حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاھد ِکائنات
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
حقیقتِ محمدیہ کے اعتبار سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام روحِ کائنات اور اصلِ عالم ہیں، با اعتبار اصل موجودات اور بااعتبارِ نورانیت و نورِ نبوت و روحانیت عالم کے ذرّہ ذرّہ میں موجود ہیں اور کائنات کے ایک ایک ذرّہ کے شاہد (مشاہدہ کرنے والے یعنی دیکھنے والے) ہیں اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں حقیقتِ محمدیہ جاری و ساری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آنِ واحد میں متعدو مقامات پر جلوہ افروز ہو سکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر جگہ موجود یعنی حاضر ناظر ہیں۔ حیات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے ہر امتی اور اس کے اعمال دیکھ رہے ہیں ۔
قرآنِ پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس شان کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (سورۃ البقرہ۔ 143)
ترجمہ: اور یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تم پر گواہ ہیں۔
وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُ لَآئِ شَھِیْدًا (سورۃ النسا۔41)
ترجمہ: اور اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہم آپ کواِن سب لوگوں پر شہید (گواہ) بنا کر لائیں گے۔
یٰٓاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا۔ (سورۃ الاحزاب۔ 45)
ترجمہ: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بے شک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو شاہد (گواہ) بنا کر بھیجا ہے۔
یاد رکھیں دنیا کی ہر عدالت چشم دید گواہی قبول کرتی ہے۔ کسی واقعہ یا وقوعہ کے متعلق سنی سنائی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ یہاں تو کائنات کی سب سے بڑی عدالت میں گواہی کی بات ہو رہی ہے۔
حضرت شیخ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ علیہ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب لوگوں پر گواہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نورِ نبوت سے ہر مومن و دیندار کے اس رتبہ و مرتبہ کو جانتے ہیں جس مرتبہ و رتبہ کو وہ پہنچا ہوا ہے اور اس کے ایمان کی حقیقت کو بھی جانتے ہیں ۔ اس کے اُس حجاب سے بھی واقف ہیں جس کی وجہ سے وہ رُکا ہوا ہے۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمہارے گناہوں کو، تمہارے درجاتِ ایمان کو، تمہارے نیک و بداعمال اور تمہارے اخلاص و نفاق کو (یہ سب قلبی کیفیات ہیں جو دِل کے اندر پوشیدہ ہوتی ہیں) جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اسی لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت دنیاو آخرت میں بحکم ِ شرع اُمت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ۔ (سورۃ التوبہ۔ 94)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کا رسولؐ تمہارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے بلکہ ساتھ ہی فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی تمہارے اعمال دیکھ رہے ہیں۔ کیا حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعمال دیکھ رہے تھے؟ اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف صحابہ کرام ؓکے ہی اعمال دیکھ رہے تھے تو کیا صحابہ کرامؓ تمام اعمال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یا موجودگی میں کرتے تھے؟ جو اعمال وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غیر موجودگی یا اپنے گھروں یا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے اوجھل ہو کر کرتے تھے کیا وہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں دیکھ رہے تھے؟ اس سے ثابت ہوا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ اعمال جو آپ کے سامنے نہیں ہوتے تھے، بھی دیکھ رہے تھے تو اب بھی اسی طرح وہ تمام اُمت کے اعمال دیکھ رہے ہیں اور ہر اُمتی کے اعمال کے گواہ ہیں۔ محشر میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُمت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خدا کے پیغام کو کس نے کس قدر قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْ مِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ (سورۃ الاحزاب۔ 6)
ترجمہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مومنوں کی جان سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں۔
اس آیت میں مومن کا ذکر ہوا ہے مسلمان کا نہیں۔ مسلمان اقرار باللسان کرتا ہے اور مومن تصدیق با لقلب کر تا ہے۔ اور کوئی بھی مومن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب سے محروم نہیں ہوتا جیسا کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عاَلم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
مفہوم: تمام کا ئنات مومنِ جانباز کی ملکیت ہے لیکن وہ شخص ہرگز مومن نہیں ہو سکتا جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہے۔
جہان تمام ہے میراث مردِ مومن کی
مرے کلام پہ حجت ہے نکتہیٔ لولاکؐ
مفہوم: تمام دنیامومن کی میراث ہے اور میرے اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ مومن کو قربِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل ہو تا ہے ۔
