الف
اسم اللہ ذات کے ثمرات
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق طالب کے قلب و قالب کو سر سے قدم تک اس طرح پاک کر دیتی ہے جس طرح پانی اور صابن ناپاک اور پلید کپڑے کو پاک کر دیتے ہیں۔ تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق طالب کے مردہ وجود اور قلب و قالب کو اس طرح زندہ کر دیتی ہے جس طرح بارانِ رحمت کے قطروں سے خشک زمین تر و تازہ ہو جاتی ہے اور زمین سے سبزہ اگتا ہے۔ تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق کی کثرت سے جسم پر جتنے بھی بال ہیں ان تمام بالوں کی زبان پر ذکر ِ اللہ یَا اَللّٰہُ جاری ہو جاتا ہے۔ تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق کرنے والا تمام عمر شیطان اور اہل ِ شیطان کے شر سے پناہ میں آجاتا ہے اور تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق کرنے والا دوزخ کی آگ سے نجات پاتا ہے۔ تصور اسم ِ اللہ ذات کی مشق کرنے والے کی قبر خلوت خانہ اور دلہن کی خوابگاہ کی مثل ہوتی ہے اور اسے دیکھتے ہی منکر نکیر مؤدب ہو جاتے ہیں اور لب بستہ و حیران رہ جاتے ہیں اور اسکی تعریف کر کے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق طالب کے لیے راہِ سلوک جو کہ فقر کے اسرار کی راہ ہے‘ کا راستہ مختصر کر دیتی ہے اور تصور کی مشق کرنے والا ہمیشہ انبیا و اولیا کی مجلس میں ان سے ملاقات کرتا ہے جن میں سے بعض کو وہ جانتا ہے اور بعض کو نہیں جانتا۔ جن کو وہ جانتا ہے وہ ولی اللہ ہیں جو ذکر ِ اللہ کی جلالیت کی بدولت وجد میں آکر شوریدہ حال اور پُرجوش ہو گئے ہیں اور جن کو وہ نہیں جانتا انہوں نے خود کو اللہ کی قبا تلے پوشیدہ رکھا جیسا کہ حدیث ِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اَوْلِیَآئِیْ تَحْتَ قَبَائِیْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِیْ
ترجمہ: بے شک میرے ایسے اولیا بھی ہیں جو میری قبا تلے (پوشیدہ) ہیں جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
تصور اسم ِاللہ ذات کی مشق کرنے والے سے دوزخ کی آگ ستر سال کی دوری پر چلی جاتی ہے اور جنت اس کی طرف ستر سال کا فاصلہ طے کر کے اس کا استقبال کرتی ہے۔ (اقتباس از کتاب کلید التوحید کلاں)
اسم اللہ ذات اس مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سے حاصل ہوتا ہے جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے اسے عطا کرنی کی اجازت ہو۔ دورِ حاضر میں وہ ہستی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جنہوں نے اسم اللہ ذات کے فیض کو دنیا بھر میں عام فرما دیا ہے۔ جس کی بدولت طالبانِ مولیٰ اسم اللہ ذات کے تمام فیوض و برکات جی بھر کر سمیٹ رہے ہیں۔