عشقِ مجازی اور اسلام
تحریر:محترمہ نورین سروری قادری ۔سیالکوٹ
محبت ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں مختلف صورتوں، مختلف احوال اور مختلف کیفیات کے ساتھ موجود ہے۔ محبت مقناطیسی کشش کی مثل ہے جو کسی کو بھی کسی کی جانب مائل کرسکتی ہے۔ کسی میں حسن و خوبی کی جھلک دیکھ کر دل کا اس کی طرف مائل ہونا، دل میں اس کی رغبت و شوق اور طلب و تمنا کا پیدا ہونا،اس کے قرب کے لیے بے چین رہنا، اس کے فراق سے ایذا ملنا، اسکے دیدار سے سیر نہ ہونا، شب و روز اسی کے خیال میں غرق رہنا، محبوب کی رضا میں اپنی رضا اور محبوب کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر لینا، یہ سب عشق و محبت کی کیفیات اور احوال ہیں۔ مادی اشیا میں اسے کشش کے نا م سے پکارا جا تا ہے۔ جب محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جاتا ہے تو وہ عشق کہلاتا ہے۔ یعنی عشق کسی چیز کی نسبت حد سے زیادہ شوق، دلچسپی اور حد سے زیادہ محبت کا نام ہے۔ عشق محبت کا انتہائی مرتبہ ہے۔ جب عشق محبت کا سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے تو اس کی حقدار سب سے ارفع واعلیٰ ذات ہے جو کہ اللہ پاک ہے۔
کائنات عشق کی بدولت تخلیق کی گئی۔ عشق اوّل ہے، عشق آخر ہے، عشق نور ہے، عشق زندگی کا حاصل ہے، عشق حیاتِ جاودانی ہے، عشق انسان کو مکمل کرتا ہے۔ عشق نورِ ایمان ہے، عشق ھُو کا رازہے، عشق ہی تو کائنات کا راز ہے۔ عشق میں دوئی نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے:
کہیں عشق سجدے میں گر گیا
کہیں عشق سجدے سے پھر گیا
کہیں عشق درسِ وفا بنا
کہیں عشق حسنِ ادا بنا
کہیں عشق نے سانپ سے ڈسوا دیا
کہیں عشق نے نماز کو قضا کیا
کہیں عشق سیفِ خدا بنا
کہیں عشق شیر خدا بنا
کہیں عشق طور پر دیدار ہے
کہیں عشق ذبح کو تیار ہے
کہیں عشق نے بہکا دیا
کہیں عشق نے شاہِ مصر بنا دیا
کہیں عشق آنکھوں کا نور ہے
کہیں عشق کوہِ طور ہے
کہیں عشق تُو ہی تُو ہے
کہیں عشق اللہ ھُو ہے
اقوا ل بزرگانِ دین
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ ’’ الرسالۃ الغوثیہ‘‘ میں بیان فرماتے ہیں:
میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا پھر میں نے سوال کیا ’’اے ربّ! عشق کے کیا معنی ہیں؟‘‘ فرمایا! ’’اے غوث الاعظمؓ !عشق میرے لیے کر، عشق مجھ سے کر اور میں خود عشق ہوں اور اپنے دل کو، اپنی حرکات کو میرے ماسوا سے فارغ کردے۔‘‘
حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’ محکم الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
عشق ایک ایسالطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور معشوق کے (دیدار) سوا کسی چیز سے قرار نہیں پکڑتا۔
شیخ الاکبر محی الدین ابنِ عربیؒ بیان فرماتے ہیں:
قرآن میں عشق کو فرطِ محبت سے تعبیر کیا گیا ہے جب ایسی محبت کا انسان کے قلب پر تسلط ہوتا ہے تو وہ محبوب کے سوا ہر چیز سے اندھا ہوجاتا ہے اور یہ محبت اس کے بدن کے تما م اجزا میں جاری و ساری ہو جاتی ہے اور اس کے وجود میں متصل ہو جاتی ہے۔ ہرشے میں اس کی نظر محبوب کو دیکھتی ہے اور ہر صورت میں اس کو محبوب ہی نظر آتا ہے، اس قلبی کیفیت کا نام ’’عشق‘‘ ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ جوں بر افروخت
ہر چہ جز معشوق باشد جملہ سوخت
مفہوم: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:
جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آبھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کُتے
مفہوم: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا ان کی زندگی فضول اور بے کار گزری اور عشق کے بغیر آدم اور کتے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جس دل اندر عشق نہ رچیا کُتے اس تھیں چنگے
خاوند دے گھر راکھی کردے صابر بھکے ننگے
ترجمہ: جو دل عشقِ الٰہی میں مبتلا نہ ہوا اس سے بہتر تو کتے ہیں کہ اپنے مالک کے گھر کی نگہبانی تب بھی صبر سے کرتے ہیں جب مالک انہیں کھانے کو نہ دے اور دھکے مار کر نکالنے کی کوشش بھی کرے تو بھی نہیں جاتے۔ (شمس الفقرا)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ عشق کے بارے میں فرماتے ہیں:
عقل سے ابوجہل اور ابولہب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قریب رہ کر بھی نہ پہچان سکے لیکن عشق کی بدولت حضرت اویس قرنیؓ نے دور رہ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہچان لیا۔
یہ عشق ہی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کو آتشِ نمرود میں کود جانے اور حضرت اسماعیلؑ کوذبح ہونے کے لیے چھری کے نیچے لٹا دیتا ہے عقل تو اس کا انکار کرتی ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
یہ عشق ہے جو تمام خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے کربلا کے میدان میں بے دردی اور سنگدلی سے ذبح ہوتے ہوئے دیکھتا ہے عقل تو اس کا انکار کرتی ہے اور جان بچانے کا حکم دیتی ہے۔
عشق ایسی آگ ہے جب بھڑک اٹھتی ہے تو باقی تمام محبتوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ (مجتبیٰ آخرزمانی)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس عشق کے بارے میں فرماتے ہیں:
عشق کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
عشق محض زبانی دعوے کا نام نہیں ہے بلکہ عشق اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنے محبوب کے لیے تن من دھن کی بازی لگا نے پر آمادہ ہو جائے۔ (سلطان العاشقین)
عشق کی اقسام
عشق کی دو اقسام ہیں :
۱۔ عشقِ حقیقی
۲۔ عشقِ مجازی
عشقِ حقیقی:
انسان جب اپنی ذات سے بڑھ کرکسی سے محبت کرنے لگتا ہے تو اسے عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ اصل عشق وہی ہے جو صرف اور صرف اللہ پاک کی ذات سے کیا جاتا ہے اور وہی عشقِ حقیقی ہے۔ عشقِ حقیقی کے بارے میں میرے مرشد کریم مرکزِفقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا، جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتا ہے۔
عشق کا یہ جذبہ بے لوث ہوتا ہے جس میں انسان کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا گیا تو آپ نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔ بلکہ اپنے جان سے عزیز بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہی عشقِ حقیقی ہے جس میں انسان خود کو اللہ کی رضا میں فنا کردیتا ہے۔ میدانِ کربلا میں عشق کی سب سے اعلیٰ و ارفع مثال ہمارے سامنے ہے۔
عشقِ مجازی
عشقِ مجازی عام طور پر انسان کی جانب پیدا ہونے والے طبعی میلان کو کہتے ہیں۔ تصوف میں عشقِ مجازی سالک کے لیے پہلاسبق مانا جاتا ہے کیونکہ جب تک انسان ایک فانی شے کے لیے اپنے دل میں تڑپ پیدا نہیں کرے گا تب تک لافانی کے لیے اس کی رسائی ممکن ہی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں آئے روز نت نئی پلنے والی محبتوں کو عشق سمجھا جاتا ہے۔ عموماً مرد اور عورت کے درمیان عشق کو عشق ِمجازی سمجھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان رشتوں کے لحاظ سے محبت کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں لیکن عشق نہیں۔ عشق تو نفسانیت سے پاک ایک مقدس جذبہ ہے جو ایک پاک اور مقدس ہستی سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ نفسانی خواہشات پر مبنی محبت کو عشق مانا جاتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل فانی اور دنیاوی محبت کو عشقِ مجازی سمجھتی ہے۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نفس پرستی کو عشق سمجھا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت عشقِ مجازی تو خدا تک جانے کا راستہ ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق ِمجازی کس سے ہوتا ہے؟ عشقِ مجازی کی حقیقت کیا ہے؟ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کی سیڑھی کس طرح ہے؟
فقر و تصوف کی رو سے عشقِ مجازی سے مراد عشقِ مرشد ہے کیونکہ مرشد کامل اکمل کے بغیر اللہ پا ک تک رسائی اور اس کی معرفت ممکن ہی نہیں۔ مرشد کامل اکمل ہی روح کو نفسانی بیماریوں اور گناہوں سے پاک کر کے اس میں عشقِ حقیقی کا چراغ روشن کرتا ہے۔ مرشد ہی وہ ہستی ہے جو وجود میں اللہ کی محبت کے بیج کو پروان چڑھا کر ایک تناور درخت بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ نے فرمایا:
الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وِچ مرشد لائی ھوُ
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ھوُ
بلھے شاہؒ عشق کے بارے میں فرماتے ہیں:
جے چر نہ عشق مجازی لاگے
سوئی سیوے نہ بن دھاگے
عشق مجازی داتا ہے
جس پچھے مست ہو جاتا ہے
مفہوم: اگر مرشد سے عشق نہیں ہوتا تو انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح سوئی دھاگے کے بغیر سلائی نہیں کرسکتی اس طرح عشقِ مجازی کے بغیر عشقِ حقیقی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے اور عشقِ مجازی کے بنا عشقِ حقیقی ممکن نہیں۔ تصوف میں عشقِ مجازی کی انتہا کو عشقِ حقیقی مانا جاتا ہے۔ حضرت شاہ نیاز بریلوی فرماتے ہیں:
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں وہ بادشاہ ہے تخت نشیں
کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا
مرشد سے عشق ہی سب کچھ ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ـ’’ربّ نہ ڈھونڈ مرشد ڈھونڈ۔‘‘ کیونکہ مرشد کے بغیر اللہ پاک کی طرف جانے والا راستہ ملنا ناممکن ہے۔ عشقِ مرشد ہی فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کی منازل طے کرواتا ہے۔ صحابہ کرامؓ ہمہ وقت مسجد ِ نبویؐ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار میں محو رہتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیاکہ آپؓ کو دنیا میں کیا پسند ہے؟ تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا ’’بس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ مبارک کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں کہ:
صحابہ کرامؓ کی عبادت صرف حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا دیدار تھا۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
اسی لیے تو مرشد سے عشق ہی عشقِ رسول اور عشقِ خدا کہلاتا ہے۔ مرشد سے عشق ہی انسان کو زمین سے اٹھا کر عرش اور عرش سے بھی بالاتر مقامات تک لے جاتاہے اور دونوں جہانوں میں کامیابی و کامرانی سے نوازتاہے۔ عشقِ مرشد ہی حضرت بلالؓ اور حضرت اویس قرنیؓ کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے۔ مرشد سے عشق ہی اصل زندگی ہے۔
نگاہِ مرشد کامل سے عشقِ مصطفیؐ حاصل
خدا کا قرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی
مرشد سے تعلق روح کا تعلق ہوتا ہے۔ مرشد اپنے طالب کے فائدے کو طالب سے زیادہ بہتر طور پر جانتا ہے۔ مرشد راہبر ہے اور ہر مسافر کو راہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کی طرف جانے والا راستہ شوق کا راستہ ہے اور اس راستے پر چلنے کا شوق مرشد ہی پیدا فرماتا ہے اور مرشد ہی منزل تک لے کر جاتا ہے۔ مرشد تصفیہ قلب فرما کر قلب کو زندگی عطا کرتا ہے اور تزکیہ نفس فرما کر نفس کو پاک کرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ذاتِ مرشد کا عشق نصیب ہوتا ہے۔ مرشد سے محبت کا راستہ اللہ پاک کی محبت تک لے جاتا ہے۔
حضرت فریدؒ الدین گنج شکر کا عشقِ مرشد
ایک مرتبہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اپنے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے ہاں تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے طالبِ صادق حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کو جو آپ کے عشق میں گھائل تھے، بلا کر ارشاد فرمایا:
’’ اپنے دادا پیر ( خواجہ غریب نوازؒ) کے قدموں کوبوسہ دو۔‘‘ حضرت فرید الدینؒ حکمِ مرشد کی اطاعت کے لیے اپنے دادا پیر کے قدم چومنے کے لیے جھکے مگر قریب ہی تشریف فرما اپنے پیر و مرشد یعنی خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے قدم چوم لئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے دوبارہ ارشاد فرمایا: ’’فرید سنا نہیں! دادا پیر کے قدم چومو۔‘‘ حضرت فرید الدینؒ جو مرشد کے عشق میں فنا ہو چکے تھے، فوراً حکم بجا لائے اور دوبارہ دادا پیر کے قدم چومنے کے لئے جھکے مگر اس بار بھی اپنے پیر کے قدم چوم لئے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے استفسار فرمایا: ’’میں تمہیں دادا پیر کے قدم چومنے کو کہتا ہوں مگر تم میرے قدموں کو کیوں چوم لیتے ہو؟