کیاہم متقی پید ا ہوتے ہیں یا متقی بنتے ہیں؟
Kia Hum Muttaqi Paida Hote Hain yan Muttaqi Banty hain
تحریر:صاحبزادی منیزہ نجیب سروری قادری
حضرت بشر بن حارث رحمتہ اللہ علیہ میکدے میں اکثر نشے میں چُور اور بد مست رہتے تھے لیکن ان کی ایک ادا رحیم و کریم پروردگار عزوجل کو کچھ ایسی پسند آئی کہ ان کو بشر حافیؒ بنا گئی۔
عُیُوْنُ الْحِکَایَات میں اس واقعہ کو کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت بشر حافیؒ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں کہیں جارہا تھا کہ اچانک میری نظر زمین پر پڑے ہوئے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔ اس کاغذ پر میرے رحیم و کریم پروردگار عزوجل کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میں تڑپ اٹھا کہ میرے پروردگار عزوجل کے نام کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ میں نے بصد عقیدت و احترام فوراً وہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا اور سیدھا نہر کی طرف چل دیا۔ وہاں جا کر اس کاغذ کو اچھی طرح دھویا۔ اس وقت میرے پاس پانچ دانق تھے۔ میں نے چار دانق کی خوشبو خریدی اور بقیہ ایک دانق سے عرقِ گلاب خریدا اور بڑی محبت و عقیدت سے اس کاغذ پر خوشبو ملنے لگا جس پر میرے پروردگار عزوجل کا اسم مبارک لکھا تھا۔ پھر اس کاغذ کو عرقِ گلاب میں ڈالا اور ایک متبرک مقام پر رکھ کر گھر چلا آیا۔ جب رات کو سویا تو کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا ’’اے بشر! جس طرح تو نے ہمارے نام کو معطر و مطہر کیا اسی طرح ہم تیرا ذکر بلند کریں گے۔ جس طرح تو نے اس کاغذ کو دھویا جس پر ہمارا نام تھا اس طرح ہم بھی تیرے دل کو خوب پاک کر دیں گے اور تیرا خوب چرچا ہو گا۔‘‘ (عیون الحکایات)
البدایہ و النہایہ (جلد دہم) میں درج ہے:
ابراہیم العربی نے بیان کیا ہے کہ بغداد نے بشر حافیؒ سے بڑھ کر کامل عقلمند اور آپ سے بڑھ کر زبان کی حفاظت کرنے والا پیدا نہیں کیا۔ آپؒ نے کسی مسلمان کی غیبت نہیں کی۔ آپ کے ہر بال میں عقل تھی، اگر آپ کی عقل اہلِ بغداد میں تقسیم کی جاتی تو وہ سب عقلمند بن جاتے اور آپ کی عقل میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ (البدایہ والنہایہ ۔جلد دہم)
ان کا نام ’حافی‘ یعنی ’ننگے پاؤں والا‘ اس ادا پر مشہور ہوا کہ جب ان کو ہدایت ملی تب وہ ننگے پاؤں تھے اس لیے بقایا زندگی انہوں نے ننگے پاؤں رہ کر گزاری۔
حافی نام سے مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے فرش فرمایا اس لیے وہ حقیقی بادشاہ کے شاہی فرش پر جوتے پہن کر چلنا ادب کے منافی سمجھتے تھے۔ (تذکرۃ الاولیا)
میرے مرشد کریم (My Beloved Murshid Kareem) سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں لکھتے ہیں:
حضرت امام احمد بن حنبلؒ پہلے تصوف اور صوفیا کرامؒ کی مخالفت میں مشہور تھے لیکن بعد میں جب حضرت بشر حافیؒ کی صحبت میں رہ کر حلاوتِ ایمان نصیب ہوئی تو جب کوئی شخص ان سے شریعت کے احکام دریافت کرنے آتا تو خود بتا دیتے تھے لیکن جب کوئی شخص راہِ حقیقت دریافت کرنے آتا تو حضرت شیخ بشر حافیؒ کے پاس بھیج دیتے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کے شاگردوں کو غیرت آئی اور عرض کیا ’’آپ اتنے بڑے عالم ہو کر لوگوں کو ایک صوفی کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں۔‘‘ آپؒ نے فرمایا ’’مجھے اللہ کے احکام کا علم ہے اور ان کو اللہ کا علم ہے، اس لیے طالبانِ مولیٰ کو ان کے پاس بھیجتا ہوں۔‘‘ (شمس الفقرا)
علامہ حافظ ابوالفدا عماد الدین ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
جب بشر حافیؒ نے وفات پائی تو سب اہلِ بغداد آپ کے جنازے میں اکٹھے ہوئے، نمازِ فجر کے بعد آپ کا جنازہ نکالا گیا اور عشا کے بعد آپ کو قبر میں رکھا گیا۔ علی المدائنی اور دیگر آئمہ حدیث آپ کے جنازے میں بلند آوازیں دیتے جاتے تھے ’خدا کی قسم آخرت کے شرف سے قبل یہ دنیا کا شرف ہے۔‘ روایت کی گئی ہے کہ آپ جس گھر میں رہتے تھے اس میں جنات آپ پر نوحہ کرتے تھے اور ایک شخص نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا ’’اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا سلوک کیا ہے؟‘‘ آپؒ نے فرمایا ’’اس نے مجھے اور قیامت کے دن تک جو شخص مجھ سے محبت کرے گا اسے بخش دیا ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ۔ جلد دہم)
بشر حافیؒ کے اس واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی ذات مغفرت فرمانے والی، بلند مقام و مرتبہ عطا کرنے والی، جھولیاں بھر دینے والی، سکون عطا کرنے والی اور دلوں کو منور کرنے والی ہے۔ رحیم و کریم پروردگار عزوجل کی ذات جسے چاہے، جب چاہے چن لے۔ وہ قواعد و ضوابط کی پابند نہیں۔ اس کا کیا معیار ہے وہی بہتر جانے۔
ہم کسی انسان کا دل نہیں بدل سکتے، صرف اس پروردگار کا پیغامِ حق عام کر سکتے ہیں۔ ہدایت دینا اس ذات کا فیصلہ ہے ہمارا کام عشقِ الٰہی (Ishq-e-ilahi) اور عشقِ رسولؐ (Ishq-e-Rasool saww) کی آگ کو دل میں جلا کر صراطِ مستقیم کو تلاش کرنا اور اس پر چلنا ہے لیکن اس ڈر کے ساتھ کہ کوئی خطا اس کو ناراض نہ کر دے۔ اہلِ عشق، اہلِ بہشت اور اہلِ مغفرت کا اپنا اپنا معاملہ۔ ہماری ایسی مجال کہاں کہ کسی انسان کو جزا و سزا کا مستحق قرار دیں! یہ تو شرک کے مترادف ہے۔
آخر انسان خود سے ہی کیوں جزا و سزا کا تعین کر لیتا ہے؟ محض غرور و تکبر، خود پسندی اور حسد کی وجہ سے۔ جب ہم اپنی آخری منزل خود متعین کر لیتے ہیں کہ بہشت ہمارا ہی حق ہے تب انسان غرور و تکبر کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو چہرے کے بل جہنم میں گرائے گا۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبلؒ 7015)
لہٰذا ہر لمحہ اپنی فکر میں مبتلا رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی خطا پر ناراض نہ ہو جائے اور نیک نیت سے صالح اعمال کرتے رہنا چاہیے۔
برُے بندے نوں میں لبھن ٹریا، بُرا لبھا نہ کوئی
جد میں اندر جھاتی پائی تے میں توں بُرا نہ کوئی
(حضرت میاں محمد بخشؒ)
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس دونوں سے غلطی ہوئی، حضرت آدم علیہ السلام نے معافی مانگی اور جھک گئے جبکہ ابلیس نے تکبر کیا اور لعنتی و ملعون ہوا۔
غلطی سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ جان بوجھ کر کی جائے بلکہ وہ غلطی جو جانے انجانے میں ہو جائے خواہ وہ ظاہری ہو، ہماری سوچ میں ہو یا دل کی گہرائی میں چھپی ہوئی ہو۔ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کا عشق ہی ایک ایسی طاقت ہے جو گناہوں سے بچاتا اور تزکیۂ نفس کی منازل طے کراتا ہے۔ یوں عشق انسان کو کامل بنا دیتا ہے۔
لیکن المیہ تو یہ ہے کہ جہاں خاتم النببین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کے عشق کی بات آتی ہے وہاں ان کا ذکر یوں کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ عام انسان تھے (نعوذ باللہ) اور صرف قرآن پاک کی نعمت ہم تک پہنچانے آئے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان کے دل غافل ہو چکے ہیں اور یہ ظالم لوگ آپ کے خلاف آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے۔ (سورۃ الانبیا۔3)
اس کے برعکس جب ایسے لوگ محفلوں میں اپنا تذکرہ کرتے ہیں تب بڑائی اور تکبر کے سوا ان میں کچھ نہیں چھلکتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے بیان فرمایا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند، جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا۔ (ابوداؤد 4090)