اس حقیقت کی طرف یہ حدیثِ مبارکہ بھی اشارہ کرتی ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مَا مِنْ مُّؤْمِنٍ اِلَّا وَ اَنَا اَوْلٰی النَّاسِ بِہٖ فِی الدُّ نْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ (بخاری، جلد1و جلد2، تفسیر درمنثور۔ جلد 5)
ترجمہ: کوئی مومن ایسا نہیں جس سے دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کی بہ نسبت میں زیادہ قریب نہ ہوں (یعنی تمام لوگوں کی بہ نسبت میں مومنوں کے زیادہ قریب ہوں)۔
حضرت بر یدہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
یَا بَرِیْدَۃُ اَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ (تفسیر درمنثور۔ جلد ۵)
ترجمہ: اے بر یدہؓ! کیا میں تمام مومنوں سے ان کی جانوں کی نسبت زیادہ قریب نہیں ہوں؟ میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ واقعی تمام مومنوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِیَ الْمُتَّقُوْنَ مَنْ کَانُوْا وَحَیْثُ کَانُوْا (مشکوٰۃ شریف، مسند احمد)
ترجمہ: وہ لوگ میرے بہت قریب ہیں جو متقی ہیں وہ جوبھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
ثابت ہوا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہر مومن کے قریب ہیں مگر ملائکہ کی طرح پوشیدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب اور دیدار اُس خوش بخت کوحاصل ہوتا ہے جس سے حجاباتِ بشری اُٹھ جاتے ہیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی (پارہ 22) میں بیان فرماتے ہیں:
احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روح بمع جسم زندہ ہیں۔ بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زمین کے کونوں میں، عالمِ غیب میں، فرشتوں کے عالم میں، عالمِ ارواح میں، جہاں چاہیں سیر فرماتے اور تصرف فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی ہیئت پر ہیں جس ہیئت و شکل میں قبل از پردہ پوشی تھے۔ وہ ہیئت وشکل اور صورت ویسی کی ویسی ہے اس میں سے کچھ نہیں بدلا۔ البتہ بے شک آپ لوگوں کی آنکھوں سے چھپائے گئے ہیں جیسا کہ فرشتے چھپائے گئے ہیں حالانکہ وہ بھی بمع اجساد زندہ ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعمت سے نوازنا چاہتا ہے اس سے حجابات (پردے) اُٹھا دیتا ہے اور وہ خوش نصیب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آپ کی اصلی و حقیقی ہیئت و شکل و صورت میں دیکھتا ہے۔ جسد ِ عنصری کے دیکھنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی اور یہ روئیت جسم ِ مثالی کی تخصیص کی طرف داعی نہیں۔
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے 75مرتبہ جاگتے ہوئے آنکھوں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی اور بہت سی ان احادیث کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا جن کو محد ثین نے اپنے طریق سے ضعیف قرار دے رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی تصحیح فرمائی تو امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو صحیح لکھا۔ (میزانِ کبریٰ لِلشعرانی ۔ جلد1)
روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہٗ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہٗ سے محاصرہ کے وقت ملنے گئے تو حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہٗ نے انہیں بتایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام محاصرہ میں میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا ’’اے عثمانؓ! اِن لوگوں نے آپ کو گھیرا ہوا ہے؟‘‘میں نے عرض کی جی! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر پوچھا! ’’آپ کو اِن لوگوں نے پیا سا رکھا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی جی! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈول لٹکا دیا، اس میں پانی تھا، میں نے سیراب ہو کر پانی پیا یہاں تک کہ میں نے اس پانی کی ٹھنڈک اپنے سینے اور دو کاندھوں کے درمیان محسوس کی۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اگر آپ چاہیں تو آپ کی امداد کی جائے اور اگر آپ چاہیں تو ہمارے ہاں آکر افطار کریں‘‘ تو میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں افطار کرنے کو پسند کیا۔ اور اسی روز حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہٗ شہید کر دیئے گئے۔ (حاوی للفتاویٰ۔ جلد2)
امام عبد الوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آٹھ ساتھیوں کے ساتھ صحیح بخاری حالتِ بیداری میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پڑھی۔ (فیض الباری للکشمیری۔ جلد1)
شیخ ابو العاس مرسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’مجھے چالیس سال ہوگئے ہیں کہ میں ایک دَم کے لئے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جدا نہیں ہوا۔ میں ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتا ہوں، اگر پلک جھپکنے کے برابر بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ سے اوجھل ہو جائیں اور میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ دیکھوں تو میں خود کو مسلمانوں میں شمار نہ کروں۔‘‘ (جامع کراماتِ اولیا۔ امام نبھانی)
امانتِ فقر اور تمام روحانی مراتب و درجات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے حاصل ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت اور اجازت کے بغیر نہ کوئی قطب بن سکتا ہے نہ غوث، نہ اوتاد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ولی۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب امیر الکونین میں تحریر فرماتے ہیں:
