قربِ دیدار | Qurb e Deedar


Rate this post

قربِ دیدار 

  Qurb e Deedar

فقیر عارف باللہ اولیا اللہ اسے کہتے ہیں جس نے اپنے تن پر توحیدو معرفت شریف کا لطیف لباس زیب تن کیا ہو اور جو ایک ہی گھونٹ میں توحید و معرفت کا سمندر پی لے پھر بھی نہ دم مارے اور نہ ہی شوروغل کرے‘ جس کو مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) کی دائمی حضوری حاصل ہو اور اللہ کا منظورِ نظر ہو۔ فقیر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad SAW) کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ط(النجم۔3)
ترجمہ: اور وہ(پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Muhammad SAW)) اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتے۔ 

حاضراتِ اسمِ اللہ  ذات سے معرفت، علم، کشف و کرامات، تجرید وتفرید، غوث و قطب، ابدال، اوتاد، توحید، تصور، تصرف، توجہ، تفکر، مراقبہ، مکاشفہ، محاسبہ، مجادلہ، قرب، ذاتِ نور، مشاہدہ فی اللہ حضور، فنا، بقا، دعوت اور رویت ِ الٰہی کے تمام مراتب کو ایک ہی لمحہ میں طے کر کے دائمی حیات حاصل کرنا آسان کام ہے لیکن وجود میں حوصلہ وسیع رکھنا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) میں باادب ہو کر دائمی حاضر رہنا نہایت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ اس کے لیے دَم ذاتِ الٰہی کے ذکر میں اور قدم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  (Prophet Muhammad SAW)کے قدم پر ہونا چاہیے اور مرتے دم تک اس پر ثابت قدم رہنا بھی ضروری ہے تا کہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا جا سکے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر۔99)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی اتنی عبادت کرو کہ حق الیقین کی منزل پر فائز ہو جاؤ۔

یہ مراتب عارفانِ حق الیقین کے ہیں جن کا دم قدم دین میں پختہ ہوتا ہے اور جو اللہ کے لطف و کرم سے ہر غم سے آزاد ہوتے ہیں۔ جان لے کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم میں اہل دنیا محجوب شامل ہیں۔ ان کے اور اللہ کے درمیان دنیا حجاب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ علم کا حجاب بھی ان کے اور اللہ کے درمیان حائل ہوتا ہے جو انہیں مخالف رحمان اور موافق ِنفس و دنیا و شیطان کرتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ
 اَلْعِلْمُ حِجَابُ اللّٰہِ الْاَکْبَرِ
ترجمہ: علم بندے اور اللہ کے درمیان بہت بڑا حجاب ہے۔
 اس قسم کے لوگ منافق، کافر، جھوٹے اور اہلِ نفس ِ امارہ ہوتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ ج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (یوسف۔53)
ترجمہ:اور میں خواہش سے مبرّا نہیں، بے شک نفس امارہ برائی کی آماجگاہ ہے مگر جس پر میرا ربّ رحم فرما دے وہ بچ جاتا ہے۔ بے شک میراربّ بخشنے والا ہے۔ 

دوسری قسم میں اہلِ کشف مجذوب لوگ شامل ہیں جو ابتدا میں ہی نورِ ولایت اور قلب کی روشن ضمیری سے افسوس، عبرت، حیرت اور حالت ِجذب کے باعث رجعت کھا کر نامکمل اور ناقص رہتے ہیں۔ ایسے اہل ِ حجاب کو آخر تک معرفت حاصل نہیں ہوتی۔

