حیاتِ قلب
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری (سیالکوٹ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: ’’بیشک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب اس کی اصلاح ہوتی ہے تو سارے جسم کی اصلاح ہوتی ہے اور اگر یہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے ، جان لو کہ وہ ٹکڑا قلب ہے۔‘‘
وجودِ انسانی میں دل ایک عضلاتی عضو ہے جو تمام جسم میں خون فراہم کرتا ہے۔ اس کی حرکت (دھڑکن) نہ رکنے والی حرکت ہے جو قبل ازپیدائش تا دمِ مرگ جاری رہتی ہے۔ دل کو انسانی وجود کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام جسم کو خون فراہم کر کے وجود کی بقا کا ضامن ہے۔ اس لیے دل بادشاہ کے طور پر اور تمام جسم رعایا کے طور پر عمل کرتے ہیں۔ دل کا دھڑکنا ہی حیاتِ انسانی کی علامت ہے۔ دل کی دھڑکن کے بند ہو جانے کو موت تصور کیا جاتا ہے۔
صوفیا کرام کے نزدیک قلب سے مراد انسان کا باطنی اور روحانی وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عرش قرار دیا۔ یہی خیر و شر کا مرکز ہے، یہی وجود کا بہترین حصہ ہے اور یہی شیطان کا آلہ کار بننے پر بدترین حصہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ قلب ہی وہ جگہ ہے جہاں سے انسان کے تمام احساسات، جذبات اور مزاج جنم لیتے ہیں جو پوری شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی کوششوں کا من چاہا نتیجہ حاصل نہ ہو تو ہمارا دل اداس ہوجاتا ہے جبکہ پسندیدہ چیز پا لینے سے یہ خوش ہو جاتا ہے۔
اسلام میں کوئی بھی عبادت یا نیکی کا کام تب تک قبول نہیں ہے جب تک کہ اسے قلبی طور پر ادا نہ کیا جائے۔ قلب کے اندر مومن نور اور ہدایت وصول کرتا ہے، وہ ذکر کے ذریعے قلب سے اپنے خالق کو یاد رکھتا ہے تاکہ اس کی روح ترقی پائے۔
فرمودات
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
انسان کے بدن میں ایک ایسا ٹکڑا ہے جو تمام بدن سے افضل ہے اسے قلب یا دل کہتے ہیں، اس میں حکمت اور جہالت دونوں کے مواد اور قوتیں موجود ہیں۔
سب سے اچھا وہ شخص ہے جس کا نفس دنیا سے متنفر اور اس کا دل اس کی رغبت سے خالی ہو۔
پاک بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کی نظر کرنے کی جگہ ہیں۔
(اقوال حضرت علیؓ)
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ دل کے بارے میں فرماتے ہیں:
جب دل پاک ہو جاتا ہے تو تمام اعضا بھی پاک ہو جاتے ہیں، جب دل صحیح ہو جاتا ہے تمام اعضا صحیح ہو جاتے ہیں۔ جب دل کو خلعت عطا ہوتا ہے تو جسم کو بھی خلعت عطا ہوتا ہے۔جب یہ گوشت کا ٹکڑا صالح ہو جاتا ہے تو تمام جسم بھی صالح ہو جاتا ہے۔ دل کی صحت اور درستی باطن کی درستی کا باعث بن جاتی ہے جو کہ آدمی اور اس کے پروردگار کے درمیان ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس41)
جب دل درست ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف تمام چیزوں سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ دل جب قرآن و حدیثِ نبویؐ پر عمل کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے اور جب وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے تو دانا اور بصیر ہو جاتا ہے اور وہ تمام چیزیں جو کہ اس کے نفع اور نقصان کی ہیں اور جو چیز اللہ تعالیٰ اور غیر اللہ کے لیے ہے اور جو کہ حق اور باطل ہے وہ سب کو پہچان لیتا ہے۔ ( الفتح الربانی۔مجلس 59)
اگر تیرا دل مہذب ہو جاتا تو یقینا تیرے اعضا مہذب بن جاتے کیونکہ دل اعضا کا بادشاہ ہے۔ پس جب بادشاہ مہذب بن جاتا ہے تو رعیت بھی مہذب بن جاتی ہے۔ (الفتح الربانی۔مجلس29)
یہاں بھی دل سے مراد قلب یا باطنی وجود ہی ہے۔
شاہ محمد ذوقیؒ اپنی تصنیف ’’سرِّ دلبراں‘‘ میں لکھتے ہیں:
قلب اپنی اس فطرت کے مطابق جس پر کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے، رہتا ہے تو اس کے لیے تمام امور اسی کی مرضی کے مطابق منقلب ہو جاتے ہیں اور وجود میں جیسا چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ جس فطرت پر اللہ نے اسے پیدا کیاہے وہ اسما و صفات ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ:
