قربِ دیدار
غزل
نیست آرام درآن دل کہ ہوس بسیار است
گل شود غنچہ درآن باغ کہ خس بسیار است
ترجمہ: اس دل کو آرام نصیب نہیں ہوتا جس میں ہوس بھری ہو۔ ایسا دل اس باغ کی مانند ہے جس میں خس و خاشاک بہت زیادہ ہوں جس کی وجہ سے پھول مرجھا کر کلی بن جاتے ہیں۔
دلی بی وسوسہ از گوشہ نشینان مطلب
کہ ہوس در دل مرغان قفس بسیار است
ترجمہ: گوشہ نشینوں سے وسوسوں سے پاک دل کی امید نہ رکھ کیونکہ جو پرندے قید میں ہوتے ہیں ان کے دل میں بہت زیادہ ہوس ہوتی ہے۔
از بدان فیض محال است بہ نیکان برسد
حق بیداری دزدان بعبس بسیار است
ترجمہ: ناممکن ہے کہ بدوں سے نیکوں کو فیض ملے۔چوروں کے اندر حق کا بیدار ہونا بہت ہی مشکل ہے۔
مثنوی
پشت و پا زن بر دو عالم تا فلک پیما شوی
از سرائی دنیا دون برخیز تا رعنا شوی
ترجمہ: اپنے قدم دونوں جہانوں پر رکھ تاکہ تو فلک پیما بن جائے۔ کمینی دنیا کی سرائے سے نکل جا تاکہ تجھے رعنائی حاصل ہو جائے۔
ترک کبر و عجب کن تا قبلہ عالم شوی
خصلت ابلیس را بگذار تا آدم شوی
ترجمہ: کبر و عجب کو ترک کر دے تا کہ تو تمام عالم کا قبلہ بن جائے۔ شیطان کی خصلتوں کو چھوڑ دے تا کہ تو بنی آدم بن جائے۔
مجو آرائش از دل نامرادی تا نظر دارد
کہ نخل ایمن نباشد از تزلزل تا ثمر دارد
ترجمہ: جب تک تیرے دل کی نظر نامراد دنیا پر ہے، وہ اللہ کی محبت سے آراستہ نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک پودہ اتنا مضبوط نہیں ہو جاتا کہ اس کے گرنے کا خوف نہ رہے، تب تک اس پر پھل نہیں لگتا۔
غزل
سادہ لوحان جنون از بیم محشر غافل اند
بیم رسوائی نباشد نامہ ننوشتہ را
ترجمہ:سادہ لوح مجنون عاشق محشر کے خوف سے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ جس کا اعمال نامہ ہی نہ لکھا جا رہا ہو اسے رسوائی کا کیا خوف۔
جمع کردن خویش را در عہد پیری مشکل است
پیش راہ نتوان گرفتن لشکر برگشتہ را
ترجمہ: بڑھاپے میں خود کو راہِ حق کی طرف مائل کرنا بہت مشکل ہے کہ لشکر سے علیحدہ ہو جانے والا راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مطلب کونین در آغوش ترک عداوت بہ
آں نیابد مطلبش تا مدعا دارد کسیرا
ترجمہ: دل سے دونوں جہان کی طلب کو ترک کر دے، ان سے دشمنی رکھنا بہتر ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کی طلب رکھتا ہے وہ اپنا مقصود کبھی نہیں پا سکتا۔
غزل
پیران تلاش رزق فزون از جوان کنند
حرصش گدائی شود شام بیشتر دارد
ترجمہ: بوڑھوں میں رزق کی طلب جوانوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی حرص وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور انہیں گدائی پر مجبور کر دیتی ہے۔
مہمائی فنا را از علائق نیست پروائی
نیندیشد ز خار آن کس کہ دامن در کمر دارد
ترجمہ: فنا کی مہم پر نکلنے والے کو تعلقات کی پرواہ نہیں ہوتی۔ جو آدمی دامن کو کمر سے باندھ کر رکھتا ہے اسے کانٹوں سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔
ز ابراہیم ادھمؒ پرس قدر ملک درویشی
کہ طوفان دیدہ از آسائش ساحل خبر دارد
ترجمہ: ملک و درویشی کی قدر حضرت ابراہیم ادھم علیہ السلام سے معلوم کر، ساحل پر پہنچنے کی اہمیت وہی جانتا ہے جس نے طوفان دیکھا ہو۔