تیسری قسم میں محبوبین شامل ہیں جو روحانی، زندہ قلب اور مکمل فانی النفس ہوتے ہیں۔ ان کی ابتدا لاھوت ہے اور انہیں لوحِ ضمیر کا مطالعہ نصیب ہوتا ہے۔ وہ ظاہر و باطن میں ایسے ناظر ہوتے ہیں جو آفتاب کی مثل ہمیشہ بے حجاب دیدار کرتے ہیں۔ انہیں ہر مقام پر توحید کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر نبی اور ولی کی مجلس میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اہل ِ نفس نجس کو مردار میں ہی لذت حاصل ہوتی ہے۔ شوق سے مراقبہ، مکاشفہ، ذکر اور فکر کرنے سے قلب بیدار ہو جاتا ہے۔ اہل ِ روح کو نورِ ذاتِ الٰہی میں مستغرق رہنے اور دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو جانے سے ہی راحت، فرحت، تازگی، عیش و عشرت، خوراک، قلبی خوشی، جمعیت، لذت اور ذوق و شوق حاصل ہوتا ہے۔ ایسا صاحب ِ تصور اسم اللہ ذات روحانی عین العیانی باقرب ربانی جہاں کہیں (جاتا ہے اور) بیٹھتا ہے، دونوں جہان کا تماشا ہاتھ کی ہتھیلی اور ناخن کی پشت پر دیکھتا ہے۔ اُسے دائرہ پُر کرنے والے علم اور تین انگلیوں میں قلم پکڑ کر پڑھنے اور لکھنے کی کیا ضرورت؟ جو طالب تصور اسمِ اللہ ذات، تصور اسم محمد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، تصور اسم اعظم و اسما الحسنیٰ متبرکات، تصور کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، تیس حروف کے تصور سے حاصل ہونے والے درجات اور قرآنی آیات کے حاضرات اور تصور کی ہر کنہ کو جانتا اور کنہ سے ہی ان کو پڑھتا ہے وہ ہر جگہ اور مقام پر پہنچ سکتا ہے چاہے وہ مقامِ فنائے نفس، مقامِ صفائے قلب، مقامِ روح ہو یا مقامِ لقا ہو۔ یہ مراتب فقرا کے ہیں۔ پس اے احمق، بے ادب، بے حیا سن! اگر تُو آئے تو تیرے لیے دروازۂ رحمت ِ الٰہی کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے۔ عارف عبرت اور حیرت کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں کیونکہ حساب گاہ اور تماشائے میدانِ حشر ان کے مد نظر اور نگاہ میں ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہرروز اللہ کی نئی شان ہے اسی لیے کبھی امید میں اور کبھی خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔

اے عزیز! جان لے کہ ذکر، مراقبہ، خواب، موت، عیان بے مثل، توصل، بیانِ فنا و بقا، لامکان اور لقا کی شرح الگ الگ ہے۔ بعض مراتب خواب کی تعبیر سے حاصل ہو سکتے ہیں، بعض علم کی تفسیر سے، بعض روشن ضمیری سے، بعض معرفت و مشاہدۂ قرب و وصال کے احوال سے، بعض مراتب نعم البدل اور ازلی علم کے فیض سے اور بعض مطلق دیدار اور نفس کی موت یعنی  مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا(مرنے سے پہلے مرجاؤ) سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان تمام مراتب کی مکمل تحقیق ظاہر و باطن کے طریق سے ہو سکتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ   (ھود۔88)
ترجمہ:اور میری توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔

چنانچہ توفیق ِ الٰہی سے زندہ قلب طالب کو مراتب ِ وصال، مراتب ِ لازوال، مراتب ِ حال، مراتب ِ کمال احوال، مراتب جمعیت جمال  اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ وَّ یُحِبُّ الْجَمَالِ (ترجمہ: بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے) اور مراتب ِمشاہدۂ عین جمال حاصل ہوتے ہیں۔ طالب ِ دنیا مردہ دل، تارک الصلوٰۃ، اہلِ شرب، اہلِ بدعت، اہل ِ سرود، خام خیال، شیطان کا مصاحب اور نفس کا تابع دجال ہوتا ہے خواہ وہ عالم فاضل ہو یا جاہل۔ روشن ضمیری اور جمعیت اسی قلب کو نصیب ہوتی ہے جو زندہ ہو اور جس میں ذکر رواں ہو۔