بندہ کا قلب اللہ کا عرش ہے جس میں حق تعالیٰ بالذات ظاہر ہوتا ہے۔ رحمن اس پر مستوی ہے۔ وہ اسرارِ الٰہیہ کا مرکز اور تمام اعیان و مخلوقات کے دوائر کا احاطہ کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا قلب اس کا خلاصہ ہوا کرتا ہے۔ قلب ِانسانی بھی اللہ تعالیٰ کا نور ہے جس کی ایک چمک تمام مخلوقات و موجودات کا خلاصہ ہے۔ اس کی یہ خاصیت ہے کہ لوٹ پوٹ کو جلد قبول کرتا ہے کیونکہ وہ ایک نقطہ ہے جس پر تمام اسما وصفات کا دور گردش کرتا رہتا ہے۔ جب کسی اسم یا صفت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے حکم کے منطبع ہو جاتا ہے۔ (سر دلبراں)
لیکن جدید دور کی رنگینیوں میں کھو کر انسان اپنے قلب کے نور کو ظلمت سے بدل دیتا ہے اور جب قلب جہالت کے اندھیروں میں گم ہو جائے تو اس میں ذاتِ حق تعالیٰ کیسے عیاں ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار کر کے ہم محض نفسانی خواہشات اور لذات کے مطیع ہو گئے ہیں۔ دل جو انسان کے ظاہری وجود کی بقا کا ضامن ہے اس کی دھڑکن کو انسانی حیات تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اللہ ربّ العزت نے اسے زندگی اور موت قرار نہیں دیا کیونکہ گوشت سے بنے اس دل کا تعلق تو ظاہری جسم سے ہے جبکہ قلب کا تعلق روح سے ہے۔ اگر یہی قلب زندہ ہو تو جسمانی وجود مر کر بھی زندہ ہی رہتا ہے لیکن اگر یہی قلب مردہ ہو جائے تو جسمانی وجود بظاہر زندہ لیکن درحقیقت مردہ ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’قلب کا زندہ‘‘ ہونا سے کیا مراد ہے؟ اگر انسان کا دل روحانی طور پر زندہ ہو جائے تو اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آجاتا ہے یہی حیاتِ قلب ہے۔ جیسا کہ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’بھلا وہ شخص جو مردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اس کے لیے (ایمان ومعرفت) کا نور پیدا فرمایا (اب) وہ اس کے ذریعے (دیگر) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ (سورۃ الانعام۔122)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے پہلی قسم کے وہ لوگ ہیں جو مردہ تھے اور ان کو اللہ پاک نے زندہ فرمایا اور دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنایا۔ یہاں زندہ ہونے سے مراد ظاہری طور پر زندہ ہونا نہیں بلکہ دل کا زندہ ہونا ہے۔ دوسری قسم کے وہ لوگ جن کے دل مردہ ہیں اور ان پر ہدایت کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ دل کے مردہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی روشنی سے محروم ہیں اور (گمراہی کے) اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں جبکہ دل کے زندہ ہونے (حیاتِ قلب) کا مطلب ہدایت کا نور ہے۔ اور ہدایت کا نور پانے کے لیے اور دل کے زندہ ہونے کے لیے دل کی اصلاح بہت ضروری ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
کوش تا دل زندہ گردد و تن جوازے بزنگ ہا
مردہ را کے سود دارد گور با نقش و نگار
ترجمہ: اپنے دل کو زندہ کرنے کی کوشش کر تاکہ اعمالِ تن کے زنگ سے تجھے نجات ملے۔ دل کو زندہ کیے بغیر صرف اعمالِ تن کی زیب و زینت بالکل ایسے ہی بے سود ہے کہ جیسے مردہ کے لیے اس کی قبر پر نقش و نگار بیکار اور بے سود ہوتے ہیں۔ (سلطان الوھم)
اصل زندگی تو حیاتِ قلب ہے۔ دل کے زندہ ہونے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے نزدیکی ہے جبکہ دل کا مردہ ہونا اللہ تعالیٰ سے دوری ہے۔ اللہ سے جڑنے والا دل زندہ اور اللہ سے دوری اختیار کرنے والا دل مردہ ہے۔ بقول اقبالؒ
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
