوا، جنہوں نے قول و فعل میں نرمی اختیار کرنے کی دعوت دی، اگر ہم حقیقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنا چاہیں تو ہمیں ان کی صفات سے مزین ہونے کی ضرورت ہے۔انؐ کے اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تلوار کی قوت سے نہیں بلکہ اپنی رحیم و کریم صفات و خصائل سے لوگوں کے دل جیتے۔
اللہ تعالی ہم سب کوآپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
💕💗💕💕
Very beautiful ❤️ and informative article
مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
اللہ ربّ العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام عالمِ انسانیت اور جمیع مخلوقات کے لیے سراپا رحمت و شفقت بنایاہے۔
Rehmat e Mustafa saw pe lakhoun salam
SubhanAllah very nice
Bohat alla
Behtareen ❤️
یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ کی ذاتِ اقدس بہترین نمونہ ہے۔ (سورۃالاحزاب۔21)
Great article
Behtreen mazmoon
اے محبوبؐ! ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (سورۃالانبیا۔107)
مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
اے محبوبؐ! ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (سورۃالانبیا۔107)