شرح دعوت

دینی امور اور مہمات کے لیے ناقص اہلِ دعوت پہلے نماز استخارہ پڑھتا ہے۔ صاحبِ دعوت عامل اسے کہتے ہیں جو کارِ مہمات کے لیے صاحب ِ دعوت کامل کی توفیق اور قوت سے مراقبہ میں جاتا ہے۔ صاحبِ دعوت کامل اسے کہتے ہیں جو کارِ مہمات کے لیے صاحبِ دعوت مکمل کی باطنی تقویت، علمی واردات کے غلبہ، غیبی لاریبی فتوحات، روحانی عین العیانی الہام کی توفیق سے دعوت پڑھتا ہے۔ صاحبِ دعوت مکمل اسے کہتے ہیں جو کارِ مہمات کے لیے صاحبِ دعوت اکمل کی مہربانی اور قوت سے قربِ الٰہی، حاضراتِ اسم اللہ ذات کی تحقیق، مطالعہ لوحِ محفوظ اور تصور لوحِ ضمیر سے دعوت پڑھتا ہے۔ صاحب ِ دعوت اکمل اسے کہتے ہیں جسے ان تمام مراتب کے مکمل مجموعہ کی توفیق حاصل ہو۔ ایسا صاحب ِ دعوت ناظر دونوں جہان کا تماشا اپنے سامنے حاضر دیکھتا ہے۔ ناظر حاضر فقیر کی ایک لمحہ کی توجہ دعوت پڑھنے سے ہزارہا بہتر ہے۔ جو توجہ کے طریق کو توفیق سے جان لیتا ہے اسے دعوت پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی، فقیر کی توجہ سے ہی اس کا کام روز بروز ترقی پر رہتا ہے جو قیامت تک رنہیں رکتا۔

اوّل دعوت کامل کو دعوتِ قفل کہتے ہیں۔ اس دعوتِ قفل میں تصور کے ساتھ قرآن حکیم پڑھا جاتا ہے۔ جتنے بھی اہل ِ دعوت روئے زمین پر ہوتے ہیں‘ دعوتِ قفل پڑھنے سے ان کی دعوت کے قفل اس طرح بند ہو جاتے ہیں کہ دعوت کا ایک حرف بھی رواں نہیں ہوتا۔ اس رجعت سے یا تو ان کے سارے جسم میں طرح طرح کی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں یا اس ملک میں بارش کی قلت ہو جاتی ہے یا غلے کا قحط پڑ جاتا ہے یا لوگ اچانک اموات کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ 

دوم دعوت مکمل کلید دعوت: اس میں قرب اللہ حضوری اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) کی منظوری سے قرآن پڑھا جاتا ہے جس سے دروازۂ ازل کا قفل، دروازۂ ابد کا قفل، دروازۂ دنیا کا قفل، دروازۂ عقبیٰ کا قفل اور دروازۂ معرفت کا قفل کھل جاتا ہے اور عین بعین اس کی آنکھوں پر نمایاں ہوجاتا ہے۔

سوم دعوت توحید اکمل: اس میں اولیا اللہ کی قبور پر دعوت پڑھی جاتی ہے اور ہر ولی کی روح سے جواب باصواب حاصل کیاجاتا ہے۔

چہارم دعوت جامع النور: اس دعوت کے پڑھنے والے کو دونوں جہان پر تصرف حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے مغز و پوست میں نورِ ذاتِ الٰہی اس طرح سرایت کرتا ہے کہ وہ غرق فی اللہ ہو جاتا ہے۔ وہ ہر قسم کی لذاتِ حیوانیہ کو ترک کر دیتا ہے اور اگر ایسا کچھ کھا لے تو وجدانی ذکر ِ الٰہی کی آگ، قربِ اللہ کے نورِ قربانی اور نورِ سلطانی کی تجلیات سے جل کر خاک سیاہ اور بود سے نابود ہو جاتا ہے۔ تصفیہ باطن کی وجہ سے دنیا اور آخرت کی کوئی چیز اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ ایسا عارف باللہ نورِ معرفت کا سمندر بھی پی لے تو نہ کسی سے کہتا ہے اور نہ ہی شور و غل کرتا ہے۔ ہمیشہ شریعت کا لباس اوڑھے رکھتا ہے اور اس کی پیروی میں کوشاں رہتا ہے۔

دعوت کی چار قسمیں مندرجہ ذیل ہیں:
دعوتِ قفل کامل، دعوتِ کلید مکمل، دعوتِ توحید اکمل کمال با قرب اللہ وصال لازوال، دعوت جامع النور غرق فنافی اللہ۔ دعوت کی ان چاروں اقسام پر تصرف رکھنے والا روشن ضمیر عالم باللہ فقیر فی اللہ دونوں جہان پر حاکم ہوتا ہے۔