اگر انسان کا دل مر جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو گیا ہے۔ لیکن اگر دل زندہ ہو تو اللہ ربّ العزت اس دل کے قریب ہوتا ہے اور دل کی اسی حیات کو معرفت کہا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل زندہ کیسے ہوتا ہے؟ دل اس وقت زندہ ہوتا ہے جب وہ دل کو زندہ کرنے والے کے ساتھ جڑ جائے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیف مبارکہ ’’نور الہدی کلاں ‘‘ میں فرماتے ہیں:
زندگانی قلب دانی از کجا
در نظر منظور وحدت باخدا
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے حیاتِ قلب کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اللہ کی نظرمیں منظور ہو کر وحدت تک رسائی حاصل کرنے سے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
مرشد کامل اکمل ہی دل کو زندہ کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ سلطان الوھم میں فرماتے ہیں:
مرشد کامل ہی وہ طبیب ہے جو طالبِ صادق کی تمام باطنی بیماریوں کو قرآنِ پاک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقہ سے ختم کر کے اسے سیرِوھم عطا کرتا ہے اور طالب کو باطن کی حقیقی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ طالب کو اس حقیقی باطنی راہ کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس راہ میں بہت سے راستے آپس میں متصل ہوتے ہیں۔ پس مرشد کامل مرید کے باطنی حواس کو اپنے تصرف سے بیدار کرتا ہے اور اس کے دل کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔
حکم ہے کہ:
مَنْ اَحْیَا اَرْضًا مَیْتًا فَھِیَ لَہٗ
ترجمہ: جو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے پس وہ اسی کی ہوتی ہے۔
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
مرشد اپنے تصرف سے مرید کے دل کو مکمل طور پر زندہ کرتا ہے اور تمام غیر ماسویٰ اللہ کو دل سے نکال دیتا ہے۔ یہ صرف مرشد کے باطنی تصرف ہی کی بدولت ممکن ہوتا ہے چنانچہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے مریدِ صادق کے حق میں فرماتے ہیں:
ابوبکرؓ کی فضیلت نہ تو کثرتِ نماز کی وجہ سے ہے اور نہ ہی کثرتِ تلاوت و روزہ کی وجہ سے ہے بلکہ ان کے دل میں قرار پکڑنے والی چیز کی وجہ سے ہے۔ (سلطان الوھم)
مرشد کامل اکمل مرید کے قلبی امراض کو دور فرما کر قلب کو برائیوں سے پاک فرماتا ہے۔ مرشد کامل اکمل مرید کو ذکر و تصور اسم ِ اللہ ذات عطا فرماتا ہے کیونکہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر نفس ہرگز نہیں مرتا اور جب تک نفس نہ مرے دل زندہ نہیں ہوتا۔ سروری قادری مرشد کامل اکمل اپنے طالب کو بیعت کے پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھو عطا فرماتا ہے۔ سلطان الاذکار ہی ذکرِخفی ہے جو مردہ قلوب کو حیات بخشتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
اے جانِ عزیز! تمام انبیا، رسل، اولیا اور شہدا کو کمال ذکرِ دل (ذکرِ خفی، سلطان الاذکار) سے حاصل ہوا ہے۔ ذکرِ خفی مرشد کامل اکمل کی عطا ہے۔ زبان سے ذکر کرنا صرف ایک عادت ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ (سلطان الوھم)
اصل ذکر توذکرِ قلبی ہے جو قلب کو حیات بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی دلوں کے سکون کا باعث بنتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ (سورۃ الرعد۔28)
سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اپنے ربّ کا ذکر کرو بغیر آواز اونچی کیے، دل میں خفیہ طریقے سے، خوف اور عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔ (سورۃ الاعراف۔205)
اس آیت مبارکہ میں بھی ذکر ِقلبی کا حکم ہوا ہے۔ جب دل ہر طرح کی خواہشات سے آزاد ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو زندہ ہو جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کے ساتھ جڑنے سے قلب کو ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے جو دنیا و آخرت میں انسان کے لیے نفع بخش اور کامیابی کی ضمانت ہے۔
ایک عارف کا واقعہ:
ایک کامل عارف ولی اللہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جو اِدھر اُدھر گھوم پھر کر کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تجھے کس چیز کی طلب اور تلاش ہے؟ اس نے جواب دیا: میں کوئی ایسی جگہ تلاش کر رہا ہوں جہاں میں یکسوئی سے نماز ادا کروں اور مجھے کوئی پریشان اور تنگ نہ کرے۔اس پر ولی اللہ نے فرمایا: اپنے دل کو اللہ کے سوا ہر چیز سے خالی کر لو پھر جہاں چاہے نماز پڑھو۔
یعنی جب دل غیر اللہ سے بھرا ہوا ہو تو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی دل زندہ ہوتا ہے۔ جب دل ہر طرح سے غیر اللہ سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف اور صرف اللہ رہ جائے تو دل کو حیات ملتی ہے۔
قلوب کی اقسام
اللہ پاک سے جڑنے سے قلب کو جو حیات نصیب ہوتی ہے وہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ قلب کی مختلف کیفیات کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری نے قلوب کی تین اقسام بیان کی ہیں:
قلب معلق بالدنیا:
اس قسم میں ان لوگوں کا شمار ہوتا ہے جن کے قلوب ہر وقت دنیا اور دنیا کی خواہشات اور شہوات کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ جن کی خواہشات لا محدود ہوتی ہیں۔
قلب معلق بالاخرۃ:
اس قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے قلوب آخرت میں اعلیٰ مقامات کے حصول کے خواہشمند ہوتے ہیں جیسا کہ جنت میں اعلیٰ مقام کا ملنا۔
قلب معلق مولیٰ:
یہ وہ لوگ ہے جن کے قلوب سدرۃ المنتہیٰ اور فوق العرش پرواز کرتے رہتے ہیں۔
اللہ کی طرف متوجہ قلوب کو بھی چند اقسام میں بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
قلب منتظر للعطا :
یہ روحانی قلوب ہمیشہ اللہ کی عطا کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ اچھے، روحانی اور اعلیٰ درجے کے قلوب کا حال ہے۔ اس میں آدمؑ کے قلب کی مشابہت ہے۔
قلب منتظر للرضا:
یہ راضی بہ رضا رہنے والے قلوب ہیں جنہیں عطا سے بھی کوئی غرض نہیں۔ یہ قلب ِ ابراہیمی کی مانند ہیں یعنی ان قلوب کا حال وہی ہوتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے قلب کاتھا جس وقت انہیں آگ میں پھینکا گیا۔
قلب منتظر باللقا:
ایسا قلب ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے منتظر رہتے ہیں کہ کب اپنے مولیٰ سے ملاقات ہو گی۔ اللہ ربّ العزت بھی ایسے دل کا مشتاق رہتا ہے۔
حضرت ابو موسیٰؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ (بخاری)
اس قسم کے قلب ہر وقت انتظارِ لقا میں تڑپتے ہیں۔ایسا قلب، قلبِ محمدیؐ کی مانند ہے۔
قلبِ محمدیؐ والوں کے بارے میں شیخ ابو الحسن الشاذلی فرماتے ہیں:
یہ ان سعادت والے لوگوں کا مقام ہے جو اللہ کے ساتھ اس طرح جڑگئے ہیں کہ اللہ سے ملاقات، دیدار اور شوق نے انہیں اللہ سے سوال کرنے سے بھی بے نیاز کر دیا ہے۔ شقی اور بدبخت ہے وہ شخص جو کثرت کے ساتھ سوال کرتا ہے مگر پھر بھی محروم رہتا ہے۔ (قلبی حیات وممات)
جب قلب اللہ پاک کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور اسے استقامت نصیب ہو جاتی ہے پھر وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا چاہے کتنی ہی آندھیاں آتی رہیں۔ ایسا قلب ہر وقت اللہ پاک کی یاد میں محو رہتا ہے اور اس مقام پر مانگنے کی طلب بھی ختم ہوجاتی ہے۔
حدیث قدسی ہے ’’جس کو میرے ذکر کی مشغولیت نے سوال کرنے سے بھی روک دیا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں۔‘‘
زندہ قلوب کی علامات
قلب کے زندہ یا مردہ ہونے کی درج ذیل علامات ہیں:
۱۔دنیا سے لاتعلقی:
زندہ قلب ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی قلب دنیا اور اس کی خواہشات سے بے نیاز ہو۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس دنیا سے لاتعلقی کے بارے میں فرماتے ہیں:
ترکِ دنیا سے مراد دنیا کو چھوڑنا نہیں بلکہ اپنے باطن میں دنیا اور اس کی خواہشوں کو شکست دینا ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکال دی جائے کیونکہ جب تک دل سے دنیا کی ہوس اور محبت نہیں نکلے گی اللہ کی محبت نہیں آئے گی۔
وہ لوگ جن کے قلوب اللہ کی محبت اور اس کے ذکر سے معمور ہیں دنیا کی محبت ان کے قلب میں نہیں سما سکتی۔
۲۔ذکر الٰہی کی طرف رغبت:
اللہ تعالیٰ کے ذکر کا شوق ہونا بھی قلب کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
اس شخص کی مثال جو اپنے ربّ کا ذکر کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے ربّ کا ذکر نہیں کرتا، ایسی ہی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی مثال ہے۔ (بخاری)
۳۔صالحین کی محبت وصحبت:
اولیا و صالحین کی صحبت بھی قلوب کو حیات بخشتی ہے۔ یہ قلب کے خالق اور محافظ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ پاک نے اپنا خاص انعام فرمایا۔ یہ پاک لوگ نور اور برکت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں جو ہر دور میں انسانوں کی راہنمائی اور بھلائی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ صحبتِ صالحین قلوب کے لئے زندگی ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں جو اپنی نگاہِ کاملہ سے مردہ قلوب کو زندگی بخشتے ہیں اور ظلمت کے اندھیروں میں آفتاب کی مانند ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس آج کے پرُفتن دور میں بنی نوع انسان کوصراطِ مستقیم پر گامزن فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نفس کو طہارت اور پاکیزگی عطا فرماکر تقویٰ کی دولت سے مالا مال فرماتے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نورانی صحبت سے مستفید ہونے اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات حاصل کرنے کے لیے تحریک دعوتِ فقر میں شمولیت اختیار کریں تاکہ ان کے قلوب دنیا کی محبت سے نجات پا کر عشقِ حقیقی کی دولت سے سرشار ہوں۔
استفادہ کتب:
سلطان الوھم تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ
نور الہدیٰ کلاں تصنیف ایضاً
حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
سرّ دلبراں تصنیف حضرت شاہ سیّد محمد ذوقیؒ
قلبی و حیات و ممات تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری
اقوال حضرت علیؓ
ماشاءاللہ
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
(اقبال )
اسلام میں کوئی بھی عبادت یا نیکی کا کام تب تک قبول نہیں ہے جب تک کہ اسے قلبی طور پر ادا نہ کیا جائے۔ قلب کے اندر مومن نور اور ہدایت وصول کرتا ہے، وہ ذکر کے ذریعے قلب سے اپنے خالق کو یاد رکھتا ہے تاکہ اس کی روح ترقی پائے۔
ماشاءاللہ
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
صوفیا کرام کے نزدیک قلب سے مراد انسان کا باطنی اور روحانی وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عرش قرار دیا۔ یہی خیر و شر کا مرکز ہے، یہی وجود کا بہترین حصہ ہے اور یہی شیطان کا آلہ کار بننے پر بدترین حصہ بھی قرار دیا جاتا ہے
MashaAllah, bahut hi accha likha.
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
انسان کے بدن میں ایک ایسا ٹکڑا ہے جو تمام بدن سے افضل ہے اسے قلب یا دل کہتے ہیں، اس میں حکمت اور جہالت دونوں کے مواد اور قوتیں موجود ہیں۔
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
(اقبال )💖💖💖💖
ماشاءاللہ
Mashallah
صوفیا کرام کے نزدیک قلب سے مراد انسان کا باطنی وجود کا مرکز ہے
جن کا دل مردہ ہو وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں اور جن کا دل زندہ ہو وہ مر کر بھی نہیں مرتے.
اصل زندگی تو حیاتِ قلب ہے۔ دل کے زندہ ہونے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے نزدیکی ہے جبکہ دل کا مردہ ہونا اللہ تعالیٰ سے دوری ہے۔ اللہ سے جڑنے والا دل زندہ اور اللہ سے دوری اختیار کرنے والا دل مردہ ہے۔
بے شک قلب کی زندگی ہیں اصل حقیقت ہے
Masha Allah
ماشااللہ