ابلیس فرشتوں میں بہت بڑا عالم اور عبادت گزار تھا لیکن لعنتی ہوا اس لیے کہ ابلیس میں تین عین تھے، چوتھا نہیں تھا۔ عابد تھا، عالم تھا، زاہد تھا مگر عاشق نہیں تھا اگر عاشق ہوتا تو ضد نہ کرتا سربسجود ہو جاتا۔ (سلطان العاشقین)
آج کل علم پر تکبر کرنا عام ہے اور اسی تکبر کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ کے قرب، دیدار، وصال اور معرفت سے محروم ہے۔
پڑھ پڑھ علم کرن تکبر، شیطان جیہے اوتھے مسدے ھوُ
مفہوم: بہت سے لوگ شیطان کی طرح اپنے علم پر تکبر کی وجہ سے وصالِ حق تعالیٰ سے محروم ہیں۔ (ابیاتِ باھو کامل)
محاسبہ اورتزکیۂ نفس
دوسروں کو برُا کہنے یا کمتر جاننے کی بجائے اپنا محاسبہ نفس کرنا ضروری ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ نفس کیا ہے؟
نفس اللہ اور بندے کے درمیان حجاب ہے اور اس حجاب کو کبھی اولیا اللہ پہاڑوں سے تشبیہ دے کر انسان کو جھنجھوڑتے ہیں تو کبھی پیاز کے چھلکے کی طرح کہہ کر دلاسہ دیتے ہیں کہ منزل قریب ہے۔
لیکن نفس ہے کیا؟ ہر وہ چیز جو انسان کے اعمال اور خاص طور پر سوچ کو اللہ تبارک تعالیٰ سے دور کر دے وہ نفس ہے۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں ’’سوچ ہی انسان کا اصل ہے سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)
نماز مومن کی معراج ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نماز میں حضورِ قلب کی بجائے دنیا کی ہر سوچ انسان کے دماغ کو جکڑ لیتی ہے۔ یہ بھی محاسبہ کا طریقہ ہے کہ انسان اپنے باطن پر غور کرے کہ کیا اس کی نماز خشوع و خصوع کے ساتھ ادا ہو رہی ہے یا نہیں۔
دوسروں کی عبادات پر انگلی اٹھانے سے پہلے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ کیا ہمیں نماز میں حضورِ قلب، روزے میں تقویٰ، حج میں دیدار اور خاص طور پر کلمہ طیب کے اقرار میں تصدیق بالقلب نصیب ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں تب اس حقیقت کو فوراً تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمیں تزکیۂ نفس کی ضرورت ہے ورنہ غفلت کا لبادہ نہیں اترے گا۔
غفلت مقصدِ حیات کی دشمن ہے۔ (نفس کے ناسور)
غفلت عشق کی تڑپ پیدا ہونے نہیں دیتی۔ (نفس کے ناسور)
غفلت شیطان کا ہتھیار ہے۔ (نفس کے ناسور)
راہِ فقر میں طالبانِ مولیٰ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کی عظیم ذات کا فیض عدل اور محاسبۂ نفس کی قوت کی صورت میں حاصل ہونا چاہیے۔ عدل اور محاسبۂ نفس کی قوت قر ب و معرفتِ الٰہی کے درجات طے کرنے کے لیے بنیاد بھی ہے اور اس راہِ فقر میں آگے بڑھنے کا باعث بھی۔ جب تک کسی بھی انسان میں عموماً اور طالبِ مولیٰ میں خصوصاً محاسبۂ نفس کی قوت پیدا نہیں ہو گی وہ اللہ کے قرب کی طرف ایک قدم نہیں بڑھا سکے گا۔ کیونکہ اللہ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا حجاب یہ نفس ہی ہے۔ (خلفائے راشدین)
جب ایک متکبر اپنے سے بلند مرتبہ انسان یعنی اولیا اللہ کو دیکھتا ہے تب بجائے اس کے کہ گناہوں سے توبہ کرے اور عاجزی سے جھک جائے، ایسا متکبر شخص حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حاسد اپنی آگ میں خود جلتا اور سلگتا ہے۔ اس کا حسد کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ بے نیاز ہے جسے چاہے اپنی ظاہری یا باطنی نعمتوں سے نوازے۔ اولیا اللہ کو عزت ملنا، باطنی نعمتوں کا عطا ہونا اللہ عزوجل کا فیصلہ ہے۔ اللہ کی تقسیم پر اعتراض کیسا! ابلیس نے سب سے پہلے حسد کیا لیکن کیا انسان کو اپنی نسبت آگ یعنی ابلیس سے جوڑنی چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ انسان کی اصل نور ہے اور نورِ محمدی کی طرف لوٹنا ہی انسان کا مقصد ِ حیات ہے۔