شرح دعوت کل الکمال عین الجمال

پارسا اہل دعوت کے پاس سنگ پارس ہوتا ہے جو اسے لایحتاج بنا دیتا ہے۔ اس مرتبہ کے پارسا کے نفس کو رجعت لاحق ہوتی ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْفُقَرَآئِ الْغَنِیُّ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ غنی فقرا کو دوست رکھتا ہے۔
مصرعہ

از دست نارسا است کہ مکارہ پارسا است

ترجمہ: بدی تک رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مکار نے پارسائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔

علم ِدعوت تکثیر کی بنیاد کیمیا اکسیر پر ہے۔ بغیر علم کیمیا اکسیر کے یہ دعوت رواں نہیں ہوتی۔ علم دعوت میں رجعت، راندگی، جنونیت، حوادث، آفات، رنج و بلا، دیوانگی، بے قراری اور بے جمعیتی کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے لیکن کامل اہل ِ دعوت کو ان سے بچنے کے لیے حصار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ رجعت، بلا ، رنج اور حوادث کے خوف سے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ انہیں لازوال احوال حاصل ہوتے ہیں لیکن اگر ناقص دعوت پڑھے گا تو خراب ہوگا اور خام خیالی میں مبتلا ہوگا۔ مرشد کامل استاد کی اجازت سے دعوت کو عمل میں لانا اور کل و جز کو قید و قبض میں کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن کامل مرشد کے بغیر اگر ناقص تمام عمر بھی ریاضت کرتا رہے تب بھی اس کے لیے دعوت کے حقیقی عمل کو سیکھنا بہت مشکل اور دشوار ہے۔ جو دعوت میں کامل ہے وہ گدا نہیں بلکہ وہ حکم ِ خداوندی اور سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے مشرق و مغرب تک ہر ملک و ولایت کا حاکم ہے۔ اہل اللہ ولی اللہ صاحب ِ دعوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب کی مثل ہوتا ہے۔ اس کی تیغ ِ برہنہ دعوت اس کے ہاتھ میں ذوالفقار کی طرح ہوتی ہے جس سے وہ کافروں کو قتل کرتا ہے۔ اسے دین پر پختہ یقین حاصل ہوتا ہے۔

 جب فقیر کاملیتِ کل کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ طالبِ مولیٰ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی تعلیم سے باطن میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک اور قیامت تک آنے والے تمام انبیا، اولیا، مومن، مسلمان، غوث، قطب، فقیر اور درویشوں کی ارواح سے مصافحہ اور ان سے مجلس و ملاقات کا شرف عطا کرتا ہے، اور ہر ایک کے نام اور صورت سے آشنا کرواتا ہے۔ کامل مرشد طالب کو علم ِ دعوت کے شروع میں ہی ولی اللہ کے مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے اور اسے ورد و وظائف کی قوت سے مختلف قریوں، ملکوں، ولایتوں، گھروں، صوبوں، پرگنوںمیں مختلف نام اور شان سے رہنے والے اہل ِ دعوت، اہل ِذکر و فکر، اہل ِمجاہدہ، اہلِ مشاہدہ، اہلِ نفس و ہوا، اہلِ زندہ قلب، اہلِ  روح بقا، اہلِ درویش اور فقرا سے واقف کروا دیتا ہے۔ ایسے اہلِ دعوت کامل اکمل کی کمالیت کی بنا پر اس کی اجازت سے دعوت پڑھ کر ہر مشکل مہم میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