میں عرصہ تیس سال تک مرشد کامل کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن مجھے اپنے مطلب کامرشد نہ مل سکا آخر ایک مرتبہ اس فقیر کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ باطن میں ہاتھ پکڑ کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں لے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’میرا ہاتھ پکڑ لو‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے دستِ بیعت فرما کر تعلیم و تلقین فرمائی اور حکم فرمایا ’’اے باھوُ! خلقِ خدا کی باطن میں امداد کیا کرو۔‘‘ بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے حضرت پیر دستگیر محبوبِ سبحانی شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کے سپرد کرکے فرمایا ’’یہ فقیر باھوؒ ہمارا نوری حضوری فرزند ہے اس کو آپؓ بھی باطنی تلقین و ارشاد سے نواز یں‘‘ چنانچہ حضرت پیر دستگیر رضی اللہ عنہٗ نے بھی اپنے باطنی فیض سے مالا مال فرمایا۔‘‘
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت کا یہ واقعہ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ظاہر کرتا ہے۔
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب لوگوں پر گواہ ہیں اور ہر ایک کے اعمال دیکھ رہے ہیں کیونکہ گواہی ہمیشہ دیکھ کرہی دی جاتی ہے۔ بن دیکھے کہیں بھی گواہی قبول نہیں ہوتی۔ اس لیے قیامت کے دِن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صرف اپنی اُمت کے ہر فرد کے اعمال کی بلکہ پچھلی اُمتوں کے ہر فرد کی بھی گواہی دیں گے کیونکہ اصل وجود جو حقیقتاً سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا) ہے ازل سے ایک ہی ہے اور وہ ہے حقیقتِ محمدیہ۔
(نوٹ: یہ مضمون سلسلہ سروری قادری کے امام، مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’حقیقتِ محمدیہ‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔)
Masha Allah
وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ۔ (سورۃ التوبہ۔ 94)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کا رسولؐ تمہارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔
بہت خوبصورت آرٹیکل ہے ماشا اللہ
Mashallah
امانتِ فقر اور تمام روحانی مراتب و درجات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے حاصل ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت اور اجازت کے بغیر نہ کوئی قطب بن سکتا ہے نہ غوث، نہ اوتاد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ولی۔
تمام کا ئنات مومنِ جانباز کی ملکیت ہے لیکن وہ شخص ہرگز مومن نہیں ہو سکتا جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہے۔
❤❤❤
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ❤❤❤❤🌹🌹🌹🌹🌹🌹
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
”حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت تمام عالموں پر محیط ہے۔ جو عالم جس شکل و صورت میں ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عالم میں اسی شکل و صورت میں موجود ہوں گے۔“
الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ♥️♥️♥️
بہت خوبصورت آرٹیکل ہے
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب لوگوں پر گواہ ہیں اور ہر ایک کے اعمال دیکھ رہے ہیں کیونکہ گواہی ہمیشہ دیکھ کرہی دی جاتی ہے۔ بن دیکھے کہیں بھی گواہی قبول نہیں ہوتی۔
❤️❤️
MashaAllah 💖
سبحان اللہ بہت پیارا ارٹیکل ہے۔
بہت خوبصورت آرٹیکل ہے ماشا اللہ
عاَلم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
مفہوم: تمام کا ئنات مومنِ جانباز کی ملکیت ہے لیکن وہ شخص ہرگز مومن نہیں ہو سکتا جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہے۔
امانتِ فقر اور تمام روحانی مراتب و درجات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے حاصل ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت اور اجازت کے بغیر نہ کوئی قطب بن سکتا ہے نہ غوث، نہ اوتاد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ولی۔
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
Bohat acha Mazmoon likha hua hai.. MashaAllah
بہترین مضمون ہے۔
وہ لوگ میرے بہت قریب ہیں جو متقی ہیں وہ جوبھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
بہت عمدہ مضمون ہے
Itna khoobsurat aur clear explaination maine kahin nahi parha!
وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ۔ (سورۃ التوبہ۔ 94)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کا رسولؐ تمہارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں
Bht khoob
عاَلم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
زبردست آرٹیکل 👌👌👌💯💯
عاَلم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
بے حد خوبصورت مضمون ہے ❤
امانتِ فقر اور تمام روحانی مراتب و درجات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے حاصل ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت اور اجازت کے بغیر نہ کوئی قطب بن سکتا ہے نہ غوث، نہ اوتاد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ولی۔
MaShaAllah
بہت خوب
بہت اچھا مضمون ہے
بہت اعلی تحریر ہے
بہترین مضمون ہے ماشاءاللّٰہ ❣️❣️