اے عزیز! معرفت کسے کہتے ہیں اور توحید کو پانے سے کیا مراد ہے؟ علم اور عقل میں کیسے فرق کیا جا سکتا ہے؟ نورِ ذات کے مشاہدے، دیدار اور حضوری کی راہ کونسی ہے؟ قربِ الٰہی، جمعیت باجمال، عین بعین وصال سے آگاہی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ جسم، جثہ اور جان کو نفسانیت سے نکال کر عین العیان (دیدار) تک کس کی نگاہ پہنچاتی ہے؟
خود نماند درمیانش بی حجاب
معرفت توحید ہر یک را جواب
ترجمہ: جب تو فنا ہو جائے گا تو سارے حجابات اٹھ جائیں گے اور معرفت ِ توحید کے متعلق سب جواب مل جائیں گے۔
آبجو در آب گم شد آب گو
ہمچنان است قرب دیدارش برو
ترجمہ: نہر کا پانی جب دریا سے مل جائے تو اسے دریا ہی کہہ۔ اسی طرح تو بھی اللہ کے قرب و دیدار کی طرف بڑھ۔
نیست آنجا ذکر فکری نی آواز
عین بعین است فی اللہ غرق راز
ترجمہ: عین بعین غرق فی اللہ ہونا راز ہے۔ اس مقام پر نہ ذکر اور فکر ہے نہ کوئی اور آواز۔
حیرتش عبرت نباشد در جمال
شد حضوری وحدتش باحق وصال
ترجمہ: جمال (کی تجلیات) سے طالب کو حیرت و عبرت نہیں ہوتی۔ اس میں حضوری کے ساتھ وحدتِ حق کا وصال حاصل ہوتا ہے۔
انتہا باہر طریقہ شد تمام
قادری را ابتدا شد زین مقام
ترجمہ: تمام طریقوں (سلاسل) کی جہاں انتہا ہوتی ہے، قادری سلسلے کی وہاں سے ابتدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ قادری کی ابتدا یہ ہے کہ قربِ حق کی وجہ سے وہ عرش سے تحت الثریٰ تک کا تماشا اپنے قدموں تلے دیکھتا ہے اور ہر طبق کی طیر سیر کرتا ہے۔ جو مراتب سروری قادری طالب کو حاصل ہوتے ہیں ان میں یہ سب سے کمتر اور ادنیٰ مرتبہ ہے۔ سروری قادری طالب وہ ہے جو ظاہر میں عامل اور باطن میں کامل ہو۔ ظاہر میں عامل وہ ہے جو تمام جزوی و کُلی علم و علوم اور بیان و قال سے آگاہ ہواور باطن میں کامل وہ ہے جو دل، روح اور سرّ کی آنکھوں سے معرفتِ الٰہی کے رازوں اور قدرتِ سبحان کا عیاں مشاہدہ کرتا ہو اور کل و جز کے تمام مراتب اور کون و مکان کا نظارہ اس کے مد ِنظر ہو۔ پس معلوم ہوا اگر کسی کو لوحِ محفوظ کا دائمی مطالعہ حاصل ہو جائے تو وہ ماہ سے ماہی تک کے تمام مناظر دیکھ سکتا ہے اور قدرتِ الٰہی سے ان مقامات کی طیر سیر کر سکتا ہے۔ البتہ ان طبقات کے نظارے کا تعلق باطن کے مراتب سے نہیں ہے اور ایسا شخص معرفت و توحید الٰہی سے بے خبر ہوتا ہے۔ اگر مرشد کسی کو باطن میں خواب یا مراقبہ کے ذریعے علمِ نص و حدیث ، قرآن، تفسیر اور فقہی مسائل کا علم عطا کرتا ہے تو ہر ایک علم کی تعلیم سے وہ طالب روشن ضمیر بن جاتا ہے۔ خواب یا مراقبہ میں حاصل ہونے والے باطنی علم کی قدرت سے وہ ظاہری علما عامل، عالم فاضل پر غالب آ جاتا ہے اور علم ِ باطنی کے ذریعے ان سے بحث و مباحثہ اور جواب باصواب کرتا ہے۔ ایسے مراتب جن میں باطن معرفت اور توحیدِ الٰہی سے بے خبر رہتا ہے حجاب کا باعث ہیں۔ ایسا عالم علما کے مرتبہ پر ہوسکتا ہے لیکن فقیر اولیا اللہ کے مرتبہ پر نہیں۔