‘‘ حضرت فرید الدینؒ نے سر جھکا کر بڑے ہی مؤدبانہ اور عشق و مستی کے عالم میں حقیقتِ حال کچھ یوں عرض کی: ’’حضور! میں آپ کے حکم پر دادا پیر کے قدم چومنے ہی جھکتا ہوں مگر وہاں مجھے آپ کے قدموں کے سوا اور کوئی نظر ہی نہیں آتا، لہٰذا میں انہی قدموں میں جا پڑتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے فرمایا: ’’قطب الدین! فرید ٹھیک کہتاہے۔ یہ منزل کے اس دروازے تک پہنچ گیا ہے جہاں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔‘‘ (آدابِ مرشد کامل مقاماتِ اولیا)
ہر شے کو عقل کے ترازو میں تولنے والے عشق و محبت کی لذتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عشق کی دنیا ہی نرالی ہے جہاں قدم قدم پر امتحان ہوتا ہے، پرکھا جاتا ہے کہ عشق کامل ہے یا ناقص۔ عاشقِ صادق ہمیشہ اپنے محبوب کے اقوال، افعال اوراعمال پر عمل کرتا ہے کیونکہ محبت کی علامت محبوب کی پیروی ہے۔ عشق ایک طاقتور جذبہ ہے جس میں محب اپنا سب کچھ محبوب پر نچھاور کر دیتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اشارے پر جان و مال قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا بلکہ ہر قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی ایک عمدہ مثال حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پیش کی۔
غزوہ تبوک کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام سے اللہ کی راہ میں مال طلب فرمایا تو تمام صحابہ کرامؓ حسبِ توفیق اپنا مال لے کر دوڑے چلے آئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنے گھر کا آدھا اثاثہ جمع کیا اور خیال کیا کہ آج وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے سبقت لے جائیں گے اور اسی سوچ کے ساتھ گھر کا آدھا مال بارگاہِ رسولؐ میں پیش کردیا۔ اسی اثنا میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی اپنا تمام مال و متاع لے کر دربارِ رسالتؐ میں آن پہنچے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا ’’ابوبکرؓ اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟‘‘ عرض کیا ’’میں نے اُن کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑا ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے خراجِ عقیدت کے طور پر فرمایا ’’اے ابوبکرؓ !آپ محبت وایثار کی ایسی منزل پر ہیں کہ ہم کسی بھی چیز میں آپ سے کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکتے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
ایک سچا و صادق طالب جب اپنا رُخ اللہ پاک کی طرف کر لیتا ہے تو وہ دنیا و عقبیٰ کی ہر شے کو اپنے محبوب کے لیے قربان کر دیتا ہے۔ عشق کی ایسی اعلیٰ مثال میرے مرشد پاک مرکزِفقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بھی قائم کی۔ آپ مدظلہ الاقدس نے عشقِ مرشد میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور خود کو اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی رضا حاصل کرنے میں گم کرلیا۔ عشق کے سچے جذبے نے آپ مدظلہ الاقدس کو ہر میدان میں کامیابی عطا فرمائی۔ طالب سچا ہو اور مرشد کا کرم اور فضل شاملِ حال ہو تو طالب ہر منزل کو پار کر جاتا ہے۔ عشق قربانی مانگتا ہے، قربان ہونا مانگتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی ساری زندگی، مال و دولت، آرام و آسائش سب کچھ اپنے مرشد پر نچھاور کر دیا۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشقِ مجازی یا عشقِ مرشد کا جذبہ دل میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟ بعض سلاسل میں طالب کو تصورِ مرشد کے لیے کہا جاتا ہے اور کچھ سلاسل میں تصورِ مرشد کے لیے باقاعدہ تصاویر دی جاتی ہیں لیکن سلسلہ سروری قادری میں بیعت کے پہلے روز ہی اسمِ اعظم سلطان الاذکار ھوُ کا ذکر اور تصور کے لیے اسمِ اللہ ذات کا نقش عطا کیا جاتا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں جو اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے طالب کے وجو د میں عشقِ مرشد کا پودا پروان چڑھاتے ہیں اور عشقِ حقیقی کی منزل پر پہنچاتے ہیں۔ صراطِ مستقیم اطاعت و اتباع کا راستہ ہے۔ عشق ہی دینِ اسلام کی حقیقت ہے۔ اس حوالے سے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
