وسیلۂ مرشد ۔قربِ حق کی ضمانت
Waseela-e-Murshid | Qurb-e-Haq ki Zamanat
تحریر: احسن علی سروری قادری
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اپنی پہچان اور اظہار کے لیے تمام کائنات اور انسانی ارواح کو تخلیق کیا تو ان ارواح سے اپنی ربوبیت کا اقرار بھی لے لیا اور اس اقرار کی پختگی اور سچائی کو جانچنے کے لیے انسان کی آزمائش کا ارادہ بھی فرمایا جس کے بعد انسانی ارواح کو درجہ بدرجہ نزول کے مراتب طے کراتے ہوئے عالمِ ناسوت میں بھیجا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمِ ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ (سورۃ التین4-5)
ترجمہ: تحقیق ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا فرمایا اور اس کو (آزمائش کے لیے) اسفل سافلین کی طرف پھیر دیا۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ گ ژ نَبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا (سورۃ الدھر۔2)
ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کو آزمائیں اور اس (آزمائش) کے لیے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
عالمِ ارواح سے عالمِ ناسوت تک نزول کے ان مراتب کو طے کرتے ہوئے انسان اللہ کی ربوبیت کا عہد فراموش کر چکا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بالکل بھی فراموش نہیں کیا بلکہ انسان کی تخلیق کے فوراً بعد سے انبیا (Anbiya)کرام علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرما دیا تاکہ وہ اس دنیا کی محبت اور رنگینیوں سے انسان کے دل کو آلودہ نہ ہونے دیں اوراس کی توجہ ہمیشہ حق کی طرف مبذول رکھیں۔ انبیا (Anbiya)کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد انسان کو اس کے وطنِ اصلی کی یاد دلانا تھا جہاں وہ قربِ حق (Qurb-e-Haq) میں اللہ تعالیٰ کے دیدار میں محو اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی تھیں۔ انبیا کرام علیہم السلام (Anbiya karam Alayam Assalam) نے نہ صرف لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کیا بلکہ انہیں نفسانی و روحانی امراض سے بھی پاک کیا جس کے علاوہ انہیں حق تعالیٰ سے قلبی و روحانی تعلق قائم کرنا سکھایا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے اصول و قوانین بھی وضع کیے۔ جنہوں نے ان انبیا (Anbiya)کرام علیہم السلام کو تسلیم کیا اور ان کی ہمنشینی اختیار کر کے ان کی اطاعت کی وہ قربِ حق (Qurb-e-Haq) کے حقدار قرار پائے اور ان کا شمار انعام یافتہ لوگوں میں ہوا۔ یعنی وسیلۂ انبیا کرام (Waseela-e-Anbia) انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور قرب کی ضمانت تھا۔اس سلسلۂ نبوت کے آخری نبی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ (سورۃ الجمعہ۔2)
ترجمہ: (اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam)) ان پر اپنی آیات تلاوت کرتے ہیں، ان (کے نفوس) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) اس آیت کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں:
پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad SAW W) صحابہ کرامؓ کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیتے پھر نگاہِ کامل سے ان کا تزکیہ فرماتے تاکہ ان کے قلوب پاک ہو کر قرآن کے نور کو جذب کرنے کے اہل ہو سکیں۔ پھر جب نفس کا تزکیہ ہو جاتا تو تصفیۂ قلب خودبخود ہو جاتا اور جلوۂ حق آئینہ دل میں نظر آنے لگتا اور دل جلوۂ حق کے لیے بیقرار رہنے لگتا۔ یہ بے قراری دراصل عشقِ الٰہی کا آغاز ہے اور یہ عشق و محبت کا شعلہ اچھی صحبت سے ہی بھڑکتا ہے۔ (تزکیہ نفس کا نبویؐ طریق)
یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے بطور مرشد اپنی صحبتِ کاملہ سے صحابہ کرامؓ کے نفوس کا تزکیہ کر کے انہیں کفر و شرک اور نفسانی بیماریوں سے پاک کیا اور ان کے قلوب کو نورِ حق سے منور فرمایا اور انہیں عشق و معرفتِ الٰہی کے جذبے سے روشناس کرایا۔ چونکہ صحابہ کرامؓ اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) ہی وہ ہستی اور واحد وسیلہ ہیں جن کے ذریعے انسان اللہ کی ذات کا قرب حاصل کر سکتا ہے، اسی لیے انہوں نے اللہ، اس کے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad SAW W) اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا تن من دھن بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ لیکن ہمیں اپنی ظاہری و باطنی اصلاح اور اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کسی مرشد کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ہمیں لگتا ہے کہ کثرتِ عبادت و ریاضت ہی اصل دین ہے اور اسی سے ہم اللہ کا قرب پا سکتے ہیں۔ کثرتِ عبادت و ریاضت قلبی سکون کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن روح کی بالیدگی اور معرفت و قربِ حق (Qurb-e-Haq) کی ضمانت نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم نے اپنی اولاد کو یہ نظریہ دینا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں اپنے نفوس کے تزکیہ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے کسی راہنما و مرشد کے وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے لیے صرف اللہ اور اس کا رسول اور قرآن و حدیث کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ لیکن جب زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر فن کو سیکھنے کے لیے استاد و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ کے قرب کے لیے، باطنی اصلاح کے لیے اور نفسانی بیماریوں سے نجات کے لیے ہمیں کیوں کسی مرشد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟ اگر ظاہری بیماری کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے تو باطنی بیماریوں سے نجات کے لیے اور روح کی صحت و تندرستی کے لیے کیا کسی روحانی طبیب (مرشد) کی ضرورت نہیں؟ اگر کسی مرشد و راہنما کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ انبیا کرام کا سلسلہ کیوں جاری فرماتا؟ ایک ہی مرتبہ میں اپنی کتاب قرآنِ پاک نازل کر دیتا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرامؑ (Anbiya karam Alayam Assalam) کو مبعوث کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
میرے مرشد ( My Beloved Murshid) سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں:
جس طرح طبِ جدید میں یہ بات ثابت ہے کہ انسان خود اپنا علاج نہیں کر سکتا خواہ وہ میڈیکل کی کتنی ہی کتب کیوں نہ پڑھ لے بلکہ اسے علاج کے لیے اسی مرض کے سپیشلسٹ کے پاس جانا پڑے گا تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کسی مرد ولیٔ کامل کے بغیر کتاب و سنت کا محض مطالعہ کر لینے سے ہی تزکیۂ نفس ہو جائے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی علم محض کتب پڑھ کر حاصل نہیں ہوتا اس کے لیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صرف کتاب کا مطالعہ ہی کافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ انبیا کرام علیہم السلام (Anbiya karam Alayam Assalam)کا طویل سلسلہ نہ بھیجتا۔ (شمس الفقرا)
ہم کیوں ایسا سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی وسیلہ(Waseela) و راہنما کے اللہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ (Murshid) تلاش کرو۔ (سورۃ المائدہ۔35)
وسیلہ (Waseela) کے متعلق سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ (Sayyidina Ghaus-ul-Azam Hazrat Shaikh Abdul Qadir Jilani) فرماتے ہیں:
اے اللہ کے بندو! تم حکمت کے گھر میں ہو لہٰذا وسیلہ (Waseela) کی ضرورت ہے۔ تم اپنے معبود سے ایسا طبیب (مرشد) طلب کرو جو تمہارے دلوں کی بیماریوں کا علاج کرے، تم ایسا معالج طلب کرو جو تمہیں دوا دے، ایسا رہنما تلاش کرو جو تمہاری رہنمائی کرے اور تمہارے ہاتھ کو پکڑ لے۔ تم اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مؤدب بندوں اور اس کے قرب کے دربانوں اور اس کے دروازہ کے نگہبان کی نزدیکی حاصل کرو۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
توُ ایسے شخص (مرشد(Murshid)) کو تلاش کر جو کہ تیرے دین کے چہرہ کے لیے آئینہ ہو۔ توُ اس میں ویسے ہی دیکھے گا جیسا کہ آئینہ میں دیکھتا ہے اور اپنا ظاہری چہرہ، عمامہ اور بالوں کو درست کر لیتا ہے ان کو سنوارتا ہے۔ توُ عقل مند بن، یہ ہوس کیسی ہے اور کیا ہے۔ توُ کہتا ہے مجھے کسی شخص کی ضرورت نہیں جو مجھے تعلیم دے حالانکہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کا فرمان ہے ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ جب مسلمان کا ایمان درست ہو جاتا ہے تو وہ تمام مخلوق کے لیے آئینہ بن جاتا ہے کہ وہ اپنے دین کے چہروں کو اس کی گفتگو کے آئینہ میں اس کی ملاقات اور قرب کے وقت دیکھتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 61)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo) فرماتے ہیں:
وصالِ حق تعالیٰ مرشد کامل اکمل (Murshid Kamil Akmal) کی راہنمائی کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے قرب و وصال کی راہ چونکہ شریعت کے دروازہ سے ہو کر گزرتی ہے اس لیے شریعت کے دروازے کے دونوں طرف شیطان اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت طالبِ مولیٰ کی گھات لگا کر بیٹھا ہے۔ اوّل تو وہ کسی آدم زاد کو شریعت کے دروازے تک آنے ہی نہیں دیتا۔ اگر کوئی باہمت آدمی شریعت (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کے دروازہ تک پہنچ جاتا ہے تو شیطانی گروہ اسے شریعت کی چوکھٹ پر روک رکھنے اور اسے شریعت کی ظاہری زیب و زینت کے نظاروں میں محو رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور شریعت کی روح تک کسی کو نہیں پہنچنے دیتا (اور آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جو لوگ شریعت پر کاربند ہیں وہ اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے)۔ اگر کوئی خوش قسمت طالبِ مولیٰ ہمت کر کے آگے بڑھتا ہے تو شیطان پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اسے روکنے یا گمراہ کرنے کے جتن کرتا ہے اور اس کی راہ مارنے کا ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ طالبِ مولیٰ جب شریعت کے دروازہ سے گزر کر باطن کی نگری میں داخل ہوتا ہے تو اسے رجوعاتِ خلق کے نہایت ہی وسیع و دشوار گزار جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر طالبِ مولیٰ کو اگر کسی مرشد کامل اکمل (Murshid Kamil Akmal) کی رفاقت اور راہبری حاصل نہ ہو تو وہ رجوعاتِ خلق کے جنگل میں بھٹک کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ جس طرح شریعت کا علم استاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اسی طرح باطنی علم کا حصول مرشد کامل اکمل کی رفاقت کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ مرشد کی تلقین اور نگاہ ہی ایسا کیمیا ہے جو طالب کے وجود کی کثافت دور کر کے اسے روشن ضمیری کے قابل بناتی ہے۔ تعلیم کیا ہے؟ اور تلقین کیا ہے؟ تعلیم سے ظاہری علم واضح ہوتا ہے جبکہ تلقین سے دو جہان کی روشن ضمیری حاصل ہوتی ہے۔ ( عین الفقر)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) وسیلہ کے متعلق فرماتے ہیں:
شرعی اصطلاح میں وسیلہ (Waseela) یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ (Waseela) بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسند یدہ ہو جس نے راہِ سلوک طے کیا ہو اور اس راستہ کے نشیب وفراز سے واقف ہو، تصوف میں اس سے مراد مرشد (Murshid Kamil Akmal)، ہادی، شیخ یا پیر ہے جو خود شناسائے راہ ہو اور راہِ فقر کی منزلیں طے کرتا ہوا حریمِ قدس تک پہنچ چکا ہو اور اب اس قابل ہو کہ اُمت کے ناقص و خام عوام کی راہنمائی کر سکے اور اپنی روحانی قیادت میں انہیں شیطانی وساوس و خطرات، نفس کی تباہ کاریوں اور رکاوٹوں سے بچا کر آگے لے جاسکے۔ اِس صورت میں آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہوگا ’’اے لوگو! کسی ہادی کامل (مرشدِ کامل اکمل) (Murshid Kamil Akmal) کی تلاش کرو تاکہ ربّ تک پہنچ سکو۔‘‘ بعض لوگ لفظ وسیلہ (Waseela) سے مراد ایمان لیتے ہیں لیکن یَاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا خطاب ہی ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو ایمان لا چکے ہیں۔ اس لیے یہاں ایمان تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے یہ رائے کہ وسیلہ (Waseela) سے مراد ایمان ہے، درست نہیں ہے۔ کچھ لوگ وسیلہ (Waseela) سے مراد عملِ صالح لیتے ہیں لیکن اس رائے کے خلاف یہ دلیل ہی کافی ہے کہ آیتِ کر یمہ میں وسیلہ (Waseela) ڈھونڈنے یا تلاش کرنے کاحکم ملا ہے۔اعمال چونکہ غیر مرئی (جو نظر نہ آتے ہوں) ہوتے ہیں اس لیے انہیں تو ڈھونڈا نہیں جاسکتا اس لیے وسیلہ (Waseela) سے مرشد ِ کا مل مراد لیناہی مناسب ہے کیونکہ مرئی اور محسوس ہونے کی وجہ سے اِسے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اس رائے کو تر جیح دینے کی ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ تمام اعمالِ صالحہ اس قابل نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب وحضور اور مشاہدۂ حق تعالیٰ کا وسیلہ بن سکیں بلکہ وہی اعمال یہ مقام ومرتبہ حاصل کرتے ہیں جو غرور و تکبر، حسد و کدورت، خودپسندی وریاکاری اور نمود و نمائش کی آلائشوں سے پاک ہوں۔ اور اِن آلائشوں اور غلاظتوں سے وہی اعمال پاک رہ سکتے ہیں جو مرشدکامل کی زیرِتربیت اور اس کی نگرانی (ظاہری وباطنی) میں انجام دئیے گئے ہوں۔ اس لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ وسیلہ (Waseela) سے مراد ہادیِ صادق (مرشد کامل اکمل(Murshid Kamil Akmal)) ہوا اور اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ مرشد ِکامل (Murshid Kamil )کی تلاش میں سستی نہ کرو تاکہ و ہ تمہیں اپنی نگاہِ کیمیا اثر، فیض، صحبت، قرب اور روحانی اثرات وفیوضات سے منزلِ مقصود تک پہنچا دے اورطالب کی اس طرح تربیت کرے کہ اس کے اعمال پاکیزہ ہوجائیں۔ (شمس الفقرا)
حاصل تحریر
حاصل تحریر یہ کہ کتب کے مطالعہ سے انسان کو علم تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن انسان راہِ سلوک کی منازل طے نہیں کر سکتا اور نہ ہی اللہ کی معرفت حاصل کر سکتا ہے یا کتب کے مطالعہ سے انسان کو تزکیہ کے متعلق علم تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن حالتِ تزکیہ کے لیے بہرحال مرشد کامل (Murshid Kamil ) کی صحبت ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وہ نائبین جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقیقی ورثہ فقر کے وارث ہیں وہ ہر زمانہ میں اس زمانے کے کامل اکمل کی صورت میں موجود ہوتے ہیں جن کا مقصد ہی طالبانِ حق کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرانا، معرفتِ حق سے ان کے قلوب کو منور کرنا اور قربِ حق (Qurb-e-Haq) میں پہنچانا ہے اور ان کا وسیلہ ہی قربِ حق (Qurb-e-Haq) کی ضمانت ہے۔ موجودہ دور میں وہ ہستی سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) ہیں۔ آپ اپنی نگاہِ کامل سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرما کر انہیں قرب و معرفتِ الٰہی سے نواز رہے ہیں۔ معرفتِ الٰہی کے طلبگاروں کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کے دستِ حق پر بیعت ہو کر ذکر و تصور اسم اللہ ذات حاصل کریں اور اپنی باطنی تربیت مکمل کریں۔
استفادہ کتب:
۱۔الفتح الربانی؛ تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ (Sayyidina Ghaus-ul-Azam Hazrat Shaikh Abdul Qadir Jilani)
۲۔ عین الفقر؛ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo)
۳۔ شمس الفقرا؛ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
۴۔ تزکیہ نفس کا نبوی طریق؛ تصنیف ایضاً
۵۔ مرشد کامل اکمل(Murshid Kamil Akmal)؛ تصنیف ایضاً