اگر مرشد کسی کو باطن میں توجۂ باطنی سے خواب یا مراقبہ میں دست ِ بیعت کر کے ذکر کی تلقین کرتا ہے تو طالب کے ظاہر و باطن میں ذکر جاری ہو جاتا ہے۔ اس باتوجہ ذکر کی تاثیر کی گرمی سے طالب کا وجود بے قرار اور شب و روز سوزش میں مبتلا رہتا ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے جیسے طالب بے خود، مست، مجنون اور دیوانہ ہو گیا ہے۔ جس ذکر سے طالب باطنی معرفت، مشاہدۂ حضوری اور قرب و وصال سے محروم رہتا ہے اس سے حاصل ہونے والے مراتب کا تعلق زوال سے ہے۔ایسا مرشد خام تر، بے بصر اور طالب خام خیال ہوتا ہے۔ اگرچہ اسے تجلیات نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ نفس کی ناری تجلیات کا اظہار ہوتی ہیں جبکہ احمق ان تجلیات کے ظہور کو دیدارِ ذات الٰہی کی تجلیات سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایسا شخص نورِ حضور اور نورِ معرفت سے دور تر ہوتا ہے۔
توحید ِ الٰہی کی باطنی معرفت رکھنے والا درویش کسے کہتے ہیں اور توحید کی باطنی معرفت سے کیا مراد ہے؟ توحید ِ الٰہی کی باطنی معرفت یہ ہے کہ طالب کو خاص قرب مع اللہ اور مشاہدۂ ذات حاصل ہو اور وہ بااخلاص ہو کر ہر وقت حالتِ حضوری میں رہتا ہو۔ راہِ باطن میں دو طریق، دو توفیق اور دو رفیق ہیں جن کی تحقیق اور حق الیقین کے لیے قاضی عین الحق دو گواہ طلب کرتا ہے۔ اوّل اسم اللہ ذات کا تصور ہے جس سے ذات و صفات کے کل مقامات ایک ہی لمحہ میں طے ہو جاتے ہیں اور ان حاضرات سے وجود ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتا ہے۔ دوم عین العیان ناظرات کا مشاہدہ ہے جو طالب کو دائمی حاضر و ناظر باعین مرشد کامل کی نظر سے حاصل ہوتا ہے۔ مرشد کامل اپنی نظرِ عین سے طالب کو عین تک پہنچا دیتا ہے جس کے بعد اسے ذکر، فکر ریاضت کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مرشد پہلے ہی روز طالب صادق کو تصور اسم اللہ ذات کے حاضرات اور عین العیان ناظرات کا سبق پڑھا دیتا ہے۔ مرشد کامل کی توجہ سے طالب سبق کے پہلے ہی روز جہاں چاہے خود کو پہنچا سکتا ہے۔ مرشد کامل صاحب ِباطن معمور ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ سے طالب کو اسم اللہ ذات کے باتصرف حاضرات اور باتوفیق ناظرات عطا کرتا ہے اور باطن میں حقیقی مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کر کے طالب کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلیم، علم و تلقین، ذکر اور منصب و مراتب دلواتا ہے۔
اگر طالب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پر کامل یقین حاصل ہو جائے تو طالب کے وجود میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق، نیک خصائل و عادات اور جمعیت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تاثیر رواں ہو جاتی ہے۔ ایسے طالب کا باطن بے باطل اور بر حق ہوتا ہے کیونکہ وہ حق پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریق باتوفیق پر ہے اور تحقیقاً یہی صراطِ مستقیم ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سچا طالب ہے وہ قابلِ ستائش ہے اور اس کی عاقبت محمود ہے۔ جو طالب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ نفس مردود کی قید میں ہوتا ہے کیونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مرشد کامل کی تلقین ایسی کسوٹی ہے جس کے ذریعے طالب کو پرکھا جاتا ہے کہ طالب صادق ہے یا کاذب۔ اگر مرشد کامل طالب کو تصور اسم اللہ ذات کے حاضرات و ناظرات سے اسم اللہ ذات میں غرق کر دے تو اسم اللہ ذات کے تصور سے سر سے لے کر قدم تک نورِ ذات کی تاثیر سے وہ مع اللہ حضوری میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس کا وجود اللہ کی نظر میں منظور ہو جاتا ہے اور اس کا ظاہر وباطن پاک ہو جاتا ہے۔ اب خواہ مخلوق کی نظر میں وہ ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو، اسے مخلوق کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ جس کو اس طریق کی توفیق حاصل ہو جاتی ہے اس کا باطن بے باطل ہو جاتا ہے اور وہ صحیح تحقیق والا بن جاتا ہے۔
اگر مرشد کامل کسی طالب کو تصور اسم ِاللہ ذات کے حاضرات و ناظرات سے حضرت محبوبِ سبحانی قدرت معشوق ربانی پیر دستگیر حضرت شاہ محی الدین سلطان سیدّ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بارگاہ کی حضوری اور غلامی سے مشرف کرتا ہے اور ان سے تعلیم و تلقین دلواتا ہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اسے اپنے کرم سے نوازتے ہیں اور مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری سے مشرف کر دیتے ہیں۔ ایسے طالب کا باطن اس طریق کی توفیق سے باطل سے پاک ہو جاتا ہے۔ صحیح تحقیق منجانبِ حق ہے اور برحق ہے۔ جو طالب ان تینوں مراتب کے ذریعے نورِ ذاتِ مطلق کے دیدار، توحید اور قربِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہے وہ باحضور کہلاتا ہے۔ ابیات
شد قادری را سہ مراتب سہ مقام
بی ذکر بی فکر در وحدت تمام
ترجمہ: قادری کو بغیر ذکر اور فکر کے یہ تینوں مراتب و مقام حاصل ہوتے ہیں جس سے وہ وحدت میں غرق ہو جاتا ہے۔
مرشد کامل بود این راز راہ
با توجہ برد مجلس مصطفیؐ
ترجمہ: مرشد کامل ہی اس راہ کا راز ہے۔ وہ اپنی ایک توجہ سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔
باھوؒ را ھو برد غم غیرت نماند
قلب باھوؒ روز و شب اللہ بخواند
ترجمہ: باھوؒ ھوُ کے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں کوئی غیرت و غم نہیں۔ باھوؒ کا قلب ہمہ وقت ذکرِاللہ میں مشغول رہتا ہے۔
کاملان را ختم آخر ھو تمام
کنہ اعظم اللہ نداند اہل خام
ترجمہ: اسم اعظم اللہ کی کنہ سے کاملوں کی انتہا ’ھوُ‘ ہے۔ اہلِ خام اس کنہ سے ناواقف ہیں۔
اس راہِ باطن میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے تاکہ طالب ظاہر میں دنیا سے لایحتاج اور بے نیاز ہو جائے۔ فقر نورِ ذات میں غرق ہو کر رضائے الٰہی حاصل کرنا ہے۔ فقر کے انتہائی مراتب یہ ہیں کہ ذاتِ نور کی حضوری حاصل ہو، وجود مغفور اور باطن معمور ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:
خُلِقَتِ الْعُلَمَآئِ مِنْ صَدْرِیْ وَخُلِقَتِ السَّادَاتُ مِنْ صُلْبِیْ وَخُلِقَتِ الْفُقَرَآئِ مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: علما میرے سینے، سادات میری پیٹھ سے اور فقرا اللہ تعالیٰ کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔
(جاری ہے)
مرشد کامل ہی اس راہ کا راز ہے۔ وہ اپنی ایک توجہ سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔
دل سے دونوں جہان کی طلب کو ترک کر دے، ان سے دشمنی رکھنا بہتر ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کی طلب رکھتا ہے وہ اپنا مقصود کبھی نہیں پا سکتا۔