دینِ اسلام کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سچا عشق، اخلاص، وفاداری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل ظاہری و باطنی اتباع ہے۔ جبکہ آج کل تمام تر توجہ صرف ظاہری اتباع پر دی جاتی ہے۔ اگر اصل دین صرف ظاہری اعمال پر مبنی ہوتا تو اکابر صحابہؓ کے اسلا م قبول کرتے ہی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ فرض کر دیئے جاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملی ارکانِ دین کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ اس سے پہلے تمام صحابہ کے لیے دین صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وفا اور عشق ہی تھا۔ اُن کی نماز اور درود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار تھا، اُن کا روزہ مشرکینِ مکہ کی طرف سے دی گئی تکالیف پر صبر تھا۔
آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں:
اسلام کی بنیا د فقر اور معرفتِ الٰہی ہے۔ کفر کی بنیاد درہمِ دنیا ہے، بدعت کی بنیادحبِ دنیا اور ہدایت کی بنیاد حبِ الٰہی ہے۔ (سلطان العاشقین)
فقر راہِ عشق ہے، عشق کی آگ سے جب دل روشن ہوگا تو صراطِ مستقیم کا راستہ ملے گا اور تب ہی تو اللہ پاک کی معرفت و پہچان نصیب ہو گی۔ عشق تو ترکِ خواہشات کا نام ہے جس کے بعد دل میں اللہ پاک کی ذات جلوہ گر ہوتی ہے اور جب اس ذات کی جلوہ گری دل میں ہوگی تبھی دینِ اسلام کی حقیقت سے آشنائی حاصل ہوگی۔
حاصل تحریریہ کہ دین ِاسلام پر چلنے کے لیے عشقِ مجازی (عشقِ مرشد) بہت ضرور ی ہے کیونکہ عشقِ مجا زی ہی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو عشقِ مرشد کی لازوال نعمت عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
الرسالۃ الغوثیہ تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
محکم الفقرا تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
مجتبیٰ آخر زمانی تصنیف ایضاً
سلطان العاشقین ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
آدابِ مرشد کامل
فقر راہِ عشق ہے، عشق کی آگ سے جب دل روشن ہوگا تو صراطِ مستقیم کا راستہ ملے گا اور تب ہی تو اللہ پاک کی معرفت و پہچان نصیب ہو گی۔
راہ فقر عشق کی راہ ہے
راہ فقر عشق حقیقی کی راہ ہے-
اللہ ہمیں عشقِ مرشِد عطا فرمائے آمین❤
عشقِ مجا زی ہی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے۔
عشق کی منازل طے کرنا مرشد کامل اکمل کی مہربانی اور ساتھ کے بغیر ناممکن ہیں
دین ِاسلام پر چلنے کے لیے عشقِ مجازی (عشقِ مرشد) بہت ضرور ی ہے کیونکہ عشقِ مجا زی ہی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو عشقِ مرشد کی لازوال نعمت عطا فرمائے۔ آمین
کائنات عشق کی بدولت تخلیق کی گئی۔ عشق اوّل ہے، عشق آخر ہے، عشق نور ہے، عشق زندگی کا حاصل ہے، عشق حیاتِ جاودانی ہے، عشق انسان کو مکمل کرتا ہے۔ عشق نورِ ایمان ہے، عشق ھُو کا رازہے، عشق ہی تو کائنات کا راز ہے۔
Ishq e majazi kay beghair ishq e haqeeqi tak pohanchna mumkin nahi
نگاہِ مرشد کامل سے عشقِ مصطفیؐ حاصل
خدا کا قرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی
حقیقت بیان کی آپ نے
Great topic
عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے اور عشقِ مجازی کے بنا عشقِ حقیقی ممکن نہیں۔
عشق ہی دینِ اسلام کی حقیقت ہے۔
مرشد سے عشق ہی اصل زندگی ہے۔
عشق ہی تو کائنات کا راز ہے۔
عشق ھُو کا رازہے
Simply speechless after reading this article soo beautiful and inspiring
عشق انسان کو مکمل کرتا ہے۔
بہت بہترین مضمون میں
بہتر ین مضمون!
مرشد سے ہی عشق اصل زندگی ہے
جس دل اندر عشق نہ رچیا کُتے اس تھیں چنگے
خاوند دے گھر راکھی کردے صابر بھکے ننگے