چونکہ انسان مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے اس لیے حسد سے پنا ہ مانگنی چاہیے اور عشقِ مصطفیؐ (Ishq-e-Mustafa saww) دل میں لے کر تزکیہ کا سفر شروع کرنا چاہیے۔ انسان کوشش کرے تو کیا کچھ ممکن نہیں۔ جس طرح غرور و تکبر اور حسد جیسے امراض عام ہیں اسی طرح ہر دوسرا شخص عجب میں بھی مبتلا ہے۔ اللہ کی ذات نے ہر انسان کو کسی نہ کسی کمال و خوبی سے نوازا ہے۔ اگر کسی میں زہد و تقوی ہے تو دوسرے کے پاس علم کی مہارت ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اپنا کمال سمجھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اور پھر خود پسندی میں ایسا گم ہو جانا کہ دوسروں کی کوئی خوبی ہی نظر نہ آئے۔ جب تقویٰ ہی فضیلت کی بنیاد ہے تو پھر معمولی باتوں کو دل میں سمو کر دوسروں کو حقیر نہیں جاننا چاہیے۔ عاجزی سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک کر اپنی کمزوری کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ ذات سب جانتی ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے۔
تزکیہ اگر صرف زبان کو ہلا کر ممکن ہوتا تو آج امتِ مسلمہ زوال کا شکار نہ ہوتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اکثر لوگ صرف دوسروں کی برائی کرتے ہیں اگرچہ خود میں کوئی اچھائی ہو یا نہیں۔
تزکیہ صرف مردِ مومن، انسانِ کامل یا پیر کامل کی صحبت و کیمیا اکسیر نگاہ سے ہی ممکن ہے۔ پھر دیر کس بات کی۔ آئیں!
سلطان العاشقین سے بیعت یا بغیر بیعت کے اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کاذکر، تصور اور مشق مرقومِ وجودیہ حاصل کرکے اللہ کی پہچان اور معرفت کے سفر کا آغاز کریں۔
لمحۂ فکریہ
دورِ حاضر میں چاہے یوٹیوب (YouTube) ہو یا ٹی وی(TV) ہر کوئی ان فورمز پر باآوازِ بلند حق کا علمبردار بنا بیٹھا ہے جبکہ دلائل ان کے بہت کمزور ہیں۔ صرف ظاہر پرستی میں اُمتِ مسلمہ کو الجھا دیا گیا ہے اور عظیم بزرگی والے مرشد کامل اکمل کی ضرورت کو جھٹلاتے ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ زوال اور فرقہ پرستی جنگِ عظیم دوم کے بعد امت کے پیروں میں زنجیروں کی طرح باندھی گئیں۔ آخر اس سے پہلے مسلمانوں کے پاس کون سی طاقت تھی جس کو گہری چوٹ لگائی گئی؟ بلاشبہ وہ عشقِ مصطفیؐ (Ishq-e-Mustafa saww) رکھنے والے بزرگوں کی صحبت ہی ہے۔ جب امت اولیا کرام سے دور ہوئی تب ان کے پاس دکھاوے کی عبادات کے سوا کچھ نہ رہا۔ مسلمان تو حقیقت میں وہ ہے جو مومن بننے کی طلب دل میں چھپائے انسانِ کامل کی تلاش کرتا ہے تاکہ محاسبۂ نفس کا ہنر سیکھ سکے اور تزکیۂ نفس کی منازل طے کر سکے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
ابھی بھی وقت ہے کیونکہ جوان ہو یا بوڑھا، سبھی کا گناہوں سے توبہ کرنا بھلا ہے لیکن جوانی کی توبہ بڑھاپے میں توبہ کرنے سے بہتر اور افضل عمل ہے۔ (حکایاتِ سعدی)
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار
ترجمہ: جوانی میں توبہ کرنا شیوۂ پیغمبری ہے بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے۔
استفادہ کتب
۱۔شمس الفقرا؛ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
۲۔خلفائے راشدین؛ تصنیف ایضاً
۳۔نفس کے ناسور؛ تصنیف ایضاً
۴۔ابیاتِ باھوؒ کامل؛ تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
۵۔سلطان العاشقین؛ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۶۔عیون الحکایات؛ مؤلف عبدالرحمن بن علی الجوزیؒ
۷۔تذکرۃ الاولیا؛ تصنیف حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ
۸۔البدایہ والنہایہ (جلد دہم)؛ تصنیف ابو الفدا عماد الدین ابنِ کثیرؒ
۹۔حکایاتِ سعدی
بہترین ارٹیکل ہے ۔
دل میں اتر جانے والا آرٹیکل ہے
Bohat alla mazmoon hy