صاحبِ دعوت، صاحبِ عمل، عامل کامل اکمل مکمل اور کلید کل ہوتا ہے۔ صاحب ِ دعوت کی انتہا آخر کیا ہے؟ اس کی انتہا مقامِ خاتم النبیین ہے۔ وہ مکمل دعوت کونسی ہے جس میں اللہ کے ساتھ کلام کیا جا سکتا ہے اور مع اللہ حفظ ِ قرآن کے دور مدور کیے جاتے ہیں؟ وہ دعوت کونسی ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب سرورِ کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا مرسلین و اصفیا کے ساتھ قرآن خوانی کے دور مدور کیے جاتے ہیں؟ وہ دعوت کونسی ہے جس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ، شہیدین، امامین اشرفین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور تمام اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمراہی میں مجلسِ محمدی (Majlis e Mohammadi | Mohammadan Assembly) میں حفظِ قرآن کے دور مدور کیے جاتے ہیں؟ وہ دعوت کونسی ہے جس میں فقیر، درویش، ولی، عارف باللہ واصل الی اللہ، غوث، قطب، ابدال کے منصب اور مراتب والی تمام مومن، مسلمان ارواح کے ساتھ دور مدور قرآن مجید پڑھا جاتا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ کی معیت میں باترتیب قرآن مجید کے دور مدور کیے جاتے ہیں تو ایک ہی لحظہ میں ہزاران ہزار الہام وارد ہوتے ہیں اور دعوت خوان کے اردگرد ایک ہاتھ کے فاصلے پر تمام انبیا و اولیا اور اہل اسلام کی روحیں صف بصف اور ان کے گرد فرشتوں کی صفیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایسا کامل ہر ایک روحانی کے حکم و اجازت سے قربِ رحمانی حاصل کر کے رات کے وقت اولیا اللہ کی قبور پر جا کر باحضور تیغ برہنہ دعوت پڑھ سکتا ہے اور ان سے جواب باصواب حاصل کر کے ماضی، حال اور مستقبل کے حقائق معلوم کر سکتا ہے۔

ایسا عامل اہلِ دعوت، دعوت پڑھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اس کا وجود مغفور ہوتا ہے‘ اسے نہ حصار کی ضرورت اور نہ رجعت کی فکر ہوتی ہے۔ عارف باللہ کی دعوت لازوال ہوتی ہے کیونکہ وہ فقیر فقر الوصال ہوتا ہے۔ بعد ازاں وہ کامل صاحب ِ دعوت جس بھی مقام پر جاتا ہے یا جگہ پر بیٹھتا ہے، دونوں جہاں کا نظارہ ہاتھ کی ہتھیلی یا ناخن کی پشت پر کرسکتاہے۔ ایسے صاحب ِ دعوت کو اسم اللہ کے تصور اور حضوری سے قبور پر دعوت پڑھنے پر عبور حاصل ہوتا ہے۔
حدیث:
اِذَا تَحَیُّرْتُمْ فِی الْاُمُوْرِ فَاسْتَعِیْنُوْا مِنْ اَہْلِ الْقُبُوْرِ
ترجمہ:جب تم کسی معاملہ میں حیران ہو جاؤ تو اہل ِ قبور سے مدد حاصل کرلو۔

دعوت اور تصور کے دوران کل و جز کے تمام غیبی خزانے ناظر اہل ِ دعوت کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ ایسی دعوت اور تصور اسم اللہ ذات اللہ کے حضور منظور ہے کہ یہ باجمعیت اشتغال اللہ ہے۔ جس وقت ولی اللہ باتوجہ تفکر اور مراقبہ کرتا ہے تو وہ مقامِ محبت و معرفت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اسے مشاہدۂ نورِ ذاتِ الٰہی نصیب ہوتا ہے جس پر عرشِ اکبر جنبش میں آ کر کہتا ہے کہ کاش میں زمین کا فرش ہوتا تو مجھ پر بیٹھ کر لوگ کلامِ الٰہی پڑھتے اور اشتغال اللہ میں مصروف رہتے۔ فرشتے روتے ہوئے یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہائے افسوس! کاش ہم انسان ہوتے تو ہمیں بھی وہ مراتب حاصل ہوتے جو انہیں حاصل ہیں۔ یہ علم ازلی فیض، فضل، بخشش اور عطائے الٰہی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ  (العلق۔5)
ترجمہ:انسان کو وہ علم دیا جو اسے معلوم نہ تھا۔
بیت

گفت باھوؒ گوش کن بہر از خدا
طلب کن حق معرفت وحدت لقا

ترجمہ: باھوؒ نے فرمایا: خدا کے لیے غور سے سن! حق تعالیٰ سے اس کی معرفت، وحدت اور دیدار طلب کر۔

(جاری ہے)

 

قربِ دیدار | Qurb e Deedar” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں