حقیقی مومن
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر کلمہ گو مومن ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کلمہ طیب پڑھنے والا اور اس کا زبانی اقرار کرنے والا مسلمان تو ہے لیکن مومن نہیں۔ مسلمان اور مومن میں بہت فرق ہے۔ قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اللہ نے اس فرق کو واضح بیان فرمایا ہے۔ سورۃ الاحزاب میں ارشادِ ربّانی ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ (سورۃ الاحزاب۔35)
ترجمہ: بے شک مسلمان مرد اور عورتیں اور مومن مرد اور عورتیں۔
ان دونوں گروہوں میں فرق ہے اسی لیے اللہ پاک نے دونوں کو الگ الگ مخاطب کیاہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس کا مطلب ہے ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے اور بلاضرورت کسی بھی بات کو دہرانا کلامِ الٰہی کی شان نہیں۔
ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمان اور مومن میں فرق کو ان الفاظ کے ساتھ واضح کیا ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ط قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلَوْبِکُمْ (سورۃ الحجرات۔ 14)
ترجمہ: یہ اعرابی کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو ہم اسلام لے آئے اور ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو دل سے جوڑا ہے یعنی اسلام ظاہری زبان سے اقرار کرنا ہے لیکن ایمان کا تعلق دل سے ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
مومن وہ ہے جس کے دل کو ایمان مزیّن کردے۔ (مسلم وبخاری)
پس ایک عام مسلمان مومن نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ مسلمان اپنا ظاہر سنوارتا ہے جبکہ مومن اپنا باطن سنوارتا ہے۔ باطن سے مراد نیت ہے جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے ’’بیشک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے اور فاسق کی نیت اس کے عمل سے بُری ہوتی ہے۔ (سرّ الاسرار فصل نمبر 5)
کچھ لوگ مومن کہلانے کے لیے اپنی وضع قطع بدل کر اور لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر حجروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور رات دن عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ لوگ جائز خوشیوں کو بھی خود پر حرام کر لیتے ہیں اور خود کو دوسروں سے برتر اور ممتاز تصور کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا مومن کا طریقہ نہیں۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔ صحابہ کی جماعت ہر وقت اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے جنگلوں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر لوگوں سے الگ نہیں رہتی تھی اور نہ ہی انہوں نے کبھی کوئی عجیب وضع قطع اپنائی تھی جس کے باعث لوگ انہیں اپنے سے مختلف خیال کرتے۔ وہ عام انسانوں کی طرح ظاہری ضروریاتِ زندگی پورا کر کے اور ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے ربّ کا فضل اور خوشنودی حاصل کرتے رہے۔ ان میں کوئی بھی تارکِ دنیانہ ہوا اور اگر کسی نے کوشش بھی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو اجازت نہ دی کیونکہ اس نمائشی دین داری کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی شادی کی، عام لوگوں کی طرح لباس زیب ِتن کیا اور وہ تمام افعالِ زندگی ادا کیے جو کہ ایک عام انسان کرتا ہے تو پھر مومن بننے کے لیے وضع قطع بدلنا اور رہبانیت اختیار کرنا بالکل غیر شرعی ہے۔ مومن بننے کے لیے ہمیں صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا کیونکہ وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی مومن قرار دیا جب نماز اور روزہ جیسی عبادات بھی فرض نہ ہوئیں تھیں تو پھر صحابہ کرامؓ کے کس عمل نے انہیں مومن بنا دیا؟
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے متعلق ارشاد فرمایا:
(حضرت) ابوبکرؓ کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔ؔ
اس سے ثابت ہوا تقویٰ اور ایمانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہے جو کہ مومنین کا خاصہ ہے۔ صحابہ کرام کو اسی عشق نے مومن بنا دیا تھا۔
عشقِ حقیقی
وہ کون سا جذبہ ہے جو ایک مومن کو اتنی ہمت اور طاقت دیتا ہے کہ جس کی بدولت وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے؟ وہ جذبہ عشقِ الٰہی ہے۔ جب تک دل عشقِ الٰہی سے مزین نہ ہو مومن بننا ناممکن ہے۔ عشق کا خمیر انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
مومن وہ ہے جس کے ظاہر اور باطن میں کوئی اختلاف نہ ہو اور جس کا دل عشقِ حقیقی کی لذتوں سے لبریز ہو۔ جب بندۂ مومن عشق میں فنا ہو کر خود کو رضائے الٰہی میں غرق کر لیتا ہے تو پھر وہ صبغتہ اللّٰہیعنی اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا صفاتی رنگ اُس پر اس قدر چڑھ جاتا ہے کہ وہ رہتا تو عبد ہی ہے لیکن اس کی ماہیت بدل جاتی ہے وہ بندہ رہتے ہوئے بھی دلیلِ حق بن جاتا ہے۔
ایسے مرد مومن کے بارے میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
(ضربِ کلیم)
عشقِ مصطفیؐ
قرآنِ مجید میں مومنین کی ایک اور نشانی بتائی گئی ہے:
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ ان کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار۔ (سورۃ المجادلہ۔22)
اس آیت میں مومنین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب ایمان دلوں میں داخل ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے سوا دل میں کوئی محبت نہیں ٹھہرتی اور اللہ اور اس کے رسولؐ جس کے مخالف ہوں مومنین ان کے دشمن ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے غزوہ احد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے غزوہ بدر کے دن اپنے بیٹے عبدالرحمن کو مبارز کے لیے طلب کیا، حضرت معصب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی عبد الرحمن کو قتل کیا، حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام مغیرہ کو قتل کیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ حضرت امیر حمزہ و ابوعبیدہؓ نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو غزوۂ بدر میں قتل کیا جو کہ ان کے رشتہ دار تھے۔ قرآن اور رسولِ خدا پر ایمان اور محبت کے مقابلہ میں رشتہ داری کا کیا پاس۔ اسی بابت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے اہل و عیال، مال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح مسلم)
تسلیم و رضا
تسلیم و رضا مومنین کا خاص وصف ہے۔ وہ نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں، مصائب پر صبر کرتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔
سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
صبر اور شکر کی وجہ سے اللہ مومن کی تمام خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہوتی ہے
حضرت صہیب رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ ہم نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے لیے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات صرف مومن کو حاصل ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی ملتی ہے اور وہ اس پر اللہ کاشکر ادا کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے خیر کا سبب بنتا ہے اور جب اس کو کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے خیر کا باعث بنتا ہے ۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے :
مسلمان وہ ہے جو اللہ کومانتا ہے اور مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔
اللہ کی ماننے سے مراد یہ کہ اس کو اللہ پاک کی ذات پر کامل توکل حاصل ہوتا ہے کہ اللہ جس حال میں رکھے وہ بہتر ہے اس لیے وہ گلہ و شکوہ نہیں کرتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مومنین کے قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پلٹتا ہے۔
یعنی اللہ پاک مومن کے دل کو مختلف کیفیات سے گزارتا ہے، کبھی خوف و رجا، کبھی سخت مصائب، کبھی خشیت و محبت اور کبھی رحمتوں کی برسات میں رکھتا ہے لیکن بندۂ مومن وہ ہے کہ سخت سے سخت آزمائش بھی اس کی حالتِ ایمان نہیں بدل سکتی کیونکہ قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس کا توکل کامل ہے:
وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہِ (سورۃ یوسف۔21)
ترجمہ: اور اللہ اپنے ہر امر پر غالب ہے۔
وہ عطا کرے تو شکر اس کا
وہ نہ دے تو ملال نہیں
میرے ربّ کے فیصلے کمال ہیں
ان فیصلوں میں زوال نہیں
راضی بر قضا
مومنین کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ تقدیر پر راضی رہتے ہیں۔ جو معاملہ بھی ان کے ساتھ پیش آتا ہے اسے رضائے الٰہی جان کر اس پر راضی رہتے ہیں اور ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی چیز مقدرات سے آتی ہے وہ اس کو تقدیر کے ہاتھوں سے لیتا ہے، شریعت کی موافقت اور رضا مندی کے ساتھ اس پر راضی ہوجاتا ہے پھر نہ اس کے لیے نفس باقی رہتا ہے نہ خواہش اور نہ اس کی طبیعت رہتی ہے اور نہ شیطان ملعون۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ان کے مقابلہ پر مومن کی مدد کی جاتی ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل معدوم ہو گئے۔ (الفتح الربانی)
مومن کی ہر وقت آزمائش ہوتی ہے لیکن وہ تمام آزمائشوں، بلاؤں اور مصائب پر صبر کرنے والا ہوتا ہے۔
نماز قائم کرنا
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مومنین کے بہت سے اوصاف بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک نماز قائم کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفَلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ (سورۃ المومنون1-2)
ترجمہ: بیشک فلاح پاگئے وہ مومنین جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔
اس آیت میں نماز کا ذکر ہے۔ لہٰذا جاننا چاہیے کہ نماز کیا ہے؟
نماز مومن کے لیے معراج کی رات ملنے والا تحفہ ہے۔ پیارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
نماز مومن کی معراج ہے۔
معراج سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار اور ملاقات ہے۔ نماز کو مومن کی معراج اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے صبر اور استقامت کے باعث قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے اور عشقِ حقیقی کی بنا پر اللہ سے نورِ بصیرت پاتا ہے جس سے وہ اللہ کا دیدار کرتا ہے، اللہ سے بات کرتا ہے، اس کی بات سنتا ہے۔ مسلمان صرف نماز پڑھتا ہے جبکہ مومن نماز قائم کرتاہے اور اللہ نے بھی نماز قائم کرنے کا حکم دیاہے نہ کہ نماز پڑھنے کا۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمانِ عالیشان ہے :
اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ (بخاری)
اللہ مومن کے دل کو اپنے نور سے اس طرح روشن اور پاکیزہ کر دیتا ہے کہ خود اس میں آبستا ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
نہ میں زمین میں سماتا ہوں نہ آسمانوں میں بلکہ بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ (مسلم)
حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی فرمایا:
مومن کا دل اللہ کا عرش ہے۔ (مسنداحمد)
مومن جب چاہتا ہے اپنے ہی باطن میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے۔
ایسے مومن کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
ان کا کھانا نور ہے، ان کا دل بیت المعمور ہے، ان کی نیند حالتِ حضور ہے اور ان کی عاقبت مغفور ہے۔ ان کے نزدیک زاہد طالب بہشت کا مزدور ہے۔ قدرت توحید و دریائے وحدتِ الٰہی مومن کے دل میں سمایا ہوا ہے۔ (عین الفقر)
اب جس نماز میں دیدارِ الٰہی نصیب نہ ہو کیا اسے معراج کہہ سکتے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ معراج والی نماز صرف مومن کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ اس کا دل عشق سے لبریز ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
سجدۂ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے
خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے
لو گ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی قرض لیا ہو ربّ سے
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں
تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے
مومنین کے ساتھ نرم اور کفار کے ساتھ سخت
مومنین کا ایک وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ کفار اور منکرین کے ساتھ سخت رویہ رکھتے ہیں جبکہ دیگر مومنین کے ساتھ محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے اس وصف کو قرآن ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (سورۃ الفتح۔29)
ترجمہ: (مومن) کفار کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مومنین کا شمار ان لوگوں میں ہے جنہیں اللہ کے رسولؐ کی محبت اور فیضِ صحبت حاصل ہو گیا۔ انہوں نے اس صحبت سے مستفیض ہو کر اپنی سیرت و کردار کو سنوار لیا۔ وہ باطل کے خلاف معرکہ آرا ہوتے وقت فولاد صفت بن جاتے ہیں لیکن حریمِ خلوت میں اپنے ہم نشینوں کے ساتھ ہوں تو پیکرانِ مروّت و محبت بن کر ریشم کی مثل نرم اور بڑے رحم دل ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مومن نرم خو ہوتے ہیں جیسے نکیل ڈالا اونٹ ہوتا ہے۔ اسے روکا جائے تو رک جاتا ہے اور اگر اسے چٹانوں پر بھی بٹھایا جائے تو بیٹھ جاتا ہے۔ (مسند احمد)
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
(ضربِ کلیم)
جس سے جگرِلالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
(ضربِ کلیم)
محاسبہ نفس
مومن ہر وقت اپنے نفس کے ساتھ جہاد میں رہتا ہے۔ اس نے اپنے اوقاتِ شب و روز کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہوتا ہے؛ اوّل اپنے پروردگار کے ذکر اور راز و نیاز میں مشغول رہنا، دوم اپنے نفس کا محاسبہ کرنا اور سوم حقوق العباد کو حلال و مباح طریقوں سے پورا کرنا۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
ہر مومن کے لیے ہر حال میں تین چیزوں پر کاربند رہنا لازم ہے۔ اوّل احکاماتِ خداوندی کی تعمیل کرے، دوم تمام ناپسندیدہ امور سے اجتناب کرے اور سوم جو کچھ بارگاہِ ربّ العزت سے مقدر ہو اسی پر راضی رہے۔ ایک مومن کی کیفیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی حال میں مذکورہ بالا تینوں امور کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ اپنے قلب کو پوری طرح اس طرف متوجہ رکھے، اپنے نفس سے انہی باتوں کی گفتگو کرے اور تمام حالات میں اعضا کو انہی امور کی بجاآوری میں مشغول رکھے۔ (فتوح الغیب)
ترکِ دنیا
مومنین کا ایک وصف یہ ہے کہ دنیا کو ترک کر چکے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ ترکِ دنیا سے مراد رہبانیت اختیار کرنا نہیں بلکہ دل سے دنیا کی محبت اور ہوس کو ختم کرنا ہے۔ مومنین دنیا سے بیزار ہوتے ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ
ترجمہ: دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
ایک قیدی بھلا قید خانے میں کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ وہ ہمیشہ غمزدہ ہوتا ہے۔ صرف وصالِ یار سے ہی اسے خوشی مل سکتی ہے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتا۔ مومن وہ ہے جو اپنے دنیا میں آنے کے مقصدکوسمجھے کہ وہ دنیا میں کیوں آیاہے؟ بہت سے لوگ اپنے مقصد ِحیات کو بھول کر دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن مومن کبھی دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتا وہ دنیاوی شہرت، مال و زر اور مرتبہ کا خواہشمند نہیں ہوتا۔ اللہ کی محبت اور اس کی رضا کی رغبت اسے ہر چیز سے مستغنی کر دیتی ہے۔ مومن کو جب یہ مقام نصیب ہوتا ہے تو تمام دنیا اس کی حاجت مند اور دستگیر بن جاتی ہے۔ منافق دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے جبکہ دنیا مومن کے پیچھے بھاگتی ہے ۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
کافر کی یہ پہچان ہے کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان ہے کہ گم اس میں ہیں آفاق
(ضربِ کلیم)
نہ تو زمیں کے لیے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے
(بالِ جبریل)
جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی
میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک
(بالِ جبریل)
اللہ پاک نے کائنات کی ہر چیز انسان کے لیے بنائی ہے اس لیے مومن اللہ سے صرف اس کا دیدار ہی مانگتا ہے اور کچھ نہیں۔
مومن دنیا سے کامیاب لوٹتا ہے وہ مرتا نہیں بلکہ زندہ رہتا ہے صرف دنیا کی قید سے آزاد ہوتا ہے ۔
کون کہتا ہے مومن مر گیا
قید سے چھوٹا وہ اپنے گھر گیا
مومن کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے، اس کا نامہ اعمال علیین میں رکھا جاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
مومن کی قبر کو نورسے بھر دیا جاتاہے اور قبر ستر گز لمبی اور چوڑی کر دی جاتی ہے۔ فرشتے اسے کہتے ہیں تو اس طرح سو جا جیسے پہلی رات کی دلہن ہوتی ہے۔ (ترمذی شریف)
یہ وہ مومن ہیں جس سے اللہ تعالیٰ یوں کلام کرتا ہے :
اے نفسِ مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف اس حال میں لوٹ کہ تو اللہ سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے (کامل) بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت (قرب و دیدار) میں داخل ہوجا۔ (الفجر27-30)
مومن بننے کے لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے جو کہ مرشد کامل اکمل کے بغیر ناممکن ہے۔ موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الااقدس طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس کر کے انہیں صحیح معنوں میں مومن بناتے ہیں۔ مخلوق خدا کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ آئیں او ر آپ مدظلہ الاقدس کے ازلی فیض سے اپنے قلوب کو منور کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔
استفادہ کتب:
الفتح الربانی تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
فتوح الغیب ایضاً
محکم الفقرا تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
عین الفقر تصنیف ایضاً
شمس الفقرا تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الااقدس
فقرِاقبال ایضاً
Masha Allah zabardast mazmoon hy ❤️❤️❤️❤️💯💯💯👍👍👍
مومن بننے کے لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے جو کہ مرشد کامل اکمل کے بغیر ناممکن ہے۔
بہت اعلیٰ
تسلیم و رضا مومنین کا خاص وصف ہے
مومن بننے کے لیے تزکیہ نفس بہت ضروری ہے جو کہ مرشد کامل اکمل کے بغیر ناممکن ہے۔ موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الااقدس طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس کر کے انہیں صحیح معنوں میں مومن بناتے ہیں۔
بہت خوب!
Allah hame hawiqi momin hone ki toufeeq ata farmaye
بہت خوبصورت مضمون ہے
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
تسلیم و رضا
👍
مومن وہ ہے جس کے دل کو ایمان مزیّن کردے۔ (مسلم وبخاری)
Bohat acha mazmoon likha hua hai
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
♥️💯💯💯👍
مخلوق خدا کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ آئیں او ر آپ مدظلہ الاقدس کے ازلی فیض سے اپنے قلوب کو منور کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔
جب تک دل عشقِ الٰہی سے مزین نہ ہو مومن بننا ناممکن ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: مسلمان اللہ کو مانتا ہے۔اور مومن اللہ کی مانتا ہے
مسلمان سے مومن بننے کا سفر مرشد کامل اکمل کی صحبت سے شروع ہوتا ہے.
دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین ہیں
موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الااقدس طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس کر کے انہیں صحیح معنوں میں مومن بناتے ہیں۔
مومن کی پہچان کو آسان انداز میں بتایا ہے۔ شکریہ اللہ پاک ہمیں بھی اس رتبے کے قابل بنائے آمین
وہ عطا کرے تو شکر اس کا
وہ نہ دے تو ملال نہیں
میرے ربّ کے فیصلے کمال ہیں
ان فیصلوں میں زوال نہیں